Encyclopedia of Muhammad
پیدائش: 525 عیسوی وفات: 41 ہجری والد: كلثوم بن مالك والدہ: لیلی بنت مہلہل اولاد: 3 بیٹے، ایک بیٹی کنیت: أبوالأسود، أبوعمير، أبو عباد قبیلہ: بنو تغلب

عمرو بن كلثوم

عمرو بن كلثوم اہل عرب کا ممتاز شخص تھا یہ عرب کے مشہور سردار کلیب بن مہلہل کا بھانجا تھا۔1 اس میں کئی ایک اوصاف حمیدہ پائے جاتے تھے جو قبیلہ کے افراد میں اس کی امتیازی شان کا سبب تھے اور ان ہی اوصاف کی بنا پر یہ فقط پندرہ سال کی عمر میں ہی اپنی قوم کا سردار منتخب ہو گیا تھا نیز عزت نفس، خودی و خود داری میں اس کا جواب نہیں تھا۔2

پیدائش او ر خاندان

عمرو بن کلثوم کا تعلق بنی تغلب بن وائل کے خاندان سے تھااور اس کا سلسلہ نسب عدنان تک پہنچتا ہے نیزاس کی پیدائش کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  أما تاريخ ولادته فلا نعرف عنه شيئا إذ لم تذكره المصادر التي بين أيدينا، وقد جعل كوسين دي برسفال مولده حوالي السنة 525م، وكل ما نستطيع تأكيده هو أن الشاعرعاصر عمرو بن هند، 554م- 570م، وأنه أدرك النعمان بن المنذر، 580م- 602م، فهجاه.3
  بہر حال اس کی تاریخ ولاد ت کے بارے میں ہم زیادہ کچھ نہیں جانتے کیونکہ جو ہمارے سامنے مصاد رہیں انہوں نے اس کو بیان نہیں کیا البتہ کوسین دی برسفال نے اس کی پیدائش پانچ سو پچیس (525) عیسوی بتائی ہے۔اس کی مکمل تائید اس سے ہوتی ہے کہ اس شاعر نے عمر و بن ہند کا پانچ سو چوّن(554) عیسوی تا پانچ سو ستر(570)عیسوی کا زمانہ دیکھا ہے اور نعمان بن منذر کو بھی پایا اور اس کی برائی کی ہے جس کازمانہ پانچ سو اسی(580 )عیسوی تا چھ سو دو(602)عیسوی ہے۔

اس سے واضح ہوا کہ عمرو بن کلثوم کی پیدائش پانچ سو پچیس (525) عیسوی کے آس پاس ہے اور اس کے کئی دیگر شواہد بھی موجود ہیں۔عمرو بن کلثوم کا بنو تغلب بن وائل میں سے خاندانی تعلق عتاب نامی خاندان سے تھا4 اوراس کی پیدائش شمالی جزیرۃ العرب میں ہوئی تھی چنانچہ اس کے مقام پیدائش اور اس كی نشو نما کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئےابو عبد اللہ زوزونی تحریر کرتے ہیں:

  وأما مكان ولادته فهو أيضا غير معروف بالتحديد، وأغلب الظن أنه ولد في بلاد ربيعة، أي في شمالي الجزيرة العربية...فنشأ عمرو يكتنفه الشرف من الطرفين في قبيلة كانت من أقوى القبائل العربية في العصر الجاهلي، إن لم تكن أقواها، وقد قيل فيھا: "لو أبطأ الإسلام قليلا لأكلت بنو تغلب الناس" نشأ عمرو بن كلثوم إذن، في بيت من أسياد تغلب، هذه القبيلة المرهوبة الجانب، فكان من الطبيعي أن يكون معجبا بنفسه، فخورا بأهله وقومه، ويظهرأن شاعرنا توافرت لديه من الخصائل الحميدة كالشاعرية، والفروسية، والخطابة والكرم، والشجاعة، ما جعله يسود قومه في سن مبكرة، فقد ذكر أنه ساد قومه وهو ابن خمس عشرة سنة.5
  بہر حال اس کامقام پیدائش بھی حد بندی کے لحاظ سے غیر معروف ہے البتہ غالب گمان یہ ہے کہ یہ ربیعہ کے شہر یعنی شمالی جزیرۃ العرب میں پیدا ہوا۔۔۔وہیں پلا بڑا اور اس کو اس قبیلہ کے شرف و عظمت نے دونوں طرف سے گھیرے میں لےلیاجو دور جاہلی میں عربی قبائل میں طاقتور تھا گوکہ سب سے زیادہ نہ تھا۔اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اگر اسلام آنے میں تھوڑی دیر ہوجاتی تو بنو تغلب لوگوں کو کھاجاتے۔اب عمر وبن کلثوم بنو تغلب کے سرداروں کے خاندان میں پلا بڑا جو قبیلہ اپنی حیثیت میں رعب والا تھا تو طبعی طور پر یہ ہوا کہ عمر بن کلثوم خودخیالی کا اسیر ہوگیا اور اپنی قوم وخاندان پر فخر کرنے والا بن گیااور یہ بات ظاہرہے کہ ہمارے شاعر کے پاس کئی اچھے خصائل کا وافر حصہ تھا جیسے شاعری، شہہ سواری، خطابت، سخاوت اور شجاعت یعنی وہ تمام خوبیاں جنہوں نے اس کو نوجوانی کی عمر میں ہی قوم کا سردار بنادیا۔ پس تحقیق اس بات کاذکر کیا گیا ہے کہ اس نے اپنی قوم پر محض پندرہ (15)سال کی عمر میں حکمرانی کی۔

عمر وبن کلثوم کے مقام نشو نما کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب جواہر الادب یوں تحریر کرتے ہیں:

  نشأ عمرو في قبيلة تغلب بالجزيرة الفراتية.6
  عمر وبن کلثوم تغلب قبیلہ میں جزیرہ فراتیہ کے آس پاس پلا بڑھا۔

عمرو بن کلثوم نے بنو تغلب کے عام خاندان میں نہیں بلکہ اس کے سرداری والے خاندان میں نشو ونما پائی تھی اور اس وجہ سے عمر وبن کلثوم میں کئی ایسی خصائل کا پیدا ہونا لازمی و ضروری تھا جس بنا پر یہ اپنے ہم عمروں سے کئی ایک لحاظ سے بلند و بالا تھا اور پندرہ (15) سال کی عمر میں ہی قوم کی سیادت و سرداری کے عہدہ پر بیٹھ گیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ پندرہ (15) سال کی عمر میں قوم کا سردار بن گیا تھا بلکہ اس کی بہادری و شجاعت بھی ضرب المثل تھی کیونکہ اس کا ہمعصر بادشاہ عمرو بن ہندجو کافی شریراور اثر ورسوخ والا تھا، عمرو بن کلثوم نے اس کو قتل کردیا تھا چنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب تحریر کرتے ہیں:

  قا ل أبو عبيد البكري في شرح نوادر القالي عمرو بن كلثوم شاعر فارس جاهلي وهو أحد فتاك العرب وهو الذي فتك بعمرو بن هند.7
  ابو عبید بکری نے شرح نوادر القالی میں کہا ہے کہ عمر و بن کلثوم شاعر اور دور جاہلی کا شہہ سوا ر ہے۔اہل عرب کے جانبازوں میں سےایک ہے اور یہی ہے جس نے عمرو بن ہند کو قتل کرڈالا تھا۔

اسی طرح عمر و بن کلثوم کے دیگر خصائل اور عمر وبن ہند کے قتل کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وكان فارسا أبيا جريئا، حتى بلغ من أمره أن فتك بالطاغية عمرو بن هند، في بلاط سلطانه وكان عمرو بن كلثوم شجاعا مظفرا مقداما فتاكا وبه يضرب المثل في الفتك.8
  اور وہ عمرو شہہ سوار، خود دار اور دلیر تھا یہاں تک کہ ا س کا معاملہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ سرکشی کی بناپر اس نے عمرو بن ہند کو اسی کی سلطنت کے حاشیہ نشینوں کے درمیان قتل کردیا تھااور عمر وبن کلثوم بہادر، مضبوط، نڈر اور دلیر تھا اور دلیری میں اسی کی کہاوت کہی جاتی ہے۔

عمر و بن کلثوم کے عمرو بن ہند کو قتل کرنےکی وجہ صرف یہ تھی کہ عمروبن ہند کی ماں نےاس کی ماں سے ایک دعوت میں ذلت آمیزی کے ساتھ پلیٹ اٹھا کر دینے کو کہا تھا جس وجہ سے اس نے بھری محفل میں ہی اس بادشاہ کو قتل کردیا تھا۔9یہ اس کی بہادری و شجاعت کی اعلی ترین دلیل سمجھی جاتی تھی اور اسی وجہ سے اہل عرب کے ہاں ایک کہاوت مشہور ہوگئی تھی جس کو نقل کرتے ہوئے صاحب جمہرۃ الامثال تحریر کرتے ہیں:

  أفتك من عمرو بن كلثوم وذلك أنه فتك بعمرو بن هند في دار ملكه وانتھب رحله وارتحل موفورا لم يصب بشىء.10
  "فلاں عمر و بن کلثوم سے زیادہ دلیر ہے" اور یہ کہاوت اس لیے پڑی کہ عمر و بن کلثوم نے عمر و بن ہند کو اس کی اپنی سلطنت کے گھر میں قتل کیا تھا، اس کے کجاوےکو اپنے قبضہ میں لیا تھا اور وہاں سے بنا کچھ نقصان اٹھائے فی الفور ہی کوچ کرگیا تھا۔

ان تفاصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر و ایک دلیر و بہادر سردار تھا اور فن شاعری کے ساتھ ساتھ سخاوت وشجاعت کا بھی اعلی نمونہ تھا جس کی وجہ سے یہ اپنی قوم کا پندرہ (15)سا ل کی چھوٹی عمر میں سردار چن لیا گیا تھا۔

کنیت

عمر و بن کلثوم کی مختلف کنیتیں منقول ہوئی ہیں جن میں سے ایک کنیت ابو الاسودتھی اس کو بیان کرتے ہوئے صاحب جواہر الادب تحریر کرتے ہیں:

  هو أبو الأسود عمرو بن كلثوم بن مالك التغلبي.11
  وہ ابوالاسود عمرو بن کلثوم بن مالک التغلبی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ عمرو کی کنیت ابوالاسود ہے اور اسی کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وقد عرف بأبي الأسود.12
  اور یہ عمرو ابو الاسود کے نام سے معروف ومشہور ہے۔

جبکہ عمر و بن کلثوم کی ایک اور کنیت کو بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی تحریر کرتے ہیں:

  هو أبو عبّاد عمرو بن كلثوم بن مالك.13
  وہ ابوعبّاد عمرو بن کلثوم بن مالک ہے۔

جبکہ اس کی تیسری کنیت کو بیان کرتے ہوئے صاحب معجم الشعراء تحریرکرتے ہیں:

  يكنى أبا الأسود وقيل أبا عمير.14
  عمرو کی کنیت ابو الاسود ہے اور کہا گیا کہ ابو عمیر بھی ہے۔

اسی کنیت کو صاحب سمط اللآلی نے بھی بیان کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  وهو الذي فتك بعمرو بن هند، وكنيته أبو الأسود.15
  یہ وہی عمرو ہے جس نے عمرو بن ہند کو مارا تھا اور اس کی کنیت ابو الاسود ہے۔

کتب میں یہ کل تین کنیتیں منقول ہیں جن میں سے پہلی دونوں کنیتوں کی وجہ شایدیہ ہو کہ اس کے ایک بیٹے کا نام اسود ہے جبکہ دوسرے بیٹے کا نام عبّاد ہے جس وجہ سے اس کی ایک کنیت ابو اسود اور دوسری ابوعباد ہے۔16

نسب نامہ

عمر و بن کلثوم کا تعلق چونکہ بنی تغلب بن وائل سے ہے اور اس میں بھی عتابی خاندان سے جس کو بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتے ہیں:

  عمرو بن كلثوم هو من بنى تغلب، من بنى عتّاب، جاهلىّ (قديم).17
  عمرو بن کلثوم بنو تغلب کے دور جاہلی کے بنو عتاب خاندان سے ہے۔

او ر اس طرح اس کا نسب نامہ بنوعتاب اور پھر بنو تغلب سے ہوتا ہوا آگے تک پہنچتا ہے جس کوبیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  عمرو بن كلثوم بن مالك بن عتاب بن زهير التغلبي، من بني تغلب بن وائل، وينتھي نسبه إلى معد بن عدنان.18
  عمرو بن کلثوم بن مالک بن عتاب بن زہیر التغلبی بنوتغلب بن وائل سے ہے اور اس کا نسب معد بن عدنان تک پہنچتا ہے۔

جبکہ اس کے نسب نامہ کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی نے عتاب بن زہیرکے بجائے عتاب بن سعد بیان کیا ہے اوردو مزید کڑیاں بیان کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

  عمرو بن كلثوم بن مالك بن عتاب بن سعد بن زهير بن جشم.19
  عمرو بن کلثوم بن مالک بن عتاب بن سعد بن زہیر بن جشم۔

اور صاحب معجم الشعراء نے عتاب بن سعد کے بجائے عتاب بن ربیعہ بیان کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  عمرو بن كلثوم بن مالك بن عتاب بن ربيعة.20
  عمرو بن کلثوم بن مالک بن عتاب بن ربیعہ۔

اسی طرح عمر و کے نسب نامہ کو مزید کچھ کڑیوں کے ساتھ بیان کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب تحریر کرتے ہیں:

  عمرو بن كلثوم بن مالك بن عتاب بن سعد بن زهير بن جشم بن بكر بن حبيب بن عمرو بن غنم بن تغلب بن وائل.21
  عمرو بن کلثوم بن مالک بن عتاب بن سعد بن زہیر بن جشم بن بکر بن حبیب بن عمرو بن غنم بن تغلب بن وائل۔

جبکہ اسی نسب نامہ کو مزیداضافہ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ابو عبداللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  عمرو بن كلثوم بن مالك بن عتاب بن سعد بن زهير بن جشم بن بكر بن حبيب بن عمرو بن غنم بن تغلب بن وائل بن قاسط بن هنب بن أفصى بن دعمي بن جديلة بن أسد بن ربيعة بن نزار بن معد بن عدنان.22
  عمرو بن کلثوم بن مالک بن عتاب بن سعد بن زہیر بن جشم بن بکر بن حبیب بن عمرو بن غنم بن تغلب بن وائل بن قاسط بن ہنب بن افصیٰ بن دعمی بن جدیلہ بن اسد بن ربیعہ بن نزار بن معد بن عدنان۔

اس نسب نامہ میں گو کہ بعض مؤرخین نے ایک دو ناموں کی کمی بیشی بھی کی ہے لیکن مجموعی طور پر ان تمام تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ عمرو بن کلثوم کا نسب عتابی خاندان سے ہوتا ہوا بنو تغلب بن وائل اور پھر وہاں سے ہوتا ہوامعد بن عدنان تک پہنچتا ہے۔

والدین اور ان کا قبیلہ

عمرو كے والد كلثوم بن مالك اپنی قوم کے سرداروں میں سے تھے اور اہل عرب کے شہہ سوار شمار کیے جاتے تھے نیزعمرو کی ماں عرب کے مشہور سردار کلیب کی بہن لیلی بنت مہلہل تھی۔23اس کے والد کے حوالہ سےتذکرہ کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  كان والده من سادات قومه فتزوج ليلي بنت المهلهل.24
  عمروبن کلثوم کے والد اپنی قوم کے سرداروں میں سے تھے اور انہوں نے لیلی بنت المہلہل سے شادی کی۔

اس کی ماں کے خاندانی حالات اور رشتہ داروں کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وأم عمرو بن كلثوم، هي ابنة كليب بن ربيعة، المعروف بكليب وائل.25
  عمروبن کلثوم کی ماں، کلیب بن ربیعہ جو کلیبِ وائل کے نام سے معروف ہے کی بیٹی ہے۔

عمرو بن کلثوم کی ماں کی پیدائش پر اس کے والد یعنی عمرو کے نانا نے اہل عرب کے رسم ورواج کے مطابق اپنی ہی بیٹی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھاجس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وامه أسماء بنت مهلهل بن ربيعة ولما تزوج مهلهل هندا بنت عتيبة ولدت له جارية فقال لأمها: اقتليھا وغيبيھا فلما نام ھتف به هاتف يقول:
وعدد لا يجهل
في بطن بنت مهلهل
فاستيقظ فقال: أين بنتي فقالت: قتلتها فقال: لا وإله ربيعة كان أول من حلف بها ثم رباها وسماها أسماء وقيل ليلى وتزوجها كلثوم بن مالك فلما حملت بعمرو أتاها آت في المنام فقال:
يا لك ليلى من ولد
يقدم إقدام الأسد...
فلما ولدت عمرا اتاها ذلك الآتي فقال:
أنا زعيم لك أم عمرو
بماجد الجد كريم النجار.26
  عمرو کی ماں اسماء بنت مہلہل بن ربیعہ تھی۔جب مہلہل(یعنی عمرو کے نانا) نے ہند بنت عتیبہ (یعنی عمرو کی نانی)سے شادی کی تو ان کےہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس بنا پر مہلہل نے لڑکی کی ماں سے کہا کہ اس کو قتل کردو اور یہاں سے غائب کردو۔پھر جب وہ سویا تو کسی نظر نہ آنے والےکی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا:
مہلہل کی بیٹی کی قسمت میں بے شمار نعمتیں ہیں
یہ سن کر وہ جاگ گیا اور بیوی سےکہا کہ میری بیٹی کہا ں ہے تو بیوی نے جواب دیا کہ میں نے تو اسے ماردیا۔اس نےکہا ربیعہ کے خد اکی قسم نہیں، ایسا نہیں ہے اور یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ قسم اٹھائی پھر اس نے اس لڑکی کو پالا پوسا اور اس کا نام اسماء رکھا یا لیلیٰ رکھا اورپھر اس لڑکی سے کلثوم بن مالک نے شادی کی۔ جب یہ عمرو سے حاملہ ہوئی تو کوئی آنے والا اس کے خواب میں آیا اور اس نے کہا:
اے لیلی کے وہ بیٹے جو شیر کی طرح آرہا ہے
پھر جب عمروکی پیدائش ہوگئی تو وہی آنے والا عمرو کی والدہ کے پاس دوبارہ آیا اور کہا:
اے عمرو کی ماں میں تجھے ضمانت دیتاہوں ایسے بچے کی
جو انتہائی عظمت والا اور اعلیٰ حسب ونسب والا ہے۔

مذکورہ عبارت میں عمرو کی نانی کو ہند بنت عتیبہ کہا گیا ہے جبکہ صاحب سمط اللآلی نے اس کا نسب کچھ اور بیان کیا ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

  ولما تزوج مهلهل هند بنت نعج بن عتبة ولدت له جارية.27
  اور جب مہلہل نے ہند بنت نعج بن عتبہ سے شادی کی تو اس نے اس کی ایک لڑکی کو جنم دیا۔

اس میں انہوں نے ہند بنت عتیبہ کے بجائے ہند بنت نعج بن عتبہ بیان کیا ہے۔بہر حال عمرو بن کلثوم کی ماں جو عرب کے مشہور سردار کی بیٹی اورکلیب کی بہن تھی 28اس کی امرؤالقیس کی ماں سےرشتہ داری کو بیان کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب تحریر کرتے ہیں:

  وليلى بنت مهلهل أم عمرو بن كلثوم هي بنت أخي فاطمة بنت ربيعة أم امرء القيس.29
  اور لیلی بن مہلہل عمروبن کلثوم کی ماں (یہ) امرؤالقیس کی ماں فاطمہ بنت ربیعہ کے بھائی کی بیٹی ہے۔

یعنی امرؤالقیس کی ماں فاطمہ عمرو کی ماں لیلی کی رشتہ میں پھپھو تھی اور اس حساب سے امرؤالقیس عمرو بن کلثوم کا ماموں ہوا۔ بہر حال مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ عمرو بن کلثوم کے والدین اپنے اپنے قبیلوں میں باعظمت ومقتدر شمار کیےجاتے تھے اور اسی قدر ومنزلت کی بنا پر عمروبن کلثوم بھی قبیلہ والوں کی نظروں میں معتبر متصور ہوتا تھا۔

زندگی کی چند جھلکیاں

عمرو بن كلثوم كی زندگی ا س کے اپنے ہی قبیلہ میں بڑی شان وشوکت سے گزری اور یہ بڑے نازو نعم میں پلا بڑا نیز اس نے اپنی جائےپیدائش کے علاوہ بھی دیگر کئی عرب کے علاقوں کے سفر کیے جس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے صاحب الاعلام اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ولد في شمالي جزيرة العرب في بلاد ربيعة وتجوّل فيھا وفي الشام والعراق ونجد وكان من أعز الناس نفسا، وهو من الفتاك الشجعان ساد قومه (تغلب) وهو فتى، وعمر طويلا وهو الّذي قتل الملك عمرو بن هند.30
  اور عمرو بن کلثوم شمالی جزیرۃ العرب کے قبیلہ ربیعہ کے شہر میں پیدا ہوا اور اس شہر میں، شام، عراق اور نجد میں رہائش کے لیے منتقل ہوتا رہا۔یہ لوگوں میں سب سے باعزت شخص تھا اور نوجوان بہادروں میں سے تھا۔اپنی قوم تغلب کا نوجوانی میں ہی سردار بن گیا تھا اور طویل عمر پائی تھی نیز یہی وہ ہے جس نے بادشاہ عمرو بن ہند کو قتل کیا تھا۔

یہ اپنی قوم کا نوعمری ہی میں سردار بنا جس وقت اس کی عمر محض پندرہ(15) سال تھی اور اس کی قوم کے لوگوں نےاس کو سرداری کے منصب پر فائز کردیا تھا۔ اپنی قوم کے سرداری کے منصب پر فائز ہونے کے بعداس کی بقیہ زندگی بھی اپنی قوم کی مدافعت اور فلاح وبہبود کے خاطر گزری جس کو بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  أما أخباره، فلم يصلنا منھا إلا النزر القليل، ومنه أن الشاعر قضي حياته مدافعا عن قومه، مشاركا إياهم في الحروب والغزوات، متنقلا معهم كرا وفرا حتى وافته المنية وأهم أخباره ثلاثة: إنشاده لمعلقته مدافعا عن قومه عند عمرو بن هند، وقتله لعمرو بن هند، وأسره.31
  رہی اس کی زندگی کے احوال تو اس میں سے ہم تک بہت ہی کم واقعات پہنچے ہیں۔ان ہی حالات میں سے یہ ہے کہ اس شاعر نے اپنی زندگی اپنی قوم کی مدافعت کرتے اوران کے ساتھ جنگ وغزوات میں شامل رہتے گزاری نیز ان کے ساتھ حملہ کرنے اور بھاگنے میں شامل رہتے ہوئے گزاری یہاں تک کہ اس کو موت آگئی۔اس کی زندگی کے بارے میں تین اہم خبریں ہیں، پہلی عمرو بن ہند کے سامنے اس کا اپنی قوم کا دفاع کرتے ہوئے معلقہ کہنا، دوسری اس کا عمرو بن ہند کو قتل کرنا اور تیسری اس کا قید ہونا۔

اس مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ عمرو بن کلثوم کی زندگی کےبارے میں مفصل حالات منقول نہیں ہوئے بلکہ فقط چند ہی واقعات منقول ہوئے ہیں جن میں سے مذکورہ بالا تین واقعات اہم ترین ہیں۔

شادی اور اولاد

عمرو بن کلثوم کی شادی کے بارے میں تو کوئی واضح بات کتب تاریخ میں منقول نہیں ہے کہ جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ اس کی شادی کب اور کس خاندان میں ہوئی لیکن فقط صاحب المحبر نے اس کی ایک بیوی کو "بنت ثویر"یعنی ثویر کی بیٹی کہہ کراس کاذکر کیا ہے32 البتہ اس کے بیٹوں کاتذکرہ کتب میں جابجا منقول ہے جن کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  عمرو بن كلثوم، وبنوه: عبد اللّٰه والأسود، وهما شاعران كذلك، وعباد، وهو قاتل بشر بن عمرو بن عدس.33
  عمرو بن کلثوم اور اس کے دونوں بیٹے عبد اللہ اور اسود بھی شاعر ہیں۔اسی طرح عباد بھی (شاعر ہے)جو بشر بن عمرو بن عدس کا قاتل ہے۔

اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ عمرو بن کلثو م کے تین بیٹے تھے اور تینوں ہی اپنے باپ کی طرح شاعر تھے۔ علامہ آمدی نے بھی اپنی کتاب میں عمرو بن کلثوم کے شبیب نامی نواسے کا ایک شعر نقل کیا ہے جس میں اس نے اپنی ماں کے دکھ درد کو بیان کیا ہے۔34صاحب خزانۃ الادب نے اس شعر کو بمع تشریح اپنی کتاب میں نقل کیا ہےچنانچہ شعر میں ذکر کیے گئے ایک واقعہ کو بمع تشریح بیان کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

  لما رأت ماء السلى مشروبا
والفرث يعصر في الإناء أرنت
  والسلى بفتح السين المهملة والقصر هي الجلدة الرقيقة التي يكون الولد فيھا من المواشي وهي المشميمة له والفرث بالفتح: السرجين ما دام في الكرش وأرنت من الرنة وهو الصوت يقال: رنت ترن رنينا وأرنت إرنانا: إذا صاحت وإنما صاحت نوار وبكت لأنھا تيقنت في تلك المفازة الهلاك حيث لا ماء إلا ما يعصر من فرث الإبل وما يخرج من المشيمة من بطونھاوهذان البيتان اختلف في قائلهما: فقيل: شبيب بن جعيل التغلبي وهو جاهلي وإليه ذهب الآمدي في المؤتلف والمختلف قال: وشبيب هذا كان بنو قتيبة الباهليون أسروه في حرب كانت بينھم وبين بني تغلب فقال شبيب هذين البيتين لما رأى أمه نوار أرنت وهي بنت عمرو بن كلثوم.35
  جب اس نے جھلی کے پانی کو پینے کی نظر سے دیکھا جبکہ گوبر برتن میں نچڑ رہا تھا تو وہ چیخ پڑی۔
سلی سین مہملہ کی زبر اور مقصورہ کے ساتھ وہ پتلی سی جلد ہے جس میں چوپایوں کا بچہ ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے جھلی ہوتی ہے اورفرث زبر کے ساتھ وہ لید ہے جو اوجھڑی میں ہوتی ہے۔ارنت، رنۃ سے نکلا ہے اور اس کا معنی آواز ہے۔ کہا جاتا ہے رنت ترن رنینا وارنت ارنانا جب کوئی زور سے چیخے۔نوار صرف اس لیے چیخی اور روئی تھی کیونکہ اس کو یہ یقین آگیا تھا کہ و ہ اس تنگ گھاٹی میں ہلاک ہوجائے گی جہاں سوائے اونٹ کی لید میں سے اور پیٹ کی رحم والی جھلی میں سے پانی نچوڑنے کے سوا صاف پانی نہیں تھا۔ان دونوں شعروں کے شاعر کے بارے میں اختلاف کیاگیا ہے۔پس کہا گیا ہے کہ وہ شبیب بن جعیل تغلبی ہے جو دورجاہلی کا ہے اور اس طرف ہی علامہ آمدی اپنی کتاب المؤتلف والمختلف میں گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ شبیب وہ ہے جس کو بنو قتیبہ بن معن باہلیوں نے ان کے اور بنی تغلب کے درمیان ہونے والی جنگوںمیں قید کرلیا تھا تو شبیب نے یہ دونوں شعر اس وقت کہے جب اس نے اپنی ماں نوار کو چیختے دیکھا جو عمروبن کلثوم کی بیٹی تھی۔

اس مذکورہ بالا اقتباس کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر وبن کلثوم کی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام نوار بنت عمرو بن کلثوم تھا اور اس کا ایک شبیب نامی بیٹا بھی تھا جو شاعر تھا۔اسی طرح عمرو بن کلثوم ہی کی نسل میں سے کسی ایک کا واقعہ صاحب البیان والتبیین نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہےجس کو نقل کرتے ہوئے وہ تحریرکرتے ہیں:

  ودخل أبو مجلّز على قتيبة بخراسان، وهو يضرب رجالا بالعصي، فقال: أيھا الأمير، إن اللّٰه قد جعل لكل شيء قدرا، ووقّت فيه وقتا، فالعصا للأنعام والبھائم العظام، والسوط للحدود والتعزير، والدرة للأدب، والسيف لقتال العدو والقود ثم قال الشرقيّ: ولكن دعنا من هذا، خرجت من الموصل... فقلت له: ويلك، أما أنت مسلم وأنت رجل من العرب من ولد عمرو بن كلثوم؟ قال: بلى قلت فلم تضرب بالناقوس؟ قال: جعلت فداك! إن أبي نصراني، وهو صاحب البيعة، وهو شيخ ضعيف فخبرته بالذي أحصيت من خصال العصا، بعد أن كنت هممت أن أرمي بھا، فقال: واللّٰه لو حدثتك عن مناقب نفع العصا إلى الصبح لما استنفدتھا.36
  ابو مجلز نامی شخص خراسان کے قتیبہ نامی شخص کامہمان ہوا جو اپنے خادموں کو عصا یعنی ڈنڈوں سے مار رہا تھا۔اس نے کہا کہ اے امیر بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر چیز کی ایک مقدار رکھی ہے اور اس کا ایک وقت مقرر کیا ہے۔ پس عصا چوپاؤں اور بڑے جانوروں کے لیے ہے، کوڑا حدود وتعزیرات کے لیے ہے، سوٹا ادب سکھانے کےلیے ہے اور تلوار دشمن سے لڑنے اور قصاص کے لیے ہے۔پھر شرقی نے کہا کہ یہ سب چھوڑیں (میں حیرتناک واقعہ بتاتا ہوں کہ)میں موصل سے نکلا۔ ۔۔ تو اہل جزیرہ میں سے ایسانوجوان میرا ہمسفر بنا جس کے بعد میں نے اس جیسا اب تک نہیں دیکھا۔اس نے بتایا کہ وہ تغلبی ہے عمرو بن کلثوم کی اولاد میں سے اور اس کے پاس توشہ دان، چھوٹا ڈول اور عصا تھا۔میں نے اسے دیکھا کہ وہ عصا سے جدا نہیں ہوتا تھا اور اسے ہمیشہ ہی اپنےپاس رکھتا تھا جس سے مجھے شدیدغصہ آیا اور دل چاہا کہ میں اسے کسی وادی میں پھینک دوں۔ہم چلتے رہے اور جب ہمیں کوئی سواری میسر آتی تو ہم سوار ہوجاتے اور اگر نہ آتی تو پیدل ہی چلتے رہتے۔میں نے اس سے عصا کے بارے میں اپنی شکایت کی تو اس نے مجھ سے کہا: بلا شبہ حضرت موسیٰ بن عمران جب کوہ طور پر آگ لینے کے لیے گئے تھےاور اس سے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ حصہ لینے کا سوچاتھا تب بھی اتنی قلیل مسافت کے باوجود آگ کے پاس بغیر عصا کے نہیں گئے۔ پھر جب مقدس زمینی حصہ کی مبارک وادی میں پہنچے تو ان سے فرمایا گیا کہ اپنے عصا کو نیچے رکھیں اور اپنی نعلین اتارد یں تو حضرت موسیٰ نےان سے بےرغبتی برتتے ہوئے انہیں اتاردیا۔پھر جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس جگہ کو غیر شفاف چمڑے سے منزہ فرمادیا اور حضرت موسیٰ کی نبوت کے سارے عجائب و معجزات ان کے عصا میں رکھ دیے تو پھر ان سے درخت کے بیچ وبیچ سےکلام فرمایا نہ کہ کسی انسان یا جن کے بیچ سے۔شرقی نے کہا وہ نوجوان تو اس سے بھی زیادہ باتیں کرتا اور میں ان باتوں کی وجہ سےانہیں معمولی سمجھتے ہوئے ضرور ہنس جاتا۔ پھر جب ہم اپنے اپنے گدھوں پر سوار ہوتے تو کرایہ پر دینے والا پیچھے ہوجاتا، اس نوجوان کا گدھا چلتارہتا اور جب وہ سست ہوتا تو نوجوان اسے عصا کے ساتھ چلنے پر مجبورکرتا جبکہ میرا گدھا چل ہی نہیں رہا تھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ میرے ہاتھ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اسے چلنے پر مجبور کرسکتی ہے۔پس وہ نوجوان منزل پرمجھ سے پہلے پہنچ کر آرام کرنے کے لیے لیٹااور آرام کرنے لگا جبکہ میں اب تک پڑاؤ کرنے پر قادر نہیں ہوسکا یہاں تک کہ کرایہ والا بھی مجھ سے آملا۔میں نے دل میں کہا یہ عصاکا پہلا فائدہ ہوا۔پھر جب اگلی صبح ہم نے کوچ کا ارادہ کیا تو ہمیں کوئی سواری میسر نہیں آسکی کہ جس پر ہم سوار ہوسکیں تو ہم چلنے لگے پس جب وہ تھکتا تو عصا پر ٹیک لگا کر چلتا اور بسا اوقات جب اسے نیند آتی تو عصا کی ایک جانب کو زمین پر ٹکاتا اور اس پر (سونے کے لیے)ٹیک لگالیتا گویا کہ وہ زمین پر پڑا تیر ہے یہا ں تک کہ ہم منزل تک پہنچ گئے جبکہ میرا تھکاوٹ سے برا حال ہوچکا تھا اور اس نوجوان میں اب بھی کافی تروتازگی موجود تھی تو میں نے دل میں کہا کہ یہ عصا کا دوسرا فائدہ ہوا۔پھر جب سفر کا تیسرا دن ہوا اور ہم ایسی زمین پر تھے جو بڑے بڑے گڑھے اور پھٹن والی تھی کہ اچانک ہم ایک ہیبتناک سانپ کے سامنے آگئےاور اس نے ہم پر حملہ کردیامیرے پاس تو کوئی حیلہ نہیں تھا بچنے کا سوائے اس نوجوان کو پھسلاکر اس کو اس سانپ کے سپرد کردینے کا اور پھر اس سے بچ کر بھاگ جانےکا کہ اچانک اس نوجوان نے اس سانپ کو عصا سے مارا جس سے وہ پھول گیاپھر جب اس نے نوجوا ن کے لیے پھن پھیلایا اور اپنا سینا اٹھایا تو اس نے پھر مارا یہاں تک کہ اسے کاٹ دیا، پھر مارا یہاں تک کہ اسے جان سے ماردیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ عصا کا تیسرا فائدہ ہوا اور یہ ان میں سب سے بڑا فائدہ تھا۔۔۔پھر جب ہم جدائی کے موڑ پر پہنچے اور میں نے اس سے جدا ہونے کا ارادہ کیا تواس نے مجھ سےکہا کہ اگر آپ انصاف کریں اور میرے پاس ہی رات گزاریں تو میں ہمسفر ہونے کا حق ادا کرسکوں گا، ویسے بھی منزل تو قریب ہی ہے۔پس میں نے اس کے ساتھ انصاف کیا تو اس نے مجھے بیعہ کے ساتھ ہی ایک گھر میں داخل کردیا۔ راوی نے کہا کہ وہ پوری رات ہی مجھ سے نئی نئی باتیں کرتا رہا اور لطیفے سناتا رہا۔پھر جب صبح ہوئی تو اس نے ایک لکڑی لی پھر اس نے بعینہ اپنا عصا نکالا اور اس کے ذریعہ سے اس لکڑی کو کھٹکا تو(مجھے پتا چلا) کہ وہ عمدہ ناقوس (عیسائیوں کا عبادت کے لیے مخصوص گھنٹہ) تھا جس کی مثل دنیامیں نہیں تھا اور وہ نوجوان اس کو بجانے میں لوگوں میں ماہر ترین تھا تو میں نے اس سے کہا: تو ہلاک ہو کیا تو مسلمان نہیں ہےاور کیا تو عمرو بن کلثوم کی اولاد میں سے عرب کا مرد نہیں ہے؟تو اس نے کہا کہ بالکل ہوں تو میں نے کہا کہ پھر تو نے ناقوس کیوں بجایا؟اس نے کہا میں تیرے قربان ہوجاؤں میرا والد نصرانی ہے اور وہ اس بیعہ نامی جگہ کا مالک ہے اور انتہائی بوڑھا ہے۔۔۔پھرمیں نے اسے عصا کی تمام تر خوبیاں کو جو میں نے گنی تھیں وہ بتائیں بعد اس کے کہ میں نے تو اسے پھینک نے کاارادہ کرلیا تھا تو اس نے کہا: اللہ کی قسم اگر میں صبح تک تجھے عصا کے فوائد کے فضائل سناتا رہتا تو اتنا استفادہ نہیں کرسکتا تھا۔

مذکورہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ عمرو بن کلثوم کی اولاد میں تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ان کے علاوہ عمرو بن کلثوم کی مزید نسلیں بھی اسی کی زندگی میں پلی بڑھی جنہیں اس نے اپنی طویل عمری کی وجہ سے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا چنانچہ اس حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے شیخ مرزبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ورأى من ولده وولد ولده خلفاً كثيراً.37
  اس نے اپنی اولاد میں سے اور اپنی اولاد کی اولاد میں سے کثیر بچوں کو دیکھا۔

چونکہ عمرو بن کلثوم کافی طویل عمر میں فوت ہوا تھا جس وجہ سے اس نے اپنی آگے والی نسل کو پروان چڑھتے اور پھلتے پھولتے دیکھا تھا۔

شاعری میں مقام ومرتبہ

عمرو بن کلثوم کا شاعری میں مقام ومرتبہ مسلمہ ہے اور کئی بڑے بڑے ادباء نے اس کو طبقۂ اولی میں بھی شامل کیا ہے۔ صاحب الاعلام اس کے مقام ومرتبہ کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  عمرو بن كلثوم بن مالك بن عتّاب، من بني تغلب، أبو الأسود: شاعر جاهلي، من الطبقة الأولى.38
  عمرو بن کلثوم بن مالک بن عتّاب بنو تغلب سے ہے اور کنیت ابو الاسود ہے۔دور جاہلی کے طبقہ اولی کا شاعر ہے۔

جبکہ ڈاکٹر شوقی ضیف نے کہا ہے کہ بعض لوگوں نے اس کو طبقۂ ششم میں رکھا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  أما الطبقة السادسة فنظم فيھا عمرو بن كلثوم والحارث ابن حلّزة وعنترة.39
  رہا چھٹا طبقہ تو اس میں عمرو بن کلثوم، حارث ابن حلّزہ اور عنترہ کی نظمیں ہیں۔

ممکن ہے کہ ڈاکٹر شوقی ضیف کی مراد کہی گئی نظموں کی درجہ بندی بیان کرنا ہو کیونکہ عمرو بن کلثوم کا شاعری میں مقام ومرتبہ تو اعلی ہے چنانچہ اسی حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحبِ جمہرہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  قال الذين قدموا عمرو بن كلثوم: هو من قدماء الشعراء، وأعزهم نفسا، وأكثرهم امتناعا، وأجودهم واحدة قال عيسى بن عمر: للّٰه در عمرو بن كلثوم أي حلس شعر، ووعاء علم، لو أنه رغب فيما رغب فيه أصحابه من الشعراء، وإن واحدته لأجود سبعهم.40
  جن لوگوں نے عمرو بن کلثوم کو مقدم سمجھا ہے تو ان کے نزدیک وہ قدیم ترین شعراء میں سے تھا۔ سب سے زیادہ خودداراور ان میں اکثر منعیہ اشعار والا نیز ان سب میں ایک لاجواب نظم کہنے والا۔ عیسی بن عمر نے کہا کہ عمر و بن کلثوم کے لیے خوبی ہو یعنی تیز دھار شعر والے اور علم کے مکمل برتن کے لیے۔کاش کہ وہ ان چیزوں میں رغبت کرتا جن میں اس کے دیگر شعراء ساتھی مشغول ہوئے اور اس کی ایک ہی نظم ان ساتوں سےزیادہ شاندار ہے۔

عمرو بن کلثوم چونکہ اپنی قوم کا نوجوانی میں ہی سردار بن گیا تھا اس وجہ سے اس نے اپنی بقیہ زندگی اسی سرداری عہدہ پر اپنی قوم کے خاطر گزاری اور ایک قصیدہ اور چند اشعار کے سوا کچھ نہیں کہا۔ اسی وجہ سے عیسی بن عمر نے اپنے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ کاش کہ یہ بھی اپنے دیگر شاعر ساتھیوں کی طرح مزید نظمیں اور قصیدے کہتا تا کہ اس کا فن شاعری بھی مزید آشکارا ہوتا البتہ اس کا کہاگیا ایک ہی قصیدہ اس کی فصاحت و بلاغت اور اس کی شاعری میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اہل عرب نے اس کو معلّقات میں شامل کیااور اسی ایک قصیدۂ معلقہ کی بنا پر عمرو بن کلثوم عوام وخاص میں مشہور ہوا۔

قصیدہ معلّقہ

عمرو بن کلثوم کا یہ قصیدہ بھی ادب عربی کا بڑا شاہکار قصیدہ ہے اور اس کی زندگی میں شہرت کا سبب بھی ہے جس کے پس منظر کےحوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وأكثر ما كانت فتن تغلب مع أختھا بكر بن وائل بسبب حرب البسوس، وكان آخر صلح لهم على يد عمرو بن هند أحد ملوك الحيرة من آل المنذر، ولم تمضِ مدة حتى حدث بين وجوه القبيلتين مشاحة في مجلس عمرو بن هند قام أثناءها شاعر بكر (الحارث بن حلزة اليشكري) وأنشد قصيدته المشهورة، وما فرغ منھا حتى ظهر لعمرو بن كلثوم أن هوى الملك مع بكر، فانصرف ابن كلثوم وفي نفسه ما فيھا ثم خطر على نفس ابن هند أن يكسر من أنفة تغلب بإذلال سيدها وهو عمرو بن كلثوم فدعاه وأمه ليلى بنت مهلهل وأغرى هند أم أن تستخدمها في قضاء أمر، فصاحت ليلى، فثار به الغضب وقتل ابن هند لفي مجلسه، ثم رحل توا إلى بلاده بالجزيرة وأنشد معلقته.41
  حرب بسوس کی وجہ سے بنو تغلب کے اکثر فتنے اس کے بھائی بکر بن وائل کے ساتھ ہوئے۔ ان کی آپس میں آخری بار صلح آلِ منذر کے حیرہ کے بادشاہ عمرو بن ہند کے ہاتھ پر ہوئی تھی۔اس صلح کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دونوں قبیلوں کے معززین کےدرمیان عمرو بن ہند کی مجلس میں ہی جھگڑا پیدا ہوگیا اور اسی دوران بنو بکر کا شاعر حارث بن حلّزہ یشکری کھڑا ہوا اور اس نے اپنا مشہور قصیدہ کہا۔وہ اس سے فارغ بھی نہیں ہوا تھا کہ عمرو بن کلثوم کو محسوس ہوا کہ بادشاہ کا میلان اب قبیلہ بکر کی طرف ہوگیا ہے تو عمرو بن کلثوم وہاں سے اپنے دل میں انتقام کے جذبات لیے واپس لوٹا۔پھر عمرو بن ہند کے دل میں بات آئی کہ وہ بنو تغلب کی ناک ان کے سردار عمرو بن کلثوم کوذلیل کرنے کےساتھ توڑے تو اس نے عمر وبن کلثوم کو اور اس کی ماں لیلی بن مہلہل کوکھانے پہ بلایا اور ہند نے اپنی ماں کو اکسایا کہ وہ عمرو کی ماں سے کوئی خدمت لے تو لیلی اس پر چیخی جس سے عمرو کو شدید غصہ آیا اور اس نے اسی کی بھری مجلس میں ابن ہند کو قتل کردیا۔ پھر اپنے شہر جزیرہ لوٹ آیا اور اپنا مشہور قصیدہ معلقہ کہا۔

ابن کلثوم نے چونکہ بنو تغلب اور بنو بکر کے درمیان ہونے والی حرب بسوس میں تلوار کے بڑے جوہر دکھائے تھے اور پھر ان کے درمیان اس بادشاہ کے ذریعہ سے صلح ہوئی جو زیادہ دن برقرار نہ رہ سکی تھی تبھی اس بادشاہ کے اس ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے ابن کلثوم نے اس کو فوری قتل کردیا تھا۔ اس مذکورہ بالا اقتباس میں عمرو بن ہند کے جس ذلت آمیز سلوک کی بات کی گئی ہے اس واقعہ کو تفصیل سےنقل کرتے ہوئے صاحب المحبر اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وأما (عمرو) بن كلثوم فكان من فتكه أن عمرو بن المنذر بن ماء السماء اللخى ...كان شديد الملك، فقال يوما لجلسائه: «هل تعلمون أن أحدا من العرب من أهل مملكتي يأنف من أن تخدم أمه امي؟» قالوا: «نعم، عمرو بن كلثوم! فان امه ليلى بنت مهلهل بن ربيعة. وعمها كليب بن وائل. وزوجها كلثوم. وابنها عمرو» . فسكت عمرو على ما فى نفسه. ثم بعث إلى عمرو بن كلثوم يستزيره ويسأله أن يزير امه ليلى امه هندا.فقدم عمرو بن كلثوم في فرسان تغلب ومعه امه ليلى. فنزل على شاطئ الفرات. وبلغ عمرو بن هند قدومه فأمر بحجرته فضربت فيما بين الحيرة والفرات. وأرسل إلى وجوه أهل مملكته فصنع لهم طعاما. ثم دعا الناس إليه فقرب إليهم الطعام على باب السرادق.وهو وعمرو بن كلثوم وخواص من الناس في السرادق. ولاُمه هند في جانب السرادق قبة. وليلى ام عمرو بن كلثوم معها في القبة.وقد قال عمرو بن هند لأمه: «إذا فرغ الناس من الطعام فلم يبق إلا الطرف فنحى خدمك عنك. فإذا دعوت بالطرف فاستقدمى ليلى ومريها فلتناولك الشيء بعد الشيء» . ففعلت هند ما أمرها به. حتى إذا نادى بالطرف، قالت هند لليلى: «ناوليني ذلك الطبق» . قالت:
«لتقم صاحبة الحاجة إلى حاجتها» . فقالت: «ناوليني» وألحت عليها. فقالت ليلى: «وا ذلاه! يال تغلب» . فسمعها عمرو بن كلثوم فثار الدم فى وجهه والقوم يشربون. ونظر عمرو بن كلثوم فعرف الشر وقد سمع قول امه: «يال تغلب» ونظر إلى سيف عمرو بن هند معلقا في السرادق منصلتا. فضرب به رأس عمرو بن هند، فقتله. وخرج فنادى: «يال تغلب» . فانتهبوا ماله وخيله، وسبوا النساء، ولحقوا بالجزيرة.42
  بہر حال عمرو بن کلثوم کے مقابلہ بازی والے کارنامے میں سے یہ ہے کہ عمرو بن المنذر بن ماء السماء اللخمی۔۔۔ انتہائی جابر قسم کا بادشاہ تھا تو اس نے ایک دن اپنے ہمنشینوں سے کہا: کیا تم میری مملکت میں کسی ایک بھی ایسے عرب کو جانتے ہو جو اس بات کو نا پسند کرتا ہو کہ اس کی ماں میری ماں کی خدمت کرے؟تو انہوں نے کہا کہ ہاں وہ عمرو بن کلثوم ہے کیونکہ اس کی ماں لیلی بنت مہلہل بن ربیعہ ہے اور لیلی کا چاچا کلیب بن وائل ہے اور اس کا شوہر کلثوم ہے اور بیٹا عمرو ہے۔عمرو یہ سن کر اپنے دل کی بات بتانے سے خاموش ہوگیا پھر اس نے عمرو بن کلثوم کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ اس کی زیارت کا خواہش مند ہے اور اس سے یہ بھی کہا کہ اُس کی ماں لیلی اِس کی ماں کو بھی دیکھنے آئے۔پس یہ لوگ فرات کے کنارے پر وارد ہوئے اور عمرو بن ہند کو ان کے آنے کی خبر پہنچ گئی تو اس نے ان کے لیے حجرے بنانے کا حکم دیا اور حیرہ وفرات کے درمیان ان کے لیے حجرے بنادیے گئے۔ساتھ ہی ساتھ بادشاہ نے اپنی مملکت کے معززین کو بھی پیغام بھیج دیا اور ان سب کے لیے دعوت اور کھانے کا بندوبست کروایا پھر لوگوں کو کھانے پہ بلواکر شامیانہ کے دروازہ پر کھانا کھلایا جبکہ عمرو بن کلثوم اور معززین خیمہ میں ہی موجود تھے۔ عمرو کی ماں ہند کے لیے شامیانہ کے جانب ایک قبہ بناگیا تھا اور عمرو بن کلثوم کی ماں ا س کے ساتھ قبہ میں تھی اور عمرو بن ہند نے اپنی ماں سے کہہ دیا تھا کہ جب لوگ کھانے سے فارغ ہوجائیں اور بچا کچھا ہی باقی رہ جائے تب آپ کے خادم آپ سے بے توجہ ہوجائیں اور پھر جب آپ بقیہ بچا کچھا منگوائیں تو لیلی کو آگے کردیں اور اسے حکم دیں کہ یکے بعد دیگرے آپ کو چیزیں دیتی رہے۔پس ہند نے وہی کیا جس کا عمرو نے اسے حکم دیا یہاں تک کہ اس نے بچا کچھا منگوایا، ہند نے لیلی سے کہا کہ مجھے یہ تھال تو پکڑائیں تو لیلی نے کہا کہ ضرورتمند کو چاہیے کہ اپنی ضرورت خود پوری کرے۔اس نے پھر کہا کہ مجھے یہ تھال تو پکڑائیں اور اس پر زیادہ زور دیا تو لیلی نے کہا: اے آل تغلب یہ کیسی ذلت آمیزی ہے؟ تو اس بات کو عمرو بن کلثوم نے سن لیا جس وجہ سے اس کا چہرہ غم وغصہ سےبھر گیا جبکہ قوم مشروبات پی رہی تھی۔عمرو بن کلثوم نے دیکھا اور اس نے برائی کو بھانپ لیا اور اپنی ماں کا قول "اے آل تغلب" بھی سن لیا تھا۔اس نے دیکھا کہ شامیانہ میں عمرو بن ہند کے سر پر ہی ایک ننگی تلوار لٹک رہی ہے تو اس نے اسی تلوار سے عمرو بن ہند کا سر اڑادیا اور اسے قتل کردیا۔شامیانہ سے نکل کر اس نے پکارا: اے آل تغلب، تو انہوں نے اس بادشاہ کا مال اور گھوڑا اچک لیا اور اس کی بیویوں کو قیدی بنایا اور اپنے جزیرے پر واپس چلے گئے۔

پھروہاں جاکراس نے اپنامشہور معلقہ کہا اور اسی مشہور معلقہ کے حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے صاحب الاعلام اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  أشھر شعره معلقته التي مطلعها "ألا هبّي بصحنك فاصبحينا" يقال: إنھا كانت في نحو ألف بيت، وإنما بقي منھا ما حفظه الرواة، وفيھا من الفخر والحماسة والعجب.43
  عمرو بن کلثوم کے مشہور اشعار میں سے اس کا معلقہ ہے جس کا مطلع یہ ہے" ألا هبّي بصحنك فاصبحينا"کہا جاتا ہے کہ یہ ہزار اشعار پر مشتمل تھا لیکن اس میں سے وہی باقی رہا جو راویوں نے حفظ کیا اور اس معلقہ میں فخروغرور، دلیری وبہادری اورخوش فہمی والے مضامین ہیں۔

اس کا یہی ایک معلقہ ہے اور چند قطعا ت بھی منقول ہیں لیکن ان میں سے بھی بکثرت ایسے ہیں جن کا مضمون اسی معلقہ کے مضمون کی طرح ہے۔اسی معلقہ کے حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے شیخ مرزبانی اپنی کتاب میں تحریرکرتے ہیں:

  وقصيدته التي أولها: ألا هبي بصحنك فاصبحينا إحدى مفاخر العرب قام بھا خطيباً في فتكه بعمرو بن هند وقتله وفيھا يقول:
بأي مشيئة عمرو بن هند
تطيع بنا الوشاة وتزدربنا
فإن قناتنا ياعمرو أعيت
على الأعداء قبلك أن تلينا.44
  اور عمرو کا وہ قصیدہ جس کا پہلا مصرعہ " ألا هبّي بصحنك فاصبحينا"ہے یہ اہل عرب کے افتخا ر میں سے ایک ہے اور اس قصیدہ کو اس نے عمرو بن ہند کے مقابلہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا جس میں اس نے کہا:
كو نسی چاہت ہے اے عمرو بن ہند
کہ تو ہماری چغلخوری کی پیروی کرتا ہے اور ہمیں حقیر کرتا ہے
پس دشمنوں پر ہمارا نیزہ اے عمرو
تیرے ہم تک پہنچنے سے پہلے ہی حملہ کردے گا۔

اس قصیدہ میں عمرو بن کلثوم نے اپنی قوم، اپنے جاہ ومنصب اور دولت وعزت پر فخرو غرور کرتے ہوئے اشعار کہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دشمنوں کو یہ واضح پیغام بھی دیا تھا کہ ہم تمہاری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک اور طاقتور ہیں لہذا ہم سے دشمنی مول لے کر خود کو اور اپنے خاندان کو تباہ و برباد نہ کرو۔

فصاحت وبلاغت

عمرو بن کلثوم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھا ہوا فصیح وبلیغ خطیب بھی تھا اور شعر گوئی میں بھی ید ِ طولی کا حامل تھا۔اس کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی خطابت نے بھی لوگوں پر سحر طاری کیا ہوا تھا چنانچہ اس کی خطابت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  والخطابة وجه آخر من أوجه النشاط الفكري عند الجاهليين وقد كان للخطيب عندهم، كما يقول أهل الأخبار، مقام كبير للسانه وفصاحته وبيانه وقدرته في الدفاع عن قومه والذبّ عنھم والتكلم باسمهم، فهو في هذه الأمور مثل الشاعر، لسان القبيلة ووجهها وقد ذكر أهل الأخبار أسماء جماعة من الخطباء، اشتھروا بقوة بيانھم وبسحر كلامهم، وأوردوا نماذج من خطبھم ومنھم من اشتھر بنظم الشعر، وعدّ من الفحول، مثل عمرو بن كلثوم.45
  دور جاہلی کے لوگوں کے ہاں خطابت فکری تروتازگی کا ایک سبب تھی اور مؤرخین کےبیان کےمطابق ان کے ہاں خطیب کا مقام اس کی زبان دانی، فصاحت، بیان، اپنی قوم کے دفاع میں شاندار کلام پر قادر ہونے، ان سے مزاح کرنے اور ان کے ناموں سے کلام کرنے کی وجہ سے کافی بڑا تھانیز یہ ان امور میں شاعر کی طرح تصور کیا جاتا تھا یعنی قبیلہ کی زبان اور اس کا وقارمانا جاتاتھا۔مؤرخین کی ایک جماعت نے خطباء کی جماعت کے نام ذکر کیے ہیں جو اپنی قوتِ بیان اور اپنے سحر آفریں کلام کی وجہ سے مشہور ہوئے اور انہوں نے ان کے خطبوں میں سے کچھ نمونے بھی ذکر کیے ہیں۔ان ہی میں سے وہ شخص بھی ہے جو اپنی شعریہ نظم کی وجہ سے مشہور ہوااور اس کو چوٹی کے شعراء میں شامل سمجھا گیا جیسے عمرو بن کلثوم۔

اسی حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے شیخ مرزبانی تحریر کرتے ہیں:

  وكان خطيباً حكيماً وأوصى بنيه عند موته بوصية بليغة حسنة.46
  عمر و بن کلثوم خطیب و دانشمند تھا اور اس نے اپنے بیٹوں کو اپنی موت کے وقت انتہائی بہترین اور بلیغ وصیت کی تھی۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمر وبن کلثوم کی فصاحت وبلاغت اعلی و ارفع تھی اور یہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خطیب بھی تھا جو اپنی قوم کے دفاع میں اپنی زبان دانی اور قوت کلام سے مدد لیتا تھااور شیخ مرزبانی کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس نے اپنے بچوں کو انتہائی فصیح وبلیغ انداز میں وصیت کی تھی۔

وصیت

اس وصیت نامہ میں عمر وبن کلثوم کی فصاحت وبلاغت کا اظہار بھی بدرجہ اتم ہوتا ہے اور اس کے خیالات کی بخوبی عکاسی بھی ہوتی ہے۔اس وصیت نامہ کو بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وذكر الأصفهاني أنه عندما حضرت ابن كلثوم الوفاة، جمع بنيه، وقال لهم: "يا بني، قد بلغت من العمر ما لم يبلغه أحد من آبائي، ولا بد أن ينزل بي ما نزل بهم من الموت، وإني، واللّٰه، ما عيرت أحدا بشيء إلا عيرت بمثله، إن كان حقا فحقا، وإن كان باطلا فباطلا، ومن سب سب، فكفوا عن الشتم، فإنه أسلم لكم، وأحسنوا جواركم يحسن ثناؤكم، وامنعوا من ضيم الغريب، فرب رجل خير من ألف، ورد خير من خلف. إذا حدثتم فعوا، وإذا حدثتم فأوجزوا، فإن مع الإكثار تكون الأهذار.وأشجع القوم العطوف بعد الكر، كما أن أكرم المنايا القتل. ولا خير فيمن لا روية له عند الغضب، ولا من إذا عوتب لم يعتب. ومن الناس من لا يرجى خيره، ولا يخاف شره، فبكؤه خير من دره، وعقوقه خير من بره. ولا تتزوجوا من حيكم فإنه يؤدي إلى قبيح البغض".47
  اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ جب ابن کلثوم کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے سارے بیٹوں کو جمع کیا اور ان سے کہا: ا ے میرے بیٹوں میں اتنی زیادہ عمر کو پہنچا ہوں جتنی عمر تک میرے آباء میں سے کوئی بھی نہیں پہنچا اور لازمی سی بات ہےکہ جو ان پر نازل ہوئی وہ مجھ پر بھی نازل ہوگی یعنی موت۔یقیناً اللہ کی قسم میں نے کسی کو بھی عار نہیں دلائی مگر مجھے بھی اسی چیز کی عار دلائی گئی، اگر وہ عار صحیح دلائی تھی تو مجھےصحیح دلائی گئی اور اگر غلط دلائی تھی تو مجھے بھی غلط دلائی گئی۔جو برا کہے گا اسے برا کہا جائےگا لہذا گالم گلوچ سے بچو کہ یہ تمہارے لیے زیادہ فائدہ مند ہے اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہو کہ وہ تمہاری بہترین تعریف کریں گے۔غریب آدمی پر ظلم وزیادتی سے رکے رہو پس بسا اوقات ایک آدمی ہزار آدمیوں سے بہتر ہوتا ہے اور لوٹانا بچائے رکھنے سے بہتر ہوتا ہے۔جب تم بات کرو تو ناپ تول کے کرو، جب گفتگو کرو تو مختصر کرو کیونکہ کثرتِ کلام سے بے وقعتی ہوتی ہے۔قوم کا طاقتور ترین بندہ وہ ہے جو حملہ کرنے کےبعد رحمدلی سے پیش آئے جیساکہ سب سے بہترین آرزو قتل ہے۔ اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو غصہ کے وقت بے بصیرت ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کہ جسے عتاب کیا جائےتو وہ پھر بھی نہ سمجھ پائے۔لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن سے خیر کی امید نہیں رکھی جاتی اور اس کے شر سے خوف نہیں کیا جاتا پس اس کا کم گو ہونا ہی اس کے کسی بھی فعل سے بہتر ہے اور اس کی نافرمانی اس کی اطاعت سے بہتر ہے۔اپنی ہی وادی میں شادی نہ کرو کہ یہ کام انتہائی بغض کی طرف لے جانے والا ہے۔

اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کئی تجربوں کے بعد اس نے اپنے یہ خیالات اپنے بچوں کے سامنے وصیت نامہ کی صورت میں بیان کیے اور الفاظ کا چناؤ بھی بہت خوب کیا ہے جس سے اس کی اعلی وارفع فصاحت وبلاغت واضح ہوتی ہے۔اس اقتباس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی عمر دیگر خاندان والوں کے مقابلہ میں کافی زیادہ تھی جس کو بیان کرتے ہوئے شیخ مرزبانی بیان کرتے ہیں:

  وبلغ خمسين ومائة سنة.48
  ابن کلثوم ڈیڑھ سو سال کی عمر تک پہنچا تھا۔

یہ عمر واقعی کافی زیادہ تھی جس میں اس نے کئی ایک تجربےحاصل کیے اور فن شاعری میں بھی ایک قصیدہ کہہ کر نام کمایا جس کا سبب عمرو بن ہند کی موت بنا تھا۔

مذہب

عمروبن کلثوم کے مذہب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ نصرانی تھا اور قضاءو قدر کو مانتا تھا چنانچہ اس حوالہ سے تفصیل بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جوا دعلی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ونجد "عمرو بن كلثوم" في جملة من آمن بالقضاء والقدر، وبأن الموت مقدر لنا، ونحن مقدرون له، وذلك في قوله:
وإِنّا سوف تُدرِكنا المَنايا
مُقدَّرَةً لنا وَمُقَدَّرينا
وهو من المؤمنين باللّٰه، الحالفين به وذلك كما جاء في بيت شعر نسبوه إليه:
مَعاذ اللّٰهِ يَدعوني لِحنث
ولو أَقفَرتُ أيّاما قتارُ
وكما ورد في أشعار أخرى تنسب إليه.49
  ہم عمرو بن کلثوم کو منجملہ ان اشخاص میں سے پاتے ہیں جو قضاء وقدر پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر بھی کہ موت ان کے لیے مقرر ہے اور ہم بھی موت کے لیے مقرر ہیں اور یہ بات اس کے اس شعر میں ہے:
اور بلا شبہ قریب ہی زمانہ میں ہمیں اموات پالیں گی
جو ہمارے لیے مقدر ہیں اور ہم بھی مقدر ہیں
اور وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں میں سے تھا جو اس کی قسم اٹھاتے ہیں اور یہ بات اس ایک شعر میں ہے جس کو لوگوں نے اس کی طرف منسوب کیا ہے:
اللہ کی پناہ کہ وہ مجھے قسم توڑنے کے لیے بلاتا ہے
اگرچہ کہ میں تنگدستی میں تنہا زندگی گزاروں
اور ان باتوں کی مثل اس کے دیگر اشعار میں بھی موجود ہے۔

اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ عمرو بن کلثوم ان اشخاص میں سے تھا جو موحدین تھے اور قضاءو قدر و موت کی تعیین پر ایمان رکھنے والے تھے نا کہ مشرکین لوگوں میں سے جو خدائے واحد کے ساتھ شرک کرتے تھے۔

وفات

عمرو بن کلثوم کی موت کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے گو کہ اس کی موت کے بارے میں دو مختلف روایات منقول ہیں لیکن دونوں میں مشترک با ت اس کا قتل ہے۔جب عمرو بن کلثوم نے عمرو بن ہند کو قتل کر کےاس کے مال واسباب سمیت اس کے خاندان کواسیر بنایاتو کئی عربی قبائل ان کے مخالف ہوگئے جس وجہ سے چند دیگر قبائل سے بھی ابن کلثوم کو نبرد آزما ہونا پڑا۔ان ہی میں سےایک قبیلہ بنو حنیفہ کا تھا جس پر اس نے حملہ تو کیا لیکن یہ الٹا شکار ہوگیا اور ان کا قیدی بنا۔50 اسی حوالہ سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وذكر أن عمرو كلثوم، أغار على بني حنيفة باليمامة، فأسره يزيد بن عمرو الحنفي، ثم سقاه الخمر في قصر "بحجر" اليمامة، حتى مات وذكر أن يزيدأراد المثلة به، بربطه بجمل، ثم ضرب الجمل، ليركض به، فصاح: "يا آل ربيعة! أمثلة".51
  ذکر کیاگیا کہ عمرو بن کلثوم نے بنی حنیفہ پریمامہ میں حملہ کیا تو اسے وہاں پر یزید بن عمرو الحنفی نے قید کرلیا پھر اس کو یمامہ کے محل میں خوب شراب پلائی یہاں تک کہ یہ مرگیا۔یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یزید نے اس کواونٹ کے ساتھ باندھ کر مثلہ یعنی آنکھ، ناک، ہونٹ اور کان کاٹ کر حلیہ بگاڑ دینے کا ارادہ کیا اور پھر اونٹ کو مارا تاکہ وہ اس کو لے کر سپاٹ بھاگے تو یہ چیخا کہ اے آل ربیعہ کیا اب میرا مثلہ ہوگا؟

یعنی پہلے یزید نے مثلہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر اس سے باز آیا اور شراب پلا کر ماردیا۔ابن کلثوم کی مذکورہ بالا قتل کی روایت سے ملتی جلتی ایک دوسری روایت بھی ہے جسے نقل کرتے ہوئے صاحب المحبر اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  (عمرو) بن كلثوم التغلبي. وكانت الملوك تبعث إليه بحبائه وهو في منزله من غير أن يفد إليها. فلما ساد ابنه الأسود بن عمرو، بعث إليه بعض الملوك بحبائه كما بعث الى أبيه. فغضب عمرو وقال: «ساواني بولي؟» ومحلوفة لا يذوق دسما حتى يموت. وجعل يشرب الخمر صرفا على غير طعام. فلما طال ذلك قامت امرأته بنت الثوير فقّترت له بشحم ليقرم الى اللحم ليأكله. فقام يضربها ويقول:
معاذ اللّٰه! يدعوني لحنث
ولو أقفرت أياما قتار
فلم يزل يشرب حتى مات.52
  عمرو بن کلثوم تغلبی کے پاس دیگر کئی بادشاہ اپنے اپنے تحائف بھیجتے تھے اور وہ اپنے گھر میں ہی ہوتا بنا ان تحائف کا بدلہ دیے۔ پس جب اس کا بیٹا اسود بن عمروسردار بنا تو کسی بادشاہ نے اپنا تحفہ اس کو بھیجا جیسا کہ اس کے باپ کو بھیجتا تھا جس سے عمرو کو غصہ آگیا اور اس نے کہا کہ وہ بادشاہ مجھے میرے پیشاب (یعنی نجس پانی سے پیدا شدہ بیٹے)کے برابر کرتا ہے اور قسم اٹھائی کہ وہ اب کوئی روغن دار چیز نہیں کھائےگا یہاں تک کہ مرجائے اور پھر یہ بنا کھائے ہی فقط شراب پینے لگا۔پس جب یہ معاملہ زیادہ طویل ہوا تو اس کی بیوی بنت ثویر کھڑی ہوئی اور اس نے عمرو کے لیے چربی کاٹی تا کہ اس کو گوشت کے ساتھ لگاکر اسے کھلاسکے تو یہ عمرو کھڑا ہوا اور اسے مارنے لگا اور کہنے لگا:
اللہ کی پناہ کہ وہ مجھے قسم توڑنے کے لیے بلاتے ہیں
اگرچہ کہ میں تنگدستی میں تنہا زندگی گزاروں (اور پھر مرجاؤں)
پس وہ ہمیشہ اسی طرح ہی شراب پیتا رہا یہاں تک کہ مرگیا۔

یعنی عمرو بن کلثوم کی موت کے بارے میں دو مختلف روایات منقول ہیں لیکن تقریبا دونوں ہی یکساں ہیں بس پس منظر میں کچھ تغیر ہے لیکن قدر مشترک یہ ہےکہ اس کی موت بنا کھانے کے فقط شراب کو بکثرت پینے کی وجہ سے ہوئی اور یوں یہ اس دنیا سے چل بسا۔ اس کی موت ڈیڑھ سو (150) سال کی عمر میں سن چھ سو (600) عیسوی میں ہوئی جسے بیان کرتے ہوئے ابو عبداللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وكانت وفاته سنة 600لميلاد المسيح عليه السلام، وسنة 52 قبل الهجرة النبوية وله من العمر خمسون سنة ومائة.53
  اور اس کی وفات مسیح کی پیدائش کے چھ سو (600) سال بعداور ہجرت نبوی ﷺسے باون (52)سال پہلے ہوئی جب اس کی عمر ڈیڑھ سو (150) سال تھی۔

یعنی اس کی وفات رسول اکرم ﷺکی بعثت سے پہلے ہوئی تھی اور اس نے اپنے خاندان میں طویل عمرپائی تھی جس کا اظہار اس نے اپنی وصیت میں بھی کیا تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ عمرو بن کلثوم تغلبی نے جزیرۂ فراتیہ میں حسب و نسب کے مالک اور معزز قبیلے بنو تغلب کے درمیان پرورش پائی اور جب جوان ہوا تو عظیم لوگوں کی طرح خود دار، غیرت مند، شجاع اور فصیح اللسان تھا۔ اہل عرب کے ہاں جو عظمت ورفعت کی دو وجوہات تھیں یعنی شاعری اور خطابت یہ دونوں وجوہات اس میں پائی جاتی تھیں جس وجہ سے یہ اپنی قوم میں ممتاز مقام کا حامل رہا تھا ا ورابھی پندرہ برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ اپنی چند امتیازی خوبیوں مثلا خودداری ودلیری، شجاعت و بہادری اور خطابت وشاعری کی بنا پراپنے قبیلے کا سردار بن گیا اور پھر اسی منصب کے دفاع میں اپنی قوم کے خاطر اپنی زندگی گزاری۔زندگی کےکئی ایک محاذ سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ایک موقع پر ایک بادشاہ کو اپنی ماں اور قبیلہ کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے نڈر پن سے قتل کردیا اور اس کے مال و اسباب سمیت ا س کے خاندان کو اسیر بنایا اور اس موڑ پر اپنی فتح کے نشہ میں ایک مشہور قصیدہ کہا جو اہل عرب کے ہاں بے انتہاء مقبول ہوا اور اسی قصیدہ کی وجہ سے یہ مشہور ومعروف ہوا۔طویل عمر پائی اور اپنی ہی زندگی میں اپنی اگلی نسل کو پروان چڑھتے دیکھا پھر بالآخر ایک قول کے مطابق اسی بادشاہ کے قتل کی پاداش میں دیگر عربی قبائل سے جنگ کرتا ہوا بنو حنیفہ کے قبیلہ کے ایک فرد یزید بن عمرو کے ہا تھوں قتل ہوا۔ حضورﷺ کےاعلانِ نبوت سے قبل ہی اس کا انتقال ہوگیا تھا لیکن توحیدِ باری تعالیٰ پر ایمان اور بت پرستی سے دوری اس کے اعتقادی مزاج کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ نہ تو وہ مشرک تھا اور نہ ہی ملحد۔

 


  • 1 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 203
  • 2 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52
  • 3 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 203
  • 4 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتيبةالدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 228
  • 5 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 203
  • 6 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 60
  • 7 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 183
  • 8 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 203
  • 9 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 60
  • 10 ابوهلال الحسن بن عبد الله العسكري، جمهرة الامثال، ج-2، مطبوعة: دارالفكر، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 112
  • 11 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52
  • 12 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 127
  • 13 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 205
  • 14 ابو عبید اللہ محمد بن عمران المرزبانی، معجم الشعراء، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1982م، ص: 202
  • 15 ابو عبید عبد اللهبن عبد العزیز الاندلسی، سمط اللآلی فی شرح امالی القالی، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 636
  • 16 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-8، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 80
  • 17 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتيبة الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423 ھ، ص: 228
  • 18 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 203
  • 19 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-8، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 83
  • 20 ابو عبید اللہ محمد بن عمران المرزبانی، معجم الشعراء، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1982م، ص: 202
  • 21 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 183
  • 22 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،2002 م، ص: 205-206
  • 23 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52
  • 24 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002 م، ص: 206
  • 25 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-6، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 46
  • 26 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص:183-184
  • 27 ابو عبید عبد اللهبن عبد العزیز الاندلسی، سمط اللآلی فی شرح امالی القالی، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 636
  • 28 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52
  • 29 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 185
  • 30 خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-5، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 84
  • 31 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 206
  • 32 ابو جعفر محمد بن حبيب البغدادي، المحبر، مطبوعة: دار الآفاق الجديدة، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 470-471
  • 33 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-8، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 80
  • 34 ابو القاسم الحسن بن بشر الآمدی، المؤتلف والمختلف فی اسماء الشعراء، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1991م، ص: 105
  • 35 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 199-200
  • 36 ابو عثمان عمرو بن بحر اللیثی الشھیر بالجاحظ، البیان والتبیین، ج-3، مطبوعۃ: دار ومکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1423ھ، ص: 30-33
  • 37 ابو عبید اللہ محمد بن عمران المرزبانی، معجم الشعراء، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1982م، ص: 202
  • 38 خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-5، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002 م، ص: 84
  • 39 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1995م، ص: 431
  • 40 ابو زید محمد بن ابی الخطاب القرشی، جمھرۃ اشعار العرب، مطبوعۃ: نھضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 86
  • 41 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 60
  • 42 ابو جعفر محمد بن حبيب البغدادي، المحبر، مطبوعة: دار الآفاق الجديدة، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 203-204
  • 43 خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-5، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 84
  • 44 ابو عبید اللہ محمد بن عمران المرزبانی، معجم الشعراء، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1982م، ص: 202
  • 45 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-16، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 405
  • 46 ابو عبید اللہ محمد بن عمران المرزبانی، معجم الشعراء، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1982م، ص: 202
  • 47 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 212
  • 48 ابو عبید اللہ محمد بن عمران المرزبانی، معجم الشعراء، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1982م، ص: 202
  • 49 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-11، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 156
  • 50 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 210
  • 51 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 131
  • 52 ابو جعفر محمد بن حبيب البغدادي، المحبر، مطبوعة: دار الآفاق الجديدة، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 470- 471
  • 53 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 203