Encyclopedia of Muhammad

عہدِجاہلیت کا نثر

عرب امی تھے جو عمومی طور پر لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی معلومات کا مکمل انحصار ان کی یادداشت پرتھا لیکن اس کے باوجود ان میں متمدن اقوام کی طرح کئی خوبیاں نمایاں تھیں جیسےعمدہ شعر وشاعری،فصیح خطبات اور بلیغ مثال ومحاورات۔یہی وجہ تھی کہ انہیں ان چیزوں میں کسی دوسری قوم کی طرف دیکھنے یا ان سے کچھ سیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں پڑی اور اس حوالہ سے جو کچھ ان میں نمایاں تھا وہ سب ان کا اپنا تھا۔عہد جاہلی کا نثر بھی ان ہی چیزوں میں سے ایک تھا۔

عہد جاہلیت میں نثر کی دونوں اقسام موجود تھیں،نثر عامی اور نثر فنی۔ اول کی کوئی ادبی اہمیت نہیں تھی جبکہ دوم کی ادبی اہمیت مسلمہ تھی۔عربوں کے فنی نثر میں قصص،خطابت،امثال،حکم،وصایا اور سجع الکھان یعنی کاہنوں کی سجع وغیرہ شامل رہیں۔قصص عربوں کا پسندیدہ ادب تھا ،خطابت ان کی ضرورت تھی،امثال ان کی روز مرہ گفتگو کا حصہ تھی، وصایا کا ان میں عام رواج تھا اور کاہنوں کی سجع ان کے پُر اسرار ادب کا حصہ تھی۔

یہاں ایک بات پیش نظر رہے کہ عربوں کا ادب مدون نہیں تھا کیونکہ ان میں محدود لوگ لکھنا جانتے تھے۔ وہ بھی خالص ادبی اغراض سے نہیں لکھتے تھےبلکہ فقط تجارتی و سیاسی مقاصدکے لیےلکھتے تھےالبتہ انہوں نے اپنے ادب کو زندہ رکھنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ اسے بالمشافہ سن کر آگےسنادیتے اوریوں نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا رہا۔یہی وجہ تھی کہ عربی ادب میں سے جن انواع کا حفظ آسان تھا ،ان ہی کا زیادہ حصہ ہم تک پہنچا ہےالبتہ جو طویل خطبات نقل کیے گئے وہ عمومی طور پر روایتِ معنوی پر مشتمل تھے ۔

نثر كالغوی معنی واقسام

اہل لغت کے نزدیک ہر وہ کلام جس میں وزن اور قافیہ کی پابندی نہ کی گئی ہو نثر کہلاتا ہے1 اوراسی طرح ہروہ کلام بھی نثر ہی کہلاتا ہے جو شعر نہ ہو ۔2یوں بهی كہا جا سکتا ہے کہ اجزاء کلام میں سے شعر کا جز ءِ مقابل نثر ہے 3 نثر کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں،نثر عامی اور نثر فنی اور عہد جاہلی میں دونوں کا وجود مسلم ہے۔

عہد جاہلیت اورنثر

زمانہ جاہلیت کے عرب نثر سے واقف تھے ۔4 وہ باہمی گفت و شنید، لین دین اور خرید و فروخت کے لیے اسے استعمال کرتے تھے لیکن یہ عمومی نثر تھا جس میں امثال کے علاوہ کسی بھی چیز کی کوئی ادبی اہمیت نہیں تھی۔ 5تاریخِ عرب بتاتی ہے کہ ان میں انتہائی محدود لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے 6اورجو لوگ لکھناجانتے تھے انہیں بھی وسائل کی مشکلات نے ادبی اغراض کے لیے لکھنے سے روک رکھا تھا۔عرب فقط تجارتی اور سیاسی اغراض کے لیے لکھتے تھے،7 وہ ملکیت ثابت کرنے اورحدود کی تحدید کے لیے لکھتے تھے، وہ قوانین اور شاہی فرامین بھی لکھتے تھے اوریہی وجہ رہی کہ جاہلیت کی ادبی نصوص ہم تک نہیں پہنچیں8 کیونکہ انہیں خالص ادبی اغراض سے تخلیق ہی نہیں کیا گیاتھامگر اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ وہ فنی نثر سے عاری تھےبلکہ ان کے ہاں فنی نثر موجود تھاالبتہ وہ مدون صورت میں نہیں تھا۔ وہ اسےروبرو سُن کر آگے روایت کر دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ ادب کی دو اصناف یعنی شعر اور نثرمیں سے جس کا حفظ آسان تھااسی کا زیادہ حصہ ہم تک پہنچا۔نثر کی جو انواع ہم تک پہنچیں ان میں قصص، مواعظ دینیہ ،خطابات اورامثال وغیرہ شامل ہیں ۔9

قصص

زمانہ جاہلیت کے نثر کا ایک اہم حصہ قصص پر مشتمل تھا کیونکہ اہل عرب کو قصص سے بڑا شغف تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ صحراء میں ان کے پاس کافی فارغ وقت ہوتا تھا تووہ اسے قصے سننے اور سنانے میں گزارتے تھے اوررات میں تو وہ بطور خاص باتیں کرنے کے لیے جمع ہو تے تھے 10جسے "سَمَر"11 سے تعبیر کیا جاتا تھا۔12

ان کے مختلف اقسام کے قصے روایت کیے گئے جن میں جنگوں کا تذکرہ کیاگیا، نسب اور قبیلے کا تفاخر بیان ہوا،اخبار ماضی ذکرکی گئیں، 13بادشاہوں کے قصے،قبائلی سرداروں کے واقعات،سورماؤں کا تذکرہ،اسفار کاذکر،جنوں اور چڑیلوں کے واقعات ،بے ہودگی اور بے حیائی پر مشتمل واقعات اورجنسی خواہشات کو ابھارنے والے قصے بیان ہوئے۔ان میں ایسے قصے بھی شامل تھے جو جانوروں کی زبانی بیان کیےگئے،مثا ل کے طور پر ایک شتر مرغ کا قصہ بیان ہواجس کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ وہ بے چارہ ایک دن سینگوں کی تلاش میں نکلا لیکن جب واپس آیا تو اس کے کان بھی نہیں تھے۔اسی طرح کوّے،مینڈک اور پرندوں کے بہت سے قصےعرب کے قصوں میں بیان ہوئے۔14

ان واقعات میں عموما الفاظ راوی کےاپنے ہوتے تھے اور وہ انہیں بالمعنی روایت کرتا تھا ۔ 15اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قصہ بیان کرنے والا اس میں اپنے فن اور خیال کو بھی شامل کر دیتا تھا جس كی بدولت وه سامعین کےقلوب و اذہان پر غلبہ پالیتا تھا اور ان کے دل و دماغ کو چاہتا تو شفقت اور مہربانی سے انتقام کی طرف پھیر دیتا اور اگر چاہتا تو ہنسی اور مذاق سے سنجیدگی کی طرف موڑ دیتا تھا ۔16

مستعار قصے

بعض قصے جوجاہلیت میں بہت مشہور تھےانہیں عربوں نے دوسری اقوام سے لیا تھا اور انہیں اپنے ذوق کے مطابق عربی کا ایسا جامہ پہنایا کہ پہچاننا مشکل ہوگیا کہ یہ اصلاًعربی ہیں یا دوسری اقوام سے لیے گئے ہیں۔ان میں منذر کے ساتھ پیش آنے والا شریک کا واقعہ بھی شامل ہے جس واقعہ کی مختصر روداد یہ ہے کہ حنظلہ نامی ایک شخص منذر کے پاس آیا تومنذر نے کسی وجہ سے اس کو قتل کرنے کی ٹھان لی ۔حنظلہ نے اس سے ایک سال کی مہلت مانگی تومنذر نے کہا کہ اپنا کوئی ضمانتی لاؤ ،میں کیسے یقین کر لوں کہ تم ایک سال کے بعدقتل ہونے کے لیے آجاؤ گے؟اس نے شریک بن عمرو کو اپنے ضمانتی کے طور پر پیش کیا پھر جب ایک سال گزر گیا تو منذر اپنے دربارمیں بیٹھ کر حنظلہ کا انتظار کرنے لگا لیکن وقت گزرتا گیا اور وہ نہ آیا ۔تب اس نے شریک بن عمرو سے کہا کہ اب تم اس کے بدلے میں قتل ہونے کے لیے تیار ہوجاؤ تو شریک نے گردن جھکادی۔جلاد تلوار لے کر اس کی گردن مارنے کے لیے تیا ر ہوا ہی تھا کہ دور سے دھول اڑتی دکھائی دی اورغور سے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئی گھوڑ سوار سرپٹ دوڑاآرہا ہے ۔قریب آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حنظلہ ہے اوراس نےا ٓتے ہی تاخیر کی معافی چاہی اور جلاد کے آگے اپنی گردن کر دی ۔منذر پران دونوں کی دوستی،وفاداری،شرافت اور پاسِ عہد کا اتنا اثرہوا کہ اس نے دونوں کو بخش دیا اور ہمیشہ کے لیے اس طرح قتل کرنے کی رسم کو ختم کر دیا ۔یہ قصہ در حقیقت ایک مشہور یونانی کہانی ہے جسے عربی رنگ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ یہ اصلاً عربی کہانی نہیں ہے۔17

اسی طرح بؤس اور نعیم کےایام کا قصہ، سمنار کا قصہ اور اس جیسے دیگر قصے یونانی،فارسی اور نصرانی قوموں سے عرب میں داخل ہوئے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ان جیسی کہانیاں اور واقعات عجمی ادب اور نصرانی حکایات میں ان کے بیان کرنے سے پہلےموجود تھے۔18

خطابت

جاہلیت کے فنی نثر میں سے جن چیزوں کو زیادہ مقدار میں روایت کیا گیا ان میں سے ایک خطابت بھی ہے ۔ 19 خطابت لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے اور دلائل سے خاموش کروانے کا ایک قوی حربہ ہے۔طلاقت وفصاحت لسانی، لہجہ کی عمدگی اور برجستگی اس کی بنیادی شرائط ہیں ۔ 20اس وجہ سے جاہلیت میں بھی خطیب کو اہم مقام حاصل تھا اوراسے قبیلے کا چہرہ اور زبان شمار کیا جاتا تھا ۔21خطابت اس معاشرے کی ضرورت بھی تھی اور وہ اپنے اجتماعات میں اس کے محتاج تھے۔اپنی آراء کو پیش کرنے کےلیےانہیں اس کی ضرورت پڑتی تھی ،سفارت کے لیے بھی وہ اسی طرف دیکھتے تھے ،وفود کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے اوراپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھی وہ اسی کا سہارا لیتے تھے ۔ 22

خطیب کامقام

کبھی کبھی ان کے لیے بازاروں میں منبر رکھے جاتے تھے جہاں یہ اپنی قوم کو نصیحت کرتے اور انہیں ہدایات دیتے تھے۔اس حوالے سے قس اور اس کے سوق ِ عکاظ کا خطبہ معروف ومشہور ہے۔کبھی یہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو نصیحت کرنے کے لیے بھی خطابت کا سہارا لیتے تھے اوراس حوالے سے عامر بن ظرب اور اکثم بن صیفی کے خطبات مروی ہیں ۔ 23

جاہلیت کے جو خطبے روایت کیے گئے ہیں وہ عمومادو ہی امور سے تعلق ركهتے تھے ،منافرت اور وفود ۔منافرت سے مراد یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی پر یا ایک قبیلہ دوسرے قبیلے پر فخر کا اظہار کرتا تھاتووہ کسی حکم کے پاس چلے جاتے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کردے۔اگر حکم اس معاملے کے لیے تیار ہو جاتا تودونوں اطراف کے خطیب کھڑے ہو کر اپنے یا اپنی قوم کے مفاخر ذکرکرتے تھے ۔یہ خاص موقع ہوتا تھا جس میں خطیب اپنی فصاحت اور بلاغت کا اظہار کرتا تھا۔وفود کے خطبوں کی صورت یہ ہوتی تھی کہ عرب میں امراء اور ملوک کے پاس جو وفود کا سلسلہ لگا رہتا تھا ،وہاں خطباء وفود کے سامنے اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے تھے۔ 24

طرز خطاب

عرب خطباء عموما اونچے مقامات پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے تھے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ریت کے ٹیلوں پر بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔وہ بلند آواز سے تقریر کرتے تھے اور وہ اپنے خطبات میں تشبیہات اور کنایات کا بھی خوب استعمال کرتے تھے،دورانِ خطاب سہارے کے لیے عصا کا استعمال بھی کرتے تھے ،نیزے پر بھی ٹیک لگا لیتے تھےاورکبھی چٹان کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ 25خطیب کے ہاتھ میں عصا ہونا یا کسی جنگی ہتھیار کا ہونا بھی مخصوص حالات کا غماز ہوتا تھا ۔خطیبوں کی عادت تھی کہ وہ پر امن حالات میں عصا ہاتھ میں لیتے تھے اور جنگی حالات میں کسی ہتھیار کو ہاتھ میں رکھتے تھے ۔ 26خطیب کے اعتبار سے مستحسن امور یہ تھے کہ وہ بلند آوازکا مالک ہو ،بے باک ہو، صاف ستھرا ہو ، سچا ہو ،عمامہ پہنے ہوئے ہو ،شریف الاصل ہو اور کھڑا ہو کر یا سواری پر خطبہ دے ۔27

مشہورخطباء

جاہلیت کے مشہور خطباء میں قس بن ساعدہ ایادی اور سحبان بن وائل بائلی شامل تھے ، سحبان کی فصاحت تو ضرب المثل تھی جس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا جاتا تھا:

  اخطب من سحبان.
  وہ سحبان سے اچھا خطیب ہے ۔

اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ جب خطاب کرتا تھا تو خوب پسینہ بہاتا تھا ۔ اپنے خطاب میں کسی کلمے کو دوہراتا بھی نہیں تھا۔ دوران خطاب بیٹھتا بھی نہیں تھا اور بات مکمل کرنے سے پہلے رُکتا بھی نہیں تھا۔مشہور خطباء میں ضمرہ بن ضمرہ، اکثم بن صیفی،عمروبن اھتم منقری اور قیس بن عاصم شامل تھے ۔28ان کے علاوہ حاجب بن زرارہ ،حارث بن ظالم ،قیس بن مسعود ،خالد بن جعفر ،علقمہ بن علاثہ اورعامر بن طفیل شامل تھے ۔29

خطبہ کی تمثیل

اہل عرب کے خطبوں کا اندازہ اس خطبہ سے لگایا جاسکتا ہے جو ہاشم عبد مناف نے قریش کو بیت اللہ کے زائرین کے اکرام کے لیے دیا تھا ۔ یہ خطبہ یکم ذوالحج کو کعبہ سے ٹیک لگاکر دیا گیا تھا چنانچہ منقول ہے :

  يا معشر قريش، انتم سادة العرب، احسنھا وجوھا واعظمھا احلاما اوسطھا انسابا واقربھا ارحاما. يامعشر قريش انتم جيران بيت اللّٰه، اكرمكم بولايته وخصكم بجواره دون بنى اسماعيل وحفظ منكم احسن ماحفظ جار من جاره فاكرمو ضيفه وزواربيته فانھم ياتونكم شعثا غبرا من كل بلد فورب ھذه البنية لوكان لى مال يحمل ذالك لكفيتكموه الا وافى مخرج من طيب مالى وحلاله مالم يقطع فيه رحم ولم يوخذ بظلم ولم يدخل فيه حرام فواضعه فمن شاء منكم ان يفعل مثل ذالك فعل، واسئلكم بحرمة ھذا البيت الايخرج رجل منكم من ماله لكرامة زوار بيت اللّٰه ومعونتھم الا طيباولم يوخذ ظلما ولم يقطع فيه رحم ولم يغتصب.30
  اے گروہ قریش ! تم عرب کے سردار ہو،چہروں کے اعتبار سے حسین ہو،حلم کے اعتبار سےعظیم ہوانساب کے اعتبار سے بہترین ہو، رحم کے اعتبار سے قریب ترین ہو ۔اے گروہ قریش ! تم بیت اللہ کے پڑوسی ہو،اللہ نے تمہیں اس کی تولیت سے عزت بخشی ہے،تمہیں بنی اسماعیل میں سے اس كے پڑوس كے لیے خاص كیا ہے،تم نے ایك اچهےپڑوسی کی طرح اس کی حفاظت کی ہے،پس بیت اللہ کے مہمانوں اور اس کے زائرین کا اکرام کرو چونکہ وہ تمہارے پاس ہرشہر سے غبار آلود ہو کر آتے ہیں ۔ اس عمارت کے رب کی قسم! اگر میرے پاس اتنا مال ہوتا جس سے یہ بوجھ اٹھا یا جاسکتا تو میں تم سب کی طرف سے اس کے لیے کفایت کرتا مگر میں اپنے پاکیزہ اور حلال مال سے اس خدمت کے لیے نکالتا ہوں جب تک قطع رحمی نہ ہو ، ظلم کے ذریعے نہ لیا گیا ہو اور اس میں حرام داخل نہ ہو تو میں اسے رکھتا ہوں،جو تم میں سے چاہتا ہے وہ بھی اسی کی مثل کرے ،پھرلوگوں نے مال دیا اور آپ نے فرمایا میں تم سے اس گھر کی حرمت کے ذریعے سوال کرتا ہوں کہ اس کے زائرین کی عزت کے لیے اور اس کی مدد کے لیے پاکیزہ مال ہی دو، جو ظلم سے نہ لیا گیا ہو،جس میں قطع رحمی اور غصب نہ ہو ۔

اسی طرح ہانی بن قبیصہ کا خطبہ بھی اہم ہےجو اس نے بکر کو قتال پر ابھارنے کے لیے یوم ذی قار کو دیا تھا۔ اس نے اپنے خطبے میں کہا تھا:

  يامعشر بكر، هالك معذور خير من ناج فرور، ان الحذر لاينجى من القدر وان الصبر من اسباب الظفر ولا الدنية، استقبال الموت خير من استدباره الطعن فى ثغر النحور اكرم منه فى الاعجاز، والظهور يا آل بكر قاتلو فما للمنايا من بد. 31
  اے گروہ بکر ! فرار ہو کر نجات پانے والے سے معذور ہوکر ہلاک ہونے والا بہتر ہے،ہوشیار اور چوکنا رہنا تمہیں تقدیر کے لکھے سے نہیں بچا سکتا ،یقینا صبر كامیابی كے اسباب میں سے ہے اور کوئی چیز حقیر نہیں ہے ،موت کا استقبال کرنا اس کو پِیٹ دکھانے سے بہتر ہے، گرد ن کے سامنے والے حصے میں وار کرنا پیچھے یا پیٹ میں وار کرنے سے زیادہ عزت کا مقام ہے،اے آل بکر !قتال كرو چونکہ اموات سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔

عربوں کے روایت کردہ خطبات کو دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں دل نشین اسلوب،سلیس عبارت، خوشنماالفاظ،صاف صاف باتیں ،چھوٹے چھوٹے ہم وزن مسجع جملے اور زیادہ ضرب الامثال بیان کرتے تھے ،مضمون ذہن نشین کرانے اور ہر دل عزیز بنانے کے لیے تقریروں میں اختصار کو مد نظر رکھتے تھے۔ 32

امثال یعنی کہاوتیں

امثال یا کہاوتیں ان جملوں کو کہتے ہیں جو قوم کے تجربات کے بعد سامنے آتے ہیں چنانچہ اس حوالے سے المفصل فی تاریخ الادب العربی میں مذکور ہے :

  اما الامثال فجمل رصينة جمعت فيھا تجارب الامة واجتمع فيھا ايجاز اللفظ واصابة المعى وحسن التشبيه.33
  امثال ان محكم جملوں كو كہتے ہیں جن میں قوم کے تجربات جمع ہوتے ہیں،ان میں مختصر الفاظ،درست معنی اور بہترین تشبیہ بیک وقت اکٹھے ہوتے ہیں ۔

ضرب المثل کبھی تو بات کا ایک ٹکڑا ہوتی ہے اور کبھی مستقل طور پر ایسا جملہ ہوتی ہے جس کا تعلق کسی مخصوص واقعہ سے ہوتا ہے لیکن بعد میں اس سے مشابہ موقعوں پر اسے بلا تغیر و تبدل دہرا دیا جاتا ہے اور سننے والا اس مختصر سے فقرہ سے پورے واقعہ کو سمجھ لیتا ہے ۔34 جاہلیت کے نثر میں سے امثال بھی بڑی مقدار میں روایت کی گئی ہیں۔ 35

عربی امثال کی بھی دو اقسام تھیں ،کبھی یہ حقیقت پر مبنی ہونے کی وجہ سے حقیقی ہوتیں اور کبھی فرضی ہونےکی وجہ سے فرضی ۔حقیقی سے مراد وہ امثال جن کا سبب حقیقی ہوتا اور فرضی سے مراد وہ امثال جوحیوانات ،نباتات یا جمادات کی زبان سے کہلوائی جاتیں ۔36فرضی مثالیں گھڑنے کے مختلف اسباب ہوتے،بعض اوقات انسان کسی چیز کی نشان دہی کرنا چاہتا مگر خود کو ظاہر نہیں کرنا چاہتاتو وہ کسی جانور کی زبان سے اس کی نشان دہی کروا دیتا۔اسی طرح بعض اوقات حکمرانوں اور سرداروں کاظلم و ستم بھی مصلحین اور مفکرین کو ایسا کرنے پر مجبور کردیتا 37کیونکہ ایسا کرنے سے معاشرے میں ان کا پیغام بھی پہنچ جاتا اور وہ ظالموں کے ظلم سے بھی محفوظ ہوجاتے۔

جاہلیت کی چند ضرب الامثال

جاہلی دور کی عربی امثال یوں توساری ہی ممتاز تھیں البتہ ان میں سے چند امثال ذیل میں بیان کی جارہی ہیں جن سے ان کی فصاحت وبلاغت سمیت ان کے امتیازات سمجھنے میں آسانی ہوگی چنانچہ کہاجاتا ہے:

  اذا سلمت الجلة النيب هدر.
  جب موٹے توانا اونٹ بچ جائیں تو بوڑھی اونٹنیوں کا خون معاف ہے ۔

اس سے مراد یہ ہے کہ جب فائدہ کی چیز بچی رہے تو ناکارہ کے ختم ہو جانے پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے ۔دوسری مثال یوں ہے:

  تجشا لقمان من غير شمع.
  لقمان نے خالی پیٹ پر بناوٹی ڈکاریں لیں ۔

جب کوئی شخص بے حقیقت لمبے چوڑے دعوے کرے تو یہ مثال دی جاتی ہے ۔تیسری مثال میں یوں مذکور ہوا:

  رب كلمة تقول لصا حبھا دعنى.
  بعض کلمے خود اپنے بولنے والے سے پناہ مانگتے ہیں۔

یہ مثل فضول باتوں سے روکنے کے لیے پیش کی جاتی ہے ۔ایک مثال یو ں ہے:

  اسر حسو فى ارتغاء.
  جھاگ نکالنے کے بہانے چپکے سے دودھ کے گھونٹ پی لو ۔

ایسا شخص جو بظاہر تمہاری خیر خواہی کرے اور بباطن اپنی بھلائی میں کوشاں ہو ، اس کے لیےیہ مثال دی جاتی ہے۔38ایک مثل یوں ہے:

  اذا كنت ريحا فقد لاقيت اعصارا.
  اگرتو ہوا تھا تو تجھے بگولا مل گیا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اوپر بہت فخر کرتا ہو اور پھر اتفاقا اسے خود سے بڑھ کر کوئی مل جائے تو یہ مثال دی جاتی ہے ۔عرب کی مثل میں یوں بھی مذکور ہوا:

  انك لاتجنى من الشوك العنب.
  کانٹوں سے تم انگور نہیں چن سکتے ۔

یعنی برے ماحول میں تم کو خوش اخلاق شخص نہیں ملے گا ۔اسی طرح ایک دوسری مثل میں ہے:

  ذكر نى فوك حمارى اهلى.
  تیرے منہ نے تو مجھے میراگھر یلو گدھا یاد کروا دیا ۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ ایک شخص کے دو گدھے گم ہو گئے تووہ ان کی تلاش میں نکلا ۔راستہ میں ایک عورت ملی جس سے باتوں میں مشغول ہو کر وہ اپنے گدھوں کو بھول گیا۔تھوڑی دیر بعد جب عورت نے نقاب اٹھایاتو اس کا مکروہ چہرہ دیکھ کر اس نے یہ جملہ کہا ۔ایک مثال عرب یوں بھی دیتے:

  رمتنى بدائھا وانسلت.
  مجھے اپنی بیماری دے کر بھاگ نکلی ۔

اپنے عیب دوسروں کے سر تھوپنے والوں کے لیے یہ مثال دی جاتی ہے ۔ایک مثال یوں دیتے:

  اوسعتھم سبا واودو بالابل.
  میں نے ان کو خوب کوسا اور گالیاں دیں لیکن وہ اونٹ بھگا کر لے گئے ۔

اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک شخص کے اونٹوں کو کچھ حملہ آور لے بھاگے ،جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو وہ پہاڑی پر چڑھ کر ان کو سخت سست کہنے اور کوسنے لگا ،واپسی پر جب لوگوں نے اونٹوں کے متعلق دریافت کیا تو اس نے یہ جملہ کہا ۔39

  احشفاوسوء كيلة.
  ایک تو ردی خرما اس پر ناپ میں کمی ۔

ایک ساتھ دوبری خصلتیں کسی شخص میں جمع ہو جائیں تو یہ مثل پیش کی جاتی ہے ۔ایک مثل یوں منقول ہوئی:

  قديحمل العير من ذعر على الاسد.
  گھبرا کر کبھی گدھا شیر پر حملہ کر دیتا ہے ۔

جب کوئی شخص بے بسی اور خوف کی وجہ سے خلاف توقع بہادری کا مظاہرہ کر جائے تو یہ مثال پیش کی جاتی ہے ۔ ایک مثال یوں دی جاتی:

  قبل الرمى يراس السهم.
  تیر مارنے سے قبل تیر کے پر جمائے جاتے ہیں ۔

اس سے مراد یہ ہے کہ کام کی ابتداء سے پہلے ضروری چیزوں کا بندوبست کرلینا چاہیے ۔40مذکورہ بالا امثال دور جاہلی کی کہاوتوں میں سے تھیں جنہیں موقع بموقع اہل عرب استعمال کیا کرتے تھے نیز ان کہاوتوں کو سننے والا ان کے معانی ومفاہیم اور ان میں پوشیدہ رموز سے باخبر ہوکر متنبہ ہوجاتاتھااور ان میں سے بعض بہت بعد تک مستعمل رہیں۔

اقوال زریں

اہل عرب کے دور جاہلی کے نثر میں سے ایک قسم ان کے تجربہ کار اور حکیم ودانا اشخاص کے اقوال ہیں جنہیں عرف عام میں اقوال زریں سے تعبیر کیاجاتا ہے۔وہ دل کش ،جامع و مانع اور خوبصورت جملے جن میں زندگی کے تجربات کی بنا پر ایسی صحیح اور اٹل حقیقت کا اظہار ہو جن کا کوئی انکار نہ کر سکے ان کو حکمت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔41 حكمت كے حوالے سے عرب میں اكثم بن صیفی تمیمی اور عامر بن ظرب عدوانی بہت مشہور تھے جبکہ خواتین میں عامر بن ظرب کی بیٹی اور ھند بن خس حکیمات العرب میں سے تھیں۔ان کے چند حکمت بھرے اقوال یہاں بیان کیے جارہے ہیں:

اکثم کے چند اقوال

اہل عرب کےحکیم ودانا شخص اکثم بن صیفی تمیمی کے درجنوں حکمت بھرے اقوال عرب میں مشہور تھے چنانچہ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

  ويل للشجى من الخلى.
  غمزدہ کے لیے فراغت ہلاکت ہے ۔
  لم يذهب من مالك ما وعظك.
  وہ مال ضائع نہیں ہوا جس نے تجھے نصیحت کی ۔
  رب عجلة تھب ريثا.
  کچھ جلد بازیاں تاخیر کا باعث ہوتی ہیں.
  ادرعو الليل فانه اخفى للوى.
  رات كو ڈهال بناؤ كیونکہ وہ باطل باتوں کو زیادہ خفیہ رکھنے والی ہے ۔
  اذا فرع الفؤاد ذهب الرقاد.
  جب دل ڈرتا ہے تو نیند چلی جاتی ہے ۔
  ليس من العدل سرعة العذل.
  ملامت میں جلدی کرنا عدل میں سے نہیں ہے ۔
  لاتطمع فى كل ما تسمع.
  جو بھی تم سنتے ہو اس میں طمع نہ کرو ۔
  رب قول انقذمن صول.
  بعض باتیں حملہ سے زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہیں ۔
  حافظ على الصديق ولو فى الحريق.
  دوست کی حفاظت کرو اگرچہ وہ آگ میں ہو ۔

یہ چند نمونے اکثم کےاقوال میں سے تھے جنہیں پڑھ کر ان کی حقانیت اور حکمت دونوں واضح ہوتی ہیں۔

عامر بن ظرب کے چند اقوال

اہل عرب کے مشہور ودانا اشخاص میں سے ایک عامر بن ظرب بھی تھا جس کے پُر از حکمت اقوال عرب میں زبان زد عام تھے چنانچہ ان میں سے دوحسب ذیل ہیں:

  رب زارع لنفسه حاصد لسواه.
  بہت سے اپنے لیے اگانے والے دوسرے کے لیے کاٹنے والے ہوتے ہیں ۔
  من طلب شيئاوجده وا ن لم يجده واوشك ان يقع قرىيا منه. 42
  جو کسی چیز کو طلب کرتا ہے اسے پالیتا ہے اگر وہ اسے پا نہ سکے تو جلد ہی اس کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔

یعنی کسی بھی چیز کو پانے کے لیے اس کی طلب صادق ہونا ضروری ہے تاکہ بالآخر اس مطلوبہ چیز تک پہنچا جاسکے۔

دیگر حکماء عرب کے اقوال

ان دو کے علاوہ بہت سے دیگر افراد بھی عرب معاشرہ میں ایسےتھے جن کے حکمت سے لبریز اقوال تاریخ عرب میں منقول ہوئے چنانچہ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

  كلم اللسان انكي من كلم السنان.
  زبان کا زخم نیزہ کے زخم سے زیادہ تکلیف دہ ہے ۔
  رضا الناس غاية لا تدرك.
  لوگوں کو خوش رکھنا ایسا مقصد ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا ۔
  رب ملوم لا ذنب له.
  بسا اوقات ملامت کیے جانے والا آدمی بے گناہ ہوتا ہے ۔
  اترك الشريتركك.
  تم برائی کو چھوڑ دو، وہ بھی تمہیں چھوڑ دے گی ۔43
  العتاب قبل العقاب.
  سزا سے قبل زجر وتنبیہ لازم ہے ۔
  من سلك الجدد امن العثار.
  جو سیدھی راہ چلے گا ٹھوکروں سے محفوظ رہے گا ۔
  اول الحزم المشورة.
  حزم و احتیاط کی ابتداء مشورہ سے ہوتی ہے ۔
  من ضاق صدره اتسع لسانه.
  جب کسی کا دل تنگ ہو جاتا ہے تو زبان کھل جاتی ہے ۔
  يدك منك وان كانت شلا.
  تمہارا ہاتھ اگرچہ شل بھی ہو پھر بھی وہ تمہارا ہی ہے ۔44

عرب کے حکمت بھرے اقوال کی طرح ان کے نثر میں وصایا کا بھی سراغ ملتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل دی جارہی ہے:

وصایا

وصیت ان چھوٹے چھوٹے مگر حکمت،فلسفہ اور عقل مندی کے جملوں کو کہتے ہیں جو کوئی شخص اپنے قریبی عزیز،دوست یا جاننے والے سے بر بنائے خلوص کسی خاص موقع پر اس مقصد سے کہے کہ اسے کسی کام سے نقصان پہنچنے کے ڈر سے باز رکھے یا نفع کی امید میں کوئی کام کرنے کی ترغیب دے۔یہ ضروری نہیں کہ وصیت مرنے سے پہلے ہی کی جائے۔ عربی میں لفظ وصیت بالکل نصیحت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو مرنے والے اور زندہ دونوں کے لیے مستعمل ہے۔جاہلی نثر میں وصیتوں کو بھی فصاحت ،بلاغت ،جامعیت اور معنویت میں ایک خاص مقام حاصل تھا ۔ 45

عامر بن ظرب کی وصیت

عامر بن ظرب نے اپنی قوم كو ان الفاظ میں نصیحت كی تهی :

  يا معشر عدوان لا تشمتوا بالذلة، ولا تفرحو بالعزة، فبكل عيش يعيش اللفقير مع الغنى، ومن يوما ير به، واعدو ا لكل امر جوابه، ان مع السفاهة الندم، والعقوبة نكال، وفيھا ذمامة، ولليد العليا العاقبة، واذا شئت وجدت مثلك، ان عليك كما ان لك، وللكثرة الرعب، وللصبر الغلبة.46
  اے گروہ عدوان ! تم دشمن کی تابعداری اوراپنی عزت پر خوش نہ ہو،پس فقیر ہر حال امیر کے رحم و کرم پر گزارتاہے اور جو دشمن کے متعلق جیسا گمان کرتا ہے ایک دن اپنے متعلق بھی وہی گمان کرتا ہے،ہر امر کے لیے اس کا جواب تیارکر لو ،بے شک سفاہت کے ساتھ ندامت ہے ،عقوبت سزا ہے، اس میں بد نامی ہے،بلند ہاتھ کے لیےہی عاقبت ہوتی ہے،جب تو چاہے گا تو اس کی مثل پا لے گا ،بے شک تجھ پر بھی وہی لازم ہے جو تو اپنے لیے لازمی سمجھتا ہے،رعب کثرت کا ہوتا ہے اورغلبہ صبر والوں کا ہوتا ہے ۔

اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اہل عرب کی نثریا ت میں وصایا کو بھی دخل تھا اور یہ اہل عرب کےہاں مشہور معروف ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔

زہیر بن جناب کلبی کی وصیت

زہیر بن جناب کلبی نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا " اے میرے بیٹوں! میری عمر بہت لمبی ہو چکی ہے اور اپنی زندگی کی ساری خواہشات کو پورا کرچکا ہوں، زندگی کے معاملات اور کاموں سے جو تجربات میں نے حاصل کیے ہیں انہوں نے مجھے کندن بنا دیا ہے ،اس لیے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو اور اچھی طرح یاد رکھو ۔خبردار! مصیبت کے وقت ہمت مت ہارنا اور نہ پریشانی میں کسی کا سہارا ڈھونڈنا کیونکہ یہ بات غم کو پکارتی ہے، دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع دیتی اور اپنے آپ سے بد گمانی پیدا کرتی ہے ۔خبردار! حوادث زمانہ کی طرف سے کبھی غافل نہ رہنا ، نہ اپنے کو ان سے محفوظ و مامون سمجھنا اور نہ کبھی ان کا مذاق اڑانا کیونکہ انسان اس دنیا میں اس نشانہ جیسا ہے جس پر تیر پھیکنے والے نشانہ بازی کیا کرتے ہیں تو بعض تیر چوک جاتے ہیں اور بعض اس کی جگہ کو پار کر جاتے ہیں جبکہ بعض اس کےدائیں اور بائیں پڑتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک دن اس کو نشانہ بنا لیں۔47

رسائل ادبیہ

تاریخ میں عہد جاہلیت کی ایسی وثائق صحیحہ نہیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہوں کہ وہ رسائل ادبیہ کو جانتے تھے اور ان میں یہ متداول تھے البتہ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس کچھ صحائف تھے جن میں حکیمانہ جملے اور امثال تھیں ،جنہیں وہ حکیم لقمان کی طرف منسوب کرتے تھے ۔48

سجع الكهان

سجع الكهان سے مر اد كاہنوں کا موزون یعنی مسجع ومقفع اور پُر تکلف کلام ہے ۔49
اس کی تعریف معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے.

  سجع الكهان كامهم غير المغهوم المزوق لاستمالة السامعين.50
  سجع الکھان سے مراد کاہنوں کا وہ غیر واضح اور مزین کلام ہے جو سامعین کے میلان کے لیےوضع کیا جاتا تھا۔

کاہن شق انمار جو کسری نوشیروان کے زمانہ میں گزرا ہے ،اس نے ایک خواب کی تعبیر سجع میں دی تھی۔ اس نے کہا تھا:

  احلف بما بين الحرتين من الانسان لينزلن ارضكم السودان وليغلبن على كل طفلة البنان وليملكن الى مابين ابين ونجران.51
  دونوں کا لے پتھر وں والی زمینوں کے درمیان جتنے انسان رہتے ہیں ان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہارے ملک پر سوڈانی لوگ اتریں گے اور ہر نرم انگلیوں والی پر غلبہ حاصل کر لیں گے اور ابین اور نجران کے درمیان جو کچھ ہے اس پر قبضہ کر لیں گے ۔

کاہنوں کے سجع کے نمونے کے طور پر ربیعہ بن مازن کے اقوال کو پیش کیا جاتا ہے جو اس نے یمن کے بادشاہ ربیعہ بن نضر لخمی کے ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہے تھے چنانچہ منقول ہوا:

  اخلف بما بين الحرتين من حنش ليھبطن ارضكم الحبش وليملكن مابين ابين الى الجرش.52
  کالے پتھروں والی زمین کے درمیان جتنے سانپ ہیں یا انسان ہیں ،ان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہارے ملک پر حبشی لوگ اتریں گے اور ابین اور جرش کے درمیان جو کچھ ہے ،اس پر قبضہ کر لیں گے (ابین اور جرش دو قصبے تھے)۔

کاہنوں کے نثر کی مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پر ُ تکلف اور پُر اسرار قسم کی سجع کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں استعمال کرتے تھے ،جن کا معنی واضح نہیں ہوتا تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کی مراد سمجھنے میں حیران و ششدر ر ہ جائیں ۔53 اس مخصوص قسم کی عبارت کی ضرورت انہیں اس لیے پڑتی تھی کیونکہ وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم آنے والے حالات جانتے ہیں اورہمارے جنات ہمیں اس کی اطلاع پہلے ہی دے دیتے ہیں ۔54یہ عبارات لوگوں پر یہ تاثر ڈالتی تھیں کہ یہ جملے شاید جنات نے ان پر القاء کیے ہیں ۔

مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عربوں کا نثر عمدہ تھا ،قابلِ قدرتھا ، اپنے ماحول کا عکاس تھا مگر کیونکہ وہ ایک اُ می قوم تھے، اس لیے وہ اسے ابتدائی طور پر مدون صورت میں دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکےالبتہ ان کی نثریات سینہ بسینہ محفوظ ومنتقل ہوتی رہیں اور بعداز اسلام انہیں کتابی صورت میں ڈھال لینے کی کوشش کی گئی ہیں تاکہ وہ تحریری صورت میں بھی محفوظ ہو جائیں ۔ ان نثریات کا تعلق چونکہ عرب جاہلی سے تھا تو محمد عربیﷺکی آمد جہاں جاہلی عرب کی تمام مثبت اشیاء کی جاودانی کاسبب بنی وہیں ان کی نثر یات کو بھی رہتی دنیا تک کے لیے زندہ و جاوید رہنے کا ذریعہ بھی بن گئی اور یوں یہ مدوّنہ صورت میں ذخیرہ ہوکر مستقبل کے اہل علم و ادب کے لیے عرب جاہلی کے نثرپارہ کو جاننے کا سبب بنیں۔

 


  • 1 مجمع اللغة العربية بالقاهرة، المعجم الوسیط،ج-2، مطبوعۃ:دار الدعوۃ، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:901
  • 2 الدکتور احمد مختار،معجم اللغة العربية المعاصرة، ج-3، مطبوعۃ:عالم الکتب، بیروت، لبنان،2008م، ص:2168
  • 3 الدکتورجواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-16، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:367
  • 4 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف،المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر، 1936م، ص:85
  • 5 الدکتورشوقی ضیف، العصر الجاھلی، مطبوعۃ: دارالمعارف، القاھرۃ، مصر، 1119ھ، ص:398
  • 6 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف ،المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر،1936 م، ص :85
  • 7 الدکتورشوقی ضیف، العصر الجاھلی، مطبوعۃ: دارالمعارف،القاھرۃ، مصر، 1119ھ، ص:398
  • 8 الدکتورجواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-16، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص: 367-368
  • 9 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف، المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر، 1936م، ص :85
  • 10 الدکتورشوقی ضیف، العصر الجاھلی، مطبوعۃ: دارالمعارف، القاھرۃ، مصر، 1119ھ، ص:399
  • 11 اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ رات کو جمع ہو کر بیٹھتے اور اپنے آباء و اجداد کے پرانے زمانے کے واقعات بیان کرتے جسے '' سمر'' سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ (ادارہ)
  • 12 أبو عبد الله محمد بن أبي بكر الرازي، مختار الصحاح، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص:153
  • 13 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف، المفصل فی تاریخ الادبالعربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر، 1936م، ص :85
  • 14 الدکتورجواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-16، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:6-8
  • 15 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف، المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر، 1936م، ص :85
  • 16 الدکتورشوقی ضیف، العصر الجاھلی، مطبوعۃ: دارالمعارف، القاھرۃ، مصر، 1119ھ، ص:399
  • 17 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ:ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،ہند،1904ء،ص :111-112
  • 18 الدکتورجواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-16، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:10
  • 19 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف، المفصل فی تاریخ، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر، 1936م، ص :85
  • 20 احمد حسن زیات ،تاریخ ادبِ عربی (مترجم:محمد نعیم صدیقی )،مطبوعہ:مکتبہ دانیال ،اردو بازار، لاہور ،پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص:31
  • 21 الدکتورجواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-16، مطبوعۃ:دار الساقی،بیروت،لبنان،2001م،ص:405
  • 22 علی الجندی، في تاريخ الأدب الجاهلي، مطبوعۃ: مكتبة دار التراث، بیروت، لبنان،1991م، ص:264
  • 23 الدکتورشوقی ضیف، العصر الجاھلی، مطبوعۃ: دارالمعارف، القاھرۃ، مصر، 1119ھ، ص:412
  • 24 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف، المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق،القاھرۃ، مصر، 1936م ، ص :86
  • 25 ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی ،تاریخ ادب عربی ،مطبوعہ:قدیمی کتب خانہ ،آرام باغ ،کراچی ،پاکستان ،2013ء،ص :66
  • 26 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف،المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق ،القاھرۃ، مصر،1936م ،ص :86
  • 27 الدکتورجواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام،ج-16، مطبوعۃ:دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:407
  • 28 علی الجندی، في تاريخ الأدب الجاهلي، مطبوعۃ: مكتبة دار التراث، بیروت، لبنان،1991م،ص:265
  • 29 الدکتورجواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-16، مطبوعۃ:دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م،ص:410
  • 30 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف،المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر، 1936م، ص :87
  • 31 علی الجندی، في تاريخ الأدب الجاهلي، مطبوعۃ: مكتبة دار التراث، بیروت،لبنان،1991م،ص:266
  • 32 احمدحسن زیات ،تاریخ ادب ِ عربی (مترجم :عبد الرحمن طاہر سورتی)،مطبوعہ :شیخ علی اینڈ سنز،چوک انار کلی، لاہور، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:65
  • 33 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف،المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق، القاھرۃ، مصر،1936م ،ص :89
  • 34 احمد حسن زیات، تاریخ ادب ِ عربی (مترجم :عبد الرحمن طاہر سورتی)،مطبوعہ :شیخ علی اینڈ سنز،چوک انار کلی، لاہور، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:63
  • 35 احمد الاسکندری و احمد امین و علی الجارم و احمد ضیف،المفصل فی تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الامیریۃ ببولاق،القاھرۃ، مصر،1936م ،ص :85
  • 36 علی الجندی ،في تاريخ الأدب الجاهلي، مطبوعۃ: مكتبة دار التراث، بیروت،لبنان،1991م،ص:261
  • 37 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ:ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،ہند،1904ء،ص :101
  • 38 احمد حسن زیات ،تاریخ ادب ِ عربی (مترجم :عبد الرحمن طاہر سورتی)،مطبوعہ :شیخ علی اینڈ سنز ،لاہور ،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:69-70
  • 39 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ:ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،ہند ،1904ء،ص :103-104
  • 40 احمد حسن زیات ،تاریخ ادب ِ عربی (مترجم :عبد الرحمن طاہر سورتی)،مطبوعہ :شیخ علی اینڈ سنز،لاہور ،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:69-70
  • 41 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ:ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،ہند ،1904ء،ص :104
  • 42 علی الجندی، في تاريخ الأدب الجاهلي، مطبوعۃ: مكتبة دار التراث، بیروت، لبنان،1991م، ص:260
  • 43 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ: ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،ہند،1904ء،ص :105
  • 44 احمد حسن زیات ،تاریخ ادب ِ عربی (مترجم :عبد الرحمن طاہر سورتی)،مطبوعہ :شیخ علی اینڈ سنز ،لاہور ،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:71
  • 45 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ:ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،ہند ،1904ء،ص :99
  • 46 علی الجندی، في تاريخ الأدب الجاهلي، مطبوعۃ: مكتبة دار التراث، بیروت،لبنان،1991م،ص:268
  • 47 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ:ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،انڈیا ،1904ء،ص :99
  • 48 الدکتورشوقی ضیف،العصر الجاھلی، مطبوعۃ: دارالمعارف،القاھرۃ، مصر،1119 ھ،ص:398-399
  • 49 مجمع اللغة العربية بالقاهرة، المعجم الوسیط، ج-2، مطبوعۃ: دار الدعوۃ،(لیس التاریخ موجوداً)،ص:803
  • 50 الدکتور احمد مختار، معجم اللغة العربية المعاصرة،ج-2، مطبوعۃ:عالم الکتب، بیروت، لبنان،2008م،ص:1035
  • 51 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی ،عربی ادب کی تاریخ ،مطبوعہ:ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ،ہند ،1904ء،ص :106
  • 52 ایضاً
  • 53 علی الجندی، في تاريخ الأدب الجاهلي، مطبوعۃ: مكتبة دار التراث، بیروت، لبنان،1991م،ص:270
  • 54 الدکتورشوقی ضیف،العصر الجاھلی، مطبوعۃ: دارالمعارف،القاھرۃ، مصر،1119ھ، ص:420