اہل عرب کے نزدیک عرب ممتاز شعراء میں سے ایک اور شخص زہیر بن ابی سُلمی ہے کیونکہ یہ ایک بلند وبالا شاعر تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اصحاب المعلقات میں بھی شامل تھاجس وجہ سےیہ اہل عرب کے ہاں نہایت مقبول ومعروف بھی تھا نیز اس کا تعلق قبیلہ مزینہ سےتھا جو مضر کی ایک شاخ تھی۔
زہیر بن ابی سُلمی کی پیدائش کےحوالہ سے مؤرخین نے کوئی حتمی تذکرہ نہیں کیا لہذا اس کی پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ زہیر کی پیدائش کااندازہ لگا یا جانا ممکن ہے اوراس اندازہ کی بنا پر زہیر بن ابی سُلمی کی پیدائش کا سال تقریباً پانچ سو تیس(530)عیسوی ہے۔اس اندازہ کی وجہ ترجیح یہ ہے کہ اہل عرب کی ایک مشہور جنگ "حرب داحس و غبراء "چھ سو آٹھ(608)عیسوی میں ختم ہوئی تھی 1اور زہیر بن ابی سُلمی نے اس جنگ کا خاتمہ کرانے والے بنو مرہ کے دو سرداروں کی مدح میں ایک قصیدہ کہا تھا جس کے ایک شعر میں اس نے اپنی عمر اسّی(80)سال بتائی ہے2اس حساب سے اس کی پیدائش کا سال تقریباً پانچ سو تیس(530)عیسوی بنتا ہے۔اس کی جائے پیدائش کے حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزوزونی تحریر کرتے ہیں:
وكان من حديث زهير، وأهل بيته أنھم كانوا من "مزينة " إحدى قبائل مضر وكان يقيم هو وأبوه وولده في منازل بني: عبد اللّٰه بن غطفان، بالحاجرمن نجد، ولذلك كان يذكر في شعره بني مرة وغطفان ويمدحهم.3
زہیر اور اس کے گھر والوں کی خبروں میں سے یہ منقول ہے کہ وہ مضر قبیلہ کی ایک شاخ مزینہ سے ہیں اور وہ، اس کے والد، اس کےبیٹے سب بنو عبد اللہ بن غطفان کے گھروں میں نجد کے علاقہ حاجر میں رہائش پذیر رہے۔یہی وجہ ہے کہ زہیر اپنے اشعار میں بنو مرہ اور غطفان کا تذکرہ کرکے ان کی تعریف کیا کرتا ہے۔
اس پیدائشی علاقہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئےصاحب الاعلام اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
ولد في بلاد (مزَينة) بنو احي المدينة، وكان يقيم في الحاجر (من ديار نجد) واستمر بنوه فيه بعد الإسلام.4
زہیر مدینہ کے نواحی علاقہ مزینہ میں پیدا ہوااور نجد کے شہر حاجر میں ہی سکونت پذیر رہا اور اسلام آجانے کےبعد بھی اس کے بیٹے یہیں مقیم رہے۔
زہیر کے خاندان میں کئی لوگ شاعر تھے اور اسی وجہ سے اسے بھی اس فن شاعری میں کئی گنا زیادہ مہارت حاصل تھی جس کے بارے میں ذیلی اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:
ويقال إنه لم يتصل الشعر في ولد أحد من الفحول في الجاهلية ما اتصل في ولد زهير.5
اور کہاجاتا ہے کہ دور جاہلی کے شعراء میں سے کسی اور شاعر کی اولاد میں لگاتارشاعر نہیں ہوئے جیساکہ زہیر کی اولاد میں لگاتار ہوئے۔
اسی حوالہ سےصاحب الاعلام اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
قال ابن الأعرابي: كان لزهير في الشعر مالم يكن لغيره، كان أبوه شاعرا، وخاله شاعرا، وأخته سلمى شاعرة، وابناه كعب وبجير شاعرين، وأخته الخنساء شاعرة.6
ابن اعرابی نے کہا ہے کہ زہیرکو شعر و شاعری میں وہ مہارت حاصل تھی جو کسی اور کو نہیں تھی( اور اس کی وجہ یہ تھی کہ)اس کے والد شاعر تھے، اس کے ماموں شاعر تھے، اس کی بہن سلمی شاعرہ تھی، اس کے دونوں بیٹے کعب اور جبیر شاعر تھے، اس کی بہن خنساء شاعرہ تھی۔
پھر مزید اسی خاندان کےایک اور شاعر کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں:
...وابن ابنه "المضرب بن كعب " شاعرا، وقد عرف بأمه.7
زہیر کا پوتاالمضرب بن کعب بھی شاعر تھا جو(اپنے باپ کے بجائے) اپنی ماں کے نام سے مشہور تھا۔
گویا کہ زہیر کا پورا خاندان ہی شعر وشاعری سے شغف رکھتا تھا اور ان میں سے ہر ایک مشہور ومعروف شاعر تھا اورشعر و شاعری کی بنا پر ہی پورا خاندان اہل عرب کے نزدیک ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔
زہیر بن ابی سُلمی کی کنیت "ابو جبیر" تھی جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایک بیٹا جبیر نامی تھا جس وجہ سے اس کی کنیت "ابو جبیر" رکھی گئی تھی اورامام سیوطی نےشواہد المغنی میں ابن درید کے حوالہ سےاس کنیت کوبیان کیا ہے۔8
زہیر بن ابی سُلمی کا تعلق قبیلہ مزنی سے ہے جو مضر کی ایک شاخ ہے اگرچہ کہ اس کی پرورش قبیلہ بنو غطفان میں ہوئی تھی جو اس کاننھیالی قبیلہ تھا 9 لیکن اس کا تعلق مضر کی شاخ مزینہ سے تھا اور اس کے نسب کو بیا ن کرتے ہوئے صاحب طبقات فحول الشعراء اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وزهير بن أبى سلمى واسم أبى سلمى ربيعة بن رياح ابن قرط بن الحارث بن مازن بن ثعلبة بن ثور بن هذمة بن لاطم بن عثمان ابن مزينة.10
اور زہیر بن ابی سُلمی، ابوسُلمی کا نام ربیعہ تھابن ریاح ابن قرط بن الحارث بن مازن بن ثعلبہ بن ثور بن ھذمہ بن لاطم بن عثمان ابن مزینہ۔
مزینہ کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی تحریرکرتے ہیں:
ومزينة أم عمرو بن أد هي بنت كلب بن وبرة.11
مزینہ عمر و بن ا دکی والدہ اور کلب بن وبرہ کی بیٹی ہے۔
مذکورہ بالا نسب میں ریاح ابن قرط نقل کیا گیا ہےجبکہ شواھد المغنی میں جلال الدین سیوطی نے ریاح ابن قرط کے بجائے ریاح بن مرہ نقل کیا ہے 12 اور ابو عبد اللہ زوزونی نے ریاح بن قرہ بیان کیا ہے 13 البتہ دیگر مؤرخین نے اس کے برعکس ریاح ابن قرط ہی نقل کیا ہے۔صاحب الاستيعاب نے بهی اسی طرح نسب بیان کیا ہے البتہ اس میں مازن بن ثعلبہ کے بجائے مازن بن خلاوہ بن ثعلبہ نقل کیا ہے 14 اور اس نسب کی مزید کڑیاں بیان کرتے ہوئے عبدالقادر بغدادی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
ربيعة بن رياح المزني من مزينة بن أد بن طابخة بن الياس بن مضر.15
ربیعہ بن ریاح مزنی مزینہ بن اد بن طابخہ بن الیاس بن مضرسے تعلق رکھتا تھا۔
اور اس کی مزید کڑی کو بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وينتھي نسبه إلى مضر بن نزار بن مَعَدِّ عدنان.16
اور اس کا نسب مضر بن نزار بن معد بن عدنان تک پہنچتا ہے۔
یہی اس کا نسب نامہ ہے جسے دیگر مؤرخین 17نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زہیر بن ابی سُلمی کا تعلق مضر کی شاخ مزینہ سے ہوتا ہوا مضرتک اور پھر عدنان تک پہنچتا تھا جس وجہ سے انہیں اس قریبی شاخ سے منسوب کرتے ہوئے مزنی کہا جاتا تھا۔
ابن قتیبہ نے اگرچہ اس کا تعلق قبیلہ غطفان سے بتایا ہے18لیکن در اصل یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ حقیقت میں اس کا تعلق قبیلہ مزینہ سے تھا 19اور یہی وجہ ہے کہ ابن قتیبہ نے چند صفحات بعد دوبارہ اسے قبیلہ مزینہ کا فرد ہی بتایا ہے۔20اسی حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وكان ذلك سببا فى أن يضطرب الرواة وأن يظن بعضهم أن زهيرا غطفانى القبيلة، وهو فى الحقيقة مزنى النسب غطفانى النشأة والمربى، وقد صرّح ابنه كعب بھذا النسب إذ يقول فى بعض شعره ردّا على مزرّد بن ضرار وقد عزاه إلى مزينة:
هم الأصل منى حيث كنت وإننى
من المزنيّين المصفّين بالكرم.21
یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے راویوں میں شدید اضطراب ہے، کسی نے تو زہیر کو غطفانی قبیلہ کا فرد سمجھ لیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہےکہ زہیر نسبی لحاظ سے مزنی ہے، بودوباش ا ور پرورش کے لحاظ سے غطفانی ہے۔زہیر کے بیٹے کعب نے اس نسب کی صراحت بھی کی ہے کیونکہ اس نے اپنے کسی شعر میں مزرّد بن ضرار کا رد کرتے ہوئے اپنے نسب کو مزینہ کی طرف نسبت دی ہے(اور کہا ہے):
میں جہاں بھی رہوں وہ مزینہ ہی میری اصل ہے اور میں
ان مزنیو میں سے ہوں جو عزت و عظمت سے متصف ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ زہیرکے والد ربیعہ اپنے ماموؤں کے ساتھ رہتے تھے جو بنو غطفان سے تھے یہاں تک کہ ربیعہ کی اولاد بھی ان ہی کے محلہ میں پیدا ہوئی اور یوں بعض مؤرخین نے زہیر اور اس کے دیگر بہن بھائیوں کو بنو غطفان سے جوڑدیا 22 جبکہ حقیقت میں یہ قبیلہ مزینہ سے تعلق رکھتا تھا۔23
زہیر بن ابی سُلمی کے والد کا نام ربیعہ بن ریاح ہے اور ابو سُلمی "سین" کے "پیش"کے ساتھ ہے نیزعربی لغت میں اس کے علاوہ یہ لفظ"پیش" کے ساتھ مستعمل نہیں ہے۔24 ان کا تعلق اس مزینہ قبیلہ سے تھا 25جس نے دور جاہلی میں بنو عبد اللہ بن غطفان کو مدینہ کے شرقی علاقہ نجد کی بستی حاجر میں پناہ دی تھی نیز ان کے ساتھ ربیعہ بن ریاح کے ماموں بنو مرہ بن عوف بن سعد بن ذیبان بھی شریک ہوکر رہنے لگے تھے۔اس حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
ويحدثنا الرواة أنه أقام فيهم زمنا مع أمه، وحدث أن أغار مع قوم منهم على طيئ وأصابوا نعما كثيرا وأموالا، ولما رجعوا لم يفردوا له سهما فى غنائمهم، فغاضبهم وانطلق بأمه إلى قبيلته مزينة، ثم لم يلبث أن أقبل فى جماعة منها مغيرا على عشيرة أخواله، ولم يكادوا يتوسطون ديارها حتى تطايروا راجعين وتركوه وحده، فأقبل حتى دخل فى أخواله، ولم يزل فيهم حتى توفّى ومن ثمّ ولد له زهير وأولاده فى منازل بنى مرة وبنى عبد اللّٰه بن غطفان... ويظهر أن ربيعة لم يعش طويلا فى عشيرة أخواله، ويقول الرواة إن امرأته تزوجت من بعده أوس بن حجر الشاعر التميمى المشهور.26
راویوں نے بیان کیا ہے کہ ربیعہ اپنی والدہ کے ساتھ ان ہی لوگوں میں عرصہ دراز تک رہائش پذیر رہا۔ایک راوی نے بیا ن کیا ہےکہ ربیعہ نے اپنی قوم کے ساتھ مل کر بنو طئی پر حملہ کیا اور کثیر مال وغنیمت حاصل کیا۔جب یہ سب واپس لوٹے تو قوم کے افراد نے اپنی غنیمتوں میں سے ربیعہ کا حصہ نہیں نکالا جس سے یہ ان پر شدید غضبناک ہوا اور اپنی والدہ کے ساتھ اپنے قبیلہ مزینہ چلاگیا۔پھر تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اپنے ماموؤں کے خاندان پر حملہ آور ہونے کے لیے متوجہ ہوا، ابھی وہ شہر کے بیچ وبیچ بھی نہیں پہنچاتھا کہ اس قوم کے لوگوں نے منتشر ہونا شروع کردیا اور ربیعہ کو اکیلا ہی چھوڑدیا۔پھر بھی یہ(صلح جوئی کی نیت سے) اپنے ماموؤں کے پاس چلا گیا اور پھر ہمیشہ وہیں زندگی بسر کی یہاں تک کہ وفات پاگیا۔اسی وجہ سے زہیر اور ان کی دیگر اولادیں بھی بنو مرہ اور بنوعبد اللہ بن غطفان کےمحلے میں ہی پیدا ہوئیں۔۔۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ربیعہ اپنے ماموؤں کے خاندان میں(واپسی کے بعد) زیادہ دن زندہ نہیں رہا اور راویوں نے تو کہا ہے کہ ربیعہ کی بیوی نے اس کے بعد اوس بن حجر تمیمی مشہور شاعر سے شادی کرلی تھی۔
یعنی زہیر کے والد کا تعلق اگرچہ قبیلہ مزینہ سے تھا لیکن یہ اپنے ماموؤں کے ساتھ قبیلہ غطفان میں رہا اور وہیں قبیلہ ذبیانی میں شادی کی جہاں اس کی زہیر سمیت دیگر اولادیں بھی پیدا ہوئیں مگر یہ وہاں زیادہ دن زندہ نہ رہا اور اس کے انتقال کے بعد اس کی بیوی یعنی زہیر کی والدہ نے مشہور شاعر اوس بن حجر تمیمی سے دوسری شادی کرلی اور یوں یہ اوس بن حجر زہیر کا سوتیلا باپ ہوگیا۔
خودزہیر بن ابی سُلمی نے اپنے اسی سوتیلے باپ اورمشہور شاعر اوس بن حجر تمیمی سے ہی پہلے پہل شعر وشاعری سیکھی تھی۔ اس حوالہ سے تاریخ میں یوں مذکورہے:
ونصّ صاحب الأغانى على سلسلة من هؤلاء الشعراء الرواة الذين يأخذ بعضهم عن بعض، وقد بدأها بأوس بن حجر التميمى، فعنه أخذ الشعر ورواه حتى أجاد نظمه زهير بن أبى سلمى المزنى، وكان له راويتان كعب ابنه والحطيئة.27
صاحب الآغانی نے ان راوی شعراء کی بابت تصریح کی ہے جنہوں نے ایک دوسرے سے شعرو شاعری سیکھی ہے اور اس کی ابتداءاوس بن حجر تمیمی سے ہوئی ہے۔پھر زہیر بن ابی سُلمی مزنی نےاس سے شعر وشاعری سیکھی اور روایت کی یہاں تک کہ زہیر نے اپنی نظمیں فصیح وبلیغ انداز میں کہنا شروع کی اور زہیر کے دو راوی تھے پہلا کعب اس کا بیٹا اور دوسرا حطیئہ۔
زہیر کے سوتیلے باپ اوس بن حجر تمیمی کی زندگی کے متعلق چند تفصیلات بیان کرتے ہوئے صاحب الاعلام امام زرکلی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
أوس بن حجر بن مالك التميمي، أبو شريح: شاعر تميم في الجاهلية، أو من كبار شعرائھا في نسبه اختلاف بعد أبيه حجر وهو زوج أمّ زهير بن أبي سلمى كان كثير الأسفار، وأكثر إقامته عند عمرو بن هند، في الحيرة عمّر طويلا، ولم يدرك الإسلام في شعره حكمة ورقة، وكانت تميم تقدمه على سائر شعراء العرب وكان غزلا مغرما بالنساءقال الأصمعي: أوس أشعر من زهير.28
اوس بن حجر بن مالک التمیمی ابو شریح قبیلہ تمیم کے دور جاہلی کا شاعرہے اور اس کے بڑے شعراءمیں سے ایک ہے۔اس کے والد حجر کےبعد اس کے نسب میں اختلاف ہے اور یہ زہیر بن ابی سُلمی کی والدہ کا (دوسرا)شوہر ہے۔ یہ سفر بہت زیادہ کیا کرتا تھا اور حیرہ میں عمر وبن ہند کے ہاں ٹھہرا کرتا تھا نیزطویل عمر پائی ہے لیکن دور اسلام کو نہیں پایا۔اس کے اشعار میں حکمت وسوز ہے اور قبیلہ تمیم شعرائے عرب پراسے فوقیت دیا کرتا تھا نیزیہ عورتوں کا رسیا اور ان کا دلدادہ تھا۔اصمعی نے کہا کہ اوس زہیر سے زیادہ بہتر شاعر ہے۔
ا وس بن حجر کے بعدزہیرکی زندگی میں شعروشاعری کا رنگ بھرنے والا شخص اس کا اپنا ماموں بشامہ بن غدیر تھا جس سے زہیر نے شعرو شاعری سیکھی تھی نیز یہی بشامہ بن غدیر زہیر کا وہ ماموں تھا جس نے اس کی کفالت کی ذمہ داری بھی پوری کی تھی کیونکہ یہ عرب کے مالداروں میں سے تھا جس کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابو عبد اللہ الزوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
ليس بين أيدينا شي واضح عن نشأة زهير سوى أنه عاش في منازل بني عبد اللّٰه بن غطفان وأخواله من بني مرة الذبيانيين، وفي كنف خاله بشامة بن الغدير.29
ہمارے سامنے زہیر کی پرورش میں کوئی واضح معلومات نہیں ہیں سوائے اس کے کہ اس نے بنو عبد اللہ بن غطفان کے محلوں میں، اپنے ذبیانی ماموؤں بنو مرہ کے گھروں میں اور بالخصوص اپنے ماموں بشامہ بن غدیر کی حفاظت میں ہی زندگی گزاری ہے۔
اس حوالہ سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وكان بشامة من أحزم الناس رأيا فكان قومه يستشيرونه ويصدرون عن رأيه، ولم يكن له ولد، فلما حضرته الوفاة جعل يقسم ماله فى أهل بيته وأعطى زهيرا نصيبا منه، ويروى أنه قال له إنى أعطيتك ما هو أفضل من المال، فقال زهير: ما هو؟ فقال له: شعرى، وهو لم يرث عنه شعره وماله فقط، بل ورث عنه أيضا خلقه الكريم.30
بشامہ لوگوں میں دکھاوے سے سب سے زیادہ احتیاط کرنے والا تھا، اسی وجہ سے اس کی قوم اس سے مشاورت کرتی تھی اور اس کی رائے کا احترا م کرتی تھی۔اس کی کوئی اولاد نہیں تھی پس جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنا مال ومتاع قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیا اور زہیر کو بھی اس کا حصہ دیا۔مروی ہے کہ زہیر سے بشامہ نے کہا تھا کہ میں تمہیں وہ دے چکا ہوں جو مال سے بھی زیادہ افضل ہے تو زہیر نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟بشامہ نے اسے جواب دیا کہ وہ میرے اشعار ہیں۔ زہیر نے بشامہ سے فقط شاعری اور مال ہی وراثت میں نہیں پایا بلکہ اس کے عظیم اخلاق بھی اس سے وراثت میں حاصل کیے تھے۔
بشامہ کے متعلق تفصیل بیان کرتے ہوئے صاحب الاعلام اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
بشامة بن عمرو بن هلال المري: من شعراء المفضليات ...واشتھر بقصيدة له أولها: هجرت أمامة هجرا طويلا.31
بشامہ بن عمر بن ہلال مری شعراء مفضلیات میں سے ہے اور اس کا و ہ قصیدہ انتہائی مشہور ہے جس کی ابتداء یوں ہے: امامہ نے عرصہ ہو ا چھوڑدیا۔
ان تمام تر تفصیلات سے معلوم ہوا کہ زہیر کے شعر وشاعری اور پرورش کرنے میں پہلے پہل سوتیلے والد کا ہاتھ رہا اور اس کے بعد اس سے زیادہ ماموں کا ہاتھ رہاجس نے زہیر کو نہ صرف اپنے بچوں سے بڑھ کر محبت دی تھی بلکہ اپنا فنِ شعر وشاعری بھی سکھایا جس فن سے زہیر نے آگے چل کر مزید اعلی ونمایاں مقام حاصل کیا۔
زہیر اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں تو والد کے ساتھ والد کے ماموؤں کے پاس ہی رہا پھر جب اس کی والدہ نے دوسری شادی کی تو یہ اپنے ماموؤں کے پا س رہا اور بالخصوص بشامہ بن غدیر نے اس کی پرورش کی جس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابوعبد اللہ الزوزونی تحریر کرتے ہیں:
وهنا يلمع في حياة زهير اسم خاله بشامة بن الغدير، فقد كفله هو وإخوته، وعرف منھم سلمى والخنساء قال ابن الأعرابي: وكان بشامة بن الغدير خال زهير بن أبي سلمى، وكان زهير منقطعا إليه وكان معجبا بشعره وكان بشامة رجلا مقعدا ولم يكن له ولد، وكان مكثرا من المال، ومن أجل ذلك نزل إلى هذا البيت في غطفان لخئولتھم.32
اور اس موڑ پر زہیر کی زندگی میں اس کے ماموں بشامہ بن غدیر کا نام نمایاں نظر آتاہے پس اسی نے زہیر اور اس کے بہن بھائیوں کی کفالت کی جن میں سلمی اور خنساء مشہور ہیں۔ابن اعرابی نے کہا کہ بشامہ بن غدیر زہیر بن سُلمی کا ماموں ہے، زہیر اسی کے پاس رہتا تھا اور اس کے اشعار سے بہت زیادہ متاثر تھا۔بشامہ لنگڑا تھا اور اس کی کوئی اولاد نہیں تھی جبکہ مال ومتاع کافی زیادہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ اپنے غطفانی ماموؤں میں سے یہ اسی ماموں کے زیر کفالت رہا۔
شعر وشاعری سمیت زندگی گزارنے کےوہ بہترین اخلاق بھی اس نےاپنے اسی چہیتے ماموں بشامہ بن غدیر سے سیکھے 33 جن اخلاق سے متصف ہونے کی بناپر ایک آدمی اپنے معاشرہ میں بہترین زندگی گزارتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں میں ممتاز مقام بھی حاصل کرتا ہے۔اسی وجہ سے زہیر نے آگےچل کر معاشرہ میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا اور سردار ی کے مقام و مرتبہ تک پہنچا جس کی وضاحت درج ذیل عبارت سے ہوتی ہے:
وكان زهيرا شاعرا مجيدا كما كان سيدا شريفا ثريا، يقول ابن سلام: وكان زهير كثير المال، وكان ممن فقأ عين بعير فى الجاهلية، وكان الرجل إذا ملك ألف بعير فقأ عين فحلها.34
اور زہیر اسی طرح باعزت شاعر تھا جس طرح وہ با عظمت اور سخی سردار تھا۔ابن سلام کہتے ہیں کہ یہ انتہائی مالدار تھا اور ان اشخا ص میں سےتھا جس کے اونٹ کی ایک آنکھ دور جاہلی میں(نشانی کے طورپر) پھوڑدی جاتی تھی۔کوئی آدمی جب ہزار اونٹوں کا مالک بن جاتاتھاتو اس کے اونٹ کی ایک ا ٓنکھ (نشانی کے طورپر) پھوڑ دی جاتی تھی۔
زہیر کا بچپن مذکورہ چیزوں سمیت دیگر کئی اہم ترین اشیاء سے بھی پُر گزرا تھا جن میں اہل عرب کی مشہور جنگ"حرب داحس و غبراء" بھی شامل ہے اور یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ان جنگوں کی وجہ سے زہیر کی زندگی امن و آمان کے بجائے جنگ وجدال اوروحشت زدہ ماحول میں پروان چڑھی تھی جس کی ذیلی اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:
وقد عاش زهير فى خلال هذه الحروب التى نشبت بين عبس وذبيان، حروب داحس والغبراء ... وقد أسهمت عشيرة أخواله، فى تلك الحروب وصليت نارها. وأيضا فإنها صليت نيران حروب أخرى كانت تنشب بينها وبين بعض العشائر الذبيانية، وفى شعر خاله بشامة ما يصور تلك الحروب الأخيرة، فقد روى له صاحب المفضليات قصيدتين يحرض فيهما عشيرته أن لا يخذلوا حلفاءهم «الحرقة» وأن يقفوا معهم ضد بعض العشائر من بنى سعد بن ذبيان. ومعنى ذلك أن الأيام التى عاشها زهير فى عشيرة أخواله الذبيانيين لم تكن أيام استقرار وأمن، إنما كانت أيام حروب وسفك للدماء، فدائما تشنّ الغارات، ودائما تجيش القلوب بالأضغان، فتسلّ السيوف وتقطع الرقاب.35
اور تحقیق زہیر نے ان ہی جنگوں کے درمیان زندگی گزاری جو جنگیں عبس وذبیان کے مابین برپا رہیں یعنی داحس و غبراء کی جنگیں۔۔۔ان جنگوں میں زہیر کے ماموؤں کےخاندان نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا اور اس کی آگ کومزید بھڑکایا۔اور انہوں نے دیگر چند جنگوں کی آگ کو بھی بھڑکایا جو ان کے اور بعض ذبیانی خاندانوں کے مابین ہوئیں۔ زہیر کے ماموں بشامہ کے شعر میں ایسی باتیں ہیں جن سے ان دیگر جنگوں کا تصور کیا جاسکتا ہے۔صاحب المفضلیات نےبشامہ کے دو ایسے قصیدے (اپنی کتاب میں )نقل کیے ہیں جن دونوں قصیدوں میں بشامہ اپنے خاندان کو اس بات پر ابھار رہا ہے کہ وہ اپنے حلفاء "حرقہ قبیلہ" کو ذلیل و رسوا نہ کریں اور ان کے ساتھ بنو سعد بن ذبیان کے بعض خاندانوں کے مقابلہ میں کھڑے رہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایام جو زہیر نے اپنے ذبیانی ماموؤں کے خاندان میں گزارے وہ گھر میں ٹھہرنے اورامن وآمان کے دن نہیں تھے بلکہ وہ تو جنگوں کے اور خون بہانے کے دن تھے۔پس مسلسل حملے ہوتے رہتے اور بغض وحسد سے کئی دل ابلتے رہتے جس وجہ سے تلواریں بے نیام ہوجاتیں اور گردنوں کو کاٹ ڈالتیں۔
یوں زہیر نے ان ایام میں اپنی زندگی کے دن گزارے اسی لیےاسے جنگ وجدال، قتل وغارت گری اور لڑائی جھگڑا انتہائی ناپسند تھا جن سب کی وجہ سے اس کا بچپن ذہنی سکون سے نہیں گزرا بلکہ زہیر نے ہر وقت تباہی وبربادی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں رہ کر انتہائی تلخ یادوں کے ساتھ اپنے بچپن کو گزارا۔یہی وجہ ہے کہ جب بنو مرہ کے دو سرداروں ہرم بن سنان اور حارث بن عوف کی کوششوں کے نتیجہ میں"حرب داحس وغبراء" کا خاتمہ ہوا تو زہیر نے ان کے اس اقدام کی دل کھول کر تعریف کی اوراپنی تمام تر شاعرانہ صلاحیت کو بروئے کارلاتے ہوئے ان کی تعریف میں وہ مشہور زمانہ قصیدہ لکھا جو بعد میں اہل عرب کے ہاں معلقات میں شامل کیا گیا۔36 اس کے علاوہ بھی زہیر نے ہرم بن سنان کی مدح میں وقتاً فوقتاً کئی قصائد لکھے اور زندگی بھر اس کی مدح و ستائش کی جس کے بدلہ میں ہرم بن سنان بھی اس کو ہر دفعہ دراہم ودنانیر سے نوازتا تھا۔37
مذکورہ تمام تفاصیل سے واضح ہو اکہ زہیر دلی طور پر جنگ وجدال سے نفرت کرتا تھا اور اس کی ذاتی رائے امن وسلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق میں تھی اور اسی وجہ سے اس نے زندگی بھر ہرم بن سنان کی تعریف وتوصیف کی کیونکہ اس کے اور حارث بن عوف کے دلیرانہ و فیاضانہ اقدام کی وجہ سے کئی قبائل جنگ وجدال سے محفوظ ہوئے اور امن وسلامتی کے ساتھ رہے۔
زہیر بن ابی سُلمی نے زندگی میں تین شادیاں کیں کیونکہ اس کی پہلی دوشادیاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی تھیں۔ زہیر کی ابتدائی دو شادیوں سے متعلق تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وفى أخباره أنه تزوج من امرأتين: أم أوفى وهى التى يذكرها كثيرا فى شعره، ويظهر أن المعيشة لم تستقم بينھما، فطلقها بعد أن ولدت منه أولادا ماتوا جميعا والثانية التى تزوجها من بعدها هى كبشة بنت عمار الغطفانية، وهى أم أولاده: كعب وبجير وسالم، ومات سالم فى حياته ورثاه ببعض شعره.38
زہیر کی خبروں میں یہ بات منقول ہے کہ اس نے دو عورتوں سے شادی کی تھی۔پہلی ام اوفی وہی جس کا تذکرہ یہ اپنے اشعار میں کثرت سے کرتا ہے اور یوں ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان زندگی صحیح نہیں گزری جس وجہ سے اس سے پیدا ہونے والی ساری اولاد کے انتقال ہوجانے کے بعد زہیر نے اس کو طلاق دےد ی تھی۔دوسری بیوی جس سے زہیر نے پہلی بیوی کے مرنے کے بعد شادی کی تھی وہ کبشہ بنت عمار غطفانیہ ہےاور یہی اس کی دوسری اولاد کعب، بجیرا ورسالم کی والدہ بھی ہے۔سالم زہیر کی زندگی میں ہی مرگیا تھا اورزہیرنے اس کا مرثیہ اپنے چند اشعار میں کہا ہے۔
زہیر نے اپنی اس دوسری بیوی کو بھی طلاق دے دی تھی اور پھر اس پر نادم بھی ہوا تھا چنانچہ تاریخ میں مذکور ہے:
هي أم ابنيه كعب وبجير، فغارت من ذلك وآذته فطلقها ثم ندم فقال فيھا.39
یہ (کبشہ)زہیر کے دونوں بیٹوں کعب وجبیر کی ماں بھی ہے اور (ام اوفی کے) تذکرہ سے اس نے زہیر پر غیرت دکھائی اور اسے تکلیف پہنچائی جس وجہ سے زہیر نے اس کو بھی طلاق دےدی پھر اس فعل پرنادم ہوکر اس نے کبشہ کے بارے میں اشعار بھی کہے۔
پھر زہیر نے تیسری شادی کی جس سے اس کی ایک بیٹی بھی ہوئی۔ زہیر کی اس بیٹی کی ہرم بن سنان جو زہیر کو مال، متاع اوردراہم و دنانیر سے نوازتا تھا، اس ہرم کی بیٹی سے ملاقات حضرت عائشہ کے پاس ہوئی تھی جس کے بار ے میں یوں بیان کیاگیاہے:
وكانت لزهير بنت كانت شاعرة كذلك ذكر أن بنت زهير دخلت على عائشة رضي اللّٰه عنھا، وعندها بنت هرم بن سنان، فسألت بنت هرم: بنت زهير من أنت؟ قالت: أنا بنت زهير قالت: أوَمَا أعطى أبي أباك ما أغناكم؟ قالت: إن أباك أعطى أبي ما فني، وإن أبي أعطى أباك ما بقي.40
زہیر کی ایک بیٹی بھی اسی طرح شاعرہ تھی۔یہ ذکر کیا گیا ہے کہ زہیر کی یہ بیٹی ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس آئی تو ان کے پاس پہلے سے ہرم بن سنان کی بیٹی موجود تھی۔ہرم بن سنان کی بیٹی نے زہیر کی بیٹی سے پوچھا کہ تم کون ہو تو اس نےکہا کہ میں زہیر کی بیٹی ہوں۔ ہرم کی بیٹی نے کہا کہ کیامیرے والد نے تمہارے والد کو بہت کچھ ایسانہیں دیا تھا جس کے سبب تم سب غنی ہوگئے۔زہیر کی بیٹی نےکہا کہ تمہارے والدنے میرے والد کو وہ کچھ دیا جو ختم ہوگیا جبکہ میرے والدنے تمہارے والد کو وہ کچھ دیا جو اب تک باقی ہے۔
یعنی زہیر کی بیٹی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میرے والد کے تمہارے والد کی مدح میں کہے گئے اشعار کے بدلے تمہارادیا ہوا مال تو ختم ہوگیا لیکن آج تک میرے والد کے مدحیہ قصائد واشعار زبان زد عام ہیں۔ زہیر کی بیٹی کے اس موقع پر کہے گئے اشعار کو جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے جنہیں نقل کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:
وإنّك إن أعطيتني ثمن الغنى
حمدت الّذي أعطيت من ثمن الشّكر
وإن يفن ما تعطيه في اليوم أوغد
فإنّ الّذي أعطيك يبقى على الدّهر.41
اور بلاشبہ تم نے اگر غنی ہونے کا معاوضہ مجھے دے بھی دیا تو میں نے شکر کے معاوضہ میں تمہارے دیے ہوئے کی تعریف کی۔اگر چہ کہ جو کچھ تم نےدیا وہ آج یا کل ختم ہوجائےگا پس بلا شبہ جو میں نے تمہیں دیا وہ تو کئی زمانہ تک باقی رہےگا۔
اس طرح زہیر کی بیٹی کی کہی گئی یہ بات واقعی سچ ثابت ہوئی کیونکہ وہ مدحیہ قصائد آج تک ادب عربی کی زینت ہیں۔اسی طرح کا واقعہ حضرت عمر کے بارے میں بھی منقول ہے جس کو نقل کرتے ہوئے ابن قتیبہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وكان جيّد شعره فى هرم بن سنان المرّى وقال عمر رضى اللّٰه عنه لبعض ولد هرم: أنشدنى بعض ما قال فيكم زهير، فأنشده، فقال: لقد كان يقول فيكم فيحسن، فقال: يا أمير المؤمنين إنّا كنّا نعطيه فنجزل! فقال عمر رضى اللّٰه عنه : ذهب ما أعطيتموه وبقى ما أعطاكم.42
زہیر ہرم بن سنا ن مرّی کی تعریف میں اپنا شاندار قصیدہ کہتا تھا اور ایک مرتبہ حضرت عمر نے ہرم کے کسی بیٹے سے کہاکہ تمہارے بارے میں جو زہیر نے مدحیہ اشعار کہے ہیں ان میں سے کچھ سناؤ تو اس نے حضرت عمر کو چند اشعار سنائے تو آپ نے کہا: زہیر تمہارے بارے میں مدحیہ قصائد کہاکرتا تھا اور شاندار کہا کرتا تھا توہرم کے بیٹے نے کہاکہ اے امیر المؤمنین ہم اسے اس کے عوض انعامات سے نوازدیتے تھے تو حضرت عمر نے کہا کہ جو مال ومتاع تم نے اسے دیا وہ تو ختم ہوگیا البتہ اس نے تمہیں جو مدحیہ قصائد دیے وہ آج تک باقی ہیں۔
زہیر کے دونوں بیٹے شاعر تھے اور انہوں نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا البتہ پہلے بجیر نے کیا تھا اور اس نے اپنے بهائی کو بھی اسلام قبول کرنے کی نصیحت کی تھی جس کے جواب میں اس نے چند اشعار کہے جس کو نقل کرتے ہوئے ابن ہشام نقل کرتے ہیں:
الا أبلغا عني بجيرا رسالة
فھل لك فيما قلت ويحك هل لكا؟
فبين لنا إن كنت لست بفاعل
على أي شيء غير ذلك دلكا...
سقاك بھا المأمون كأسا روية
فأنھلك المأمون منھا وعلكا 43
خبر دار اے قاصد میری طرف سے بجیرکو یہ پیغام پہنچادو کیا تیرے لیے اس نصیحت کےکرنے میں کچھ انعام ہے ؟تو برباد ہو کیا تیرے لیے نجات ہے؟۔۔پس ہمارے لیے یہ واضح کر کہ اگر میں یہ کام نہ کروں تو اس کے علاوہ کس چیز کی رہنمائی کی گئ ہے؟اس (نصیحت)کے ساتھ مامون(یعنی نبی کریمﷺ)نے تجھے سیراب کردینے والےاس پیالے سے سیراب کردیا جس سے پہلے خود مامون (یعنی نبی کریمﷺ)نے پیا پھر دوسری بار تونے پیا۔
اس حوالہ سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ تحریر کرتے ہیں:
وأنّه لم يبق من الشعراء الذين كانوا يؤذونه إلا ابن الزّبعرى السهمىّ وهبيرة بن أبى وهب المخزومى، وقد هربا منه، فإن كانت لك فى نفسك حاجة فاقدم عليه، فإنّه لايقتل أحدا أتاه تائبا، وإن أنت لم تفعل فانج بنفسك فلمّا ورد عليه الكتاب ضاقت عليه الأرض برحبھا، وأرجف به من كان بحضرته من عدوّه، فقال قصيدته التى أوّلها:
"بانت سعاد فقلبى اليوم متبول" وفيھا قال:
نبّئت أنّ رسول اللّٰه أوعدنى
والعفو عند رسول اللّٰه (صلي اللّٰه عليه وسلم ) مأمول
ثم أتى رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فوضع يده فى يده وأنشده شعره، فقبل توبته وعفا عنه، وكساه بردا، فاشتراه منه معاوية بعشرين ألف درهم، فهو عند الخلفاء إلى اليوم.44
اورمعاملہ یہ ہے کہ جن شعراء نے آ پ ﷺکو تکلیف دی ہے ان میں سے کوئی بھی نہیں بچا سوائے ابن زبعری السہمی اور ہبیر ہ بن ابی وھب مخزومی کے جو بچ کر بھاگ نکلے۔ پس اگر تمہارے دل میں کوئی خواہش ہے تو آپﷺکے پاس آجاؤ کیونکہ جو شخص بھی سرکشی سے تائب ہوکر آپﷺکے پاس آتا ہے انہیں آپﷺبخش دیتےہیں اور اگر اب بھی تم یہ نہیں کرتے تو خود بچ سکو تو بچ جاؤ۔جب یہ خط کعب تک پہنچا تو زمین اپنی وسعت کے باوجود اس پر تنگ ہوگئی اور جو بھی نبی کریم ﷺکے دشمن اس کے ساتھ موجود تھے وہ سب اس خط سے ڈرگئے۔پھر اس نے وہ مشہور زمانہ قصیدہ کہا جس کا اول مصرعہ یہ ہے: "سعاد نے داغِ مفارقت دیا جس وجہ سے آج میرا دل بے چین ہے"اس قصیدہ میں اس نےیہ شعر بھی کہے:
مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہﷺنے مجھے (قتل کی)دھمکی دی ہے
جبکہ رسول اللہﷺسے معافی کا ملنا تو عام معمول ہے۔
پھر یہ کعب رسول اللہﷺکے پاس حاضر ہوا اور اپنا ہاتھ آپﷺکے ہاتھ میں دے کر اشعار کہے توآپﷺنے اس کی توبہ قبول فرمائی اور اسے معاف فرمادیا۔مدح گوئی کے بدلہ اس کو چادر بھی پہنائی اور حضرت معاویہ نے یہ چادر ان سے بیس (20)ہزار دراہم میں خریدلی تھی جو آج تک خلفاء کے پاس موجود ہے۔
یعنی زہیر کے دونوں بیٹوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور کعب بن زہیر نے پہلے تو العیاذ باللہ نبی کریم ﷺ کی ہجو کی لیکن بجیر بن زہیر کے کہنے پر اس کو سمجھ آگئی اور اس نے آپﷺکی مدح وتعریف میں مشہور زمانہ قصیدہ کہا اورپھر آپﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔اس حوالہ سے مندرجہ ذیل عربی عبارت سے نشاندہی ہوتی ہے:
قال قصيدته التي يمدح فيها رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وذكر فيها خوفه وإرجاف الوشاة به من عدوه، ثم خرج حتى قدم المدينة، فنزل على رجل كانت بينه وبينه معرفة، من جهينة، كما ذكر لي، فغدا به إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حين صلى الصبح، فصلى مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ثم أشار له إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال: هذا رسول اللّٰه ، فقم إليه فاستأمنه. فذكر لي أنه قام إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، حتى جلس إليه، فوضع يده في يده، وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا يعرفه، فقال: يا رسول اللّٰه ، إن كعب بن زهير قد جاء ليستأمن منك تائبا مسلما، فهل أنت قابل منه إن أنا جئتك به؟ قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: نعم، قال: أنا يا رسول اللّٰه كعب بن زهير. قال ابن إسحاق: فحدثني عاصم بن عمر بن قتادة: أنه وثب عليه رجل من الأنصار، فقال: يا رسول اللّٰه ، دعني وعدو اللّٰه أضرب عنقه، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: دعه عنك، فإنه قد جاء تائبا، نازعا.45
کعب بن زہیرنے اپنا وہ قصیدہ کہا جس میں اس نے نبی کریمﷺ کی تعریف و توصیف بیان کی تھی۔ اس قصیدہ میں اس نے اپنی جان کا خوف اوراس کے دشمنوںمیں سے چغل خوروں کی بدخواہی کا ذکر بھی کیا ہے۔پھر یہ نکلا اور مدینہ میں آیا اور قبیلہ جہینہ کے ایک جاننے والے شخص کے ہاں مہمان ٹھہرا جیساکہ مجھے راوی نے بتایا۔پھروہ شخص اسے صبح اس وقت رسول اللہﷺسے ملوانے لےگیا جب آپﷺنے فجر کی نماز پڑھی تو اس شخص نے بھی رسول اللہﷺکے ساتھ فجر کی نماز ادا کی۔ پھر اس نے رسول اللہﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اللہ کے رسولﷺہیں لہذا آپﷺکے پاس جاؤ اور آپﷺسے امن طلب کرو۔راوی نے بتایا کعب رسول اللہﷺکے پاس گیا یہاں تک کہ آپﷺکے قریب ہوکر بیٹھ گیا اور اپنا ہاتھ آپﷺکے ہاتھ میں دے دیا جبکہ رسول اللہﷺکعب کو پہچانتے نہیں تھے۔تو اس نے کہا اے اللہ کے رسولﷺکعب بن زہیر آیا ہے تاکہ وہ تائب ومسلمان ہوکر آپﷺسے امان حاصل کرسکے تو کیا آپﷺ اس کی معافی کو قبول فرمائیں گے اگر میں اسے آپ کے پاس لے آؤں؟رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: " ہاں"تو کعب نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺمیں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ابن اسحاق نے کہا کہ مجھے عاصم بن عمر بن قتادہ نے بتایا کہ اس منظر کو دیکھ کر انصار میں سے کسی شخص نے کعب پر چڑھائی کی اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺمجھے اور اللہ کے دشمن کو چھوڑدیں تاکہ میں اس کی گردن اڑادوں۔جس پر رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: اسے اپنے آپ سے جدا کردو کہ حقیقت میں یہ تائب اور دشمنی کوچھوڑ کر واپس آیا ہے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریمﷺنےکعب بن زہیر کے مدحیہ قصیدہ سے خوش ہوکر اسے انعام واکرام سے نوازتے ہوئے چادر پہنائی 46اور یوں اس کا نبی کریمﷺکی شان میں کہا گیا قصیدہ "قصیدہ بردہ "47کے نام سے زبان زد عام ہوگیا جو آج بھی ادب عربی کی زیب وزینت ہے۔
زہیر بن ابی سُلمی کی شاعری کی ابتداء کے حوالہ سے کتب تاریخ میں گوکہ صراحت منقول نہیں ہے البتہ ابو عبد اللہ زوزونی کا اپنی کتاب میں زہیر کے ماموں بشامہ کی وفات کے حوالہ سےنقل کردہ ایک واقعہ اس طرف اشارہ ضرور کرتاہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:
فلما حضره الموت جعل يقسم ماله في أهل بيته وبين إخوته فأتاه زهير فقال: يا خولاه لو قسمت لي من مالك! فقال: واللّٰه يابن أختي لقد قسمت لك أفضل ذلك وأجزله قال: وما هو؟ قال: شعري ورثتنيه وقد كان زهير قبل ذلك قال الشعر، وقد كان أول ما قال فقال له زهير: الشعر شيء ما قلته فكيف تعتد به علي؟ فقال بشامة: ومن أين جئت بھذا الشعر! لعلك ترى أنك جئت به من مزينة وقد علمت العرب أن حصاتھا وعين مائھا في الشعر لهذا الحي من غطفان ثم لي منھم، وقد رويته عني، وأحذاه نصيبا من ماله ومات.48
جب بشامہ کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنا مال اپنے گھر والوں اور اپنے بھائیوں کے درمیان تقسیم کردیا۔پھر زہیر اس کےپاس آیا اور کہا کہ اے ماموں کاش کہ آپ مجھے بھی اپنے مال میں سے کچھ حصہ دیتے جس پر اس نے کہا: اے میرے بھانجے اللہ کی قسم یقینی طور پر میں نےاس مال سے زیادہ قیمتی اور نفع مند چیز تمہیں دی ہے۔زہیر نے کہا کہ وہ کیا ہے؟بشامہ نے کہا کہ وہ میرے اشعار ہیں جن کا تو مجھ سے وارث بنا ہے۔ زہیر نے اس سے پہلے ایک غزلیہ اشعار کہے تھے اور وہ غزلیہ اشعار زندگی میں پہلی بار کہے تھے تو زہیر نے بشامہ سے کہا: اشعار تو وہ غزلیہ اشعار ہیں جنہیں میں نے کہا تھاتو آپ اس غزل کو مجھےآپ کی دی ہوئی وراثت میں کیسے شمار کرسکتے ہیں؟اس سوال پر بشامہ نے کہا کہ یہ غزلیہ اشعار کہاں سے سیکھے تم نے؟شاید تم یہ سمجھتے ہو کہ تم نے یہ (اپنےددھیالی قبیلہ)مزینہ سے سیکھے ہیں جبکہ سارے اہل عرب اس بات کو جانتے ہیں کہ اس علاقہ کے زرعی علاقوں اور پانی کے چشموں کے بارے میں اشعار قبیلہ غطفان کے ہیں اور ان میں سے بھی میرے ہیں اور تم نے بھی ان ہی اشعار کو ہی(اپنے انداز)سے نقل کیا ہے۔پھر اس نے زہیر کو اپنے مال میں سے بھی کافی حصہ دیا اور پھر وہ مرگیا۔
اس واقعہ سے جہاں یہ واضح ہوا کہ زہیر نے بشامہ کے مال و اشعار میں سے وراثت پائی ہے وہیں یہ بھی واضح ہواکہ زہیرنے اسی دوران اپنی زندگی کی سب سے پہلی غزلیہ شاعری بھی کہی تھی جس میں لازما کھیتوں اور پانی کے چشموں کا بھی ذکر ہوگا جس کی بنا پر اس نے اپنے ماموں سے مذکورہ بالا سوال کیا اور پھربشامہ بن غدیر نے اس کا مذکورہ بالا تسلی بخش جواب دیا نیز یہ بھی واضح کردیا کہ اس علاقہ کی شاعری کی بقاء وترقی میں قبیلہ غطفان اور بشامہ بن غدیر کا کافی حصہ ہے جس کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔
اہل عرب کے نزدیک زہیر بن ابی سُلمی کا شاعری میں یہ مقام ومرتبہ مسلمہ ہے کہ وہ دور جاہلی کے طبقہ اولی میں سے تھا اور باقی تمام شعراء پر فوقیت رکھتا تھا نیز تمام مؤرخین نے اس بات کواجماعی طور پر ہی بیان کیا ہے البتہ اس بارے میں ضرور اختلاف منقول ہے کہ طبقہ اولی میں کون زیادہ بلندمقام ومرتبہ کا حامل تھا لیکن اس اختلاف سے قطع نظر یہ بات مسلمہ ہے کہ زہیربن ابی سُلمی چند خصوصیات کےلحاظ سے برتر وبالا تھا۔اس حوالہ سے حضرت عمر کا واقعہ نقل کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
ويروى عن عمر بن الخطّاب أنه قال: أنشدونى لأشعر شعرائكم، قيل: ومن هو؟ قال: زهير، قيل: وبم صار كذلك؟ قال: كان لا يعاظل بين القول، ولا يتّبع حوشىّ الكلام ولا يمدح الرجل إلّا بما هو فيه.49
حضرت عمر بن الخطاب سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے مجلس والوں سے فرمایا کہ مجھے اپنے سب سے بڑے شاعر کا کوئی کلام سناؤ!تو کہا گیا کہ وہ کون ہے؟آپ نے فرمایا کہ وہ زہیر ہے تو آپ سے کہا گیا کہ ایسا کیوں ہے؟تو آپ نے فرمایا کیونکہ وہ کلام کے درمیان پیچیدہ کلام نہیں لاتا، نہ ہی زائد کلام کی تگ ودو میں لگتا ہے اور کسی کی بھی تعریف اس کے موجودہ اوصاف ہی سے کرتا ہے۔
یعنی زہیر اپنے ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے مبالغہ آرائی نہیں کرتاجیسا کہ اکثر مادحین کا کام ہے اور ان مذکورہ خصوصیات کی بنا پر زہیر عرب کا سب سے بڑا شاعر ہے۔اسی حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وهو أحد الثلاثة المقدَّمين على سائر الشعراء، وإنما اختلفوا في تقديم أحد الثلاثة على صاحبيه وأما الثلاثة فلا اختلاف فيھم، وهم: امرؤ القيس، وزهير، والنابغة الذبياني.50
اور زہیر ان تین شعراء میں سے ایک ہے جو عرب کے تمام شعراء پر فوقیت رکھتے ہیں، اختلاف تینوں میں سے کسی ایک کو اس کے دونوں ساتھیوں پر مقدم کرنے میں ہے بہر حال تینوں کی فوقیت میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور وہ تین امرؤالقیس، زہیر اور نابغہ ذبیانی ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ زہیر عرب کے طبقہ اولی سے تعلق رکھتا ہے جوتمام شعرائے عرب پر مسلمہ ومتفقہ فوقیت رکھتے تھے البتہ چند خصوصیات کے لحاظ سے تینوں میں سے ہر ایک اپنے دونوں ساتھیوں پرجزوی برتری رکھتا تھا جیساکہ حضرت عمر نے زہیر کے بارے میں چندخصوصیات کا تذکرہ کرکے اس طرف اشارہ کیا تھا۔اس حوالہ سے مزید وضاحت درجِ ذیل اقتباس سے ہوتی ہے:
"ومن قدّم زهيرا قال: كان أحسنھم شعرا، وأبعدهم من سخف، وأجمعهم لكثير من المعنى في قليل من المنطق، وأشدهم مبالغة في المدح، وأكثرهم امتثالا في شعره "... ولزهير شعر سبق به غيره، فأخذه الشعراء منه وضمنوه شعرهم وقد ذكر العلماء أمثلة على ذلك" ويروى أن لزهير سبع قصائد نظم كلا منھا في عام كامل، ومن ثم سميت: الحوليات." 51
اور جس نےزہیر کو (طبقہ اولی میں)مقدم کیا ہےاس نے کہا کہ یہ ان کے مقابلہ میں بہترین شعر والا، رکیک کلام سے دوری والا، کم الفاظ میں کثیر معنی جمع کرنے والا، (سچی )تعریف کرنےمیں شدت کرنے والا اور شعر گوئی میں نمونہ کلام کی کثرت رکھنے والا ہے۔اس کے علاوہ زہیر کی چند خصوصیات ایسی بھی ہیں جن میں وہ دیگر شعراء سے سبقت لے گیا ہے لہذا شعراء نے اس سے وہ چیزیں اخذ کیں اور اپنے شعروں میں ان چیزوں کو ملادیا۔تحقیق علمائے ادب نے اس کی مثال ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روایت میں نقل کیا گیاہے کہ زہیر کے سات(7)ایسے قصائد ہیں جن میں سے ہر ایک کو اس نے پورےایک سال میں نظم کیا ہے اور اسی وجہ سے ان کا نام "حولیات"رکھا گیا ہے۔
زہیر بن ابی سُلمی اپنے ہر قصیدہ اور نظم کو اسی طرح منظر عام پر لایا کرتا تھا جیساکہ مذکور ہے:
وكان زهير شديد العناية بتنقيح شعره، حتى ضُرب به المثل، وسميت قصائده بالحوليات، نسبة إلى الحول أي السنة، وذلك لأنه كان ينظم القصيدة في أربعة أشھر، ويھذبھا بنفسه في أربعة أشھر، ويعرضها على أصحابه الشعراء في أربعة أشھر، فلا يشهرها حتى يأتي عليھا حول كامل.52
زہیر اپنے اشعار میں کانٹ چھانٹ کے حوالےسے شدید توجہ رکھتا تھا یہاں تک کہ (اہل عرب میں)اس کے ذریعہ ضرب المثل مشہور ہوگئی اور اس کے قصائد کا نام حول یعنی مکمل سال کی طرف نسبت دیتے ہوئے "حولیات " رکھا گیا۔یہ اس لیے ہوا کیونکہ زہیر اپنے ایک قصیدہ کو چار(4)مہینوں میں نظم کیا کرتا پھر بذاتِ خود اس کی اگلے چار(4)مہینوں میں کانٹ چھانٹ کیا کرتا اور پھر اگلے چار(4)مہینوں میں اس قصیدہ کو اپنے شاعر دوستوں پر پیش کیا کرتا اور پھر جب تک اس طرح مکمل ایک سال نہ گزرجاتا تب تک اپناقصیدہ عوام میں مشہور نہیں کرتاتھا۔
اسی وجہ سے زہیر کے قصائداورنظموں کا نام "حولیات "رکھا جاتاتھا کیونکہ حولیات کا مطلب وہ نظم ہے جسے سال بھر میں حذف واضافہ، قطع وبریداور تنقیح وتہذیب کے بعد منظر عام پر لایا گیا ہو اور یہ زہیر بن ابی سُلمی کا اپنی نظموں کے حوالہ سے عام معمو ل تھا جس وجہ سے اس کی نظمیں دیگر وجوہات سمیت اس وجہ سے بھی لوگوں کے درمیان ممتاز ہوتی تھیں۔
زہیر بن ابی سُلمی کے اپنے قصائد کو اسی طرح مکمل توجہ اور تنقیح وتہذیب سے گزارنے کی بنا پر ہی اس کے کلام میں وہ خوبیاں پیدا ہوئیں جن سے عام عوام تومحظوظ ہوتےہی تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ خوّاص ادیب بھی دادِ تحسین دیے بنا نہیں رہ پاتےتھے جس کی طرف درج ذیل عبارت سے اشارہ ملتاہے:
وقد ثمن شعره وقدره العلماء قال الثعالبي فيه: إنه أجمع الشعراء للكثير من المعاني في القليل من الألفاظ وفي معلقته أبيات في نھاية الحسن والجودة، وقد جرت مجرى الأمثال الرائعة.53
اور تحقیق اس کے اشعار کہیں زیادہ قیمتی تصور کیے گئے اور(ادبی) علماءنے زہیر کی انتہائی قدر کی ہے یہاں تک کہ ثعالبی نے زہیر کے بارے میں کہا: یہ شعراءکی بنسبت کم الفاظ میں کثیر معانی کو سب سے زیادہ جمع کرنے والا ہے اور ا س کے (مشہورِ زمانہ )معلقہ میں ایسے اشعار بھی ہیں جو حسن وجدت میں اپنی انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں نیز یہ اشعار تو رائج مثالوں کی طرح (لوگوں کے مابین)جاری ہوچکے ہیں۔
اسی حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے اور اس طرح کے شعر کی مثال بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
قال عكرمة بن جرير: قلت لأبى: من أشعر الناس؟ قال: أجاهليّة أم إسلاميّة؟ قلت: جاهليّة، قال: زهير، قلت: فالإسلام قال: الفرزدق ... قال عبد الملك لقوم من الشعراء: أىّ بيت أمدح؟ فاتّفقوا على بيت زهير:
تراه إذا ما جئته متھلّلا
كأنّك تعطيه الّذى أنت سائله.54
عکرمہ بن جریر نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ لوگوں کا بڑا شاعر کون ہے؟تو انہوں نے پوچھا کہ دورِ جاہلی کا یا دورِاسلامی کا؟میں نے کہا کہ دورِ جاہلی کا تو انہوں نے کہا کہ وہ زہیر ہے۔میں نے پھر کہا کہ دورِ اسلامی کا؟تو انہوں نے کہا فرزدق ہے۔عبد الملک نے شعراء کی ایک جماعت سے کہا کہ کونسا شعر سب سے زیادہ تعریف والا ہے تو وہ تمام زہیر کے درج ذیل شعر پر متفق ہوئے:
تو اس(ممدوح) کو دیکھے گاکہ جب تواس کے پاس خوشی خوشی جائےگا
کہ گویا کہ تونے اسے وہ چیز دے دی جس کا تو مانگنے والا تھا۔
یعنی زہیرکے اس شعر کو شعراء کی جماعت نے مدح میں بلند وبالا قراردیا ہے اور اس کی مزید تفصیل اس کے دیوان یا ابن قتیبہ کی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے جس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ زہیر کے شاعرانہ کلام کے شعراء بھی مدّاح تھے اور یہ کسی بھی شخص کے اپنے شعبہ میں ممتا زہونے کے لیے کافی ہے کہ اس شعبہ کے ماہرین اس کے مدّاح ہوں۔یہی وجہ ہے کہ اس کے ایک شاہکار قصیدہ کو سبع معلقات میں شامل کیاگیا تھا جیساکہ ذیلی اقتباس میں مذکور ہے:
نشأ زهير فيھم، وهناك قال قصيدته المعلقة يذكر فيھا قتل ورد بن حابس العبسي هَرِمَ بن ضَمْضَم المري، ويمدح فيھا هرم بن سنان بن أبي حارثة، والحارث بن عوف، وسعد بن ذبيان المريين لأنھما احتملا ديته من مالهما وكان زهير بعد ذلك يكثر من مدح هَرِم وأبيه سنان وله فيھما قصائد غُر فحلف هرم ألا يمدحه إلا أعطاه ولا يسأله إلا أعطاه ولا يسلم عليه إلا أعطاه عبدًا أو وليدة أو فرسًا فاستحيا زهير من كثرة بذله له على كل حال، وجعل يتجنب مقابلته.55
زہیر ان(غطفانیوں)میں پلا بڑا اور یہاں اس نے اپنا معلقہ والا قصیدہ کہا جس میں ورد بن حابس عبسی کا ہرم بن ضمضمہ کو قتل کرنے کا تذکرہ کیا۔ اس میں ہرم بن سنان بن ابی حارثہ، حارث بن عوف مری اور سعد بن ذبیان مری کی تعریف بھی کی کیونکہ ان(ابتدائی مذکور) دونوں اشخاص نے اس کی دیت کو اپنے اپنے مال سے ادا کیا تھا۔اس کےبعد زہیر نے ہرم اور اس کے والد کی بکثرت تعریف کی اور ان دونوں کے بارے میں قیمتی قصائد کہے جس وجہ سے ہرم نے قسم اٹھائی کہ زہیر جب بھی اس کی مدح کرےگا تو یہ اس کو انعام سے نوازےگا، جب بھی وہ اس سے سوال کرےگا تو یہ اس کے مطالبہ کو پورا کرےگا اور جب بھی وہ اس سے سلام دعا کرےگا تو یہ اسے غلام یا نوجوان خادم یا گھوڑا دیا کرےگا۔پس زہیر نے ہرم کے بکثرت اس پر مال خرچ کرنے کی وجہ سے شرم محسوس کی اور اس کی ملاقات سے اجتناب کرنے لگا۔
ہرم بن سنان کی سخاوت اوراس کی مدح میں کہے گئے زہیر کےاشعار کی مقبولیت عامہ کوبیان کرتےہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
و"هرم بن سنان المُريّ"، من أجواد الجاهلية أيضاوهو سيد غطفان وكان والده سيّد غطفان كذلك وقد مدحه الشاعر زهير بن أبي سلمى في أبيات لا يزال الناس يحفظونھا ويذكرونھا عن هرم وقد كان هرم أعطاه مالًا كثيرًا من خيل وإبل وثياب وغير ذلك مما أغناه، وفيه ورد المثل: أجود من هرم.56
ہرم بن سنان مری دورِ جاہلی کے فیّاض ترین اشخاص میں سے ہے اور قبیلہ غطفان کا سردار بھی ہے جیساکہ اس کا والد بھی قبیلہ غطفان کا سردار تھا۔شاعر زہیر بن ابی سُلمی نے اس کی تعریف ایسے اشعار میں کی ہے جن اشعار کو لوگ ہمیشہ سے محفوظ کرتے رہے اور ہرم سے اس کا تذکرہ کرتے رہے۔ہرم (اس کے انعام کے طور پر)زہیر کو کثیر مال، گھوڑے، اونٹ، قیمتی لباس اور ان کے علاوہ کئی چیزیں عطا کرتا تھا جن سے اس نے زہیر کو مالا مال کردیا تھا نیز اس بارے میں تو کہاوت بھی مشہور ہوگئی تھی کہ (فلاں)ہرم سے زیادہ سخی ہے۔
اس واقعہ سے یہ واضح ہوا کہ زہیر کے ہرم کی مدح میں کہے گئے اشعار لوگوں میں مشہور ہوئے اور پھر اس کا تذکرہ بھی بدستور جاری رہا جیساکہ حضرت عمر کے قصہ سے بھی اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ انہوں نے بھی زہیر کے بلند وبالا اشعار سنانے کی فرمائش کی تھی اور زہیر کا بلند وبالا کلام وہی ہے جسے اہل عرب نے متفقہ طور پر سبع معلقات میں شامل کیا ہے۔
زہیر کا وہ قصیدہ جو سبع معلقا ت میں شامل کیاگیا ہے وہ یقینی طور پر اس کے باقی تمام کلاموں میں اعلی وارفع شاعری کلام ہے جس کی واضح دلیل اور بیّن ثبوت اس قصیدہ کا سبع معلقات میں شامل ہونا ہے۔اس قصیدہ معلقہ کے متعلق مزید وضاحت درج ذیل عبارت سے ہوتی ہے:
معلقة زهير أشعر شعره وقد جمعت ما أشبه كلام الأنبياء، وحكمة الحكماء ففيھا الحكمة البالغة، والموعظة الحسنة، والأخلاق الفاضلة، والمعاني العالية والأغراض النبيلة، أضف إلى ذلك ما حوته من الأساليب البلاغية، والكلام الْجَزْل وقد أنشأها يمدح بھا: الحارث بن عوف، وهرم بن سنان المريين، ويذكر سعيھما بالصلح بين عبس وذبيان، وتحملهما ديته من مالهما.57
زہیر کا معلّقہ اس کے شاعری کلام میں سب سے زیادہ بلند وبالاہے اور تحقیق اس میں ایسا کلام جمع کیاگیا ہے جو انبیاءکے کلام اور حکماء کی حکمت کے مشابہ ہے۔ پس اس معلّقہ میں بلیغ حکمت، بہتر ین نصیحت، فیّاضانہ اخلاق، بلند معانی اورقیمتی آرزوئیں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اس میں بلاغت کے مختلف اسلوب اور چوٹی کا کلام بھی دوگنا ہے۔زہیر نے اس کو کہا تھا جس کے ذریعہ اس نے حارث بن عوف مری اور ہرم بن سنان مری کی تعریف کی تھی اورقبیلہ عبس وذبیان کے درمیان ان دونوں کی صلح کی کوششوں اور اپنے اپنے مال سے مقتول کی دیت کو اداکرنے کا(مدحیہ انداز میں)تذکرہ کیا ہے۔
حضرت عمر کے بقول زہیر کی ایک خاصیت یہ تھی کہ وہ ممدوح کی بے جا تعریفیں نہیں کرتا تھا، 58اسی خصوصیت کے سبب اس معلقہ کو عوام وخواص میں مزید قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس معلقہ كے مزيد چند اشعار درج ذیل ہیں جن سے واضح ہوتا ہےکہ زہیر کا یہ مدحیہ قصیدہ مذکورہ بالا تمام خصوصیات کا بدرجہ اتم حامل تھا:
فأقسمت بالبيت الذي طاف حوله
رجال بنوه من قريش وجرهم
يمينا لنعم السيدان وجدتما
على كل حال من سحيل ومبرم
تداركتما عبسا وذبيان بعدما
تفانوا ودقوا بينھم عطر منشم
وقد قلتما: إن ندرك السلم واسعا
بمال ومعروف من القول نسلم
فأصبحتما منھا على خير موطن
بعيدين فيھا من عقوق ومأثم.59
میں اس گھر کی قسم کھاتاہوں جس کے گرد لوگ طواف کرتے ہیں جس کوقریش اور جرہم کے لوگوں نے تعمیر کیا۔ میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تم دونوں اچھے سردار ثابت ہوئے، خداتم کو ہر حال میں نرمی و سختی میں عزت کے ساتھ رکھے۔تم دونوں نے قبیلہ عبس اور ذبیان کی خبرگیری اور ان کا تدارک کیا بعد اس کے کہ وہ باہم متصادم ہوکر فنا ہوگئے تھے اور انہوں نے اخیر دم تک لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تم دونوں نے ( سوچاتھاکہ) اگر ہم مال دے کر اور اچھی بات کہہ کر صلح کرائیں گے تو ہم لوگ صحیح سلامت رہیں گے اور بچ جائیں گے۔اس وجہ سے تم بہترین مقام کے حامل ہوگئے جس میں نافرمانی وسرکشی کا دور دور تک کوئی چارہ نہیں ہے۔
ان اشعار میں زہیر نے مدح ضرور کی ہے لیکن اس میں اس نے نہ تو کذب بیانی سے کام لیا ہے اور نہ مبالغہ آرائی سے بلکہ حقیقتِ واقعہ کوبے کم وکاست بیان کردیا ہے۔زہیر بن ابی سُلمی کے قصائد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو صلح پسند، سنجیدہ اور انسانی اقدار کے حاملین تھے۔
زہیر جس طرح اپنے قصائد کی کانٹ چھانٹ میں علیحدہ اصول اپناتا تھا اس سے اس کلام کی فصاحت وبلاغت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوجاتا تھا اور یہ فصاحت وبلاغت ا س کے مجموعہ کلام میں دیکھی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر وقتاً فوقتاً زہیر بن ابی سُلمی کے اشعار سننے کی خواہش کیا کرتے تھے چنانچہ اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے صاحب جمہرہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
ذكر أبو عبيدة عن الشعبي يرفعه إلى عبد اللّٰه بن عباس رضي اللّٰه عنھما، قال: خرجنا مع عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه، في سفر فبينا نحن نسير ... قال: يا ابن عباس! ألا تنشدني لشاعر الشعراء! فقلت: يا أمير المؤمنين! ومن شاعر الشعراء؟ قال: زهير! قلت: لم صيرته شاعر الشعراء؟ قال: لأنه لا يعاظل بين الكلامين، ولا يتتبع وحشي الكلام، ولا يمدح أحدا بغير ما فيه قال أبو عبيدة: صدق أمير المؤمنين، ولشعره ديباجة إن شئت قلت شھد إن مسسته ذاب، وإن شئت قلت صخر لو رديت به الجبال لأزالها.60
ابو عبیدہ نے شعبی سے عبد اللہ بن عباس کی طرف مرفوعا روایت کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ ابن عباس نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ حضرت عمر کے ساتھ ایک سفر پر نکلے کہ اسی دوران جب ہم سفر طےکر رہے تھے کہ حضرت عمر نے کہا اے ابن عباس !تم مجھے سب سے بڑے شاعر کاکلام کیوں نہیں سناتے؟میں نے کہا اے امیر المؤمنین!یہ سب سے بڑا شاعر کون ہے؟تو آپ نے فرمایا کہ وہ زہیر ہے۔میں نے کہا کہ آپ نے اسے سب سے بڑا شاعر کس وجہ سے کہا؟ تو آپ نے فرمایا: کیونکہ وہ کلام کے درمیان پیچیدہ کلام نہیں لاتا، نہ ہی زائد کلام کی تگ ودو میں لگتا ہے اور کسی کی بھی بے جاتعریف نہیں کرتا۔ابو عبیدہ نے کہا امیر المؤمنین نے سچ ہی کہا۔ ا س کے اشعار کا انداز بڑا پُر کشش ہے، اگر تو چاہے تویوں کہے کہ یہ ایسا شہد ہے جس پر اب تک مکھی نہیں بیٹھی اور اگرچاہے تویوں کہے کہ یہ ایسی طاقتور چٹان ہے کہ اگر اس کے ذریعہ پہاڑ توڑا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔
یعنی زہیر کے کلام کی فصاحت و بلاغت ایسی شیرینی ہےکہ اس پر مکھی نے بیٹھ کر اسے گدلا نہیں کیا اور اتنا پُرسوز کلام ہےکہ پہاڑ بھی سن کر ریزہ ہوجائیں۔اسی حوالہ سے درج ذیل عبارت میں یوں نشاندہی کی گئی ہے:
امتاز زهير بما نظمه من منثور الحكمة البالغة، وكثرة الأمثال وسنيِّ المدح، وتجنُّب وحشي الكلام، وعدم مدح أحد إلا بما فيه وقد كان أحسن الشعراء شعرًا، وأبعدهم عن سخف الكلام، وأجمعهم لكثير من المعاني في قليل من اللفظ وكان لزهير أخلاق عالية، ونفس كبيرة، مع سعة صدر وحلم وورع، فرفع القوم منزلته وجعلوه سيدًاوكثر ماله واتسعت ثروته وكان مع ذلك عريقًا في الشعروكان لشعره تأثير كثير في نفوس العرب وهو واسطة عقد الفحول من شعراء الطبقة الأولى.61
زہیر (دیگر شعراء میں)ممتاز ہے اپنی نظم میں بلیغ حکمت کو مفصّل بیان کرنے، ضرب المثل کی کثرت، بلند وبالاتعریف، کلام کی غرابت سے گریز اور کسی میں بھی موجودخصوصیات کے علاوہ تعریف نہ کرنے کی وجہ سے۔زہیر یقینی طور پر شعر گوئی میں شعراء میں سب سے بہتر ہے، ان میں کلام کی پیچیدگی سے سب سے زیادہ دور ہےاور کم الفاظ میں کثیر معنی کو سب سے زیادہ جمع کرنے والا ہے۔زہیر کے اخلاق بلند ہیں، کشادہ ظرفی کے ساتھ بڑا دل ہے اوربُردبار وشریف ہے پس یہی وجہ ہے کہ قوم نے اس کی قدرومنزلت بڑھائی اور اس کو سردار بنالیا جس سےیہ مالامال ہوگیا اور اس کی جائداد بھی بڑھ گئی۔اس کے باوجود وہ اپنے شاعری کلام میں انتہائی عرق ریز تھا اور اہل عرب کے دلوں میں اس کے اشعار کی کافی تاثیر تھی اور وہ شعراء کے طبقہءِ اولی کے چوٹی کےہارمیں سے بیچ کا موتی ہے۔
اس تمام تر تفصیل سے واضح ہوا کہ زہیر کے اشعار کی فصاحت وبلاغت انتہائی بلند وبالا تھی ا ور اس کے اشعار میں تصورانہ خیالات کی جگہ حقیقت واقعہ نے لے رکھی تھی جس وجہ سےیہ سلیم انسانی فطرت کے مزاج کے مطابق تھا اور یوں دیگر شعراء کے مقابلہ میں زہیر کی قدر ومنزلت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
زہیر بن ابی سُلمی کے بارے میں اگرچہ کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس نے اسلام کازمانہ پالیا تھا اور اسلام قبول بھی کرلیا تھا لیکن یہ درحقیقت غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ زہیر نے اسلام کا زمانہ پایا ہی نہیں تھا کہ اسے قبول کرنے کی بات کی جائےالبتہ اس کے اشعار کے مطالعہ سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ موحد تھا جیساکہ دور جاہلی کے کئی لوگ موحد تھے چنانچہ اس بارے میں ذیلی اقتباس سے اشارہ ملتاہے:
أما والده "زهير"، فقد توفي قبل المبعث ولا صحة لما ذكره البعض من أنه لقي الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم ... وقد زعم أنه رأي رؤيا في منامه، أن سببا تدلى من السماء إلى الأرض وكان الناس ... يمسكونه، فأوله بنبي أخر الزمان، وأن مدته لا تصل إلى زمن بعثه، وأوصى بنيه أن يؤمنوا به عند ظهوره ثم توفي قبل المبعث بسنة.62
بہر حال کعب کے والد زہیر، تو وہ بعثت نبویﷺسے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور اس بارے میں کوئی صحت نہیں ہے جو بعض لوگوں نے یہ تذکرہ کیا ہے کہ زہیر نے رسو ل اکرم ﷺسے ملاقات کی۔ ۔۔البتہ یہ گمان کیاگیا ہے کہ زہیر نے اپنے کسی خواب میں دیکھا تھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹک رہی ہے اور لوگ اسے پکڑ رہے ہیں۔پس اس نے اس خواب کی تعبیر نبی آخر الزماںﷺسے کی، اس کی زندگی کی مدت نبی کریمﷺکی بعثت کے زمانہ تک نہیں پہنچی البتہ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو آپ ﷺ کے ظہور کے وقت آپﷺ پر ایمان لانے کی وصیت کی پھر بعثت سے ایک سال پہلے ہی وفات پاگیا۔
زہیر بن ابی سُلمی دور جاہلی کے ان شعراء میں سے ہے جو بعثت و آخرت پر یقین رکھتے تھےجیساکہ اس حوالہ سے تاریخ میں یوں مذکورہے:
ذكر أبو عبيدة عن قتيبة بن شبيب بن العوام بن زهير عن آبائه الذين أدركوا بجيرا وكعبا إبني زهير قال: كان أبي من مترهبة العرب، وكان يقول: ولا أن تفندون لسجدت للذي يحيي هذه بعد موتھا! قال: ثم إن زهيرا رأى قبل موته بسنة في نومه كأنه رفع إلى السماء حتى كاد يمس السماء بيده، ثم انقطعت به الحبال، فدعا بنيه فقال: يا بني! رأيت كذا وكذا، وإنه سيكون بعدي أمر يعلو من اتبعه ويفلح، فخذوا بحظكم منه، ثم لم يعش إلا يسيرا حتى هلك، فلم يحل الحول حتى بعث رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم .63
ابو عبیدہ نے قتیبہ بن شبیب بن عوام بن زہیر سے اور اس نے اپنے ان آباءواجداد جنہوں نے زہیر کے دونوں بیٹوں بجیر وکعب کو پایا تھا سےنقل کرتےہوئےذکر کیا ہےکہ کعب نے کہا: میرے والد عرب کے رہبانوں میں سے تھے اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ نہیں ہوگا کہ تم فنا ہوجاؤگے، میں اس ذات کو ضرور سجدہ کروں گاجو اس جان کو اس کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ فرمائے گا۔کعب نے کہا کہ زہیر نے اپنی موت سےایک سال پہلے خواب دیکھا تھا کہ گویا کہ وہ آسمان کی طرف اڑرہے ہیں یہاں تک کہ قریب تھا کہ ان کا ہاتھ آسمان کو چھولیتا لیکن پھر رسیاں کٹ گئیں۔پس انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بلایا اور کہا: اے میرے پیارے بیٹوں!میں نے اس اس طرح سے خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر یہ ہےکہ میرے مرنےکے بعد ایک انتہائی اہم معاملہ در پیش ہوگا جو اس کی اتباع کرےگا تو وہ بلند و کامیاب ہوجائےگا پس تم اس سے اپنا وافر حصہ ضرور لینا۔پھر وہ کچھ عرصہ ہی زندہ رہے یہاں تک کہ وفات پاگئے اور اس کو ابھی مکمل سال بھی نہیں گزرا تھا کہ نبی کریم ﷺکی بعثت مبارکہ ہوگئی۔
یہی وجہ ہے کہ زہیر کو ان کے شعراء اور اس طرح کی چیزو ں کی وجہ سے بعض حضرات نے نصرانی بھی کہا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے چنانچہ اس کی وضاحت درج ذیل عبارت سے یوں ہوتی ہے:
وفي شعر زهير، زهد ووعظ وتھذيب، حمل بعض الباحثين على اعتباره نصرانيا، ويشك "بروكلمان" في ذلك، إذ يرى أن أثر النصرانية وإن كان واسع الانتشار في جزيرة العرب في ذلك الوقت، بيد أنه لا توجد لدينا أدلة تحملنا على جعله نصرانيا.64
زہیر کےاشعار میں دنیا سے بے رغبتی، نصیحت اور تہذیب ہے جس کا اعتبار کرتے ہوئے بعض محققین نے اس کو نصرانی ٹھہرایاہے جبکہ "بروکلمان" کو اس بارے میں شک ہے کیونکہ نصرانیت کااثر اس وقت اگرچہ کہ جزیرہ عرب میں پھیلا ہواتھا لیکن ماسوا اس کے ہمارے پاس ایسے دلائل موجود نہیں ہیں جو ہمیں زہیر کے نصرانی ہونےکا یقین دلا سکیں۔
اسی حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
وكان زهير يتألّه ويتعفّف فى شعره ويدلّ شعره على إيمانه بالبعث وذلك قوله:
يؤخّر فيودع فى كتاب فيدّخر
ليوم الحساب أو يعجّل فينقم.65
اور زہیر اپنے اشعار میں معبود کی عبادت (کاذکر)کرتا اور پاکدامنی کا خیال رکھتا تھا اور اس کے اشعار موت كے بعد اٹهائے جانےپر ا س کے ایمان کو ثابت کرتے ہیں اور وہ اس کایہ شعر ہے:
جزاء کو مؤخر کیاجائےگا اور اس کو ایک کتاب میں ودیعت کرکے حساب کے دن کےلیے ذخیرہ کیا جائےگا یا جلد ہی سزا دی جائے گی۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ زہیر نے اگرچہ کہ بعثت نبوی ﷺ کے زمانہ کو نہیں پایا لیکن اس نے اپنے بیٹوں کو آپﷺ پر ایمان لانے کی وصیت کردی تھی نیزیہ بھی واضح ہوا کہ زہیر مشرک نہیں تھا بلکہ موحد تھا اور یوم جزایعنی قیامت کے دن پر ایمان رکھتا تھا اور لوگوں کو ان فانی چیزوں کے بارے میں آگاہ کیا کرتا تھا۔
زہیر کی وفات بعثت نبوی ﷺ سے ایک سال پہلے ہوگئی تھی اور اس لحاظ سے اس کا سنِ وفات غالباچھ سو نو (609)عیسوی بنتا ہے لیکن ڈاکٹر جواد علی نے اس کی طرف چند منسوب اشعار کی وجہ سے لکھا ہےکہ اس نےسو(100) سال سے زائدعمر پائی تھی 66اور اس حساب سے اس کا سنِ وفات غالباً چھ سو اکتیس (631)عیسوی بنتا ہے۔
زہیر ایک ایساجاہلی شاعر تھا جس نے اپنی شاعری میں نہ صرف دورِجاہلی کی نمائندگی کی بلکہ عربی شاعری کونت نئے مضامین اورخیالات سے بھی مالامال کردیااورخیالات کی رو میں بہہ کر شاعری کرنے کے بجائے اصل زمینی حقائق کامشاہدہ کرتے ہوئے شعر گوئی کی نیز پاکدامنی کے ساتھ زندگی حقیقت پسند انسان کی طرح گزاری۔اس کی اصل خوبی یہ تھی کہ اس نے بہت سے قصائد لکھے لیکن اپنےكسی بھی قصیدہ میں اس نے جھوٹی یا مبالغہ آرائی پر مبنی مدح نہیں کی اور تعریف میں فقط وہی کہا جو ممدوح میں موجود تھا اورجس خصوصیت وخوبی کا ممدوح حامل نہ ہوتا تو زہیرہر گز اس کا ذکر نہیں کرتااور اس کی یہی وہ خوبی تھی جس وجہ سے حضرت عمر نے اس کو سب سے بڑا شاعر کہا تھا۔ زہیر کی زندگی کاقابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جب پورے عرب میں لوگوں کا محبوب ترین مشغلہ جنگ وجدال اور قتل وغارت گری تھی نیز میدان جنگ میں جو شخص جس قدر بہادری کا مظاہرہ کرتا، اسی قدر اس کو سراہے جانے اور اس کی عزت کی جانے کی رسم کا عام چلن تھا، ایسے دور میں زہیر بن ابی سلمی کا امن پسند ہونا یقیناًحیرت ناک امر ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی فطرت ہمیشہ امن و آمان کی متلاشی ہوتی ہے بشرطیکہ خارجی عوامل اس پر بشدت اثر انداز نہ ہوں اور اسی امن وسلامتی کا پیغام سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے اس دنیا کو دیا تھا اورآپ ﷺکے ماننے والوں نے خود کو اس پیغام کا حقیقی مصداق بنا کردکھایا۔