Encyclopedia of Muhammad

جاہلی اشرافِ عرب

عرب کی تاریخ میں اگراشرافِ عرب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بلند قامت، ممتاز اور قابلِ احترام شخصیات انبیائے کرام کی ہیں جن کی منقول تعداد چار(4)ہےچنانچہ ابن حبان اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوذر غفاری کے سوال کو روایت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے چار انبیاء کرام کا ذکر کرتے ہوئے ان کےنام اس ترتیب سے ارشاد فرمائے:

  يا رسول الله من كان أولهم قال آدم قلت يا رسول الله أنبي مرسل قال نعم خلقه الله بيده ونفخ فيه من روحه وكلمه قبل ثم قال يا أبا ذر أربعة سريانيون آدم وشيث وأخنوخ وهو إدريس وهو أول من خط بالقلم ونوح وأربعة من العرب هود وشعيب وصالح ونبيك محمد صلي الله عليه وسلم.1
  ان (رسولوں) میں سب سے پہلے کون ہیں؟ فرمایا: آدم ، میں نے کہا کیا وہ مرسل (رسول) تھے؟ فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا، اپنی روح کو ان میں پھونکا اور سب سے پہلے ان سے کلام فرمایا۔پھر حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! ان میں سے چارسِریانی ہیں، آدم، شیث، اخنوخ، یہ ادریس ہیں اور آپ ہی نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح ، چار عرب میں سے ہیں ہود، شعیب، صالح اور تمہارے نبی محمد ﷺ۔

ان کے علاوہ عرب کے چندجاہلی قبائل میں بنوکنانہ، ہوازن، عبس، ذبیان، بنوبکر، تغلب اور قریش بھی مشہور ومعروف رہے کیونکہ ان میں کئی نامور سردار اور افرادپیداہوئے جنہوں نےاپنے قبائل کی جاہ وحشمت بڑھانے میں مؤثر کرداراداکیا۔

مشہور سردار

عرب کے مذکورہ قبائل کے سرداروں میں سے چند افراد اپنی شہسواری، شاعری، بہادری اور قبائل کے انتظام کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔اہل عرب کےان سرداروں اور ان میں ممتاز مانے جانے والی چند شخصیات کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے تاکہ اہل عرب کی اشرافیہ کے بارے میں علم ہوسکے۔

زید بن عمرو بن نفیل

زید بن عمرو بن نفیل عبدالعزی قرشی عدوی بھی زمانہ جاہلیت کے دانشور، عالم، شاعر اور اشراف ِ عرب میں شامل تھے نیز انہوں نے نصرانیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتابیں بھی پڑھی تھیں۔ یہ لوگوں کو بُت پَرستی، بتوں کے نام نذر نیاز کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے روکتے تھےا ور انہیں دین ابراہیمی کی طرف بلاتے تھے۔ شام بھی گئے تھے اوروہاں انہوں نے راہبوں کی عبادت کا طریقہ دیکھا اور سیکھا تھا لیکن یہودیت یا نصرانیت قبول نہیں کی تھی پھر واپس مكّہ آئےاور دین حنیفی پر قائم رہے۔زید بن عمرو بن نفیل چونکہ دین حنیف پر تھے اور قریش کوبھی دینِ حنیف کی دعوت دیتے تھے اس لیے قریش ان کے مخالف تھے اور انہوں نے زید بن عمرو کو مكّہ سے نکال دیا تھا جس کے بعد یہ حراء کی طرف چلے گئے۔ رسالتماب ﷺنے انہیں اعلان نبوت سے پہلے دیکھا تھا اور ان کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ قیامت کے دن امت واحدہ بن کر اٹھیں گے۔ 2

ورقہ بن نوفل

اہل عرب کے ہاں ورقہ بن نوفل بھی اشرافِ عرب اور عالم و دانشور سمجھے جاتے تھے، یہ ذبیحہ و بُت پَرستی سے گریزا ں تھے اورانہوں نے تلاشِ حق میں نصرانی مذہب اختیار کیاتھا۔ سریانی، عبرانی اور عربی تینوں زبانوں میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ کتب سماوی کا مطالعہ کیا تھا اور دیگر کتابیں بھی پڑھتے رہتے تھے یہاں تک کہ انہوں نےانجیل کا عبرانی سے عربی میں ترجمہ بھی شروع کیا تھا۔ مورج بن عمرو سدوسی نےاپنی کتاب " حذف من نسب قریش "میں موصوف کے متعلق کتب بینی کی تصریح کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  كان ممن قرا الكتب.3
  یہ ان دانشوروں میں سے تھے جنہوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔

رسالتماب ﷺ پر جب پہلی وحی اتری اور آپ ﷺ نے اس کا ماجرا حضرت خدیجہ کو سنایا تو حضرت خدیجہ آپ ﷺ کو ان کے پاس لے کر آئی تھیں جس کا تفصیلی ذکر صحیح البخاری میں یوں مذکور ہے:

  حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى ابن عم خديجة وكان امرأ تنصر في الجاهلية وكان يكتب الكتاب العبراني فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي فقالت له خديجة: يا ابن عم اسمع من ابن أخيك، فقال له ورقة: يا ابن أخي ماذا ترى؟ فأخبره رسول الله صلي الله عليه وسلم خبر ما رأى، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل الله على موسى، يا ليتني فيها جذعا، ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «أو مخرجي هم»، قال: نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا ثم لم ينشب ورقة أن توقي، وفتر الوحي.4
  پھر حضرت خدیجہ آپ ﷺ کو لے گئیں حتٰی کہ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس پہنچیں جو حضرت خدیجہ کے عم زاد تھے۔ وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھےاورعبرانی زبان میں کتاب لکھتے تھے چنانچہ وہ انجیل کو جتنا اللہ چاہتا عبرانی زبان میں لکھتے تھے، وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے، حضرت خدیجہنے ان سے کہا: اے میرے عم زاد! اپنے بھتیجے کی بات سنیے، پس آپﷺ سے ورقہ نے کہا: اے بھتیجے! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ تب رسول اللہ ﷺ نے ان کو بتایا جو کچھ آپ ﷺ نے دیکھا تھا، پھر آپ ﷺ سے ورقہ نے کہا: یہ وہی ناموس (پیغام رساں فرشتہ)ہے، جس کو اللہ نے حضرت موسیٰ پر نازل کیا تھا، کاش میں اس وقت جوان ہوتا! کاش میں اس وقت زندہ ہوتا! جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی، تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا وہ مجھ کو نکالنے والے ہیں؟ ورقہ نے کہا: ہاں! جو شخص بھی آپ جیسا پیغام لے کر آیا اس سے عداوت رکھی گئی، اگر میں نے اس زمانہ کوپایا تو میں آپ کی بہت قوی مدد کروں گا، اس کے بعد ورقہ زیادہ دن زندہ نہ رہے اور ان کی وفات ہوگئی اور وحی کا نازل ہونا رک گیا۔ 5

اسی طرح صحیح بخاری کے ایک اور مقام پر دوسری روایت میں یہ الفاظ منقو ل ہیں:

  وكان يكتب الكتاب العربي فيكتب من الإنجيل بالعربي ما شاء الله أن يكتب.6
  حضرت ورقہ بن نوفل عربی میں کتابت کرتے تھے پس وہ انجیل کو جتنا اللہ چاہتا اتنا عربی میں لکھتے۔

ان دونوں روایات کے متعلق شارح بخاری ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں تحریر کرتے ہیں:

  ويكتب من الإنجيل بالعربية ما شاء الله هكذا وقع هن....قال النووي العبارتان صحيحتان والحاصل أنه تمكن حتى صار يكتب من الإنجيل أي موضع شاء بالعربية وبالعبرانية قال الداودي كتب من الإنجيل الذي هو بالعبرانية هذا الكتاب الذي هو بالعربي. 7
  حضرت ورقہ بن نوفل انجیل کو جتنا اللہ چاہتا اتنا عربی زبان میں لکھتے تھے۔اس روایت میں اسی طرح وارد ہوا ہے(جبکہ ماقبل میں عبرانی زبان میں لکھنے کی تصریح ہے)امام نووی نے کہا ہے کہ دونوں روایات صحیح ہیں اور خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ورقہ بن نوفل اتنے ماہر ہوچکے تھے کہ انجیل کی جس بھی جگہ کو چاہتے عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں لکھتے تھےجبکہ داؤدی نے کہا کہ حضرت ورقہ نےعبرانی زبان میں لکھی گئی انجیل سےعربی زبان میں انجیل لکھی۔

یعنی حضرت ورقہ بن نوفل دونوں زبانوں میں کتابت کرتے تھے اورانہوں نے حضور اکرم ﷺ کا ابتدائی زمانہ انتہائی ضعیفی کی حالت میں پایا تھا اور آپﷺ کی مدد ونصرت کی خواہش بھی ظاہر کی تھی لیکن زندہ نہ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء ان کے ایمان کے قائل ہوئے اور بعض نے ان کو فترۃ وحی کے زمانہ کا موحد تسلیم کیا جیسا کہ ذیلی اقتباس سے معلوم ہوتا ہے:

  اما ورقة فتنصر واستحكم في النصرانية وحصل الكتب و علم علما كثيراورقة لو ادرك هذا تعزيب بلال يعد من الصحابة وانمامات الرجل في فترة الوحي بعد البوة وقبل الرسالة الدعوة في الصحيح.8
  بہر حال ورقہ نے نصرانی مذہب اختیار کیا اور اس پر قائم رہے، کتابیں جمع کیں اور بہت علم حاصل کیا۔ورقہ نے اگر حضرت بلال کی کفار کے ہاتھوں ایذارسانی کا زمانہ پایا ہوتا تو ان کا شمار صحابہ میں کیا جاتا البتہ یہ نبوت کے بعد اور اعلان رسالت سے پہلے فترۃ وحی کے زمانے میں وفات پاگئےجیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔

بہر کیف ورقہ بن نوفل کا شمار اشرافِ عرب میں کیا جاتا تھا اور اہل عرب میں یہ بھی ان حضرات میں شامل تھے جنہوں نے کتب بینی اور علم کو اپنا وظیفۂ حیات بنایا تھا جس کی وجہ سے یہ عرب کے ممتاز افراد میں شمار ہوتے تھے۔

عمرو بن معديكرب زبیدی

عمرو بن معدیکرب قبیلہ زبیدی سے تعلق رکھتے تھے9اوران کی کنیت ابا ثور ( بیل کا باپ)تھی۔10زمانہ جاہلیت میں گویا ان کا سکہ چلتا تھا اور یہ اہل عرب کے انتہائی طاقتور پہلوا ن شمار کیے جاتےتھے 11نیز یہ عرب کے مشہور شہسوار اورشاعر بھی تھے۔ 12ان کی بابت بہت سے ہلا کت خیز و خطرناک واقعات مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایک مرتبہ یہ عرفات کے بازار ذی المجاز میں گھوم رہے تھے کہ ایک خوبصورت عورت پر نگاہ پڑ گئی اور وہ ان کے دل کو بھا گئی۔ اس سے مباشرت کا تقاضہ کیا تو اس نے کہا میں شادی شدہ ہوں اور میرا خاوند بہت اثر ورسوخ والا آدمی ہے لہٰذا تو اپنے ارادہ سے باز آجا ورنہ وہ تجھے زندہ نہیں چھوڑےگا۔یہ سن کر یہ بظاہر اس کے سامنے سے چلے گئے لیکن در پردہ اس کے تعاقب میں رہے، جب وہ اپنے گھر پہنچی تو خاوند کو تمام ماجرا کہہ سنایا، خاوندنے شیخی بگھارتے ہوئے ان کو اور ان کی والدہ کو برا بھلا کہا جو ان پر شاق گزرا۔ یہ بھی اس کے پیچھے پہنچ گئے تھے اور تمام بات سن چکے تھے اس لیے غصہ میں سیدھا تلوار سونت کر اس کے گھر میں داخل ہو گئے اور اس کے شوہر کو قتل کر ڈالا۔ 13

بعثت نبوی ﷺ کے دوران زندہ تھے اور زبیدی وفد کے ہمراہ سن نو(9)ہجری میں اسلام قبول کیااور چند جنگوں میں بھی شامل رہے 14پھرجب رسول اکرم ﷺ کا وصال مبارک ہوا تو اسود عنسی کے ساتھ مرتد ہوگئے۔پھر جب حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں ان سے قتال کے لیے لشکر بھیجا تو دوران قتال ان کی گردن پر حضرت خالد بن ولید کی تلوار لگی اور آ پ نے ان کی تلوار لےلی جس سے ان کو ہزیمت کا سامنا ہوا تو یہ دوبارہ اسلام لے آئے۔اس کے بعد جنگ یرموک میں بھی اسلام کی طرف سے کافروں سے قتال کیا اور جنگ قادسیہ میں بھی شریک رہے اور اسی میں جامِ شہادت نوش کیا۔15ان کی قبر ایک قول کے مطابق نہاوند کے علاقہ اسفیذبان میں ہے16جبکہ دوسرےقول کے مطابق قم اور رے کے درمیان مقام بروذہ میں ہے۔17

ولیدبن المغیرہ

اس کا پورا نام ولید بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم اور کنیت ابو عبدشمس تھی۔جاہلیت میں عرب کے قاضیوں، سرداروں اورزندیقوں میں سےایک تھا۔ اسے"العدل"کہاجاتاتھاکیونکہ یہ سارےقریش کےہم پلہ تھا۔ تمام قریش مل کربیت اللہ پرغلاف چڑھاتےتھےجبکہ یہ اکیلاغلاف چڑھاتاتھا۔یہ ان لوگوں میں سےتھاجنہوں نےجاہلیت میں شراب کوحرام قراردیا اوراس کےپینےپراپنےبیٹےہشام کو تادیباًمارا۔اس نےبڑھاپےمیں اسلام کازمانہ پایااوراس کی عداوت میں اسلامی دعوت کےمقابلےمیں آیا۔

یہ وہی تھاجس نے قریش کوجمع کرکےکہا کہ حج کے دنوں میں لوگ تمہارےپاس آئیں گے اور محمد (ﷺ)کے متعلق تم سےسوال کریں گےتو تمہارےجواب مختلف ہوں گے، ایک کہےگا: کاہن، دوسرا کہےگا: شاعر اور تیسرا کہے گا: دیوانہ جبکہ وہ ان میں سےکسی سےبھی مشابہت نہیں رکھتا مگر ان سب میں مناسب یہی ہےکہ اسے "جادوگر" کہا جائےکیونکہ وہ آدمی کو اس کےبھائی سےاورخاوندکواس کی بیوی سے جدا کر دیتا ہے۔ ہجرت کےتین ماہ بعدیہ ہلاک ہوگیااورحجون میں دفن کیاگیا۔ وہ اللہ کی تلوارحضرت خالد بن ولید کاوالدتھا۔ 18

نصر بن الحارث

یہ حضور اکرم ﷺ کا خالہ زاد بھائی 19بہادر اورسردار ان قریش میں سے تھا اور ا س کو فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ یہ بڑا عیار اور آپﷺ کا جانی دشمن تھا یہاں تک کہ آپﷺ کی عداوت میں یہودیوں اور نصرانیوں سے میل جول رکھتا تھا۔20بانسری فارسی سروں میں خوب بجاتا تھا، 21جنگ بدر میں کفار کا جھنڈا اٹھائے لڑنے آیا تھا اورمسلمانوں کے ہاتھوں ہی زخم کھا کر گرفتار ہوا اور قتل کیا گیا۔ جب الکتاب کی تعلیمات سے عربوں کی زندگی میں انقلاب رونما ہونے لگا، اس کی دل آویزی انہیں اپنا اسیر کرنے لگی، وہ اسلام قبول کرکے مصائب و تکالیف جھیلنے لگے تو اس کی حمیتِ جاہلیت جاگ اٹھی۔ اس نے وحی الہٰی کے مقابلہ میں جاہلی لٹریچر، ایرانی داستانیں اور لایعنی قصے یعنی"لہو الحدیث" ان کے سامنے پیش کرنے شروع کیےجو اس کے پاس ذخیرہ تھے کہ آؤ میں تمہیں شاہانِ فارس اور رستم واسفند یار کے قصے سناتا ہوں۔ اس طرح یہ لوگوں کو راہ راست سے روکتا تھاچنانچہ سیرت ابن ہشام میں اس حوالہ سے منقول ہے کہ یہ اہل مكّہ سے کہتا تھا:

  والله مامحمد با حسن حديثا مني و ماحديثه الااساطير الاولين اكتتبها كما اكتتبتها.22
  اللہ کی قسم محمد (ﷺ)کی باتیں میری باتوں سے زیادہ اچھی نہیں ہیں، ان کی باتیں توداستانِ پارینہ ہیں جن کوانہوں نے لکھوا کر محفوظ کروالیا ہے جیسا کہ میں تمہیں لکھوا کر انہیں محفوظ کراتا ہوں۔

یہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا خون نبی کریم ﷺ نے مباح کر دیا تھا اور اسی لیے حضرت علینے اس کو قتل کیا تھا۔ 23

قصی بن کلاب

حضرت قصی بن كلاب کا اصل نا م زید تھا۔ کلاب کے دو بیٹے زہرہ اور زید پیدا ہوئے توکلاب مر گیا۔ اس وقت زید کم سن تھا اور زہرہ جوان ہو چکا تھا۔ کلاب کے مرنے کے بعد ربیعہ بن حرام نےجو قضاعہ سے تھا زہرہ اور قصی کی والدہ فاطمہ سے شادی کر لی۔ زید نے ربیعہ کے گھر پر ورش پائی اور جوان ہوا چونکہ وہ اپنی قوم والوں سے بہت دور ہوگیاتھا اس لیے زید کا نام قصی ہو گیا۔ پھر اس کی ماں نے اس کو بتایا کہ تیری قوم مكّہ میں بیت اللہ اور حرمِ بیت اللہ میں رہتی ہے۔ یہ معلوم کر کے اس نےاپنی قوم میں جا کر مل جانے کی پختہ نیت کر لی۔ اس کی ماں نے اس سے کہا کہ عجلت نہ کرو، ما ہ حرام آنے دو جب عرب حاجی مكّہ جائیں تو تو بھی ان کے ہمراہ ہو جانا۔ اس وقت جانے میں تمہاری جان کو خطرہ ہے۔

قصی نے اپنی ماں کا مشورہ مانا اور وہ وہیں ٹھہرارہا۔ جب ماہ حرام میں بنو قضاعہ کے حاجی مكّہ کے لیے روانہ ہوئے تو یہ ان کے ہمراہ مكّہ آیا اور حج سے فارغ ہو کر اب یہیں مستقل طور پر قیام پذیر ہو گیا۔ وہ بڑا بہادر اور شریف تھا اس نے حلیل بن حبشیہ الخزاعی کے ہاں اس کی بیٹی حبی سے منگنی کر نا چاہی تو حلیل نے اس کے نسب سے اطمینان کر کے اپنی بیٹی سے اس کی شادی کر دی۔اس زمانے میں حلیل کعبہ کا متولی اور مكّہ کا امیر تھا۔ ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق شادی کے بعد قصی اپنے خسر حلیل کے ساتھ رہنے لگا اور اس کی بیٹی حبی کے بطن سے قصی کے بیٹے عبدالدار عبد مناف، عبدالعزیٰ اور عبد قصی پیدا ہوئے۔ 24

ہاشم بن عبد مناف

ان کا نام عمرو العلاء تھاجس کا معنی بقاء ہے۔ ان کا لقب ہاشم تھا کیونکہ انہوں نے اہل مكّہ کو اس وقت ثرید کھلائی تھی جس وقت اہل مكّہ کو سخت قحط سالی نے آلیا تھا چنانچہ یہ فلسطین گئے، وہاں سے بہت سا آٹا اور کیک خریدکر مكّہ معظمہ آئے، ان كے حکم پر روٹیاں پکائی گئیں پھر اونٹ ذبح کر کے ثرید بنائی گئی اوراہل مكّہ کو کھلائی گئی حتیٰ کہ وہ مستغنی ہوگئے۔

انہوں نے ہی سب سے پہلے حبشہ اور شام کی طرف دو تجارتی سفر شروع کیے تھے۔ ہاشم شام گئے اور قیصر کے ہاں ٹھہرے، وہ ہر روز ایک بکری ذبح کرتے، اسے پیالے میں ڈالتے، اپنے ساتھیوں کو بلاتے اور سارے مل کر کھاتے تھے۔ اس بات کا تذکرہ قیصر سے کیا گیا کہ اس جگہ قریش کا ایک شخص ہے جو روٹی کی ثرید بناتا ہے۔ قیصر انہیں بلاکران سے گفتگو اور ملاقات کرتا رہا۔ انہوں نے بادشاہ کی دلچسپی دیکھتے ہوئے کہا کہ میری قوم عرب کی تا جر ہے۔ اگر تم مناسب سمجھو تو مجھے ایک خط لکھ دوجو انہیں امن دے اور ان کی تجارت امن کے ساتھ ہو۔بادشاہ نے انہیں امان نامہ لکھ دیا اور ہاشم نے وہ خط لےلیا۔

شام کے راستے میں جب بھی وہ کسی قبیلہ کے پاس سے گزرتے۔ وہ ان کے سرداروں سے معاہدہ کرتے اور انہیں کہتے کہ وہ اہل عرب کو اپنے ہاں کے راستوں اور زمینوں پر پناہ دیں۔ یہ رستہ کی امان تھی جس کے بعد وہ بڑے کارواں کے ساتھ تجارت کے لیے نکلنےلگے۔ہاشم ایک مالدار شخص تھے چنانچہ جب ذوالحجہ کا پہلا دن آتا تو وہ خانہ کعبہ کے ساتھ کمر لگاتے اور حاجیوں کی مہمان نوازی کے بارے میں خطبہ دیتے۔ ہر گھر اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور عطیہ کرتا اوراپنا سامان ہاشم کے پاس لے کر آتا، وہ یہ سارا سامان دارالندوہ میں رکھ دیتے تھے۔

حضرت ہاشم ہر سال بہت سامال نکالتے تھے۔ وہ چشمہ زمزم کے پاس چمڑے کے حوض بنانے کا حکم دیتے پھر ان میں مكّہ مکرّمہ کے کنوؤں کا پانی ملایا جاتا تھا پھر وہ حاجیوں کو پلایا جاتا۔ وہ حاجیوں کو

یومِ ترویہ
سے قبل مكّہ میں پھر منیٰ میں پھر عرفات میں کھلاتے تھے۔وہ ان کے لیے گوشت کے شوربہ میں روٹی چور کر ثرید بناتے، گھی میں روٹی چورتے، ستّو و کھجور ملاکر کھلاتے، اور ان کے لیے پینے کے پانی کا انتظام کرتے تھے، لوگ حج کے بعد اپنے شہروں کو لوٹ جاتے تھے۔ ہاشم سارے لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور باجمال تھے۔ اہل عرب انہیں
قدح النضار
اور بدر کہتے تھے۔ہاشم کی اولاد میں نضلہ، عبدالمطلب، اسد، ابو صیفی، شفاء، خلدہ، رقیہ اور حبیبہ شامل ہیں۔ہاشم نے بیس سال کی عمر میں یا پچیس سال کی عمر میں غزہ میں وصال کیا۔25

حضرت عبد المطلب

رسول مکرم ﷺ کے محترم دادا"عبدالمطلب" اس لیے کہلائےکہ آپ کے والد ہشام مكّہ مکرّمہ میں تھے، جب ان کی وفات کاوقت ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی سےکہا: اپنے غلام کو یثرب (مدینہ منوّرہ)سے لاؤ۔ اس لیے آپ کا نام عبدالمطلب پڑگیا۔ آپ کے چچا مطلب آپ کو اپنے پیچھے بٹھا کر مكّہ مكرّمہ لائے۔ آپ کا لباس اچھا نہ تھا چنانچہ ان سے پوچھا جاتا تو وہ کہتے یہ میرا غلام ہے۔ جب ان کو شہر میں لے آئےاوران کی (ظاہری) حالت درست کردی تو ظاہر کیا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔اس لیے آپ کو عبدالمطلب کہا جاتا ہے۔26حضرت عبدالمطلب کااصل نام شیبہ الحمد تھااور یہ نام اس لیے رکھا گیا تھاکہ آپ کے سرمبارک میں پیدائشی طور پر کچھ سفید بال تھےجبکہ ایک قول یہ منقول ہوا کہ حضرت عبدالمطلب کااسم گرامی عامر تھا۔ 27حضرت عبدالمطلب کی کنیت ابوالحارث تھی کیونکہ حارث آپ کے سب سے بڑے بیٹے کا نام تھا۔ اہل عرب میں سب سے پہلے آپ ہی نے خضاب لگایا تھا۔28

حضرت عبدالمطلب کا جسم سفید تھا۔ وہ خوبصورت، طویل اور فصیح تھے۔ جو بھی ان کو دیکھتا ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتا۔ انہیں سقایہ اور رفادہ کا منصب ملا۔ ان کو اپنی قوم میں شرف اور قدر نصیب ہوا۔ ان میں نورِ نبوت اور سلطنت کی ہیبت دیکھی جا سکتی تھی۔ ان کے اخلاق حد و شمار سے ماوراء تھے۔ وہ قریش کے سردار تھے۔ نفیس طبیعت، حسن و جمال، رونق اور جملہ افعال میں ان کا ثانی نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت میں انہو ں نے خود پر شراب حرام کر رکھی تھی۔ ان کے کئی بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے ایک سو بیس (120)یا پچیاسی (85)سال کی عمر میں وفات پائی۔29

یہ چندسرداران اور اشراف عرب تھے جو اہل عرب کے ہاں قدر ومنزلت کی نظروں سے دیکھے جاتےتھے جن کا تعلق عرب کے ممتاز ترین قبائل سے تھااور ان اہل عرب کے ممتاز ترین قبائل میں سب سے زیادہ ممتاز قبیلہ قریش کا سمجھا جاتا تھا۔

اشرافِ عرب

عرب میں سے قریش کو اللہ نے یہ مقام و مرتبہ دیا کہ اہل عرب نے انہیں" اشرافِ عرب" کا خطاب دیا چنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابو الحسن علی ند وی تحریر کرتے ہیں:

  «قريش» وأقرّ أهل العرب كلّهم لقريش بعلو النّسب والسيادة وفصاحة اللغة ونصاعة البيان وكرم الأخلاق والشجاعة.30
  تمام اہلِ عرب نے قبیلہ قریش کے لیے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ عالی النسب، سیادت کے قابل، فصیح و بلیغ، اخلاق کریمانہ کا مالک اور شجاعت و دلیر ی کا حامل گروہ ہے۔

قريش كے اس شرف و بزرگی کو اللہ نے زمانہ جاہلیت میں بھی اس طور پر ظاہر کر دیا کہ زم زم کے کنویں کو قبیلہ قریش کے اہم ترین بزرگ حضرت عبد المطلب کے توسل سے ظاہر فرمایا جیساکہ درج ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے:

  بينا عبد المطلب ابن هاشم بن عبد مناف نائماً في الحجر، عند الكعبة، أتى، فأمر بحفر زمزم….فخرج عبد المطلب إلى قريش فقال: يا معشر قريش إني قد أمرت أن أحفر زمزم فقالوا له: أبين لك أين هي؟ فقال لا قالوا: فارجع إلى مضجعك الذي أريت فيه ما أريت فإن كان حقاً من الله عز وجل بين لك وإن كان من الشيطان لم يعد إليك فرجع فنام في مضجعه فأتى فقيل له: احفر زمزم إنك إن حفرتها لم تندم هي تراث من أبيك الأقدم فقال حين قيل له ذلك: أين هي؟ فقيل له: عند قرية النمل حيث ينقر الغراب غداً فغدا عبد المطلب ومعه الحارث ابنه ليس له ولد غيره، فوجد قرية النمل ووجد الغراب ينقر عندها بين الوثنين إساف ونائلة اللذين كانت قريش تنحر عندهما.31
ترجمہ: عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف حجر اسود کے پاس سو رہے تھے کہ اثنا٫ نیند خواب دیکھا کہ کوئی انہیں زم زم کا کنواں کھودنے کا حکم دے رہا ہے۔جب بیدار ہوئے تو قریش کو جمع کیا اور خواب سنایا۔انہوں نے پوچھا کہ کہاں کھودنا ہے ؟ عبد المطلب نے فرمایا جگہ تو نہیں بتائی گئی توقریش بولے آپ دوبارہ وہیں سو جایئے اگر یہ خواب حقیقت ہوا تو دوبارہ آپ ملاحظہ کریں گے تب آپ جگہ کا بھی پوچھ لیجیے گا لہٰذا عبدالمطلب دوبارہ سو گئے۔ اب جب خواب دیکھا تو جگہ کا معلوم کیا، جواب ملا کہ وادئ نمل کے پاس کھودنا ہے جہاں کل ایک کوّا زمین کھودتا ہو ا دکھائی دےگا۔ دوسرے روز عبد المطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ وہاں گئے تو دیکھا کہ اساف اور نائلہ کے درمیان جہاں قریش قربانی کیا کرتے تھے ایک کوّا زمین کھود رہا ہے۔

اور پھر اس مبارک قریشی بزرگ کے خواب کی بنا پر انہیں دوبارہ زمزم سے مستفید کیاگیا۔

اشرافِ قریش

قریش میں سے بھی بعض افراد شرف ومرتبہ کے لحاظ سے دور جاہلی میں مشہور ومعروف ہوئے۔قریش کے وہ افراد جن کو شرف حاصل رہا تاآنکہ نورِ اسلام چمکا وہ دس خاندانوں کے دس آدمی تھے: ہاشم، امیہ، نوفل، عبدالدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح اور سہم۔ بنی ہاشم میں سے عباس بن عبدالمطلبتھے جو جاہلیت میں حاجیوں کو پانی پلایا کرتے تھے اور یہی خدمت اسلام میں بھی ان کے سپرد رہی۔ بنی امیہ میں سے ابوسفیان بن حرب تھے۔ ان کے پاس قریش کا جھنڈا عقاب تھا۔ جس شخص کے پاس یہ جھنڈا ہوتا وہ جنگ کے وقت اسے نکالتا پھر جس شخص پر قریش اتفاق کر لیتے اسے عقاب دے دیا جاتا اور اگر وہ کسی پر متفق نہ ہوتے تو اس کے قابض کو ہی سردار بنا کر اسے آگے کر دیتے۔ بنی نوفل میں سے الحارث بن عامر تھے۔ ان کے پاس رفادہ کا عہدہ تھا۔ یہ وہ رقم تھی جسے قریش اپنے مال میں سے نکال کر ان حاجیوں کی مدد کیا کرتےتھے جن حاجیوں کا زادِراہ ختم ہو جاتا۔ بنی عبدالدار میں سے عثمان بن طلحہ تھے۔ ان کے پاس جھنڈا، کعبہ کی خدمت گزاری اور دربانی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ ندوہ بھی بنی عبدالدار کے پاس تھا۔ بنی اسد میں سے یزید بن زمعہ بن الاسود تھے۔ ان کے پاس "مشورہ" تھا اور یہ اس طرح کہ روسائے قریش کسی بات پر اس وقت تک متفق نہ ہوتے تھے جب تک ان کے سامنے پیش نہ کرلیتے۔ اگر وہ ان کی موافقت کرتے تو ان کو اس کام پر مقرر کر دیتے ورنہ کوئی اور طریقہ اختیار کرتے، قریش ان کی مدد کرتے تھے۔ یہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے لڑتے ہوئے طائف میں شہید ہوئے۔ بنی تیم میں سے ابوبکر صدیق تھے۔ ان کے پاس جاہلیت میں اشناق تھیں۔ اشناق دیت اور تاوان کو کہتے ہیں چنانچہ جب یہ کسی دیت کو ادا کرنےکی ذمہ داری لے لیتے اور قریش سے دریافت کرتے تو وہ ان کی تائید کرتے اور اس شخص کی دیت کی ذمہ داری کی تصدیق کردیتے۔ اگر کوئی دوسرا شخص یہ ذمہ داری اٹھاتا تو قریش اس کا ساتھ نہ دیتے۔ بنی مخزوم میں سے خالد بن الولید تھے۔ ان کے ذمہ "قبہ" اور "اعینۃ" تھا۔ قبہ یہ تھا کہ قریش خیمہ گاڑتے اور اس میں تمام وہ آلات و اسباب جمع کرتے جن سے وہ فوج کو لیس کرتےاور "اعینۃ" یہ تھا کہ خالد بن الولید جنگ کے موقع پر گھڑ سواروں کے سردار ہوتے۔ بنی عدی میں سے عمر بن الخطاب تھے۔ ان کے پاس جاہلیت میں سفارت کا عہدہ تھا۔ جب قریش اور کسی اورقوم کے درمیان جنگ چھڑجاتی تو انہیں سفیر بنا کر بھیجا جاتا اور کوئی قبیلہ ان سے فخریہ مقابلہ کرنا چاہتا تو بھی انہیں کو مفاخرت کے لیے بھیجا جاتا تھا اور قریش ان پر رضامند ہو جاتے تھے۔ بنی جمح میں سے صفوان بن امیہ تھا۔ ان کے پاس تیر ہوا کرتے تھےچنانچہ کسی عام مفاد کی بات کے لیے کوئی شخص ان سے پہلے قدم نہ اٹھا تا۔ بنی سہم میں الحارث بن قیس تھے۔ ان کے پاس حکومت اور وہ مال ہوتے جنہیں وہ اپنے خاندانوں کے لیےوقف رکھتے تھے۔32

اس کے علا وہ چونکہ حج کاموقع تجارتی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل تھا اور مذہبی اکائی میں ڈھلنے کے لیے بھی کعبہ کی حیثیت مرکزی تھی اس لیے ان تمام نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے قصی نے قریش کو مخاطب کیا اور سقایہ و رفادہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور کھانا کھلانالازم قرار دے کر ان سے ایک اہم خطاب کیا چنانچہ ابن ہشام تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

  يا معشر قريش إنكم جيران الله وأهل بيته وأهل الحرم وإن الحاج ضيف الله وزوار بيته وهم أحق الضيف بالكرامة فاجعلوا لهم طعاما وشرابا أيام الحج حتى يصدروا عنكم ففعلوا.33
  اے جماعت قریش! تم اللہ تعالیٰ کےپڑوس میں ہو، اللہ کے گھر والے ہو، اہل حرم ہو، حاجی اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اوراس کے گھر کی زیارت کرنے والے ہیں لہٰذا یہ مہمانوں سے زیادہ عزت کے مستحق ہیں لہٰذا تم بھی ان کے لیے حج کے دنوں میں کھانے اورپینے کا انتظام کرو اور یہ انتظام اس وقت تک کے لیے ہو جب تک وہ تمہارے یہاں سے رخصت نہ ہو جائیں۔

قریش کی اس بلندئِ مرتبت کا ہی نتیجہ ہوا کہ انہیں کعبہ کے قرب و جوار میں سکونت عطا٫ ہوئی جس کی وجہ سے قریش حاجیوں کی آسائش کے لیے ہر سال اپنے مال و دولت میں سے کچھ مقدار لے کر قصی کے سپرد کر دیا کرتے تھے جو منٰی کے دنوں میں اور مکے میں لوگوں کو اسی آمدنی سے کھانا کھلاتے اور پانی کے لیے حوض تیار کرواتے جن سے مكّہ ، منٰی اورعرفات میں لوگ سیراب ہوتے۔ جاہلیت میں ہمیشہ یہ قانون جاری رہا اور قصی کی قوم اسی پر عمل کرتی رہی۔ 34اس خاندان نے حاجیوں کی خدمت کے لیے اپنی خدمات بہترین طریقے سے وقف کیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے۔یہ حاجیوں کو کھانا کھلاتے اور سیراب کرنے کا انتظام کرتے۔ مکے میں حاجیوں کو سیراب کرنے کے لیے انہوں نے باقاعدہ حوض بنائے اور ایک منظم انداز میں اس خدمت کو سر انجام دیا جو قصی خاندان کی تنظیم بندی کا شاہکارتھا۔

قصی کا نظام

قصی کا نظام بہت شاندار تھا لیکن ہر نظام کو آگے کی نسلوں تک بڑھانا بھی ایک کا ر ِعظیم ہو تا ہے ورنہ عظیم ادارےبھی رفتہ رفتہ آثارِ کُہْنَہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں لہٰذا قصی نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو اپنی نسل میں منتقل کرنے کے لیے اپنی اولاد میں سے سب سے بڑے بیٹے عبدالدار کو منتخب کیا۔ جس کے بارے میں مشہور تاریخ نویس علامہ ابن جریر طبری لکھتے ہیں:

  فلما كبر قصي ورق وكان عبد الدار بكره هوكان اكبر ولده وكان فيما يزعمون ضعيفا وكان عبد مناف قد شرف في زمان ابيه وذهب كل مذهب وعبد العزي بن قصي وعبد ابن قصي فقال قصي لعبد الدار فيام يزعمون اما والله لالحقنك بالقوم وان كانوا قد شرفوا عليك لايدخل رجل منهم الكعبة حتي تكون انت تفتحها و لايعقد لقريش لواء لهربهم الا انت بيدك ولايشرب رجل بمكة ماء الا من سقايتك و لاياكل احد من اهل الموسم طعاما الا من طعامك و لاتقع قريش امورها لا افي دارك فاعطاه داره دارالندوة التي لاتقجي قريش امرا الا فيها اعطاه الحجابة واللواء والندوة والسقايه والرفادة. 35
  جب وہ (قصی )بہت بوڑھےاور ضعیف ہو ئے، اس وقت عبدالدار (ان کا سب سے برا بیٹا )بھی ضعیف ہو چکا تھا البتہ عبد مناف اپنے باپ کے سامنے ہی بڑا معزز آدمی ہو گیا تھا جسے دنیا کا ہر طرح کا تجربہ تھا اور عبدا لعزیٰ بن قصی اور عبد بن قصی سب مل کر چار بیٹے تھے۔ قصی نے اپنے بیٹے عبدالدار سے کہا کہ میں تجھے اپنی قوم سے ملاتا ہوں اگر چہ وہ تجھ سے شرافت میں بڑھ گئے مگر اس کی کوئی پرواہ نہیں جب تک تو کعبہ کا دروازہ نہ کھولے ان میں سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو گا، تیرے سوا کوئی دوسرا لڑائی کے لیے جھنڈا نہیں باندھے گا، سب تیرے ہی سقایہ سے پانی پئیں گے، حج کے زمانے میں سب تیرے یہاں مہمان ہوں گے اور تیرے ہی مکان میں قریش اپنے تمام معاملات طے کریں گے۔ قصی نے اپنا دارالندوہ جہاں قریش تمام معاملات طے کیا کرتے تھے اسے دے دیا اور کعبہ کی حجابت، لواء، سقایہ اور رفادہ بھی اسی کے متعلق کر دیا۔

یعنی کعبہ معظمہ سے متعلق سارے امور کی نگرانی اسی کو دے دی۔اسی مذکورہ بالا عبارت کو ابوشہبہ نے بهی اپنی کتاب میں نقل کیاہے۔36ان تمام تر تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اہلِ عرب میں قریش کا قبیلہ انتہائی قدرو منزلت اور ممتاز حیثیت کا حامل رہا ،دیگر عرب قبائل ہمیشہ سے اس کی تعظیم وتوقیر کرتے چلے آئے اور کئی اہم معاملات ان کے زیرِ سرپرستی چلاتے آئے۔مذکورہ بالاتمام وہ عہدے تھے جو قریش میں منتقل ہوتے رہے جن کے نام اور اہمیت درج ذیل ہے:

عہدہ حجابہ

قصی نے اپنے اقتدار کو شان و شوکت عطاکرنے کے لیے کچھ عہدے یا مناصب تشکیل دیےتھے جو انتظامی امور کو سہل طریقے سے انجام دینے کے لیے تھے اوران میں عہدہ حجابہ، عہدہ رفادہ اور عہدہ سقایہ اہم ترین عہدے شمارکیے جاتے تھے۔ عہدہ حجابہ وہ اہم عہدہ تھا جو اہلیانِ عرب کے تمام افراد کے درمیان مرکزی حیثیت رکھتا تھاجیساکہ ذیلی اقتباس سے معلوم ہوتاہے:

  الحجابة أو السدانة: والمقصود بها حراسة مفاتيح الكعبة وكانت وظيفة دينية مهمة وضعت في يد بني عبد الدار بن قصي ولما أسلمت مكة بعد الفتح ظلت السدانة في يد عثمان بن طلحة من بني عبد الدار وقد قال لهم رسول الله صلي الله عليه وسلم: خذوها تالدة خالدة إلى يوم القيامة لا ينزعها منكم إلا ظالم.37
  حجابہ اور سدانہ بہت اہم عہدے تھے جس میں خانہ کعبہ کی چابیاں اور اس کی نذر و نیاز کی حفاظت کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ یہ عہدہ قصئ نے بنی عبد الدار کے حوالہ کیا ہوا تھا۔جب مكّہ فتح ہو گیا تو نبی ﷺ نے یہ عہدہ ان سے لے کر حضرت عثمان بن طلحہ کے حوالہ کر دیا اور فرمایا قیامت تک کے لیے یہ عہدہ تمہارے پاس ہی رہے گا جو اسے تم سے لینے کی کوشش کرےگا وہ ظالم ہی ہوگا۔

یعنی یہ عہدہ بھی قریش ہی کے مناصب میں شامل تھا جس سے قریش کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عہدہ رفادہ

اس کا مطلب اللہ تبارک وتعالیٰ کے مہمانوں کے لیے ضیافت کا انتظام کرنا تھا۔ رفادہ کی ذمہ داری قصی کے پاس تھی چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سیرت ابن ہشام میں امام ابن ہشام تحریر فرماتے ہیں:

  وكانت الرفادة خرجا تخرجه قريش في كل موسم من أموالها إلى قصي بن كلاب، فيصنع به طعاما للحاج فيأكله من لم يكن له سعة ولا زاد وذلك أن قصيا فرضه علي قريش.38
  رفادہ ایک ٹیکس تھا جو قریش ہر موسم میں اپنے اموال میں سے نکا ل کرقصی بن کلاب کو دیا کرتے تھے جس سےوہ حج کے ایام میں حجاج کے لیے کھانے کا انتظام کیا کرتے تھے اور اس سے ہر وہ حاجی کھانا کھاتا تھا جس کے پاس کھانے کی گنجائش اور ساز و سامان نہیں ہوتا تھا۔ یہ انتظام اس لیے ہوجاتا تھا کہ قصی نے قبیلہ قریش پر اس ٹیکس کی ادائیگی کو لازمی قرار دے رکھا تھا۔

اس عہدہ سے بھی قبیلہ قریش کی دیگر قبائلِ عرب پر شرف و برتری واضح ہوتی ہے کہ قصی کی جانب سے عائد کی گئی ایک اہم ذمہ داری کو وہ کس حسنِ خوبی سے ہر موسم میں ادا کرتے اور پھر اس سے کھانا کھلانے کے انتظام کی دیکھ بھال کرکے بیت اللہ کے حاجیوں اور اس کے زائرین کی خدمت سر انجام دیتے تھے۔

عہدہ سقایہ

اسی طرح عہدہ سقایہ بھی قبیلہ قریش ہی کے پاس تھا جو حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پر مشتمل تھا جس کے لیے باقاعدہ ایک نظام قائم تھا اور اس کے تحت حاجیوں کو پانی پلایا جاتا تھا۔حاجیو ں کی ضیافت کے لیے پانی کے ذخائر جمع کیے جاتے، ان کو حوض میں جمع کیا جاتااور کشمش ڈال کر میٹھا بھی کیا جاتا۔ یہ پانی اتنا وافر مقدار میں ہوتا کہ مكّہ ، منیٰ اور عرفات کے لوگ سیراب ہوجاتے تھے۔ 39

مذکورہ بالا تمام تفاصیل سے واضح ہوتا ہے کہ اہل عرب کی تاریخ قدیم ہے اور ان میں کئی قبائل مختلف مقامات سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے اور یہ تمام قبائل سامی النسل تھے۔ان مختلف عربی قبائل میں کئی قبائل اور سردار ممتاز تھے لیکن تمام اہلِ عرب جس قبیلہ کی سیادت و سیاست، عالی نسبی، فصاحت و بلاغت، اخلاقِ حسنہ اور شجاعت و دلیر ی کے متفقہ طور پر قائل تھےوہ قريش کا قبیلہ تھا جس كو الله نے یہ فضيلت دی کہ وہ اشرافِ عرب كہلائے40اورقریش کے علاوہ تمام دوسرےلوگوں نے ان کے شرف وعظمت کونہ صرف تسلیم کیا بلکہ موقع بہ موقع اطاعت وفرمانبرداری سے اس کاثبوت بھی فراہم کیا۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے انہيں اپنے گهر كے اطراف، اقامت و مسكنت عطا كی جہاں وه حجاج كی ضيافت اور مہمان نوازی كيا كرتے تهے اور اہل عرب بھی اس پر اس لیے رضامند تھے کہ ان کے نزدیک یہ خدمت انتہائی شرف وعظمت والی تھی جس کے لیے ان کی نظر میں فقط قریش ہی اس کے اہل تھے۔

 


  • 1 ابو حاتم محمد بن حبان الدارمی، صحيح ابن حبان، حدیث:361، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 1408ھ، ص: 77
  • 2 ابو عبد الله مصعب بن عبد الله الزبیري، نسب قریش، مطبوعة: دار المعارف، القاہرة، مصر، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 364
  • 3 ابو فيد مورج بن عمرو السدوسی، حذف من نسب قریش، مطبوعة: مکتبۃ دارالعروبة، القاہرۃ، مصر، 1960م، ص: 54
  • 4 ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:1 -2
  • 5 علامہ غلام رسول سعیدی، نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری، ج-1، مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص: 131
  • 6 ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4953، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 886 -887
  • 7 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-8، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1379ھ، ص: 720
  • 8 أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1956م، ص: 87
  • 9 أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجيل، بيروت، لبنان، 1992م، ص:1201
  • 10 أبو الحسن علي بن أبي الكرم ابن الأثير الجزری، أسد الغابة فی معرفۃ الصحابۃ، ج-3، مطبوعۃ: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1989م، ص: 770
  • 11 أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجيل، بيروت، لبنان، 1992م، ص: 1202
  • 12 أبو الفرج عبد الرحمن بن علی ابن الجوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، ج-4، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1992 م، ص: 282
  • 13 ایضاً
  • 14 أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجيل، بيروت، لبنان، 1992م، ص:1201
  • 15 أبو الحسن علي بن أبي الكرم ابن الأثير الجزری، أسد الغابة فی معرفۃ الصحابۃ، ج-3، مطبوعۃ: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1989م، ص: 770
  • 16 أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة الدينوري، المعارف، مطبوعۃ: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر، 1992م، ص: 299
  • 17 أبو الفرج عبد الرحمن بن علی ابن الجوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، ج-4، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1992 م، ص: 285
  • 18 خير الدين بن محمود الزركلي، الأعلام، ج-8، مطبوعة: دار العلم للملايين، القاهرة، مصر، 2002م، ص: 122
  • 19 أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 459
  • 20 أبو الحسن علي بن أبي الكرم ابن الأثيرالجزری، الكامل في التاريخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، 1997م، ص: 670
  • 21 أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة الدينوري، المعارف، مطبوعة: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر، 1992 م، ص: 576
  • 22 ابو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية لابن هشام، ج-1، مطبوعة: شركة مكتبة ومطبعة مصطفي البابي الحلبي واولاده، القاهرة، مصر، 1955م، ص: 358
  • 23 ایضاً، ص: 644
  • 24 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ طبری(مترجم:سیّدمحمد ابراہیم ندوی)،ج-2 ، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان،2004ء، ص: 32ـ33
  • 25 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرت خیر العباد(مترجم: پروفیسرذوالفقارعلی ساقی)، ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلشرز، لاہور، پاکستان،2012ء، ص: 226ـ229
  • 26 شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواہب اللدنیہ بالمنح المحمیدیہ(مترجم:مولا محمد صدیق ہزاروی)،ج-1، مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2011ء، ص: 57-58
  • 27 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 5
  • 28 شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواہب اللدنیہ بالمنح المحمیدیہ(مترجم:مولا محمد صدیق ہزاروی)، ج-1، مطبوعۃ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2011ء، ص: 57-58
  • 29 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرت خیرالعباد(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1، مطبوعۃ: زاویہ پبلیشر، لاہور، پاکستان،2012ء، ص: 225
  • 30 أبو الحسن علي الندوي، السيرة النبوية لأبي الحسن الندوي، مطبوعۃ: دار ابن كثير، دمشق، السوریۃ، 1425 هـ، ص:121
  • 31 محمد بن اسحاق المطلبی، سيرة ابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1978م، ص: 23
  • 32 سید محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم: ڈاکٹر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ،لاہور، پاکستان، 2011ء، ص: 533-534
  • 33 امام ابو محمد عبد الملك بن هشام المعافری، السيرة النبوية لابن هشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955 م، ص: 130
  • 34 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الكبریٰ(مترجم: عبد اللہ العمادی )، ج -1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراچی، پاکستان، (سنِ اشاعت ندارد)، ص: 84 -85
  • 35 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-2، مطبوعۃ: مطبعۃ الاستقامۃ، القاہرہ، مصر، 1939م، ص: 19
  • 36 ابو شھبۃ محمد بن محمد بن سویلم، السیرۃالنبویۃ علی ضوءالقرآن والسنۃ، مطبوعۃ: دارالقلم، دمشق، السوریۃ، 1427ھ، ص: 149
  • 37 شیخ محمد الطيب النجار، القول المبين في سيرة سيد المرسلين، مطبوعۃ: دار الندوة الجديدة، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 50
  • 38 ابو محمد عبد الملک بن ہشام، السیرۃ النبویہ(مترجم :اسماعیل پانی پتی)، مطبوعہ: مقبول اکیڈمی، لاہور، پاکستان، 1961ء، ص: 72
  • 39 شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعة: دار الهلال، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 23
  • 40 ابو الحسن علي الندوي، السيرة النبوية لأبي الحسن الندوي، مطبوعۃ: دار ابن كثير، دمشق، السوریۃ، 1425 هـ، ص:121