Encyclopedia of Muhammad

عرب کی اقوام و باشندے

جزیرہ نما عرب کے قدیم باشندوں اور اقوام کی مؤرخین، علمائے انساب اور دیگر ماہرین ِفنون نے الگ الگ تقسیمات کرکے ان تقسیمات کی مختلف تعریفات کی ہیں ۔ یہ تمام تقسیمات و تعریفات قیاسی ہیں اور بعد میں آنے والے لوگوں نے زمانے یا دیگر اعتبارات سے ان کو وضع کیا ہے جس وجہ سے ان کےبعد آنے والے مورخین نے اسی تقسیم کو صحیح سمجھتے ہوئے مزید تقسیمات یا سابقہ تقسیم کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی چنانچہ جس کسی نے بھی اس ضمن میں ابتدائی طورپر کوئی اصطلاح یا تعریف وضع کی تو اخلاف نے ان اصطلاحات اور تعریفات کو قطعی سمجھتے ہوئے ہر قسم کے شک و شبہ سے ماورا جان کر اس پریقین کر لیا۔ اس فصل میں مذکورہ تناظر میں ہی قدیم عرب کی ابتداء، آبادکاری اور اہل عرب کی تقسیم ایک نئی جہت سےبیا ن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عرب کا پہلا باشندہ

عرب یعنی زمین کا وہ خطہ جو انسان ِ اوّل یعنی آدم کا مسکن رہا، جہاں انہوں نے اپنےاہل وعیال سمیت زندگی بسرکی 1اوروہیں مدفون ہوئے، 2اس کو اصولاً بھی"عرب" کے نام سے ہی موسوم کیاجانا چاہیےتھا کیونکہ انسان اوّل کی زبان عربی تھی 3 اوریہی عربی زبان ان کی اولاد واحفاد میں بھی بولی جاتی تھی4 گوکہ تاریخ کے مطابق مذکورہ خطہ کو سب سے پہلے سامیوں نے جغرافیائی تناظر میں "عرب"کہا5لیکن اس خطہ میں سامیوں سے پہلے لوگوں کی موجودگی مسلمہ ہے6 جو یقیناعربی زبان بولتے تھے ۔ سامیوں کےاس خطہ کو عرب نام دینے کی وجہ یہ تھی کہ لفظ عرب اصل میں"عربۃ"تھا جس کے معنی بے آب و گیاہ زمین اور صحرا کے ہیں اورعبرانی زبان میں عربۃ بمعنی بیابان اور بنجر میدان کے ہیں ۔7 جب سے یہ لفظ سامیوں نےوضع کیا تب سے ہی یہ لفظ جزیرہ نما عرب (Arabian Peninsula) اور یہاں کے باشندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے 8 لیکن لسانی بنیادوں پر اگر دیکھا جا ئے تو یہ خطہ اس وقت بھی عرب ہی کہلائے جانے کا مستحق تھا جب یہاں سامیوں سے پہلے کے افراد یعنی اولاد آدم موجود تھی اور آپس میں عربی میں ہی کلام کرتی تھی لیکن اس کا حوالہ منقول تاریخ کے حوالے سےمفقود ہے۔

عرب میں آبادکاری

عرب کرہ ِارض کے ان خطوں میں شمار ہوتا ہےجہاں سے انسان کی آباد کاری شروع ہوئی اور بعد ازاں وہاں سے انسان دنیا میں پھیلے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زمین پر اترنے کے بعد حضرت آدم حضرت حوا کو ڈھونڈتے ہوئے عرب آئے اور ان سے عرفات کے پاس ملے۔ 9 آپ نے وہاں حضرت حوا کے ساتھ قیام فرمایااوروہیں اولین عبادت گاہ 10 خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی11 نیز وہیں حضرت حوا سمیت مدفون ہوئے۔12حضرت آدم کے بارے میں احادیث میں مذکور ہے کہ آپ تقریباًساٹھ(60) ہاتھ لمبے تھے 13 اور حضرت حوا کے بارے میں بھی غالب گمان یہی ہے کہ آپ کا ڈیل ڈول بھی اتنا ہی ہوگا۔ جتنا بڑا جسم ہو اس کی حاجات اتنی ہی بڑی ہوا کرتی ہیں لہذا ان کے کھانے پینے کے لیے بھی کثیر وسائل درکار ہوں گے جو وہاں سبزے یعنی پھل اور سبزیوں کی موجود گی کی طرف اشارہ ہیں ۔

عرب کے ابتداءًسرسبز وشاداب ہونے پر شبہ کاازالہ

اب اگر سامیوں کی تعریف کو قبول کر لیا جائے تو ایک شبہ یہ پیداہوتاہے کہ عرب چونکہ ایک بے آب و گیاہ زمین اور صحرا تھا جس میں ایک چھوٹے جسم رکھنے والے انسان کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل مہیا نہیں تھے تو نتیجتاًایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید حضرت آدم جیسے ڈیل ڈول والے انسان اس خطہ میں نہ آئے ہوں کیونکہ وسائل کے اعتبار سے وہاں ان کا زندہ رہنا محال لگتا ہے۔ اس شبہ کا جواب صحیح مسلم ميں منقول درج ذیل مرفوع حدیث سے ملتاہے جس میں رسول اكرم ﷺ نے ارشادفرمایا:

  لا تقوم الساعة حتى يكثر المال ويفيض، حتى يخرج الرجل بزكاة ماله فلا يجد أحدا يقبلها منه، وحتى تعود أرض العرب مروجا وأنھارا.14
  قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مال کثیر مقدار میں ہوکرعام نہ ہو جائے حتی کہ ایک شخص اپنے مال کی زکوۃ نکالےگا مگر اسے قبول کرنے والاکوئی ایک شخص نہیں ملےگا اورجب تک کہ سرزمین عرب دوبارہ چراگاہوں اور نہروں والی نہ ہوجائے۔

اس مرفوع حدیث سے معلوم ہواکہ سرزمین عرب بنجر ہونے سے پہلے سرسبز وشاداب تھی اورقیامت قائم ہونے سےپہلے دوبارہ اسی حالت میں واپس لوٹ جائےگی لہذا حضرت آدم وحوا کے زمانہ میں یہ ایسا خطہ تھا جو ان کے رہن سہن کے لیے سازگارتھا۔جدید مغربی محققین کے مطابق بھی عرب کی سرزمین تقریبا ڈھائی(2.5) کروڑ سال پہلے وجود میں آئی15 اور نوح کی آمد سے پہلے یہ ایک زرخیز خطہ تھا جہاں پر پانی کے چشمے جاری تھے، درخت اور مختلف نوع کے جانور اور پودے بھی موجود تھے لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ اور دنیا میں جیولوجیکل تبدیلیوں کی وجہ سے عرب کا یہ زرخیز اور سر سبز و شاداب خطہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بے آب و گیاہ خطہ میں تبدیل ہوگیا ۔16اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت نوح سے پہلے یہ خطہ سرسبزوشاداب تھا اور یہیں حضرت آدم وحوانے اپنی اولاد احفاد سمیت زندگی بسر کی تھی ۔

حضرت آدم کے بعد جب حضرت نوح کا دور آیا تو انسانوں کی نافرمانیوں کے سبب ان پر طوفان کی شکل میں ایک عذاب نازل کیا گیا۔طوفان نوح میں سوائے ان لوگوں کے جو حضرت نوح کے ساتھ ان کے تین بیٹوں سمیت کشتی میں سوار تھے سب کے سب ہلاک ہوگئے17اور ان میں حضرت نوح کا ایک نافرمان بیٹا بھی شامل تھا۔18نجات یافتہ افراد میں سے حضرت نوح کے بقیہ تین بیٹوں سے ہی نسل انسانی آگےبڑھی اور جزیرہ عرب کو سام بن نوح کی اولاد نے ہی دوبارہ آبادکیا۔

اولادِ نوح سے متعلق شبہ کا ازالہ

اس مقام پرحضرت نوح کے بیٹوں کے حوالہ سے بعض عیسائی علماء کی طرف سےکیاجانے والا اعتراض ذکر کرنا بھی لازمی ہے تاکہ اس اعتراض کی غلط بیانی واضح و آشکارہوجائے۔ بعض عیسائی حضرت نوح کےبیٹوں کے حوالہ سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کے صرف تین ہی بیٹے تھےاور اسلامی تاریخ جن چار بیٹوں کا ذکرکرتی ہے19 جن میں سے ایک بیٹا قرآن کے مطابق طوفانِ نوح میں غرق ہوگیا تھا یہ محض من گھڑت، غلط اور حقیقت کے برعکس ہے۔عیسائی بطور دلیل بائبل کے باب پیدائش کی کتاب نمبرنو( 9) کی آیت نمبراٹھارہ (18)پیش کرتے ہیں جس میں فقط تین بیٹوں کا ذکر ہے۔20

اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ عیسائی جس کتاب کی عبارت پیش کرتے ہیں وہ درحقیقت بائبل کا اصل متن نہیں ہے بلکہ اس کامسخ شدہ ترجمہ ہے کیونکہ بائبل کے کئی مشہور تراجم موجود ہیں۔ایک ترجمہ کا نام جاوسٹ(Jahwist) یا یاوسٹ (Yahwist)ہےجس کوجے ٹیکسٹ(J-Text) بھی کہاجاتاہے اور یہ ترجمہ تورات کاسب سے مستند ترجمہ ماناجاتاہے۔ جے ٹیکسٹ (J-Text) کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں وجود میں آیا تھا21 اوردیگر عیسائی مؤرخین کے نزدیک بائیبل میں موجود تورات کا یہ حصہ ساڑھے نوسو (950)قبل مسیح کی تخلیق ہے۔22

اس کے بعد ڈیوٹرونومک ٹیکسٹ(Deuteronomic Text) اورپریسٹلی ٹیکسٹ (Priestly Text)کو ماخذ کے طور پر لیاجاتاہے۔ پریسٹلی ٹیکسٹ (Priestly Text)کی بنیاد پروہتوں کی روایات یا ان کے مقاصد پر ہوتی تھی اور یہ اُن کے دینی مسائل کی تفصیلات پر مشتمل تھی۔23 فرینک مور کروس (Frank Moore Cross) جو بائبل کا ایک مشہور امریکی عالم ہے وہ اپنی کتاب کینانائٹ متھ اینڈ ہیبروایپک (Canaanite Myth and Hebrew Epic) میں خود لکھتا ہے کہ پریسٹلی ٹیکسٹ (Priestly Text)ایک غیر جانبدار دستاویز نہیں بلکہ من مانا اضافہ شدہ ماخذ ہے جس کو تمام بائبل کے تراجم سے ملاکربنایاگیا ہے۔24

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پریسٹلی ٹیکسٹ (Priestly Text)پروہتوں کے مقاصد کی عکاسی کرتا ہے اوریہ جاوسٹ ٹیکسٹ (Jahwist Text)کی ترمیم شدہ ہئیت ہےیعنی اس میں قطع وبرید یا اضافہ کیاگیا ہے۔اسی وجہ سے جو تراجم عبرانی زبان سے کیے گئے ہیں اس میں واضح فرق نظر آتا ہے ۔جس ترجمہ پر بعض عیسائیوں نے اپنے مذکورہ بالا اعتراض کی بنیاد رکھی ہے وہ پریسٹلی ٹیکسٹ (Priestly Text)ہی ہے جسکی اصل عبارت درج ذیل ہے:

  יח וַיִּהְיוּ בְנֵי נֹחַ הַיֹּצְאִים מִן הַתֵּבָה שֵׁם וְחָם וָיָפֶת //וּכְנָעַן.25

اسکا جے ٹیکسٹ(J-Text) کا ترجمہ یہ ہے:

  حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد جو کشتی سے باہر آئی وہ سام، حام، یافث اور کنعان تھی۔26

جبکہ جے ٹیکسٹ (J-Text)مع پریسٹلی ٹیکسٹ (Priestly Text)کے اضافہ کے ساتھ ترجمہ درج ذیل ہے:

  نوح علیہ السلام کے بیٹے جو کشتی سے باہر آئے تھےوہ سام، حام اور یافث تھے اور حام کنعان کے والد تھے۔27

جے ٹیکسٹ(J-Text) کے ترجمہ میں کشتی سے نکلنے والے چار بیٹے بتائے گئےہیں جس سے یہ تو معلوم ہوا کہ حضرت نوح کے چار بیٹے تھے البتہ رہی یہ بات کہ نجات پانےوالے بھی چار تھے تو یہ غلط ہے کیونکہ قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے اس میں واضح طور پر یہ ذکر کیاگیا ہے کہ حضرت نوح کا ایک بیٹا کشتی میں سوار ہی نہیں ہوا تھا جس وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا تھا28 جبکہ جے ٹیکسٹ (J-Text)مع پریسٹلی ٹیکسٹ (Priestly Text)کےترجمہ میں حام کو کنعان کا والد بنادیاگیا ہے جو غلط ترجمانی ہے جس سے وہ قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ بات حقیقتِ واقعہ کے بر خلاف ہے۔

مذکورہ تراجم کی حقیقت و ثقاہت درج بالا سطور سے واضح کردی گئی ہے جس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مسلمان علماء کی اس بارے میں رائے ہی حقیقت پر مبنی ہے جس کے مطابق طوفان نوح میں غرق ہونے والوں میں حضرت نوح کا ایک بیٹا بھی شامل تھا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور آپ کا نافرمان تھا اور اس کے غرق ہونے کا ذکر قرآن مجید میں بھی فرمایاگیا ہے چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

  وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَابُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ42 قَالَ سَاٰوِيْٓ اِلٰي جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَاۗءِ ۭ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ4329
  اور وہ کشتی پہاڑوں جیسی (طوفانی) لہروں میں انہیں لئے چلتی جا رہی تھی کہ نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ ان سے الگ (کافروں کے ساتھ کھڑا) تھا: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ، وہ بولا: میں (کشتی میں سوار ہونے کے بجائے) ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا: آج اﷲ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر اس شخص کو جس پر وہی (اﷲ) رحم فرما دے، اسی اثنا میں دونوں (یعنی باپ بیٹے) کے درمیان (طوفانی) موج حائل ہوگئی سو وہ ڈوبنے والوں میں ہوگیا۔

قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات اس طرف رہنمائی کر رہی ہیں کہ حضرت نوح کا ایک بیٹا طوفان میں غرق ہوگیا تھا اور مستند تفاسیر کے مطابق وہ کنعان تھااور حضرت نوح کی اولاد میں باقی بچ جانے والے تین بیٹے سام، حام اور یافث کشتی میں موجود تھے۔30

اس غرق ہونے والے بیٹے کا نام کنعان تھا اس کی تائید ابن سعد کی نقل کردہ روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ ذکر کرتےہیں:

  وكنعان وهو الذي غرق والعرب تسميه يام .31
  اورکنعان ہی وہ ہے جو غرق ہوا اور عرب اس کو"یام" نام دیتےہیں۔

طوفان سے صرف وہ لوگ ہی بچےجو کشتی میں سوا ر ہوئے تھےاور پھر ان میں سے فقط حضرت نوح کے اہل خانہ ہی زندہ رہے باقی سب کا انتقال ہوگیا چنانچہ اس حوالہ سے امام بغوی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت نوح کشتی سے اُترے تو آپ کے ساتھ جتنے مرد اور عورتیں تھیں سب مرگئے تھےصرف آپ کی اولاد اور ازواج باقی رہ گئی تھیں۔32 مرگئےسےمراد یہ نہیں کہ کشتی میں جب تک سوارتھے تو موت نہیں آئی تھی اورکشتی سے اترتےہی موت آگئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہےکہ وہ لوگ جب تک زندہ رہے ان کی نسلیں آگےنہ بڑھیں یعنی مزید اولادیں نہ ہوئیں اوروہ اپنی مقررہ زندگی پوری کرکےوفات پاگئےجبکہ ان کے برعکس حضرت نوح کی اولادیں آگےبڑھیں اوران کی اولادوں کی اولادیں پروان چڑھیں۔اسی کو قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا ہے:

  وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ 77 33
  اور ہم نے فقط اُن ہی کی نسل کو باقی رہنے والا بنایا۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ طوفان نوح کے بعد اولاد آدم نسل نوح سے آگے بڑھی اور اسی وجہ سے حضرت نوح کو بنی نوع انسانی کا آدم ثانی اور ابو البشرثانی کہا جاتا ہے۔پھر حضرت نوح کی اولاد کے ذریعے بنی نوع انسان میں اضافہ اور توالد وتناسل کا سلسلہ جاری ہوا34جومختلف زمانوں میں دنیاکے مختلف علاقوں کو بحکم حضرت نوح 35اپنامسکن بناتےہوئے پھیلتے چلے گئے36اور ان کے ما بین قوموں اور قبیلوں کی تقسیم درتقسیم شروع ہوئی ۔ اسی طرح چند ایسے لوگ جن کا تعلق سام بن نوح کی اولاد سے تھاوہ لوگ خطہ عرب میں بھی داخل ہوئے اور اس بے آب و گیاہ خطہ کو دوبارہ آباد کرنا شروع کیا اور یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جسکی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے اور اس ذیل میں واقع عیسائی مستشرقین کا اعتراض بمع انکے دلائل کے فاسد ہے۔

عرب اقوام کا دوسرادور

اس دوسرے دور میں اہل عرب کی تمام نسلیں حضرت نوح کے چاربیٹوں37میں سے ایک بیٹے یعنی سام بن نوح ہی کی شاخ سے تعلق رکھتی ہیں جس کے بارے میں علمائےتاریخ وانساب کااتفاق ہے۔38 اس سے یہ معلوم ہواکہ حضرت نوح کےدوسرے بیٹوں سے عرب کا پدری تعلق نہیں ہے گوکہ ان کی اولاد پھلی پھولی مگران کا تعلق عرب کے خطہ سے نہ تھا۔ اس ضمن میں ابن اسحاق بیان کرتے ہیں:

  عاد بن عوص بن إرم بن سام بن نوح، وثمود وجديس ابنا عابر بن إرم بن سام بن نوح، وطسم وعملاق وأميم بنو لاوذ بن سام بن نوح عرب كلهم.39
  عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح، عامر بن ارم بن سام بن نوح کے دو بیٹے ثمود اور جدیس اور طسم،عملاق،و امیم بنو لا وذ بن سام بن نوح یہ تمام عرب ہیں(اور عرب کے آباءواجداد میں داخل ہیں )۔

اسی طرح ابن خلدون بھی اپنی کتاب میں اس حوالہ سے یوں لکھتے ہیں:

  فأمّا سام فمن ولده العرب على اختلافھم وإبراهيم وبنوه صلوات اللّٰه عليھم باتفاق النسابين.40
  علمائے انساب کااس پراتفاق ہےکہ اپنی تمام نسلوں کےاختلاف سمیت تمام عرب،حضرت ابراہیم اور ان کی اولادیں "سام بن نوح "کی آل سےہیں۔

تُرک، چین، صبالقہ اور یاجوج و ماجوج وہ سب یافث بن نوح کی اولاد ہیں جبکہ سودان، ہند، سندھ اور قبط حام بن نوح کی اولاد ہیں اور اس بات پر بھی علمائے تاریخ کا اتفاق ہے41چنانچہ ماسوائے عرب، دنیاکی تمام اقوام کا نسبی تعلق حضرت نوح کے دو بیٹوں حام ویافث سے ہے جبکہ اقوام ِعرب کا نسب حضرت نوح کے فرزند "سام" سے ملتا ہے۔

سام کی اولاد

حضرت نوح کے بیٹےسام کی جو نسلیں آگے بڑھیں اُن میں اِن کے پانچ بیٹے اور ان بیٹوں کی مزید آنے والی نسلوں میں کئی اقوام وقبائل شامل ہیں ۔اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ابن خلدون اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  أن سام بن نوح عليه السلام كان له من الولد خمسة وهم: أرفخشذ، ولاوذ، وأشوذ، وغليم وكذا وقع ذكر هذه الخمسة في التوراة وان بنی أشوذ هم أهل الموصل، وبنی غليم أهل خوزستان ومنھا الأهواز ولم يذكر في التوراة ولد لاوذ وقال ابن إسحاق: وكان للاوذ أربعة من الولد وهم: طسم، وعمليق، وجرجان، وفارس قال ومن العماليق أمة جاسم، فمنھم: بنولف، وبنو هزان، وبنو مطر، وبنو الأزرق، ومنھم بديل، وراحل، وظفار، ومنھم الكنعانيون، وبرابرة الشام، وفراعنة مصر وعن غير ابن إسحاق أن عبد بن ضخم وأميم من ولد لاوذ قال ابن إسحاق: وكان طسم والعماليق وأميم وجاسم يتكلمون بالعربية، وفارس يجاورونھم إلى المشرق ويتكلمون بالفارسية قال وولد إرم: عوص، وكاثر، وعبيل ومن ولد عوص: عاد، ومنزلهم بالرمال والأحقاف إلى حضرموت ومن ولد كاثر: ثمود وجديس، ومنزل ثمود بالحجر بين الشام والحجاز. 42
  سام بن نوح کےپانچ بیٹےتھے: ارفخشذ، لاؤذ، ارم، اشوذ اورغلیم اور اسی طرح ان کا تورات میں بھی ذکر ہوا ہے۔ پس بنی اشوذاہل موصل ہیں، بنو غلیم اہل خوزستان ہیں جس میں اہوازبھی ہے۔تورات میں لاؤذ کی اولاد کا ذکر نہیں جبکہ ابن اسحاق نےکہا کہ لاؤذ کےچاربیٹےتھے،طسم، عملیق،جرجان اورفارس۔ ابن اسحاق نے کہاکہ عمالیق سےقوم جاسم ہوئی جن میں بنولف، بنو ہزان، بنو مطر، بنو الازرق،ان میں سے ہی بدیل، راحل، ظفارہیں، ان میں سے ہی کنعانی، شامی بربراورمصرکےفراعنہ ہیں۔ابن اسحاق کے علاوہ سے مروی ہےکہ عبد بن ضخم اور امیم لاؤذ کی اولاد میں سے ہیں۔انہوں نے کہا کہ طسم،عمالقہ، امیم اورجاسم عربی زبان بولتےتھےجبکہ فارس جومشرقی جانب میں ان کےپڑوسی تھےوہ فارسی بولتےتھے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ارم کی اولاد میں عوص،کاثر اورعبیل ہوئے۔عوص کی اولادمیں عادہوئےجن کاوطن حضرموت تک ریتیلہ علاقہ تھا۔ کاثرکی اولادمیں ثموداورجدیس تھےجن کامقام سکونت شام اورحجازکےدرمیان"حجر"تھا۔

یعنی سام بن نوح کے چار بیٹوں لاوذ، ارم، اشوذ اورغلیم کی اگلی نسلوں میں کئی اقوام و قبائل شامل ہیں جن سے مزید نسلیں اور قومیں وجود پذیر ہوئیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ سام بن نوح کے بیٹے ارفخشذ کی نسل کے بارے میں اس اقتباس میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

ارفخشذ کے ایک پوتے کا تذکرہ بائبل میں ملتا ہے جن کا نام عابر اور ان کو عبر بھی کہا جاتا ہے۔ 43 عابر کے پھر دو بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام یقطان (یقطن) اور فالج (فالغ) تھا۔ 44 محققین اورعلم الانساب کے ماہرین کےنزدیک یقطن ہی قحطان ہے کیونکہ عرب نےاس کی تعریب (Assimilation)ایسےہی کی ہے۔ فالغ سے حضرت ابراہیم اوران کی نسلیں جبکہ یقطن سے بھی کئی نسلیں ہوئیں جن میں سے تورات میں یقطن کےتین بیٹوں کاذکر ملتاہے،المرذاذ، معربہ اورمضاض جوجرہم تھے۔بقیہ نسلوں میں ارم ہےجو حَضورکہلاتےتھے،سالف ہے جو اہل سلفات تھے،سبأ تھےجواہل یمن حمیرمیں سےتھےجبکہ التبابعہ وکہلان اورہدرماوت ہیں جو سب حضرموت تھے۔ 45 اس حوالے سے امام مسعودی تحریرفرماتےہیں:

  فأما سام فسكن وسط الأرض من بلاد الحرم إلى حضر موت إلى عمان إلى عالج، فمن ولده إرم بن سام، وإرفخشذ بن سام بن نوح عليه السلام ومن ولد إرم بن سام عادُ بن عوص بن إرم بن سام، وكانوا ينزلون الأحقاف من الرمل، فأرْسِلَ إليھم هودٌوثمود بن عابر بن إرم بن سام، وكانوا ينزلون الحِجْرَ بين الشام والحجاز فأرسل اللّٰه إليھم أخاهم صالحا...إن فالغ هو الذي قسم الأرض بين الأمم، ولذلك سمي فالغ، وهو فالح: أي قاسم وولد إرفخشذ بن سام بن نوح عليه السلام شالخ، فولد شالخ فالغ بن شالخ الذي قسم الأرض وهو جد إبراهيم عليه السلام، وعابر بن شالخ، وابنه قحطان بن عابر، وابنه يَعْرُب ابن قحطان، وهو أول من حيَّاه ولده تحية الملك «أنْعِمْ صَبَاحاً» و «أبَيْتَ اللَّعْنَ» وقيل: إن غيره حُيِّيَ بھذه التحية من ملوك الحيرة، وقَحْطَان أبو اليمن كلها... وهو أول من تكلم بالعربية لإعرابه عن المعاني وإبانته عنھا، ويقطن ابن عابر بن شالخ هو أبو جرهم، وجرهم بنو عم يعرب، وكانت جُرهُمُ ممن سكن اليمن وتكلموا بالعربية، ثم نزلوا بمكة فكانوا بھا وقطورا بنو عم لهم، ثم أسكنھا اللّٰه إسماعيل عليه السلام، ونكح في جرهم، فهم أخوال ولده .46
  البتہ سام بن نوح روئےزمین کےوسط،حرمت والےشہروں سےحضرموت وعمان وعالج میں سکونت پذیرہوئے۔ان کی اولاد میں سے "ارم " و"ارفخشذ " ہوئےاورارم بن سام کی اولادمیں سے عاد بن عوص بن ارم بن سام ہوئےاوریہ ر یتیلےعلاقوں میں قیام پذیرہواکرتےتھےنیزان کی طرف حضرت ہود کوبھیجاگیاتھا۔اورثمودبن عابربن ارم بن سام،یہ شام وحجاز کےدرمیان"حجر"میں سکونت پذیر ہوئےاوراللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ان کے بھائی حضرت صالح کوبھیجا۔طسم وجدیس لاوذبن ارم کےبیٹےتھے جویمامہ وبحرین میں سکونت پذیرتھے۔ان دونوں کابھائی عملیق بن لاوذبن ارم ہےجس کی بعض اولادحرم میں اوربعض شام میں قیام پذیر ہوئی اور عمالیق ان ہی میں سےہیں نیزیہ لوگ کئی ممالک میں پھیلےہوئے تھے۔ عابربن شالخ،اس کابیٹاقحطان بن عابراوراس کابیٹایعرب بن قحطان ہے، یہ (یعرب)وہ ہےجس کو سب سےپہلےاس کےبیٹےنے بادشاہوں والاسلام "آپ کی صبح اچھی ہو"اور"تجھ سےلعنتیں دورہوں"کیا۔کہاجاتاہےکہ اس سلام سےان کونہیں بلکہ حیرہ کےکسی بادشاہ کوسلام کیاگیااورقحطان سارےیمن کاباپ ہے۔۔۔ سب سےپہلےاس نےعربی زبان میں کلام کیاکیونکہ وہ اس کےمعانی اوروضاحت خوب جانتاتھا۔ یقطن بن عابر بن شالخ جرہم کاباپ ہے، اورجرہم یعرب کےچچازادہیں۔قوم جرہم یمن میں سکونت پذیرہوئی اورعربی زبان میں کلام کیا،پھر مکہ میں آکررہائش پذیرہوئے۔۔۔قطورا ان کےچچازادہیں،پھر اللہ تعالیٰ نےمکہ میں اسماعیل کواس میں سکونت عطا فرمائی،انہوں نے جرہم میں نکاح فرمایاتووہ(یعنی قطورا) ان کی اولاد کےماموں ہوئے۔

اس طرح سام بن نوح کے دو بیٹے یعنی ارفخشذ اور ارم کی اولاد سے عرب کا خطہ آباد ہوتا چلا گیا۔ جزیرۃ العرب میں جن کی نسلیں بارآور ہوئیں یا جن کا عمل دخل رہا وہ یہی دو فرزند ہیں۔ ان میں سے ارم کی نسلیں جزیرۃ العرب میں عرصہ دراز تک زندہ رہیں اور ترقی کرتی رہیں لیکن یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے تباہ و برباد بھی ہوتی رہیں پھر بتدریج نسلاً بعد نسل جزیرۃ العرب سے بالکل مٹ گئیں ۔ 47

اہل عرب کی اقسام

اہل عرب کو مؤرخین، جغرافیہ دان،علمائے انساب اور دیگر لوگوں نےاپنے فنون کے اعتبار سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے لیکن یہ ساری تقسیمات بعد میں آنے والوں کے قیاس پر مبنی ہیں نہ کہ اس دور کے باشندوں کے مطابق ہیں اور چونکہ ہر تقسیم ایک خاص زاویہ نگاہ سے کی گئی ہے لہذا ان تقسیمات سے کسی عرب کی کسی بھی طورپر تنقیص نہیں کی جاسکتی چنانچہ قدیم عرب کے سارے باشندے جو اس خطہ میں پیدا ہوئے یا اس خطہ میں پروان چڑھے سب اصل العرب ہیں خواہ ابتدائی طورپران کی زبان غیر عربی ہی کیوں نہ ہو اور رہی یہ بات کہ اہل عرب زبان دانی کی بناء پر خود کو "عرب" اور دوسروں کو" عجم" کہتے تھے تو ابتدائے دنیا کے وقت ایسا نہیں تھا بلکہ یہ بہت بعد کی بات ہے جیساکہ ماقبل سطور میں "عربہ" کے لفظ اور حضرت آدم کی تعمیر ِ کعبہ کرنے سے اس بات کو واضح کردیا گیا ہے ۔ عرب کی اقسام کے حوالہ سے مختلف اعتبارات سے کی گئی کچھ تعریفات ذیل میں مذکور ہیں:

اہل جغرافیہ نےعرب کےباسیوں کوتین حصوں میں بانٹاہے ۔اس حوالہ سے ڈاکٹر حسین شیخ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ينقسم سكان شبه الجزيرة العربية إلى ثلاثة أقسام هى:العرب البائدة، العرب العاربة في الجنوب، والعرب المستعربة في الشمال. 48
  جزیرہ عرب میں رہنے والےعرب کی تین اقسام ہیں: عرب بائدہ، جنوبی سمت میں عرب عاربہ جبکہ شمالی جہت میں عرب مستعربہ ۔

ابن منظور افریقی عربی النسل ہونے کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  رجل عربي اذا كان نسبه في العرب ثابتا و ان لم يكن فصيحا.49
  رجل عربی یعنی عربی آدمی (اس وقت کہا جاتا ہے) جب اس کا نسب عرب سے ثابت ہواگرچہ وہ فصیح نہ ہو ۔

کچھ مؤرخین نے عرب کی تقسیم عرب بائدہ ، عاربہ اور مستعربہ کےطورپر کی ہے جبکہ کچھ کے نزدیک عرب بائدہ اور عاربہ ایک ہی ہیں ۔کچھ کے نزدیک عرب بائدہ الگ ہیں اور عرب عاربہ و مستعربہ ایک ہی گروہ یعنی باقیہ سے وابستہ ہیں۔ اگر پہلی تقسیم یعنی بائدہ، عاربہ اور مستعربہ کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ تعریف دوسری تقسیم کو مشکوک بنا دیتی ہے کیونکہ بائدہ سے مراد وہ عرب اقوام ہیں جو نیست و نابود ہوگئیں،اب اگر وہ نیست و نابود ہوگئیں تو عاربہ کی اقوام کہاں سے وجود میں آئیں اور اگر عرب عاربہ کو عرب بائدہ ہی کے بچے ہوئے افراد مان لیا جائے تو عرب بائدہ، بائدہ نہیں رہتے اور نہ ہی ان کامکمل طورپرتباہ ہوناثابت ہوتاہے۔ مزید برآں بائدہ کی تعریف میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس تقسیم میں حضرت نوح سے پہلے کےعرب باشند وں کا تذکرہ ہی موجود نہیں حالانکہ وہ اقوام بھی طوفانِ نوح میں نیست و نابود ہوئیں اور وہ لوگ خطہ عرب کے باسی بھی تھے تو وہ عرب بائدہ کا حصہ ہوئے جنہیں تعریف میں شامل ہی نہیں کیاگیا۔پھر عرب عاربہ کو اصل العرب کہا گیا حالانکہ اس خطہ کے سب سے پہلے باسی تو عرب بائدہ کے افراد تھے اور ان سے پہلے حضرت آدم کی اولاد تھے تو وہ اصل العرب کیوں نہیں ہوئے اور اس کے برعکس قحطان کی آل کس بنا پر اصل العرب ٹھہری؟ عرب مستعربہ کی تعریف میں مسئلہ یہ ہے کہ ان کو اصل العرب نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ عرب میں پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ پیدائش کے بعد عرب میں مقیم ہوئے تھے۔ اس اعتبار سے تو ہر پہلا شخص ہی مستعربہ ہے کیونکہ آدم بھی عرب کی سرزمین پر مہبوط نہیں ہوئے تھے بلکہ بعد میں یہاں تشریف لائے تھے اوراس لحاظ سے انسانوں کی ابتداء خطہ عرب سے نہیں ہوئی بلکہ اس خطہ کو بعد میں آباد کیا گیا تھا لہذا ہر پہلا شخص جو اس خطہ میں آیا اور آکر اس خطہ کو آباد کیا وہ خود بھی مستعربہ کہلائے گا ۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ یہ تقسیمات محض عرب کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے ماہرین فنون نے اپنےخاص زاویہ نگاہ سے کی ہیں جن کے اعتبارات مختلف ہیں اور چونکہ کسی بھی قدیم عرب گروہ نے اپنے آپ کو بائدہ، عاربہ، مستعربہ کی مذکورہ تعریفات میں تقسیم نہیں کیا بلکہ ان کے بعد والوں نے یہ تعریفات وضع کی ہیں اس وجہ سے ان تقسیمات میں مذکورہ نقائص پائے جاتے ہیں مگر ان کے باوجود بھی عرب کی ان تمام تقسیمات سے کسی عرب کی عربیت میں نقص ثابت نہیں ہوتا ۔

اسی طرح آج وہ بچہ جو امریکہ میں پیدا ہوتا ہے اس کو کاغذات اور قانونی تقاضوں کے تحت امریکی شہری کہا جاتا ہے لیکن وہ اصلاً چینی، جاپانی یا جرمن ہی ہو تا ہے بالکل اسی طرح آج ہم اگرچہ پاکستان، ہندوستان، ایران ، چین، جاپان، امریکہ وغیرہ کی دستاویزات کے اعتبار سے مذکورہ بالا ممالک کے قانونی شہری ہیں لیکن اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے حضرت آدم کی اولاد ہونے کے باعث عرب ہی ہیں گو کہ زبان دانی کے اعتبار سے عرب وعجم میں تقسیم ہیں۔ ان تمام تفصیلات و توجیہات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مؤرخین کی مقبول تقسیم بائدہ ،عاربہ اور مستعربہ کے مطابق اگلے صفحات میں بمع اعتراضات ان کی تاریخ کو پیش کیاجارہاہے۔

 


  • 1 ابوحنیفۃ احمد بن داود الدینوری، الاخبار الطوال، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربی، القاھرۃ، مصر، 1960م، ص: 1
  • 2 ابو حامد محمد بن محمد الاصفھانی، البستان الجامع لجمیع تواریخ اھل الزمان، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ للطباعۃ والنشر، بیروت، لبنان، 2002م، ص:57
  • 3 ابو عبداللہ محمد بن عبد اللہ الحاكم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 6999، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 97
  • 4 ابوالقاسم على بن الحسن ابن عساكر الدمشقى، تاريخ دمشق، ج-4، مطبوعة: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1995م، ص: 406
  • 5 ابو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموى، معجم البلدان، ج-4، مطبوعۃ: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995 م، ص: 96
  • 6 Tim Mackintosh Smith (2019), Arabs, Yale University Press, Wales, U.K., Pg. 19.
  • 7 ابو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموى، معجم البلدان، ج-4، مطبوعۃ: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995 م، ص: 96
  • 8 شيخ صفی الرحمن المبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 21
  • 9 ابو الطیب محمد بن احمد بن علی الفاسی، شفاء الغرام باخبار بلد الحرام، ج-1، مطبوعۃ: دار االکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 413
  • 10 القرآن، سورۃ آل عمران96:3
  • 11 ابو الوليد محمد بن عبدالله بن الازرقى، اخبار مكة، ج-1، مطبوعة: دار الاندلس، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجودا)، ص: 36
  • 12 ابو حامد محمد بن محمد الاصفھانی، البستان الجامع لجمیع تواریخ اھل الزمان، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ للطباعۃ والنشر، بیروت، لبنان، 2002م، ص:57
  • 13 ابو عبد الله محمد بن اسماعيل البخارى، صحيح البخارى، حديث: 3326، مطبوعة: دارالسلام لنشر والتوزيع، الرياض، السعودية، 1999م، ص: 552
  • 14 ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحيح مسلم، حديث: 157، مطبوعة: دارالسلام لنشر والتوزيع، الرياض، السعودية، 2000م، ص: 408
  • 15 R. W. Powers et al. (1966), Geology of the Arabian Peninsula Sedimentary Geology of Saudi Arabia, U.S. Geological Survey Professional Paper 560-D, United States Government Printing Office, Washington, USA, Pg. 101-102.
  • 16 H.C. Armstrong (1998), Lord of Arabia, St. Paul's Press, Beirut, Lebanon, Pg. 212.
  • 17 القرآن، سورة الشعراء 26: 119
  • 18 القرآن، سورة ھود 42:11-43
  • 19 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعة: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387 ھ، ص:210-209
  • 20 کتاب مقدس، پیدائش، باب:9، آیت نمبر:18، مطبوعہ:بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان،2005ء، ص: 11
  • 21 Joel S. Baden (2009), J, E, and the Redaction of the Pentateuch, Mohr Siebeck, Heidelberg, Germany, Pg. 305-313.
  • 22 Encyclopedia Britannica (Online): https://www.britannica.com/topic/Yahwist-source: Retrieved: 21-03-2021
  • 23 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Priestly-code: Retrieved: 21-03-2021
  • 24 Antony F. Campbell & Mark A. O'Brien (1993). Sources of the Pentateuch: Texts, Introductions, Annotations, Fortress Press, Minnesota, Pg. 1-6.
  • 25 The Bible, Genesis 9: 18
  • 26 The Torah.com (Online): https://www.thetorah.com/article/noahs-four-sons: Retrieved: 21-03-2021
  • 27 The Torah.com (Online): https://www.thetorah.com/article/noahs-four-sons: Retrieved: 21-03-2021
  • 28 القرآن، سورۃ ھود43:11
  • 29 القرآن، سورۃ ھود42:11-43
  • 30 جلال الدين محمد بن أحمد المحلى وجلال الدين عبد الرحمن بن أبى بكر السيوطى، تفسير الجلالين، ج-1، مطبوعة: دار الحديث، القاهرۃ، مصر، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 290
  • 31 أبو عبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الكبرى، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1990م، ص: 35
  • 32 أبو محمد الحسين بن مسعود البغوى، تفسير البغوى، ج-7، مطبوعۃ: دار طيبة للنشر والتوزيع، الریاض، السعودیۃ، 1417م، ص: 43
  • 33 القرآن، سورۃ الصافات37:77
  • 34 أبو عیسى محمد بن عیسى الترمذی، جامع الترمذی، حدیث: 3230، مطبوعۃ: دا رالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1430ھ، ص: 957
  • 35 ابوالحسن علی بن حسین بن علی المسعودی، تاریخ المسعودی (مترجم:پرفیسر کوکب شادانی)،ج- 1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 1985ء، ص: 59
  • 36 ابوا لفداءاسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-5، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1419ھ، ص: 175
  • 37 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعة: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387 ھ، ص: 209-210
  • 38 أبو عبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الكبرى، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1990م، ص: 36
  • 39 أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله السهيلى، الروض الأنف فى شرح السيرة النبوية لابن ہشام، ج -1، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربى، بيروت،لبنان، 1412 ھ، ص: 96
  • 40 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاريخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1988م، ص: 8
  • 41 أیضاً، ص: 12
  • 42 أیضاً، ص: 8-9
  • 43 کتاب مقدس، پیدائش، باب-10، آیت نمبر24، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995 ء، ص: 12
  • 44 ایضاً
  • 45 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 7
  • 46 أبو الحسن على بن الحسين المسعودى، مروج الذهب ومعادن الجوهر، ج-1، مطبوعة: دار الهجرة، قم، إيران،1409ھ، ص: 52-56
  • 47 محمد رابع حسنی ندوی، جغرافیہ ممالک اسلامیہ، مطبوعہ : درالعلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ،انڈیا، 1962ء،ص: 75
  • 48 الدكتور حسين الشيخ، العرب قبل الإسلام، مطبوعة: دار المعرفة الجامعية، الإسكندرية، مصر، 1993م، ص: 68
  • 49 ابو الفضل محمد بن مكرم ابن منظور الافريقى، لسان العرب، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1414ھ، ص: 586