Encyclopedia of Muhammad

اہل عرب کی خصوصیات

اہلِ عرب میں کئی خامیوں اور خرابیوں کے باوجود کچھ ایسی خوبیاں بھی موجود تھیں جن کے باعث ان کو دنیا کی امامت اور سیادت کرنے کے لئے اسلام کی عظیم و شان نعمت عظمیٰ تفویض کی گئی اور آنے والے حالات نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ قدرت کا یہ انتخاب بالکل درست تھا ۔ ان صحرا نشینوں نے اپنے فرائض منصبی کو اس عمدگی سے انجام دیا کہ سارا عالم انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے عرب کو فہم و فراست ، قوت حافظہ ، فصاحت و بلاغت ، غیرت و حمیت ، سخاوت و دریا دلی، سخت کو شی ، جفا کشی ، فنون جنگ میں مہارت اور دیگر کمالات و خصوصیات سے اس طور پر بہرہ ور کیا تھا کہ ان کی ہم عصر ا قوام میں سے کوئی قوم کسی میدان میں بھی ان کی ہمسری کا دعوٰ ی نہیں کر سکتی تھی۔1 عربی اخلاق کے کچھ اوصاف مثلا وصف سخاوت نمایاں تر ہے اور ان کے اشعار کا زیادہ تر حصہ اس کی مدح وثناسے پر ہے ۔ ایک فقیر مصیبت زدہ اور فاقہ کش عرب جس کے پاس صرف ایک ہی اوٹنی ہوتی تھی جس سے اس کی اور اس کے اہل وعیال کی روزی چلتی تھی ، جب اس کے یہاں کوئی مہمان آجا تا تھا تو وہ بھی بلا پس و پیش اپنے اسی واحد ذریعہ معاش اور وسیلہ حیات کو ذبح کرکے اس کی ضیافت کردیتا تھا امرا اور روسا ادنی ادنی طلب پر اونٹوں کے گلے کے گلے بخش دیتے تھے 2اور اس بخشش کو اپنے دستار فخر کا طرہ سمجھتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں حاتم جیسے نامور سخی پیدا ہوئے۔3 ان اوصاف میں عرب ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے سے زیادہ اشعار اسی کی نذر ہوگئے ۔

قول و فعل میں یکسانیت

قول و فعل میں یکسانیت ان کا شیوہ تھا ۔ وہ واقعات جو عربوں کی اس عادت پر دلالت کرتے ہیں، ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ حارث بن عباد نے بنو بکر کے قبائل کی قیادت کی تا کہ وہ بنو تغلب اور ان کے سردارمہلہل سے لڑائی کریں جس نے حارث کے بیٹے کو جنگ بسوس میں قتل کر دیا تھا اور اس سے کہا تھا کہ کلب کے جوتوں کے تسموں کے برابر ہو جا۔ حارث نے مہلہل کو گرفتار کر لیا مگر وہ اسے پہچانتا نہ تھا چنانچہ اسی سے کہنے لگا: مجھےمہلہل بن ربیعہ کے بارے میں بتا دوتو میں تمھیں چھوڑ دوں گا۔ اس نے کہا اگر میں تمہیں اس کے بارے میں بتادوں تو کیا تم مجھ سے عہد کرتے ہو کہ مجھے چھوڑ دو گے ؟ حارث نے کہا،ہاں! تب مہلہل بولا: وہ میں ہی ہوں ۔ حارث نے اپنے بال نوچے اور کف افسوس ملتے ہوئے اسے چھوڑ دیا ۔4

قول و فعل میں یکسانیت کا ایک منفرد واقعہ یہ بھی ہوا کہ جب نعمان بن منذر نے اپنی بیٹی کی شادی کسریٰ کے ساتھ کرنے سے انکار کیا تو اسے اپنی جان کا خوف محسوس ہوا، وہ اپنا اسلحہ اور قیمتی سامان مسعود شیبانی کے حوالے کر کے کسی کے پاس چلا گیا۔ کسریٰ نے پیغام بھیجا کہ اس کی ساری امانتیں میرے حوالے کر دوتو اس نے انکار کر دیا۔ کسریٰ نےشیبانی سے جنگ کرنے کے لیےلشکر بھیجا تو اس نے اپنی قوم بنو بکر کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:اے آل بکر مجبوری کی حالت میں مر جانے والا اس بھگوڑے سے اچھا ہوتا ہے جو اپنی جان بچالے۔ احتیاط تقدیر سے نہیں بچاسکتی اور تکلیف پر صبر کا میابی کے اسباب میں سے ہے۔ موت ذلت سے بہتر ہے، موت کو سینے سے لگانا اس سے بہتر ہے کہ وہ پیچھے سے آلے۔ پشتوں پر نیزوں کے زخم لگوانے کی نسبت سینوں پر زخم لگوانے میں زیادہ عزت ہے۔ اے آل بکر جنگ میں کود پڑو کہ موت سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس ایک شخص کی وجہ سے جس نے ذلت و رسوائی کی زندگی کو حقیر سمجھتے ہوئے اور ایفائے عہد کرتے ہوئے موت کی پروا ہ نہ کی، بنو بکر کو حوصلہ ملا اور انہوں نے ذی وقار میں ایرانی لشکر کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ 5

صبر و قناعت اور قوت برداشت

اہلِ عرب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ زیادہ کھانے والے شخص کو اچھا نہیں جانتے تھےاور جب کھانےبیٹھتے تو یہ کہتے ہوئے دستر خوان سے جلداٹھ کھڑے ہوتے تھے کہ بسیار خوری ہوشیاری کو ختم کر دیتی ہے ۔ ایک عرب شاعر کہتا ہے:

  اذا مدت الایدى الى الزاد لم اكن
باعجلهم اذ اجشع القوم اعجل.6
  جب ہاتھ کھانے کی جانب بڑھتے ہیں تو میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرتا کیونکہ جو لوگوں میں سے زیادہ حریص ہو وہی جلد باز ہوتا ہے۔

اسی طرح اس حوالہ سےعربوں کا یہ قول مشہور ہے:

  تجوع الحرة ولا تأكل بثدییھا. 7
  آزاد عورت بھوک برداشت کر لیتی ہے لیکن اپنے سینے(یعنی زنا) کی کمائی نہیں کھاتی۔

مشکلات سہنے اور تکالیف برداشت کرنے میں انہیں عجیب قدرت حاصل تھی۔ شاید انہوں نے اپنے خشک اور بے آب و گیاه صحراؤں سے یہ چیز حاصل کی تھی ۔ وہ دشوار گزار پہاڑوں اور چلچلاتی دھوپ میں سفر کرنے کے عادی تھے۔ وہ گرمی سے متاثر ہوتے نہ سردی سے، دشوار گزار راستوں سے نہ طویل سفروں سے، بھوک سے نہ پیاس سے اور اسی لیے جب وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو انہوں نے صبر و تحمل کی بہترین مثالیں قائم کیں کیونکہ وہ معمولی چیز پر راضی ہو جاتے تھے۔ کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند کھجوروں اور حلق تر رکھنے کے لیے پانی کے چند گھونٹوں کے ہوتے ہوئے ایک اعرابی کئی کئی دن تک سفر جاری رکھتا۔8

پڑوس کا احترام

زمانہ جاہلیت کے عرب کی یہ عادت تھی کہ وہ مخالفین اور ہمسروں کو مقابلے کی دعوت دیتے پھر جب ان پر دسترس حاصل کر لیتے تو انہیں معاف کر دیتے اور چھوڑ دیتے۔وہ زخمیوں کو مارنے سے اجتناب کرتے، ہمسائیگی کے حقوق کا خیال رکھتے ، خاص طور پر چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرتے تھے چنانچہ ایک عرب شاعر کہتا ہے:

  واغض طرفي ان بدت لي جارتي
حتى يوارى جارتی ماواها.9
  اگر میری پڑوسن سامنے آجائے تو وہ جب تک چار دیواری میں چلی نہیں جاتی، میں اپنی آنکھیں نیچی رکھتا ہوں۔

اس سے اہلِ عرب کے ہاں پڑوسیوں کی تعظیم واحترام کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔

خودداری وعزت نفس

خودداری اورعزت نفس بھی عرب میں کوٹ کوٹ کربھری تھی۔ سلطنت حیرہ کا بادشاہ عمرو بن ہند اپنے ہم نشینوں میں بیٹھا ان سے پوچھ رہا تھا کہ تم عربوں میں کیا ایسے شخص کو جانتے ہو جس کی ماں میری ماں کی خدمت کر نانا پسند کرے ؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں ! ایک غریب شاعر عمرو بن کلثوم ہے، اس کی والدہ ایسی ہے۔ بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو ملاقات کی دعوت دی اور اس کی والدہ کو بھی اپنی والدہ سے ملنے کی دعوت دی۔ بادشاہ نے اپنی والدہ سے یہ بات پہلے ہی طے کر لی تھی کہ کھانا کھانے کے بعد وہ عمرو بن کلثوم کی والدہ سے کہے گی کہ تمہاری طرف جو پلیٹ پڑی ہے مجھے پکڑاؤ چنانچہ جب اس نے عمرو بن کلثوم کی والدہ سے یہ بات کہی تو اس نے جواب دیا کہ ضرورت مند خود اٹھ کر اپنی ضرورت پوری کرے۔ بادشاہ کی والدہ نے دوبارہ یہ بات کہی تو عمرو بن کلثوم کی والدہ چلائی: اے بنو تغلب امداد کے لیے آؤ، ہائے میں ذلیل ہو گئی!اس کے بیٹے نے یہ سنا تو غصے میں تیزی سے دوڑا اور سائبان میں بادشاہ کی رکھی ہوئی تلوار دیکھی ۔ اس نے وہی تلوار لے کر بادشاہ عمرو بن ہند کا سر تن سے جدا کر دیا اور بنو تغلب کو آواز دی ۔ سب نے جو کچھ سائبان میں تھا لوٹ لیا، پھر عمرو بن کلثوم نے باد شاہ کی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

  بأي مشيئة عمرو بن هند
تطیع بنا الوشاة و تزدرينا
بأي مشيئة عمرو بن هند
نكون لقیلکم فیھا قطينا
تھدنا و أوعدنا رویدا
متی كنا لأمك مقتوينا
اما الملك سام الناس خسفا
أبينا أن نقر الخسف فينا 10
  (عمرو بن ہند کی قوم !) ہم کیوں کر تمہارے بادشاہ کے غلام بنیں ۔ (اے عمرو بن ہند کی قوم!) تم کس مقصد کے لیےہمارے مخالفین کی بات مانتے ہو اور ہمیں حقیر سمجھتے ہو۔ تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو اور خوفزدہ کرتے ہو۔ باز آجاؤ۔ ہم کب تمہاری ماں کے غلام (خادم) تھے؟ جب بادشاہ لوگوں کو ذلیل کرنے لگ جائے تو ہم اس ذلت میں رہنا قبول نہیں کریں گے۔

شمالی عرب میں عام طور پر عدنانی قبائل آباد تھے جو بدویانہ قوت و شجاعت اور کثرت تعداد کے اعتبار سے خاصی اہمیت کے حامل تھے مگر آپس کے تنازعات اور نااتفاقیوں کی وجہ سے ان پرحکمرانی یمن کے قحطانی قبائل کرتے تھے۔ان کا آخری نائب زہیر بن جناب کلبی تھا جو بہت سختی کرتا تھا۔ مجبوراً ان قبائل نے اسے مار ڈالنے کی سازش رچائی جو کہ کامیاب نہ ہوسکی۔ اب زہیر کی سختیوں میں مزید اضافہ ہوگیا اور اس نے غیظ و غضب کے عالم میں انہیں بے دردانہ قتل کرنا اور ان کی بستیوں کو لوٹنا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں ان قبائل نے بھی اپنی عزتِ نفس اور خودداری کو قائم و دائم رکھنے کے لیےزہیر کے خلاف جنگوں کا سلسلہ شروع کردیا اور بالآخر کلیس بن ربیعہ بن فائل کی سرکردگی میں تمام قبائل معد (مضر، ربیعہ، ایاد اور انمار) نے متحد ہوکر اہل یمن کو معرکۂ خزاز میں عبرتناک شکست سے دوچارکرکے اپنی تذلیل اور بے توقیری کا بدلہ لے لیا۔ 11

عزائم کی پختگی

اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد و افتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی اور وہ اس کام کو انجام دے ڈالنے کے لیے اپنی زندگی بھی داؤ پر لگا ڈالتے تھے۔ عرب بدوی لوگ اپنے سردار کے ساتھ مل کر فیصلہ کرتے اور پھر اس پر ڈٹ جاتے چاہے انہیں اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑیں۔ ایک عربی شاعر الخصين بن الحمام کہتا ہے:

  تأخرت أستبقى الحياة فلم أجد
لنفسی حیاة مثل أن أتقد ما .12
  میں پیچھے ہٹا کہ ز ند ہ ر ہوں لیکن میں نے اپنے نفس کے لیے زندگی اس کے بغیر اور کسی امر میں نہ پائی کہ میں آگے بڑھ کر دشمن پر حملہ کروں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل جاہلیت کے عرب اپنے عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ ان کو مکمل کرنے کی کامل اہلیت رکھتے تھے۔

نسبی غیرت

عرب نہایت غیرت مند تھے اور اپنے حسب و نسب،جوانمردی یا اپنی کسی خصلت وغیرہ پر کسی قسم کا طعن یا طنز برداشت نہیں کرتے تھے۔ 13 اکثم بن صیفی عہد جاہلیت کے حکماء و دانشوروں میں ایک ممتاز مقام پر فائز تھا، جس کی دانائی اور عقلمندی سے متاثر ہو کر کسریٰ نوشیرواں نے کہا تھا کہ اگر اہلِ عرب میں اس کے بغیر کوئی اور مردِ دانا نہ ہوتا تو یہ ایک بھی ان کے لیے کافی تھا ۔اسی اکثم نے اہلِ عرب کونصیحت کرتے ہوئے کہا:

  لايفلتنكم جمال النساء عن صراحة النسب فإن المناخ الكريمة مدرجة الشرف14
  عورتوں کا ظاہری حسن و جمال کہیں نسب کی پاکیزگی سے غافل نہ کر دے کیونکہ اچھے کردار کی حامل بیویاں خاندانی شرف کو بڑھا دیتی ہیں۔

اسی طرح ابو الاسود الدولی نے اپنے بیٹوں کو کہا:

  یابنی، أحسنت إليكم صغارا وكبارا وقبل أن تولدوا قالوا: يا أبانا، قد علمنا إحسانك صغارا وكبارا، أفرأيت قبل أن نولد، قال: قد طلبت لكم موضعا في النساء لكي لا تعيروا.15
  اے میرے بیٹو! میں نے تم پر احسان کیا جب تم چھوٹے تھے،جب تم بڑے ہوئےاور تمہارے پیدا ہونے سے بھی پہلے ۔ انہوں نے کہا کہ اے ہمارے والد!ہم بچپن اور جوانی میں تو آپ کے احسانوں کو جانتے ہیں البتہ ہماری پیدائش سے پہلے کا احسان کیا ہے؟ تو اس نے کہا: میں نے تمہارے لیے ایسی پاک دامن مائیں چنی تھیں جن کی وجہ سے تمہیں کوئی گالی نہیں دے سکتا ۔

اسی طرح الریاشی ایک عرب شاعر اپنے بچے کو کہتا ہے:

  فأول احسانی اليكم تخيري
لماجدة العراق باعفافها 16
  پس میرا پہلا احسان تم پر یہ ہے کہ میں نے تمہارے لیے ایسی ماں پسند کی جو عراق میں شرف و بزرگی کی مالک تھی اور اس کی پاک دامنی ظاہرتھی۔

اس نسبی غیر ت مندی نےبعض اہلِ عرب کے مزاج میں ایک عیب بھی پیدا کر دیاتھاجس کی وجہ سےبعض لوگوں کی غیرت مندی اپنی بچیوں کے حوالے سےحد اعتدال سے بڑھ کر دختر کشی کی مذموم صورت اختیار کر گئی تھی ، اس لیے کہ وہ کسی کو اپنا داماد بنانا پسند نہیں کرتے تھے۔ 17

ایفائے عہد

عہد جاہلیت کی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جب اہلِ عرب نے اپنے مال و جان کی قربانی دے کر بھی اپنے قول کی لاج رکھی۔ عرب لوگ نہایت صاف گو تھے ۔ جو بات دل میں ہوتی وہی ان کی زبان پر ہوتی تھی۔ جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے تھے اور جھوٹ بولنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ دوستوں کے کھلے دوست اور دشمنوں کے کھلے دشمن ہوتے تھے۔ یہ چیز ان کے لیے باعث صد عزت و شرف خیال کی جاتی تھی۔ عربوں کے اخلاق فاضلہ میں صداقت کا بہت بڑا مقام ہے۔ انہیں اسلام سے پہلے بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ مبنی بر صداقت ہی بات کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس میں آکر مزید نکھار پیدا کردیا تھا۔

عرب چونکہ جھوٹ سے نفرت کرتے اور اسے عیب خیال کرتے تھے اسی وجہ سے وہ صدق کو پسند کرتے تھےاور وفادار تھے ۔ اسی وفاداری کی بنا پر وہ اپنے کیے ہوئے وعدوں کو مکمل کرنا ضروری سمجھتے تھے چاہے جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے۔ ان میں ایک اہم ترین واقعہ وہ ہے جس میں بنو طئی کےحنظلہ نامی ایک بدوی نے اپنے قتل کیے جانےسے پہلے بادشاہ منذربن ماء السماءسے خاندانی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے مہلت طلب کی اور بادشاہ نے اس کو جراد نامی کسی عہدیدار کی ضمانت پر ایک سال کی مہلت دےدی۔وہ چلا گیا اورمدت کے آخری دن کی آخری ساعت میں قتل ہونے کے لیے پہنچ بھی گیا،بادشاہ کے حیرت کی وجہ سے پوچھے گئے سوال پر اس نے جواب دیا کہ جراد کے میرے بارے میں حسن گمان کو میں غلط ثابت کرنا نہیں چاہتاتھا اور نہ ہی اپنی شرافت وکرامت پر حرف آنے دینا چاہتاتھا۔18اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہلِ عرب میں عہد کا پاس اور صداقت ودیانت کی خصوصیت اعلی سطح کی تھی اور معاشرہ کا ہر فرد خواہ وہ بدوی ہی کیوں نہ ہو عہد کی پاسداری میں اعلی ترین خوبی کا مالک تھابلکہ اس مقصد کی خاطر ان کو اپنی جان بھی گنوانی پڑجاتی تو وہ ا س میں پس و پیش نہ کرتے۔

قبیلہ جذام کے قا فلہ کا حذافہ نامی ایک شخص کہیں گم ہو گیا جسے ایک دوسرے قافلے والوں نے پکڑ کر یرغمال بنالیا اور اپنے ساتھ لے چلے۔راستے میں عبد المطلب مل گئے جو طائف سے آرہے تھے، ان کے ساتھ ان کا بیٹا ابولہب تھاجو باپ کو ہاتھ پکڑے لا رہا تھا کیونکہ ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔ حذافہ نے عبد المطلب کو دیکھا تو اس نے چلا کر ان سے فریاد کی۔ عبد المطلب نے ابو لہب سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ ابو لہب نے بتایا کہ حذافہ کو ایک قافلے والوں نے باندھ رکھا ہے۔ عبد المطلب نے بیٹے سے کہا: قافلے والوں سے جا کر تفصیل معلوم کرو۔ ابو لہب نے قافلے والوں سے جا کر واقعہ معلوم کیا اور عبد المطلب کے پاس آیا۔ انہوں نے پوچھا کیا خبر لائے ؟ ابو لہب نے کہا کہ کچھ پتا نہیں چلا۔ عبد المطلب نے بیٹے کو ڈانٹ کر کہا کہ ان کے پاس جاؤ اور جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ قا فلے والوں کو دے کر اس آدمی کو رہائی دلاؤ۔ ابو لہب دوبارہ قافلے والوں کے پاس پہنچا اور ان سے کہا: تم میری تجارت اور مال و دولت سے واقف ہو، میں تم سے حلفیہ کہتا ہوں کہ میں تمہیں اوقیہ سونا ، دس اونٹ اور گھوڑے دوں گا۔ اس حلف کے لیے میں بطور ضمانت اپنی چادر تمہارے پاس رہن رکھتا ہوں۔ قافلے نے یہ ضمانت قبول کر لی اور حذافہ کو چھوڑ دیا۔ ابو لہب اس کو لے کر باپ کے پاس آیا۔ عبد المطلب نے ابو لہب کی آواز سنی تو (یہ سمجھ کر کہ وہ خالی ہاتھ واپس آیا ہے ) کہا خدا کی قسم تو نے گناہ کیا، دوبارہ جا۔ابو لہب نے ان کو بتایا کہ یہ آدمی میں لے آیا ہوں، عبد المطلب نے تصدیق کے لیے حذافہ سے کہا کہ مجھے اپنی آواز سناؤ۔ حذافہ نے کہا:میں آ گیا آپ پر میرا باپ قربان ہو،اے حجاج کے ساتھی مجھے اپنے ساتھ بٹھالو ۔عبد المطلب نے اس کو اپنے پیچھے بٹھالیا۔ 19 جب یہ مکے میں داخل ہوئے تو حذافہ نے قصیدہ کہا جس کا پہلا شعر یہ ہے:

  بنو شيبة الحمد الذي كان وجهه
يضي ظلام الليل كالقمر البدر 20
  شیبۃ الحمدکی اولاد وہ لوگ ہیں کہ ان کے چہرے رات کی تاریکیوں میں چودھویں کے چاند کی طرح دمکتے ہیں۔

یہ ایک بہت عمدہ قصید ہ تھا جس میں حذافہ نے بالعموم اہلِ عرب اور بالخصوص قریش کے اوصاف و محاسن بیان کیے تھے۔

اہلِ عرب کے نزدیک پاسداریِ عہد انتہائی عمدہ وصف شمار کیا جاتا تھا اور اس وجہ سے قبیلہ مضر کی تعریف زبان زد عام تھی کیونکہ انہوں نےاپنےسردار حاجب کی کمان کی عزت کے خاطر اس کے وعدہ کا پاس کیا تھا۔قبیلہ مضر کےقحط سالی کے ایام میں، قوم کے باہمی مشورہ کے مطابق حاجب نےکسری کے ملک ایران میں رہنے کے لیے بطور ضمانت اپنی کمان اس شرط پر رہن رکھوائی تھی کہ اس کی قوم کسریٰ کے ملک میں بغیر فساد کیےامن و سلامتی کے ساتھ رہے گی۔ اس ضمانت کی وجہ سے انہوں نے وہاں بغیر جنگ وجدال کے خوش وخرم زندگی گزاری تھی۔ خوشحالی کی وجہ سے جب یہ قبیلہ واپس عرب آیا توحاجب کی وفات کے بعد اس کا بیٹا عطارد کسریٰ سے اپنے باپ کی رہن شدہ کمان لینے پہنچا تواس نےپہلے پہل تو کمان واپس کرنے سے یہ کہتے ہوئےانکار کردیا کہ کمان تم نے تو نہیں رکھوائی تھی؟ اس پر حاجب کے بیٹے نے کہا کہ میرے باپ نے رکھوائی تھی جس نے اپنا امن و سلا متی کےساتھ رہنے والاوعدہ پورا کیا تھا۔ کسریٰ نے یہ سن کر کمان واپس کرتےہوئے اسے خلعت فاخر ہ پہنائی جسے بعد میں اس نے ایک یہودی کو چار ہزار درہم میں فروخت کر دیا۔ 21یہ پاس عہد کی بہترین مثال تھی جس وجہ سےیہ واقعہ22 قبیلہ مضر کے لیے فخرومباہات کا باعث بن گیا تھا۔23

اسی طرح نعمان بن منذرنے عربوں کی وفاداری کے بارے میں ایران کے بادشاہ کسری سے کہا تھا:ایک عرب اگر آنکھ کے اشارے ہی سے کچھ کہہ دے تو وہ ایسا عہد وپیمان بن جاتا ہے جسے موت ہی ختم کر سکتی ہے ۔ ان میں سے کوئی ایک زمین سے لکڑی اٹھاتا تو وہی اس کے قرض کے لیے ر ہن بن جاتی ۔ اس کی رہن شدہ چیز کو غصب کرنے کی نوبت آسکتی تھی نہ اس کی امان کو توڑا جا سکتا تھا۔ اگر عرب کے کسی باشندے نے کسی کو پناہ دی ہوتی اور وہ اس سے دور ہوتااور اسی اثناء میں پناہ لینے والے پر کوئی زیادتی ہو جاتی تو پناه دینے والے کو اس وقت تک چین نہیں آتا تھا جب تک وہ تکلیف کا باعث بننے والے قبیلے کو ختم نہ کر دیتا یا اس کا اپنا قبيلہ انتقام لینے کےلیےفنا نہ ہو جاتا کہ اس کے امان کی پاسداری کیوں نہ کی گئی۔ اگر کوئی مجرم جان پہچان رشتہ داری کے بغیر ان سے حفاظت طلب کرتا تو یہ اس کی جان بچانے کے لیے اپنی جان اور اس کا مال بچانے کے لیے اپنے اموال کو بھی قربان کر ڈالتے تھے۔ 24

اہم واقعہ

امراؤالقیس جب قیصر کی ملاقات کے لیے اپنے وطن سے روانہ ہوا تو اس نے اپنی زرہیں سمو ال کے پاس بطور امانت رکھیں ۔ امراؤالقیس مر گیا تو شام کے کسی بادشاہ نے سموال پر چڑھائی کر دی۔ سمو ال قلعہ نشین ہو گیا اور اپنے قلعہ کے دروازےمضبوطی سے بند کر دیے۔ سوء اتفاق سے اس کا ایک لڑکا قلعہ سے باہر رہ گیا۔ اس حملہ آور بادشاہ نے اس لڑکے کو گرفتار کر لیا اور بلند آواز سے سمو ال کو ندا دی۔ سمو ال نے قلعہ کے اوپر سے جھانکا تو بادشاہ نے اس سے کہا یہ دیکھو تمہارا بیٹا میرے قبضے میں ہے اور تمہیں اس بات کا بھی پتا ہے کہ امراؤالقیس میرے چچا کا بیٹا تھا اور میرے قبیلے کا فرد تھا اور میں اس کی میراث کا دوسروں سے زیادہ حق دار ہوں، اگر تو اس کی زر ہیں میرے حوالے کر دے تو ٹھیک ورنہ میں تیرے اس بیٹے کو ذ بح کر دوں گا۔ سمو ال نے اس سے مہلت طلب کی اور اپنے اہل خانہ اور خواتین کو اکٹھا کیا۔ صورت حال سے انہیں آگاہ کیا اور ان سے رائے پوچھی، ان حالات میں اسے کیا کرنا چاہیے ؟ سب نے یہی مشورہ دیا کہ تم زر ہیں ان کے حوالے کر دو اور اپنے بیٹے کی جان بچاؤ۔ جب اس نے مشورہ رد کردیا تو قلعے کی فصل سے جھانک کر کہا: اے بادشاہ! میں کسی قیمت پر وہ زرہیں تمہیں نہیں دے سکتا اب جو تیرا جی چاہے کرلے۔اس نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بیٹے کے گلے پر چھری چلا دی اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیالیکن پھر بھی بادشاہ زرہیں حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اسے نامراد آنا پڑا۔ سمو ال وہ زرہیں لے کر امر او القیس کے اہل خانہ کے پاس گیا اور وہ امانت اس کے ورثاء کے سپرد کردی۔ اس نے اپنے شعر میں اس واقعے کی طرف یوں اشارا کیا ہے:

  وفيت بادرع الكلندى إني
إذا ما خان أقوام وفيت 25
  میں نے امر ؤ القیس کندی کی زرہیں اس کے وارثوں کو پہنچا دیں جن حالات میں دوسری قومیں خیانت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، میں ان حالات میں بھی اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔

خودداری و عزت نفس کو قائم رکھنا اور کسی بھی حال میں ظلم و جبر برداشت نہ کرنا اہلِ عرب کے اخلاق اور عادات کا لازمی حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں میں شجاعت اور دلیری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ وہ عادت کے خلاف معمولی سی بات بھی برداشت نہیں کرتے تھے اور فوراً غصے سے بھڑک اٹھتے۔ چھوٹی سے چھوٹی ایسی بات جس سےذلت و توہین کا کوئی پہلو بھی نکلتا ہو، قطعی برداشت نہیں کرتے تھے اور فوری شمشیر و سناں اٹھالیتے اور یوں خون ریز جنگ کا آغاز ہوجاتا۔ اس طرح لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کردینا ان کے لیے باعث فخر تھا۔ اہلِ عرب اپنی جاہلیت کی بنا پر جس کام کو اپنے لیے باعث عزت و افتخار خیال کرتے اس کو انجام دینے کے لیے جان تک قربان کردیتے غرض اپنے مقاصد کی برآوری میں کسی قسم کی بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی ان لوگوں کا راستہ نہیں روک سکتی تھی۔اللہ تعالی نے ان کو فہم و فراست، قوت حافظہ ، فصاحت و بلاغت ، غیرت و شجاعت ، سخاوت و دریا دلی ، سخت کوشی ، جفاکشی ، فنون جنگ میں مہارت اور دیگر کمالات سے اس فیاضی سے بہرور فرمایا تھا کہ ان کی ہم عصر اقوام سے کوئی قوم کسی بھی میدان میں بھی ان کی ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتی تھی ۔

مندرجہ بالا سطور میں اہلِ عرب کی جن چند خوبیوں کا ذکر کیا گیاہے وہ عرب کے صحرانشینوں کی فطرت میں قدرت نے ودیعت فرمائی تھیں لیکن یہ خوبیاں صحیح راہنمائی سے محروم تھیں، اس لیے ان سے مقاصد جلیلہ کی تکمیل نہیں ہوتی تھی اور نہ منازلِ رفیعہ پر انسان کی رسائی ہوسکتی تھی۔ صحیح راہنمائی کے فقدان کے باعث، شجاعت اکثر اوقات ظلم وتعدی کی صورت اختیار کرلیتی تھی اور بکثرت خونریزی کا مقصد کسی فساد کا استیصال یا قوم میں کسی اصلاح کی تکمیل نہیں رہتا تھا بلکہ اس سے فقط بہادری کے اظہار اور شخصی قہر ناکی کی تسکین ہوتی تھی۔ اسی طرح ان کی فصاحت وبلاغت، جس میں دنیا کی کوئی قوم ان کی مماثلت کا دعویٰ نہیں کرسکتی، اس کے پیش نظر بھی برائیوں کے خلاف جہاد کرنا نہ تھا اور نہ نیکی کی طرف لوگوں کو دعوت دیناتھا بلکہ وہ اس کمال کو بھی اپنی ذات کی بڑائی کے اظہارکے لیے اور اپنی فصاحت وبلاغت کا سکہ جمانے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اسی لیے جب حضور ﷺ ان کے درمیان تشریف فرما ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کی تمام خصوصیات کا رخ اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت اوراس کی سر بلندی کی طرف موڑدیا جس کے نتیجے میں ان کی صلاحیتوں اور اعلیٰ اوصاف کاخزینہ درست جگہ استعمال ہوا اور اس کے ثمرات پوری دنیا تک اسلام کی تعلیمات کی صورت میں پہنچے۔

دورِ حاضر میں بھی عرب کم وبیش ان تمام ہی خصوصیات کے حامل ہیں لیکن ایک مرتبہ پھر اللہ کے دین اور حضورﷺ کی تعلیمات کی طرف عدمِ توجہی کی وجہ سے ان کی مذکورہ خوبیاں اوراچھائیاں اچھے نتائج پیدا کرنے سے قاصر ہیں اور بجائے اس کے کہ ان کی مذکورہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے اسلام و اہل اسلام کو فائدہ ہو، ان سے مسلمانوں کو نقصان اور کفار کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔اگر آج کے عرب ایک بار پھر اپنی ان صلاحیتوں کو دوبارہ اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کریں تو یقیناً اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں اورتمام مسلم ممالک مل کر ایک مضبوط اسلامی بلاک بنا کر دوبارہ زمانہ کو حلقہ بگوشِ اسلام کر سکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو امن و سلامتی کا گہوار ا بنا سکتے ہیں۔

 


  • 1 پیر محمد کرم شاہ الازہری ، ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء،ص:284-285
  • 2 ابوعلی اسماعیل بن القاسم القالی، شذور الامالى الشهير بامالى القالى، ج۔2، مطبوعۃ: دارالکتب المصریۃ، القاہرۃ، مصر، 1926م،ص:4
  • 3 محمد احمد جاد، قصص العرب،ج۔1، مطبوعۃ : عیسی البالی حلبی ، القاہرۃ ، مصر ،1939م، ص :156
  • 4 علی محمد سلائی ، سیرت النبی( مترجم : مولانا محمد ندیم شہباز )،ج-1، مطبوعہ : دار السلام،اسلام آباد، پاکستان ،2012 ء،ص: 98
  • 5 أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاريخ الرسل والملوك، ج- 2، مطبوعة: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 207
  • 6 السيد محمود شكری الآلوسی، بلوغ الارب في معرفة أحوال العرب، ج-1، مطبوعة: دار الكتاب المصري، القاهرة، مصر، 2012م، ص : 377
  • 7 أبو الخير زید بن عبد الله الهاشمی، الأمثال، ج-1، مطبوعۃ:دار سعد الدين، دمشق، السوریۃ، 1423ھ، ص: 326
  • 8 أبو شهبة محمد بن محمد، السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنة، مطبوعة: دار القلم، دمشق، السورية، 1427ھ، ص: 96
  • 9 أبو عمر أحمد بن محمد ابن عبد ربہ الأندلسي، العقد الفريد، ج- 6، مطبوعة: دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان، 1404ھ، ص: 3
  • 10 أبو بكر محمد ابن القاسم الاتباری، المعلقات السبع، ج- 1، مطبوعة: مکتبة الكويت الوطنية، کویت، 1424 ھ،ص: 79- 85
  • 11 ابو الحسن علي بن ابي الكرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعة: ادارۃ الطباعۃ المسنرید، دمشق، السورية، (لیس التاریخ موجوداً)،ص: 300 -311
  • 12 ابو هلال الحسن بن عبد الله العسکری، الصناعتين، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة العصرية، بیروت، لبنان، 419 ھ، ص:311
  • 13 طالب الہاشمی، سیرت طیبہ رحمت دارین، ج-1، مطبوعہ: القمر انٹر پرائزز، لاہور، پاکستان، 2004ء، ص :63
  • 14 ابو القاسم الحسين بن محمد راغب الأصفهاني، محاضرات الأدباومحاورات الشعراء والبلغاء، ج-1، مطبوعۃ: شركة دارالأرقم بن أبي الأرقم، بیروت، لبنان، 1420 ھ، ص: 222
  • 15 ابو القاسم محمود بن عمرو الشهير بجار الله الزمخشری، ربيع الأبرار ونصوص الأخيار، ج-5، مطبوعة: مؤسسة العلمی، بیروت، لبنان، 412 1ھ ،ص: 64
  • 16 ابو الحسن علی بن محمد الماوردی، ادب الدنيا و الدين، ج-1، مطبوعة: دار اقرا، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 173
  • 17 طالب الہاشمی، سیرت طیبہ رحمت دارین،ج-1، مطبوعہ: القمر انٹر پرائزز ، لاہور، پاکستان، 2004ء، ص :63
  • 18 السید محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ للنشر والتوزیع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص:133
  • 19 ابو الفرج علی بن ابراہیم حلبی، سیرۃ حلبيہ (مترجم: مولانا محمد اسلم قاسمی)، ج-1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراچی، پاکستان ،1999 ء، ص:57-58
  • 20 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرة الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1427 ھ، ص : 15
  • 21 السید محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ للنشر والتوزیع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص:122 -124
  • 22 ابو المظفر يوسف بن قزاوغلی الشھیر بسبط ابن الجوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج-2، مطبوعۃ: دار الرسالة العالمية، دمشق السوریۃ، 1434 ھ، ص: 586
  • 23 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج-1، مطبوعۃ: مکتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1997م، ص: 354
  • 24 السیدمحمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب في معرفة احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتاب المصري،القاھرۃ، مصر، 2012م، ص: 150
  • 25 ابو الفضل احمد بن محمد الميداني، مجمع الامثال، ج-6، مطبوعۃ: دار المعرفة، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجوداً)، ص: 374