عربی زبان دنیا کی سب سے پہلی زبان ہےجو چھ سو دس(610)عیسوی میں اسلام کے ظہور سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں نہ صرف موجود تھی بلکہ اپنے ارتقاء اور کمال کی ساری منزلیں طے کرچکی تھی۔اس کی ابتداء کے بارے میں اگرچہ کہ مختلف روایات منقول ہیں لیکن ذیل میں پہلے اس کی اولیت اور قدامت اورپھر اس کے تین ادوار کو بیان کیاجائےگا۔ اس حوالہ سے مروی روایات کی تنقیح وتہذیب کرکے مسئلہ کو واضح کیاجائےگا،اس کے بعد عربی زبان کےخصائص وکمالات اور دیگر تمام زبانوں پر اس کے تفوّق وتعلی کو واضح کرکے قرآن مجید فرقان حمید کےاعجازِ بلاغت کو واضح کیاجائےگا۔
سقراط (Socrates) جو دنیائے فلسفہ کا سب سے عظیم اور جلیل المرتبت معلم تھا اس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔اس کا یہ ماننا تھا کہ اشیاء کے نام خدا ؤں کے تخلیق کردہ اور بہترین اسماء تھے۔1 سقراط کے اس فلسفہ کو جسے افلاطون نے کریٹیلس (Cratylus 391d-e) میں ذکر کیا 2 اور بائبل 3 کو بنیاد بناتے ہوئے ایونومیس (Eunomius) جو 394-335 عیسوی کا فلسفی تھا، نے بھی اس پر مزید یہی لکھا کہ زبان (language) خدا کی تخلیق کردہ ہے نہ کہ انسانوں کی۔4 ایونومیس (Eunomius)نے لفظ زبان مطلق استعمال کیا ہے جس سے مراد ایک زبان یا کئی زبانیں ہوسکتی ہیں ۔
ماہرین نے لکھا ہے کہ دانتے کے مطابق بھی انسان اول حضرت آدم کی زبان کی تخلیق خدا نے فرمائی تھی۔5اس زبان کے حوالہ سے دانتے رقمطراز ہے :
I say that a certain form of language was created by God along with the first soul; I say 'form' with reference both to the words used for things, and to the construction of words, and to the arrangement of the construction.6
ترجمہ: میرے نزدیک خدا نے روح(آدم ) کی تخلیق کے وقت ایک خاص زبان کو بھی تخلیق فرمایا۔ اس زبان میں تمام اشیاء کے نام، الفاظ کی بناوٹ، ان (حروف و الفاظ) کا آپس میں بناوٹی ربط موجود تھا ۔
یہ تمام دلائل اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دنیا کی پہلی زبان خدا کی تخلیق شدہ تھی نہ کہ انسانوں کی نیز قرآن حکیم کی آیت مبارکہ بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم کو اشیاء کے اسماء پر الہامی طور پر آگاہی عطا فرمائی7تو ان اشیاء کے اسماء کو آدم نے اپنی زبان سے مختلف آوازیں نکال کر ادا کیا جو تخلیق زبان کی اصل ہےاور جب انسان اول اس دنیا میں تشریف لائے تووہ اسی زبان میں کلام کیا کرتے تھے۔
انسانِ اول جب اس دنیا میں تشریف لائے تو قرآن مجید کے مطابق وہ ا س سےپہلے جنت میں ساکن پذیر تھے اور پھرانہیں وہاں سے زمین پر بھیجاگیا تھا۔ 8یہ بات مسلمہ ہے کہ اہل جنت کی زبان نہ سریانی ہےاور نہ عبرانی بلکہ صحیح حدیث جو معجم اوسط،9 معجم کبیر،10مستدرک،11فوائد تمام،12 صفۃ الجنۃ،13 شعب الایمان14اور جامع صغیرمیں بھی منقول ہوئی ہے،اس کےمطابق اہل جنت کی زبان عربی ہے۔15
احادیث رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں اس بارے میں کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہتاکہ جب حضرت آدم وحوا جنت میں تھے تو ان کی زبان عربی تھی اورآپ جب اس دنیا میں تشریف لائے تواجابتِ توبہ کے وقت آپعربی زبان ہی بولتے تھے16لہذا عربی زبان ہی اولین زبان ہے۔یہی وجہ ہے کہ علمائے لغت نے حضرت آدم کو "تمام اسماءسکھائے جانے" کا معنی بھی یہی مراد لیا ہے کہ انہیں عربی زبان سکھائی گئی تھی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ عربی زبان الہامی وتوقیفی ہے۔درج ذیل عربی اقتباس سے بھی اسی مفہوم کی نشاندہی ہوتی ہے جس میں ابن فارس نے قول ابن عباس کو دلیل کے طورپر بیان کیا ہے جیساکہ انہوں نے لکھا:
إِن لغة العرب توقيف ودليل ذَلِكَ قوله جلّ ثناؤه: (وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا) فكان ابن عبّاس يقول: علّمه الأسماء كلّھا وهي هَذِهِ الَّتِي يتعارَفُھا الناس من: دابة، وأرض، وسھل، وجبل، وحمار، وأشباه ذَلِكَ من الأمم وغيرها.17
تحقیق عربی زبان الہامی ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان " وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا "(یعنی: اور اللہ نے آدم کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے )ہے۔(حبر الامہ حضرت) ابن عباس (اس فرمان مبارک کی تفسیرکرتےہوئے)فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے اور وہ یہی نام ہیں جنہیں لوگ پہچانتے ہیں یعنی دابۃ(چوپائے)،ارض(زمین)،سھل(نرم زمین)، جبل(پہاڑ)،حمار(گدھا)اور جو ان کے مشابہ تھےیعنی امتیں اور ان کے علاوہ دیگر نام۔
علامہ ابن كثير نے بھی اپنی اسی رائے کا اظہار کیا ہےکہ حضرت آدم نے سب سے پہلے عربی زبان میں گفتگو فرمائی ۔18مذکورہ اقتباسات سے بھی واضح ہوا کہ عربی زبان الہامی ہے اور جب حضرت آدم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے تخلیق فرمایا تو انہیں گفتگوکے لیے تمام اشیاء کے نام عربی زبان میں سکھائے۔پھر وہ جب اس دنیامیں آئے توحسب ضرورت ان پر الفاظ کی وحی بھی فرمائی یہاں تک کہ مجموعۂ الفاظ نےایک مکمل زبان کی صورت اختیار کرلی۔علمائے اسلام میں یہ مسلک امام اشعری کا ہے۔سعید ابن جبیر، جلال الدین سیوطی،ابن فارس،ابن زید اور ابن حاجب کی تحقیق بھی اسی مؤقف کی تائید وتوثیق پر مبنی ہے۔19
مذکورہ تحقیق اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں یقینی طورپر یہ کہاجاسکتاہے کہ حضرت آدم اور آپ کی اولاد واحفاد کی اولین زبان عربی تھی پھرجب تک انسان دنیا میں ایک جگہ رہے توزبان بھی ایک رہی لیکن جب آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے وہ مختلف قوموں اور گروہوں میں بٹ گئے تو ان کی زبانیں بھی مختلف ہوگئیں۔20 البتہ یہ بات طے ہے کہ حضرت آدم اور ان کی اولاد واحفاد میں عربی زبان ہی بولی جاتی رہی یہاں تک کہ سفینہ نوح میں بھی اس زبان کو بولنے والا جرہم نامی ایک شخص اپنے خاندان سمیت موجود تھا جس کی ایک بیٹی سے ارم بن سام نے شادی کی پس اس طرح ان میں عربی زبان پھیل گئی21نیزاسی وجہ سے امم بائدہ کے بارے میں یہ مسلمہ بات ہے کہ وہ عربی زبان بولتے تھے۔22
عرب بائدہ جو اول ترین عرب تھے ان کی زبان متفقہ طور پرعربی تھی 23اورعربِ عاربہ کی زبان بھی عربی تھی24اور ان کی تمام اقوام ہی بلا اختصاص عربی زبان بولتی تھیں۔25 اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عربی زبان کا آغاز حضرت آدم سے ہوا جو سفینہ نوح سے ہوتی ہوئی عرب بائدہ یعنی عادوثمود اور طسم و جدیس تک پہنچی 26جن کی تاریخ ماسوائے قرآن کریم کی آیات اور نبی کریمﷺ کی ان سے متعلقہ احادیث 27کےدستیاب نہیں ہوتی 28نیز یہی عربی زبان عرب عاربہ یعنی بنو قحطان تک پہنچی جس سے عربی زبان کی قدامت واضح ہوجاتی ہے ۔
عربی دنیا کی سب سے پہلی زبان ہے جس کی ابتداء حضرت آدم سے ہوئی اوریہ ہی ام اللغہ ہے کیونکہ قرین قیاس یہی ہے کہ انسان ِاول کی اولاد جو مختلف علاقوں اور قبائل میں تقسیم ہوئی تو ان کی زبان و اس کی ادائیگی میں ہی تغیر وتبدل پیداہواجس سے انسانی معاشرہ دیگر زبانوں سے متعارف ہوا ۔ عربی زبان کےام الالسنہ ہونے کی تائیدقرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں مکّہ مکرمہ کو ام القرٰی29 فرماکرگویا اس طرف اشارہ کیاگیاہے کہ دنیا کی تاریخ میں انسانی اجتماعیت کا آغاز مکہ سے ہوا کیونکہ مکّہ مکرمہ میں حضرت آدم ہی کے ہاتھوں 30خدا ئے جلّ جلالہ کی عبادت کےلیے سب سے پہلا گھر تعمیر کیا گیاجس کے بارے میں فرمایاگیا:
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ9631
بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکّہ میں ہے۔
اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں انسان اول کے ذریعہ سب سےپہلےاجتماعیت پیدا ہوئی اور خدا کی عبادت وبندگی کی ابتداء ہوئی وہیں سب سےپہلےبولی جانے والی زبان ہی بقیہ تمام زبانوں کےلیے ام الالسنہ کی حیثیت رکھتی تھی اور پھر اس سے دیگر السنہ مثلاً سامیہ وغیرِسامیہ کی کئی شاخیں بنیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ مکّہ مکرمہ میں شروع سےعربی زبان کے ماسوا دوسری کوئی زبان اہل شہر کی زبان کے طور پر کبھی مروج نہیں رہی۔عرب قبائل کی نقل مکانی کے باعث عربی زبان صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ بحیرہ "احمر" کے دوسری جانب افریقہ میں بھی بولی جاتی تھی اور مزید بر آں مقامی زبان کے امتزاج سے یہاں عربی کی وہ شاخ وجود میں آئی جسے حبشی کہاجاتا تھا اور یہ بھی سامی زبانوں میں سے ہی ایک زبان تھی۔32
بنو سام کا اصل مسکن عرب تھا اس لیے اصل سامی زبان کا نام جو کچھ بھی ہو لیکن جغرافیائی حیثیت سے اس کا نام عربی ہی ہوگا جسے قومی حیثیت سے آرامی کہنا چاہیے۔ سامی قبائل میں چونکہ سب سے پہلانامور اور ممتاز قبیلہ بنو ارم بن سام تھا اس بنا پر عربی زبان کی پہلی شاخ آرامی ہوگی چنانچہ حضرت ابراہیم کی زبان آرامی عربی تھی جیسا کہ مدرسہ مارونہ (رومیہ) کے عربی وسریانی زبان کے عیسائی پروفیسر قس جبرئیل فرواحی کے حوالے سے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ وہ سریانی سے متعلق اپنی کتاب میں لکھتا ہےکہ ’آرامی’ عبرانیوں کے پدرِ اعلیٰ ابراہیم() کی زبان ہے۔ اس بنا پر حضرت اسماعیل کی آبائی زبان عبرانی نہیں بلکہ آرامی عربی تھی البتہ بنوجرہم کے ساتھ رہتے ہوئے انہوں نے فصیح عربی زبان پر مزید عبور حاصل کرلیا تھا۔ 33
بنو سام میں بالخصوص قومِ ثمود کی زبان آرامی عربی تھی چنانچہ شمالی عرب کے جن مقامات میں ثمود کی سکونت ثابت ہوتی ہے وہاں ایک خاص خط کے بہت سے کتبات پائے گئے ہیں جن کی زبان آرامی عربی ہےجبکہ اہل عرب نے امم بائدہ کی قوموں کی زبان کا نام مسند رکھا ہےجیساکہ ذیلی عبارت سے اس طرف اشارہ ملتاہے:
فأھل المسند عاد وثمود والعمالیق والجرهم وعبد بن ضخم وطسم وجدیس وأمیم فھم أول من تکلم بالعربية بعد البلبلة ولسانھم المسند وكتابھم المسند.34
مسند زبان والے عاد، ثمود، عمالیق، جرہم، عبد بن ضخم، طسم، جدیس اورامیم ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جوزبانوں کی تبدیلی کے بعد سب سے پہلے 35عربی بولنے لگے، ان کی زبان مسند اور ان کا خط مسند ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مسند زبان سے مراد خاص قسم کی عربی زبان ہے اور اہل عرب نے اس کو عربی زبان کی ہی شاخ مانا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ امم سامیہ کے طبقہ اول کی زبانوں میں عربی بھی موجود تھی اور پھر آگے چل کر ان سے چلنے والی نسل میں فقط عربی ہی ان کی زبان تھی۔
اس مقام پر بائبل اور مؤرخین کے بیان کردہ تبلبلِ السنہ کے واقعہ کو ذکر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ عربی زبان کے تمام ادوار اچھی طرح واضح ہوجائیں اور ساتھ ہی ساتھ سب سے پہلے عربی میں کلام کرنے والے شخص سے متعلق منقول مختلف روایات کی تنقیح وتہذیب بھی ہوجائے۔ اس حوالہ سے بائبل میں مذکور ہے:
Now the whole earth had one language and one speech. And it came to pass, as they journeyed from the east, that they found a plain in the land of Shinar, and they dwelt there. Then they said to one another, “Come, let us make bricks and bake them thoroughly.” They had brick for stone, and they had asphalt for mortar. And they said, “Come, let us build ourselves a city, and a tower whose top is in the heavens; let us make a name for ourselves, lest we be scattered abroad over the face of the whole earth.” But the Lord came down to see the city and the tower which the sons of men had built. And the Lord said, “Indeed the people are one and they all have one language, and this is what they begin to do; now nothing that they propose to do will be withheld from them. Come, let Us go down and there confuse their language, that they may not understand one another’s speech.” So, the Lord scattered them abroad from there over the face of all the earth, and they ceased building the city. Therefore, its name is called Babel, because there the Lord confused the language of all the earth; and from there the Lord scattered them abroad over the face of all the earth. 36
ساری زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی جب لوگ مشرق کی طرف بڑھے تو انہیں سنعار میں ایک میدان ملا اور وہ وہاں بس گئے۔ انہوں نے آپس میں کہا: آؤ اینٹیں بنائیں اور انہیں آگ میں خوب تپائیں۔ پس وہ پتھر کے بجائے اینٹ اور چونے کے بجائے گارا استعمال کرنے لگے۔ پھر انہوں نے کہا: آؤ ہم اپنے لئے ایک شہر بسائیں اور اس میں ایک ایسا برج تعمیر کریں جس کی چوٹی آسمان تک جا پہنچے تاکہ ہمارا نام مشہور ہو اور ہم تمام روئے زمین پر تتر بتر نہ ہوں۔ لیکن خداوند اس شہر اور برج کو دیکھنے کے لیے جسے لوگ بنا رہے تھے نیچے اترا۔ خداوند نے کہا: بیشک یہ سب لوگ ایک ہیں اور ان کی ایک ہی زبان ہے اور اگر یہ لوگ متحد ہوکر یہ کرتے رہے تو اسے مکمل کر کے ہی دم لیں گے۔ آو ہم نیچے جاکر ان کی زبان ان کے لئے گنجلک کر دیتے ہیں تاکہ یہ ایک دوسرے کی بات سمجھ نہ پائیں۔ لہذا خدا وند نے انہیں وہاں سے تمام روئے زمین پر منتشر کردیا اور وہ شہر کی تعمیر سے باز آئے۔ اسی لئے اس شہر کا نام بابل پڑھ گیاکیونکہ وہاں خداوند نے سارے جہاں کی زبان کو ناقابل فہم بنا دیا تھا۔ وہاں سے خداوند نے انہیں تمام روئے زمین پر منتشر کردیا تھا۔
بائبل کے مفسرین کے مطابق ان لوگوں پر یہ عذاب اس لئے نازل ہوا کیونکہ انہوں نے خدا کی نافرمانی کی37اور اس کی مرضی کے خلاف گئے۔38 اسلامی مؤرخین کے نزدیک بھی تبلبل السنہ کا عذاب لوگوں کےبت پرستی میں ملوث ہونے کی وجہ سے آیا۔جب نمرود بن کوش کا دورِ حکومت آیا تو اس نے لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرنا شروع کردیا ۔ اس فعل شنیع کی پاداش میں اللہ نے بطور سزا ان لوگوں کے ذہنی توازن کو بگاڑ دیا اور وہ اس حد تک مخبوط الحواس ہوگئے کہ ان میں سے نہ تو کوئی ٹھیک سے کلام کر پاتا تھا اور نہ ہی کوئی کسی کا کلام سمجھ پاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں جس کے منہ میں جو آتا وہ وہ بول دیتا اور سامنے والا اس سے جو معنیٰ چاہتا وہ اخذکر لیتا نتیجتاً ان کی لغات، لغات کی ادائیگی، حسنِ کلام ، صوتیات الغرض لسانیات کا سارا نظام تباہ ہو گیا اور وہ پاگل ہوکر جہالت کے عمیق گڑھے میں جا گرے اور ان کے منہ سے نکلنے والی مختلف آوازوں سے کئی نئی لغات نے جنم لیا جو اختلاف ِالسنہ کا باعث بنیں ۔ علامہ طبری اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
وكان يقال لعاد في دهرهم عاد إرم، فلما هلكت عاد قيل لثمود إرم، فلما هلكت ثمود قيل لسائر بني إرم: إرمان، فھم النبط، فكل هؤلاء كان على الإسلام وهم ببابل، حتى ملكھم نمرود بن كوش بن كنعان بن حام ابن نوح، فدعاهم إلى عبادة الأوثان ففعلوا، فأمسوا وكلامھم السريانية، ثم أصبحوا وقد بلبل اللّٰه ألسنتھم، فجعل لا يعرف بعضھم كلام بعض، فصار لبني سام ثمانية عشر لسانا، ولبني حام ثمانية عشر لسانا، ولبني يافث ستة وثلاثون لسانا.39
قوم عاد کو ان کے دور میں عاد ارم کہا جاتا تھا، ان کی ہلاکت کے بعد ثمود کو ثمودِ ارم کہا جانے لگا ،جب یہ بھی ہلاک ہو گئے تو بقیہ تمام بنی ارم کو ارمان کہا جانے لگا اور یہی نبط ہیں ، یہ سب کے سب اسلام پر تھے اور ان کا مسکن بابل تھا یہاں تک کہ نمرود جب بابل کا بادشاہ بناتو اس نے ان لوگوں کو بت پرستی کی طرف دعوت دی جو ان لوگوں نے قبول کر لی اوراسی کی پاداش میں ان کی زبانیں یکسر تبدیل ہو گئیں کہ ان میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کی بات کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔پس بنی سام اور بنی حام کی اٹھارہ (18)زبانیں ہوگئیں اور بنی یافث کی تیس (30) زبانیں ہوگئیں (یعنی نئی زبانیں وجود میں آگئیں)۔
یعنی طوفان نوح کے تقریبا چھ سو ستر (670) سال40 بعد جب اولادِ نوح ہزاروں کی تعداد میں بابل میں پھیل گئی41 تو اس بادشاہ نے انہیں بت پرستی کی طرف بلایااور انہوں نے توحید کوچھوڑ کر بت پرستی کو قبول کرلیا جس کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں مخبوط الحواس کردیا اور ان کی آبائی زبانیں اور ان کافہم انہیں بھلادیا جس سے عربی کا دورِ اوّل جو حضرت آدم سے چلتا ہوا اس واقعہ تک پہنچا تھا وہ ختم ہوا اور یہاں سے دوسرا دور شروع ہوا۔
تبلبل السنہ یعنی زبانوں کی تبدیلی کے واقعہ کے بعد مؤرخین کا اختلاف ہے کہ سب سےپہلے کس نے عربی زبان بولنا شروع کی اوراس دوسرے دورمیں عربی زبان کی ابتدا ء کیسے ہوئی ؟ اس بابت بهی تاریخ نے بہت سی اختلافی معلومات دی ہیں جن میں کسی ایک قول کو حتمی طور پر قبول کرنا ممکن نظر نہیں آتا لیکن دیگر خارجی ذرائع سے اس بات کو طے کیا جاسکتا ہے چنانچہ پہلے مختلف تاریخی اقوال کو بیان کیا جارہا ہے اس کے بعد مشہور اور بنیادی قول کو نقل کیا جائےگا۔ ابن اسحاق سے اس بارے میں ذیلی روایت مروی ہے:
قال ابن اسحق كان جرهم وأخوه قيطورا أوّل من تكلم بالعربية عند تبلبل الالسن.42
ابن اسحاق نے کہاکہ سب سے پہلے عربی زبان میں کلام کرنے والا جرہم اور اس کا بھائی قیطورا ہےجنہوں نے زبانوں کی تبدیلی کے وقت عربی میں کلام کرنا شروع کردیا تھا۔
ابن ہشام اس حوالہ سے ایک مشہور قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
يعرب الذي تكلم بالعربية كل أخذه من يعرب ابن قحطان بن هود وإليه تنسب العربيةفقيل: عربي لأن يعرب أول من نطق بھا وليس أحد غيره تكلم قبله بھا.43
یعرب وہ ہے جس نے عربی میں کلام کیا اور ہر ایک نے عربی یعرب بن قحطان بن ہود سے سیکھی،ان ہی کی طرف عربی کو نسبت دیتے ہوئے عربی(زبان کو عربی) کہاجاتاہے کیونکہ یعرب ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے عربی میں کلام کیا جبکہ اس سےپہلے (اس دوسرے دورمیں)کسی نے کلام نہیں کیا۔
ابن جریر طبری کے نزدیک تبلبل السنہ کے واقعہ کے بعد عاد وثموداور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے عربی زبان میں کلام کیا جیساکہ انہوں نےلکھا:
ففهم اللّٰه العربيةعادا و عبیل و ثمود و جیس و عملیق وطسم وأمیم وبنی یقطن بن عابر بن شالخ بن أرفخشد بن سام بن نوح.44
پس (تبلبل السنہ کے بعد)اللہ تعالیٰ نے عاد، عبیل،ثمود، جیس ،عملیق ،طسم، أمیم اوربنی یقطن بن عابر بن شالخ بن أرفخشد بن سام بن نوح کو عربی سمجھا دی۔
جبکہ اس حوالہ سے ا بن سعد نے ایک اور مختلف ذیلی قول نقل کیاہے:
ويقال إن عمليق أول من تكلم بالعربية حين ظعنوا من بابل وكان يقال لهم ولجرهم العرب العاربة.45
کہا جاتا ہے کہ بابل سے نکلتے ہوئے عملیق نے ہی پہلے پہل عربی زبان میں باتیں کیں اوریہی وجہ ہے کہ انہیں اور جرہم کو عرب عاربہ (یعنی اولین اوراصل عرب)کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ابن سعد نے عربی زبان کے اولین متکلم کے بارے میں دوسرا مشہور قول حضرت اسماعیل کا بھی نقل کیا ہے۔46مذکورہ بالااقوال سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ دوسرے دور کی عربی زبان کی ابتداء میں اختلاف مروی ہے جس کی بنا پر کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنا مشکل نظرآتاہے البتہ دقت نظر سے اگر دیکھاجائے تومؤرخین کے مابین اس بارے میں یعرب بن قحطان اور حضرت اسماعیل والے دو اقوال مشہور ومعروف ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی حیثیت کے حامل ہیں 47جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہےکہ اکثر ائمہ مؤرخین کےنزدیک دیگر اقوال ناقابل اعتبار اورکمزور ہیں۔ ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں اختلافی روایات پر بحث ونقد کرتے ہوئے اختتامِ بحث میں ان دو مشہور اقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں:
وترى علماء العربية حَيَارى في تعيين أول من نطق بالعربية فبينما يذهبون إلى أن "يعرب" كان أول من أعرب في لسانه وتكلم بھذا اللسان العربي، ثم يقولون: ولذلك عرف هذا اللسان باللسان العربي....ثم تراهم يقولون: أول من تكلم بالعربية ونسي لسان أبيه إسماعيلُ، أُلْھِم إسماعيل هذا اللسان العربي إلهامًا، وكان أول من فُتِق لسانه بالعربية المبينة، وهو ابن أربع عشرة سنة وإسماعيل هو جدّ العرب المستعربة على حد قولھم....وللإخباريين بعد كلام في هذا الموضوع طويل الأشھر منه القولان المذكوران ووفق البعض بينھما بأن قالوا:48إن "يعرب" أول من نطق بمنطق العربية، وإسماعيل هو أول من نطق بالعربية الخالصة الحجازية التي أنزل عليھا القرآن.49
اور تودیکھےگا کہ علمائے عربیہ سب سے پہلے عربی زبان بولنے والے شخص کی تعیین میں(اختلافی روایات کی بنا پر) حیران وپریشان ہیں۔ دریں اثناء وہ اس طرف گئے ہیں کہ یعرب ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عربی زبان کی بنیاد رکھی اور پہلی مرتبہ اس زبان میں کلام کیا۔پھر علمائے عربیہ کہتے ہیں کہ یعرب ہی (کے نام کی مناسبت ) کی وجہ سے اس زبان کو عربی زبان کے طور پر جانا جاتا ہے۔۔۔پھر تو دیکھے گا کہ علمائے عربیہ یہ (بھی)کہتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے عربی زبان میں بات کی اور اپنی پدری زبان بھول گئے وہ حضرت اسماعیل ہیں، ان ہی کو یہ عربی زبان الہام کی گئی تھی اور یہی وہ پہلے شخص ہیں جن کی زبان کو چودہ(14)سال کی عمر میں واضح عربی بولی کے ساتھ کھولا گیا ہے جبکہ حضرت اسماعیل بقول ان مؤرخین کے عرب مستعربہ کے جد امجد ہیں۔۔۔ اس موضوع پر طویل کلام کے بعد مؤرخین کے یہی دو مشہور (باہم مختلف)اقوال (کتب میں)مذکور ہیں جن میں بعض نے یوں موافقت پیدا کی ہے کہ یعرب نے سب سے پہلے عربی زبان میں با ت کی ہے اور (اس کے بعد)حضرت اسماعیلنے سب سے پہلےخالص حجازی لہجہ کی عربی زبان میں بات کی ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا ہے۔
تاریخی مختلف اقوال بیان کرنےسے معلوم ہوا کہ عربی کے دوسرے دور کی ابتداء کے بارے میں گوکہ تناقض موجود ہے پھر بھی علمائے مؤرخین نے مذکورہ دو آخری مشہور اقوال کو لائق التفات سمجھ کران میں موافقت کو بھی بیان کیا ہے۔اس سے کم از کم یہ ضرور واضح ہوجاتا ہے کہ یعرب پہلے شخص ہیں جنہوں نے عربی زبان میں کلام کیا جبکہ دیگر اقوال باہمی تعارض و تناقض اور سندی کمزوری کی بنا پرناقابل التفات ہیں50ثانیاً اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کے یہ سب یعرب بن قحطان اور حضرت اسماعیل پر عربی کے منجانب اللہ اِلقاء کئے جانے کے قائل تھے جس سے اس مؤقف کی بھی تائید ہوتی ہے کہ عربی سب سے پہلے حضرت آدم کی زبان پر جاری ہوئی اور وہ منجانب اللہ ہی تھی کیونکہ اگر بعد والے اشخاص کے لئے اس کا منجانبِ اللہ ہونا اور منزّل من اللہ ہونا تسلیم کیا جاسکتا ہے تو حضرت آدم کے لئے بھی یہ بات بدرجہ اولیٰ ممکنات پر محمول اور قبول کی جاسکتی ہے۔
مذکورہ مشہور دو اقوال کے باہمی تعارض کو صاحب روض الانف کی بیان کردہ ذیلی تفصیل کے ذریعہ بھی حل کیا جاسکتا ہے۔وہ اس تعارض کو حل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وروى ابن إسحاق في الكتاب الكبير عن شھر بن حوشب عن أبي ذر عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم أنه قال "أول من كتب بالقلم 51إدريس" وعنه صلي اللّٰه عليه وسلم أنه قال "أول من كتب بالعربية 52إسماعيل" وقال أبو عمر: وهذه الرواية أصح من رواية من روى: أن أول من تكلم بالعربية إسماعيل .53
ابن اسحاق نے کتاب الکبیر میں شہر بن حوشب سے انہوں نے ابو ذر سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺسےروایت ذکر کی ہے کہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے (نفسِ)قلم سے لکھنے والی شخصیت ادریس ہیں اورآپ ﷺ ہی سے مروی ہے کہ آپ ﷺنےیہ بھی ارشادفرمایاکہ سب سے پہلے عربی(مبین) میں کتابت کرنے والے حضرت اسماعیل ہیں۔ابو عمر کے بقول یہ روایت زیادہ صحیح ہے بنسبت اس روایت کے جس میں یہ مذکور ہے کہ اسماعیل عربی زبان بولنے والی پہلی شخصیت ہیں۔
امام سہیلی نے جس ابو عمر کا قول نقل کیا ہے وہ ابو عمر حافظ المغرب ابن عبد البرّ ہیں نیز ان کے اس قول کی بنا پر ہی صاحبِ شفاء الغرام نے کتابت اسماعیل کی روایت کو وجہ ترجیح قراردیاہے54 جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت اسماعیل کی دوسرے دور میں اولین تکلم والی روایت کتابت والی روایت کے مقابلہ میں مرجوح ہے نیز مذکورہ عبارت میں حضرت اسماعیل کے عربی زبان میں اولین کتابت کا واضح ذکر ہے اور یہ روایت بھی اصح ہے جس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس دوسرے دور میں اولین عربی زبان بولنے والے یعرب بن قحطان ہیں اور کوئی نہیں۔
قحطان کے بیٹے یعرب کو عربی زبان بقول ابن خلدون اس وجہ سے آتی تھی کہ ان کے والد قحطان کو آتی تھی55لیکن دیگر مورخین و سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یعرب بن قحطان ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عربی میں کلام کیا، یہی وجہ ہے کہ حسان بن ثابت ،جوقحطانی الاصل ہیں،اہل عدنان کے مقابلے میں فخریہ کہتے تھے:
تعلمتم من منطق الشیخ یعرب
ابینافصر تم معربین ذوي نفر56
وكنتم قدیما مابكم غیر عجمة
كلام وكنتم كالبھائم في القفر57
تم نے ہمارے جد امجد،بزرگوار یعرب کے نطق سےبولنا سیکھا،پس تم خوش کلام اور جتھے والے ہوگئے،حالانکہ تم سب کا حال یہ تھا کہ بے زبانی ہی تمہاری زبان تھی اور تم صحراؤں کے درندوں کی سی حیثیت رکھتے تھے۔
حضرت حسان بن ثابت کے مذکورہ اشعار سے واضح ہے کہ پہلے عربی زبان میں کلام کرنے والے یعرب بن قحطان ہی تھےنہ کہ ان کے والد جیسا کہ ابنِ خلدون کا خیال ہےاور یہی قول دیگر مؤرخین کے درمیان مشہور ہے۔ محمد بن یوسف صالحي نے بھی اسی مؤقف کی تائید کی ہےجیساکہ ان کی کتاب میں ہے:
ويعرب بن قحطان أول من تكلم بالعربية أي من أهل اللسان السّرياني58ونزل أرض اليمن، وهو أبو اليمن كلھم.59
سریانی زبان سے سب سے اوّل عربی زبان میں کلام کرنے والے یعرب بن قحطان ہیں جو یمن میں مقیم ہوئے اور یہی اہل یمن کے آبا٫ و اجداد ہیں۔
صاحب قول المبین نے بھی اس کی تائید کی ہے60 اور مذکورہ بالا عبارت کا واضح مطلب بھی یہی ہے کہ یعرب بن قحطان ہی پہلے پہل عربی میں کلام کرنے والے شخص تھے۔
یہاں عربی زبان کے دوسرے دور کے بارے میں کلام کیاجارہاہے ورنہ یعرب بن قحطان سے پہلے بھی عربی کے پہلے دورمیں عرب قومیں گزریں تھیں جن کی زبان عربی تھی۔ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب قلائد الجمان تحریر کرتے ہیں:
قال الجوهري: وهو أول من تكلم بالعربية، ولعله يريد أول من تكلم بھا من بني قحطان، وإلا فقد كان قبله أمم من العرب، كعاد وثمود وغيرهم يتكلمون العربية.61
جوہری نے کہا ہے کہ یعرب بن قحطان ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عربی میں کلام کیا ہے اور شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ بنی قحطان میں سے پہلےجس نے کلام کیا ہے(نہ کہ مطلقاً) وگرنہ(اگر یہ معنی مراد نہیں ہےتو)یعرب بن قحطان سے پہلے بھی کئی عرب قومیں گزری ہیں جیسے عاد و ثمود وغیرہ جو عربی زبان میں ہی کلام کرتے تھے۔
یعنی یعرب بن قحطان کوجو پہلے پہل عربی میں کلام کرنے والا کہا جارہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سے پہلے کسی نے عربی نہیں بولی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عربی کے دوسرے دور میں عرب عاربہ سے تعلق رکھنے والے بنی قحطان میں سے سب سے پہلے یعرب بن قحطان نے اس میں کلام کیا ہے کیونکہ ان سے پہلے عرب بائدہ ساری کی ساری اصل العرب تھیں جن کی زبان ہی عربی تھی۔
خلاصہ یہ ہوا کہ مؤرخین نے عربی کے دوسرے دور میں اولین عربی بولنے والے افراد کے حوالہ سے کئی اقوال نقل کیے ہیں لیکن وہ کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں البتہ تمام مؤرخین نے دو مشہور اقوال متفقہ طور پر نقل کیے ہیں اور ان میں بھی یعرب بن قحطان والے قول کو ترجیح دی ہے اور دوسرے قول کو مرجوح قرار دے کر اس کا دوسرا محمل بیان کیا ہے جس سے یہ بات بدیہی طورپر واضح ہوگئی کہ عربی زبان کےدوسرے دور میں یعرب بن قحطان ہی عرب عاربہ کے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عربی زبان میں سب سے پہلے کلام کیا ہےاور پھر یہ زبان ان کی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ پھر عربی کا تیسرا دور شروع ہوا ۔
عربی کا دوسرا دور جو یعرب بن قحطان سے شروع ہوا تھا وہ حضرت اسماعیل پر اس وقت ختم ہواجب حکمِ الہی کی تابعداری میں 62 آپ نے اپنی والدہ حضرت ہاجرہ سمیت بے آب وگیاہ وادی میں پرورش پائی 63 اور جرہم قبیلہ کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سےان سے عربی زبان سیکھی64لیکن آپ نے اس زبان میں ان سے بھی بہترین انداز اور فصاحت وبلاغت کے ساتھ گفتگو کی 65جسے سن کر خود بنو جرہم حیران رہ جاتے۔یوں عربی کا یہ تیسرا دور شروع ہوا جس میں سب سےپہلے حضرت اسماعیل نےفصیح عربی زبان بولی۔اس حوالہ سےابن عباس سے مروی ہے:
قال: أول من نطق بالعربية....إسماعيل بن إبراهيم.66
ابن عباس نے فرمایا کہ سب سےپہلے عربی زبان بولنے والے ۔۔۔حضرت اسماعیل ہیں۔
ابن سعد اس حوالہ سے بیا ن کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عن عقبة بن بشير أنه سأل محمد بن علي: من أول من تكلم بالعربية؟ قال: إسماعيل بن إبراهيم صلى اللّٰه عليھما وهو ابن ثلاث عشرة سنة .67
عقبی بن بشیر نے محمد بن علی (جن کی کنیت ابو جعفر تھی ) سے پوچھا عربی زبان میں سب سے پہلے کس نے کلام کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا اسماعیل بن ابراہیم نے جب وہ تیرہ سال کے تھے ۔ 68
اسی طرح علامہ ابن جوزی نے بھی اس حوالہ سے یہی لکھا ہے:
أول من كتب بالعربية مرار بن مرة من أهل الأنبار أول من تكلم بالعربية إسماعيل عليه السلام.69
سب سے پہلے عربی لکھنے والے اہل انبار میں سے مرار بن مرہ ہیں اور سب سے اول عربی میں کلام کرنے والے اسماعیل ہیں۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ عربی مبین جو عربی زبان کاتیسرا دور ہے اس کی ابتداء حضرت اسماعیل سے ہوئی ہے اورآپ نے ہی سب سےپہلے اس زبان میں فصیح وبلیغ انداز سے کلام کیا۔اس طرح کلام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے اس زبان کو سیکھنے کے بعد آپ پر یہ زبان الہام بھی کی گئی تھی ۔ذیلی روایت سے یہ واضح ہوتاہے:
وفي رواية عن أبي جعفر، قال: ألهم اللّٰه إسماعيل العربية فنطق بھا.70
ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کو عربی(مبین) سکھائی تو آپ نے اس میں کلام کیا۔
اسی الہام الہی کی بدولت آپ نے اس زبان کو جرہم سے بھی بہترین انداز سے بولاجس کی مزید وضاحت ذیلی حدیث سے ہوتی ہے:
عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم أنه قال:"أول من فتق لسانه بالعربية البينة إسماعيل، وهو ابن أربع عشرة سنة ".71
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنےفرمایا:جس شخص کی عربی مبین(یعنی فصیح وبلیغ عربی)میں سب سے پہلےزبان چلی وہ(حضرت) اسماعیل ہیں جب ان کی عمرچودہ سال تھی۔
اس کی مزید وضاحت ابن حجر عسقلانی کی بیان کردہ ذیلی عربی عبارت سے یوں ہوتی ہے:
بعد تعلمه أصل العربية من جرھم الهمه اللّٰه العربية الفصحة المبینة فنطق بھا. 72
بنو جرہم سے اصل عربی سیکھ لینے کے بعد اﷲ نے واضح اور فصیح عربی ان کی طرف الہام کی کہ پس انہوں نے فصیح عربی زبان میں بات کی۔
ذیلی اقتباس سے بھی اسی طرف رہنمائی ہوتی ہے:
وكان إسماعيل بن إبراهيم عليھما السلام أول من تكلم بالعربية الفصيحة البليغة وكان قد أخذ كلام العرب من جرهم الذين نزلوا عند أمه هاجر بالحرم....ولكن أنطقه اللّٰه بھا في غاية الفصاحة والبيان وكذلك كان يتلفظ بھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم. 73
حضرت اسماعیل بن ابراہیم وہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلےفصیح وبلیغ عربی میں کلام کیا جبکہ انہوں نے عربی زبان ان جرہمی افراد سے سیکھ لی تھی جو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کےپاس سکونت پذیر ہوئے تھے۔۔۔لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کو یہ زبان انتہائی فصاحت وبلاغت کے ساتھ بلوائی اور اسی فصاحت وبلاغت کےساتھ رسول اللہ ﷺبھی یہ زبان بولتے تھے۔
اس سے واضح ہوا کہ حضرت اسماعیل نے جس عربی زبان میں کلام کیاوہ اپنے دونوں ماقبل ادوار سے بہترین تھی اور فصاحت وبلاغت میں بھی اوفق و اعلی تھی۔ حضرت اسماعیل نے اولًا جرہم سے اور ثانیاً الہامی طریقہ سے اس کو سیکھنے کے بعد فصیح وبلیغ انداز سے خود بھی بولا اور آپ کی اگلی نسل نے بھی اسی انداز سے بولاجیساکہ ذیلی اقتباس سے ظاہر ہوتاہے:
واللسان السادس ممن أنطقه اللّٰه فی عربة بلسان لم یکن قبلھم إسماعیل بن إبراھیم فأنطقوا بالمبین وھو السادس ممن تکلم بالعربیة ھو وبنوہ ولسانھم المبین وكتابھم المبین وھو الغالب علی العرب الیوم.74
چھٹی زبان جو عرب میں اﷲ تعالیٰ نے بلوائی اور اس سے پہلے نہ تھی وہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم کو بلوائی، بنو اسماعیل (عربی مبین یعنی) فصیح عربی زبان بولے۔ اور یہ چھٹے بزرگ ہیں جو (اس فصیح) عربی میں خودبولے اور ان کے بیٹے بھی۔ ان کی زبان اور تحریر فصیح ہے اور یہی (مبین) زبان آج تمام عرب پر غالب ہے۔
یہاں تک یہ خالص حجازی زبان بنی جس میں رسول مکرم ﷺ نے گفتگو فرمائی اور اسی میں قرآن مجید نازل ہوا جیساکہ ذیلی عبارت سے عیاں ہوتاہے:
أن "يعرب" هو أول من نطق بمنطق العربية، وأن إسماعيل هو أول من نطق بالعربية الحجازية الخالصة، التي أنزل بها القرآن الكريم.75
تحقیق یعرب ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے سب سےپہلے عربی بولی اور بلاشبہ حضرت اسماعیل نے (الہامی طور پر)خالص حجازی عربی میں کلام کیا جس میں قرآن کریم نازل کیاگیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت اسماعیل سے پہلے بھی عربی موجود تھی لیکن ان کے کلام میں خدائی الہام کے ذریعہ مزید بہتری پیدا ہوئی اور یوں آپ فصیح عربی یعنی عربی مبین کے بانی قرار پائے۔یہاں سےعربی کا فصیح وبلیغ عربی مبین کی صورت میں تیسرادور شروع ہوا کیونکہ تاریخ میں یہ بات مسلمہ ہے کہ آپ کی ہی زبان کو عربی مبین کہاجاتاہے لہذا درحقیقت یہ عربی کا تیسرا دور ہےجو اپنے دونوں ماقبل ادوار سے بہترین تھااور اس عربی مبین کی ساخت الہامی فصاحت وبلاغت پرمشتمل تھی ۔ اسی فصیح عربی زبان میں آخری پیغام ِخداوندی قرآن مجید نازل کیا گیا اور پھر اس کی تشریح وتوضیح کی خاطر رسول مکرم ﷺنے بھی اسی فصیح عربی زبان ہی کے ذریعہ سے لوگوں کو احکام الہیہ سمجھائے۔
یہ عربی مبین ہی تھی جو بنو اسماعیل میں رہی یہاں تک کہ جب ان کی نسلوں سے تعلق رکھنے والے قبائل کی کثرت ہوئی اور انہیں غیر عرب اقوام سے تجارت کا موقع ملا تو زبان میں کچھ تغیرات رونماہوئے جس کی بابت یوں تذکر ہ کیاگیا ہے:
وقد أدى اختلاط قوافل تجار العرب من قديم الزمن بعرب الشام وغيرهم، إلى تسرب كثير من الكلمات التجارية والحضارية من يونانية وغير يونانية إلى لغة العرب، فتعربت بمرور الزمن في العھد الجاھلي. 76
زمانہ قدیم سے چونکہ عرب اور اہل عرب سے تجارتی قافلوں کے روابط رہے ہیں اس لئے بہت سے غیر عربی تجارتی و شہری کلمات بھی زمانہ جاہلیت میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ عربی زبان کا حصہ بنتے گئے جو اپنی اصل میں غیر عربی الفاظ تھے۔
یعنی عربی مبین میں دیگر الفاظ کا ملنا ان کے غیر ملکی تجارتی اسفار کی وجہ سے تھا جس میں غیر عربی کلمات وتلفظات کا شامل ہوجانا ایک لازمی امر تھا لیکن اہل عرب نے اس کے باوجود بھی اپنی زبان کی برتری کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ دوسری زبان کے الفاظ کو بھی عربی زبان کا جامہ پہنا کر استعمال کیا۔اس کے علاوہ خود بنواسماعیل میں یہ زبان مختلف لہجوں میں بولی جانے لگی ليكن ان لہجوں کااختلاف ایسا نہیں تھا کہ انہیں علیحدہ علیحدہ زبانیں شمار کیا جائے بلکہ محض حروف کی تقدیم وتاخیر یا تبدیلی ہی اس اختلاف کا سبب تھا ورنہ معانی میں کوئی تفاوت نہیں تھا۔77بنو اسماعیل کے مختلف قبائل میں لہجے، تلفظ اور الفاظ کی حرکات میں مذکورہ اختلاف دورجاہلی اور پھر اوائلِ عہدِ اسلام تک رہا جس کو ائمہ لغت نے بیان کیا ہے چنانچہ ذیل میں ان مختلف الانواع لہجوں کا مختصر تعارف دیا جارہا ہے۔
عربی مبین کے ان لہجوں اور تلفظ کے اختلافات کے لیے ائمہ لغت نے جو نام بیان کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
بنوتمیم ابتدائے لفظ میں آنے والے ہمزہ کو عین کردیتے تھے جیسے "انک" کو "عنک" اوراس کو ائمہ لغت "عنعنہ" کہتے ہیں جیساکہ ذیل میں ہے:
العنعنة فى قیس و تمیم تجعل الھمزة المبدو ء بھا عینا فیقولون فى انك عنك وفى اسلم عسلم.78
عنعنہ قیس وتمیم میں تھا، وہ ابتدائی ہمزہ کو عین بنادیتے ہیں چنانچہ یوں کہتے ہیں: انک میں عنک اوراسلم میں عسلم۔
امام ابن اثیر اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
فأبدلت من الھمزة عینا وبنو تمیم یتكلمون بھا وتسمي العنعنة.79
پس ہمزہ عین میں تبدیل ہوگئی اور بنو تمیم ایسےہی بولتےہیں، یہ لغتِ عنعنہ کہلاتی ہے۔
نیز اس بارے میں حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت قیلہ نے فرمایا:
تحسب عني نائمة. 80
وہ مجھے سوئی ہوئی گمان کرتی ہے۔
اصل میں انی نائمۃ کے الفاظ ہیں جو بنی تمیم کے لغت میں "عنی" بن گیا۔ ابو موسیٰ مدینی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
اي تحسب اني یبدلون من الھمزة عینا وبنو تمیم یتكلمون بھذه اللغة.81
یعنی تحسب انی کے ہمزہ کو عین سے بدل دیتے ہیں اور بنو تمیم اسی لغتِ عنعنہ سے کلام کرتے ہیں۔
بنو قضاعہ "ی" کو جیم کردیتے تھے جیسے "معی" کو "معج"اوراس کو ائمہ لغت "عجعجۃ" کہتے ہیں جیساکہ ذیلی عبارت سے واضح ہوتاہے:
والعجعجة في قضاعة. 82
اورلغت عجعجہ قضاعہ میں ہے۔
بنو سعد، ہذیل،قیس اور انصار"ع" کو نون بولتے تھے جیسے "اعطی" کو "انطی"چنانچہ اس حوالہ سے فارس آفندی لکھتے ہیں:
في لغة سعد بن بکر والأزد وھذیل والأنصار یجعلون العین الساكنة نونا إذا جاورت الطاء كأنطي في اعطي.83
سعدبن بکر، الأزد، ہذیل اورانصار کی لغت میں ہےکہ وہ عین ساکن کو نون بنادیتے ہیں بشرطیکہ وہ طاء کےساتھ واردہوجائے جیسے اعطی میں انطی۔
ائمہ لغت اس کو "الاستنطاء" کہتے ہیں جیساکہ ذیل میں ہے:
الاستنطاء وھوقلب العین الساكنةقبل الطاء نونا یقولون انطي في اعطي. 84
لغتِ استنطاء، طاءسے پہلے عین ساکن کونون سے بدلنا ہے، وہ اعطی میں انطی بولتے ہیں۔
ڈاکٹر جواد علی نے بھی اس کو اسی طرح بیان کیا ہے۔85
بنی ربیعہ اور بنی اسد مؤنث میں کافِ خطاب کے بعد "ش" بڑھادیتے تھے جیسے علیک کی جگہ علیکش جیساکہ ذیلی اقتباس سے واضح ہوتاہے:
وفي بني أسد أو ربیعة إبدال الشین من كاف الخطاب للمؤنث كعلیش في عليك أو زیادة شین بعد الكاف المجرورة تقول علیکش. 86
اور بنی اسدیا ربیعہ میں مؤنث کےلیے کاف ِخطاب کو شین سے تبدیل کرتے ہیں ،جیسے علیک میں علیش یا کاف مجرورکے بعدشین کااضافہ کرتے ہیں جیسے علیکش۔
اس کو ائمہ لغت "کشکشۃ" کہتے ہیں جس طرح ذیل میں ہے:
والكشكشةلغة لربیعة. 87
اور کشکشہ ربیعہ کی لغت ہے۔
جبکہ بنی تمیم میں مذکر میں کافِ خطاب کو سین سے بدل دیتے تھے جیسے "ابوک" کی جگہ "ابوس" چنانچہ اس حوالہ سے ذیلی عبارت میں یوں مذکور ہے:
ومنھم من یبدل السین من كاف الخطاب فیقول ابوس وامس اي ابوك وامّك . 88
اور ان میں بعض کافِ خطاب کو سین سے بدلتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں:ابوس اورامس یعنی ابوک اورامک۔
یہ بنو تمیم کی لغت بھی ہے89 اوراس کو ائمہ لغت "کسکسۃ" بھی کہتے ہیں90کیونکہ اس میں سین سے تبدیلی کردی جاتی ہے۔ بنو اسد کی زبان میں یائے مضارع پر فتحہ یا ضمہ ہوتا تھااور ان کے علاوہ دیگر قبائل کسرہ دیتے تھےیعنی وہ یَفْعَلُ کو یِفْعَلُ کہتے تھے۔ان اختلافات میں وتم،وکم،شنشنہ،فحفحہ اورتلتلہ وغیرہ بھی شامل تھے۔91
اسی طرح لفظ "ذو" جو بالعموم "والا" کے معنی دیتا ہے، بنوطے کے ہاں "الذی" (یعنی جو اور جس) کا مفہوم رکھتا تھا چنانچہ اس طرح کے ایک شعر کو نقل کرتے ہوئے احمد المرزوقی لکھتے ہیں:
لئسن لم تغير بعض ما قد صنعتم
لأنتحين للعظم ذو أنا عارقة.92
اگر تو نے اپنے سلوک میں مناسب تبدیلی نہ کی تو میں لازماً خود اس ہڈی کا رخ کروں گا جس پر سے میں سرِدست صرف گوشت نوچ رہا ہوں۔
مذکورہ بالا شعرمیں "ذو" الذی کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہےاوراس کا شاعرقیس بن جروۃ الطائی ہے جواسی شعر کے باعث "عارق" کے لقب سے مشہور ہوا نیز اس سے معلوم ہوا کہ بنو طے ذو کو الذی کے معنی میں استعمال کرتے تھے۔
اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے لہجوں کے اختلافات تھے جن میں حرکات وسکنات کااختلاف،حروف کی تقدیم وتاخیر کااختلاف، حروف کی تبدیلی کااختلاف، حذف واثبات کا اختلاف، حرف صحیح اور حرف معتل کی تبدیلی کااختلاف، امالہ وتفخیم کا اختلاف،تذکیر وتانیث،ادغام، اعراب ،زیادۃ،کلمہ اور قیاس میں اختلاف شامل ہیں لیکن ان سب اختلافات کے باوجود معانی ومفاہیم اور مرادی معانی میں کوئی تفاوت یا اختلاف نہیں تھا۔93
مذکورہ بالا تفصیلات سےاس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ بنواسماعیل سے تعلق رکھنے والے عرب کے مختلف قبائل عربی مبین کو اپنے اپنے لہجوں میں بولا کرتےتھے جن میں عنعنہ،عجعجہ،کشکشہ اور استنطاء سمیت دیگراختلافات بھی موجود تھے جن سے گو کہ صوتیات کے معیارات میں کمی یا نقصان واقع ہوتاتھا لیکن معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتاتھا۔
عرب لوگ نہایت درجہ فصیح و بلیغ اور ماہر لسان تھے، اپنی عربی زبان کے مقابلے میں دوسری زبانوں کو ہیچ و کمتر سمجھتے تھے اور دیگر ممالک کے لوگوں کو عجمی یعنی گونگا قرار دیتے تھے ۔اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اہل عرب نے کسی بھی زمانے یا مقام پر قوموں سےا ختلاط کے باوجوداپنی زبان کے خدو خال کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ صرف معمولی آمیزش کے ساتھ ہی ان اقوام کی زبانوں کے الفاظ کو اپنی زبان میں ایسے جگہ دےدی تھی کہ غیر عربی کلمات عربی زبان کے الفاظ ہی معلوم ہوتے تھےجس سے اس کی وسعت کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتاہے۔94اسی احتیاط کی بنا پر اہل عرب کی فصاحت وبلاغت نمایاں تھی اور عجم کے مقابلہ میں لسانی برتر تھی ۔
جب عام اہلِ عرب کی زبان دانی کا یہ عالم تھا کہ وہ غیر قوموں کے الفاظ کو ضرورت پڑنے پر تغیرات سے گزارکر اپنی ہی زبان کالفظ بنالیتے تھے تو عرب کے افصح ترین لوگ یعنی قریش اس معاملے میں اور بھی محتاط اور ہوشیار تھے۔اوّلا تو قریش کسی غیر عربی زبان کے الفاظ کو قبول ہی نہ کرتے تھے لیکن اگر مجبوراً انکو کسی اورزبان کا کوئی لفظ مستعار لینابھی پڑتا تھاتو وہ اسکو اس مہارت کے ساتھ اپنے کلام کا حصّہ بناتے تھےکے عام آدمی اسکو خالص عربی لفظ ہی سمجھتا تھا جسکی کئی مثالیں قرآن کریم میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے قریش عرب کے سب سے زیادہ فصیح وبلیغ لوگ یعنی افصح العرب95کہلاتے تھے جن کی زبا ن میں قرآن مجید نازل کیاگیا اور اس کی نشاندہی ذیلی عبارت سے ہوتی ہے:
كانت قریش تختار أفضل لغات العرب حتي صار أفضل لغاتھا لغتھا فنزل القرآن بھا.96
قریش عرب کی سب سے افضل وبہتر زبان کو اختیار کیے ہوئے تھے یہاں تک کہ سب سے بلند وبرتر زبان ان کی زبان ہوگئی تو قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا۔
شمالی عرب کی زبان اور لہجوں نے جنوب کی زبان اور لہجوں پر غلبہ تو حاصل کیا ہی تھا مگر اسکے ساتھ ساتھ اس زبان اور اس کے لہجوں پر جہالت،بدویت اور کھردرے پن کے جو اثرات چلے آتے تھے وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے چلے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ قریش کی زبان شمالی علاقے کی تمام زبانوں پر حاوی ہوگئی جس کے کچھ مذہبی اور کچھ اقتصادی اور معاشرتی اسباب تھے۔97پھر قرآن کی اشاعت نے اس خالص زبان کومزید چار چاند لگا کر چہار دانگ عالم میں پھیلا دیااور یوں یہ افصح العرب کہلائے جیساکہ ذیلی عبارت سے واضح ہوتاہے:
أن قريشًا كانوا أفصح العرب ألسنة، وأصفاهم لغة، وأجود العرب انتقادًا للأفصح من الألفاظ.98
تمام عرب میں قریش ہی زبان کے لحاظ سے واضح ترتھے اور الفاظ کی فصاحت وبلاغت کےحوالے سے عرب میں سب سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے۔
قریش کی فصاحت لسانی اور بلاغت بیانی کے افضل واوفق ہونے پر علماء کا گویا اجماع ہے جیساکہ ذیلی اقتباس سے واضح ہوتاہے:
أجمع علماؤنا بكلام العرب، والرُّواة لأشعارهم، والعلماء بلغاتھم وأيامهم ومحالّهم أن قريشاً أفصح العرب ألْسنة وأصفاهم لغة.... وكانت قريش، مع فصاحتھا وحسن لغاتھا ورقة ألسنتھا، إذا أتتھم الوفود من العرب تخيروا من كلامھم وأشعارهم أحسن لغاتھم وأصفى كلامھم فاجتمع ما تخيروا من تلك اللغات إلى نحائرهم وسلائقھم التي طبعوا عليھا فصاروا بذلك أفصح العرب،ألا ترى أنك لا تجد في كلامھم عنعنة تميم ولا عجرفية قيس ولا كشكشة أسد ولا كسكسة ربيعة ولا الكسر الذي تسمعه من أسد وقيس.99
کلام عرب کے ہمارے علماء، عرب شاعری کے راویوں اور عرب کی زبانوں،ان کی جنگوں اور ان کے حالات کو جاننے والے علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بلاشبہ قریش ہی عرب میں سب سے زیادہ فصیح وبلیغ زبان والے اور ان میں سب سے صاف لہجہ والے ہیں۔۔۔اور قریش کے پاس جب عرب کے وفود آتے تھے تو قریش اپنی فصاحت،بہترین لہجہ اور زبان کی مٹھاس کےباوجودعرب وفود کے کلام اور اشعار میں سے سب سے خوبصورت لہجہ اور صاف وشفاف کلام کو چن لیاکرتے تھے پس وہ اپنی فطری طبیعت وسلیقہ کے ساتھ ان بہترین لہجوں کے بھی جامع ہوگئے اور اس کے سبب وہ عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوگئے۔کیا تمہیں یہ نہیں پتا کہ تم ان کے کلام میں تمیم کا عنعنہ، قیس کا عجرفیہ، اسد کا کشکشہ، ربیعہ کا کسکسہ اور اسد وقیس کا کسرہ دینا نہیں پاؤگے؟
قریش کی زبان کا ان اختلافات سے منزہ ہونے اورعرب کے دیگر قبائل كاقریش کی زبان ہی كو فصاحت وبلاغت ميں کھرا ونکھرا ماننے کا اصل سبب یہ تھا کہ قریش مکّہ کے اصلی باشندے تھے اوران کی زبان ان قبائل کی بنسبت اصل کی حیثیت رکھتی تھی جیساکہ ذیلی عبارت سے واضح ہوتاہے:
وهو الأصل....وصارت لغتھم الأصل لأن العربية أصلھا إسماعيل عليھا السلام وكان مسكنه مكة.100
اور وہ(یعنی مکّی زبان)ہی اصل ہے۔۔۔اور مکّہ والوں کی زبان اس لیے اصلی ہے کیونکہ عربی زبان کی اصل حضرت اسماعیل ہیں جن کا مسکن مکّہ تھا۔
اسی اصل حیثیت کی وجہ سے قریش کی زبان مذکورہ بالا عرب کےمختلف لہجوں سے پاک وصاف تھی اور دوسرے قبائل کی فصاحت وبلاغت کا معیار بھی تھی چنانچہ جو قبائل قریش کےجتنا قریب ہوتےاتناہی فصاحت کے قریب ہوتے جیسے ثقیف، ہزیل، خزاعہ، بنوکنانہ، بنواسد اور بنوتمیم اور جو قبائل قریش سے دور تھے وہ فصاحت وبلاغت سے اتنا ہی دورتھےجیسے ربیعہ، لخم، جذام،غسان، ایاد، قضاعہ اور یمن کے عرب جو فارس و روم اور حبشہ کے پڑوسی تھے ۔ ان سب کی زبان خالص وعمدہ نہ تھی کیونکہ ہمسائیگی کی وجہ سے ان کاعجمیوں سے میل جول رہتا تھا غرض یہ کہ جو قبیلہ جس قدر قریش سے دور تھا اسی قدر ان کی زبان میں خلل تھا ۔101
قریش کی فصاحت وبلاغت اور ان کے اصلی باشندگان مکّہ ہونے کی بناپر عرب کے دیگر تمام قبائل نہ صرف ان کی حد درجہ تعظیم وتکریم کرتےتھے بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی خصومات ومعاملات کا تصفیہ کروانے بھی قریش کے پاس آتے تھے چنانچہ ابو الحسین احمد بن فارس القزوینی فرماتےہیں:
وذلك أن اللّٰه جل ثناؤه اختارهم من جميع العرب واصطفاهم واختار منھم نبي الرحمة محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم فجعل قريشا قطان حرمه، وجيران بيته الحرام، وولاته فكانت وفود العرب من حجاجھا وغيرهم يفدون إلى مكة للحج، ويتحاكمون إلى قريش في أمورهم وكانت قريش تعلمھم مناسكھم وتحكم بينھم.102
اور یہ اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام عرب سے پسند فرماکر چنا اور ان ہی میں سے نبی رحمت (سیدنا)محمد(رسول اللہ) ﷺ کو چنا۔ پس قریش کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حرم کاخادم،اپنے گھر کا مجاور اور رکھوالابنایا ۔پس عرب قبائل کے حاجی وفود جو مکّہ میں حج کےلیے آتے تھے اورغیر حاجی وفود دونوں اپنے معاملات میں قریش سے فیصلہ کرواتےتھے اور قریش ہی انہیں ان کے مناسک حج کی تعلیم دیتےاور ان کے درمیان فیصلہ کرتےتھے۔
درج بالاسطور سے یہ بات قطعی طورپر واضح ہوگئی کہ قریش ہی افصح العرب تھے اور زبان دانی کے ساتھ ساتھ عربوں کے لیےفصاحت وبلاغت کا مسلمہ ومتفقہ معیار تھے۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ عرب میں قریش سب سے زیادہ فصیح وبلیغ تھے جبکہ قریش میں سے سب سے زیادہ فصیح وبلیغ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تھے۔قریش میں آ پ ﷺ کی فصاحتِ لسانی یکتا تھی اور آپ ﷺ فصاحت کے بلند ترین مقام پر فائز تھے۔ملّا علی القاری فرماتے ہیں:
وأما فصاحة اللسان وبلاغة القول فقد كان صلي اللّٰه عليه وسلم من ذلك بالمحل الأفضل والموضع الذي لا يجھل.103
رہی بات فصاحت لسان اور بلاغت بیان کی تو آپ ﷺ اس صفت میں سب سے افضل مرتبہ اور ایسے مقام پرتھے جس سے کوئی شخص بھی غافل نہیں۔
یعنی آپ ﷺ کی فصاحت وبلاغت کا مرتبہ ومقام کامل طور پر واضح اور ظاہر ہے 104اوراسی وجہ سے صحابہ کرام بھی آپ ﷺ کی فصاحت وبلاغت دیکھ کر حیران ہوجاتے تھے جیساکہ شعب الإیمان کی روایت سے واضح ہوتاہے:
قال له رجل: يا رسول اللّٰه ما أفصحك ما رأينا الذى هو أعرب منك، قال: "حق لى وإنما أنزل القرآن على بلسان عربى مبين ".105
ایک صحابی نے آپﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کی فصاحت کے کیاہی کہنے کہ ہم نے آپ ﷺ سے زیادہ بلیغ کسی کونہیں دیکھا۔آپ ﷺنے فرمایا کہ یہ میرا ہی حق ہے کہ قرآن مجید مجھ پر عربی مبین (یعنی واضح ترین عربی)میں ہی نازل کیاگیاہے۔
اسی طرح جزءابن غطریف میں موجود ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺسے آپ ﷺکی فصاحت کے متعلق کیے گئےسوال کا جواب یوں منقول ہے:
عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه أنه قال: يا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ما لك أفصحنا؟ ولم تخرج من بين أظھرنا؟ قال:«كانت لغة إسماعيل قد درست، فجاء بھا جبريل فحفظنيھا فحفظته.106
حضرت عمر بن الخطاب سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ہم سے زیادہ کیسے فصیح ہیں جبکہ آپ ﷺ ہمارے درمیان سے کہیں (باہربھی)نہیں گئے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت اسماعیل( )کی زبان بوسیدہ(یعنی پرانی )ہوگئی تھی تو جبریل( )نے آکر مجھے یادکرائی اور میں نے یاد کرلی۔
اس مذکورہ روایت کے علاوہ بھی اگر دیکھا جائے تو نبی مکرم ﷺ قبیلہ قریش کےانتساب اور بنو سعد میں پرورش پانےپر بھی فخر فرماتے تھے کیونکہ زبان دانی اور فصاحت وبلاغت کے لحاظ سےیہ دونوں قبائل عرب میں ممتاز ترین مقام کے حامل تھے ۔ 107
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عربی زبان کا تیسرا دور یعنی عربی مبین سب سے بہترین تھاجوحضرت اسماعیل سے شروع ہوا اور بنو اسماعیل سے ہوتا ہواقریش مکّہ تک اسی حالت میں پہنچا یہاں تک کہ تمام عرب نے قریش کو افصح العرب کہا اور پھر قریش میں رسول مکرم ﷺ افصح الفصحاء تھے جن کی زبان میں کلام الہی نازل ہوا نیز یہ بات حدیث مبارکہ میں بھی ارشاد فرمائی گئی جس سے اس کی ثقاہت مزید پختہ ہوجاتی ہے۔
افصح الفصحاء ﷺ کی فصاحت کا اندازہ یوں بھی ہوتاہے کہ عربی زبان میں بعض حروف جیسے"ض" ایسے ہیں جودوسری زبانوں میں نہیں ملتے اور نہ دوسری قومیں ان کا صحیح تلفظ ادا کرسکتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اہل عرب فخریہ انداز میں یہ کہا کرتے تھے:
نحن الناطقون بالضاد.108
ہم ضاد کا صحیح تلفظ ادا کرنے والے لوگ ہیں ۔
یعنی دنیا میں صرف عرب ہی ضاد کا صحیح تلفظ کرسکتے ہیں جبکہ مصری"ضاد" کو دال سے بدل دیتے ہیں۔109لفظ ضاد کے صحیح نطق کی بابت نبی کریم ﷺ بھی حضرت انس سے مروی ایک روایت میں فرماتے ہیں:
أنا أفصح من نطق بالضاد.110
میں سب سے بہتر ضاد کی ادائیگی کرتا ہوں ۔
مذکورہ بالا ان دو روایات سے واضح ہوتاہے کہ عربی زبان میں موجود حروف کا تلفظ بھی دیگر زبانوں کے مقابلہ میں مشکل ہے اور پھربالخصوص حرف ضا د کا تلفظ تو مشکل ترین ہے کیونکہ اس کامخرج دیگر حروف عربیہ کے مقابلہ میں کافی لمبا اور مشکل ترین ہےکہ اس کو صحیح اداکرنے کےلیے زبان کے دونوں کنارو ں کا دونوں داڑھوں پر لگنا لازمی ہے اور اس طرح اسکااداکرنا شاذونادر ہے۔111 اس سے حرف ضاد کی انفرادیت وامتیازیت آشکار ہوتی ہےاوریہ بھی واضح ہوتاہے کہ عرب میں اس دشوارترین حرف112 کو سب سے بہترین انداز سے اداکرنے والے رسول مکرم ﷺ تھے ۔ پھرجب اس عربی مبین اور لہجہءِ قریش میں قرآن شریف بھی نازل ہوگیا تو اس زبان کو عمر جاوداں مل گئی ۔
مذکورہ بالا تمام تفصیلات اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ عربی زبان اپنےتینوں ادوار میں محض دیگر زبانوں کی مثل پروان نہیں چڑھی بلکہ تاریخی طور پر یہ بات مسلّم ہےکہ وہ الہامی وتوقیفی طور پر بھی ترقی پاتی رہی ہے جس نے اس کے حسن میں مزید نکھار کو پیدا کردیا ہے۔ ثانیاً یہ دنیا کی معلوم و غیر معلوم تاریخ میں بھی سب سے پہلی زبان ہے جیسا کہ اس کا آدم پر الہامی طور پر نازل ہوناثابت کیا گیا ہےاور پھر اسی زبان میں خدا کےآخری پیمبرو پیام کوبھیجاگیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عربی زبان ہی دنیا کی تمام تر زبانوں سے اعلی،ارفع،اوفق اور اکمل زبان ہے۔
آئندہ سطور میں عربی مبین جس میں اللہ تعالیٰ کا آخری کلام قرآن مجید نازل ہوااس کی فصاحت وبلاغت اور دیگر موجودہ زبانوں کی بنسبت اس کےممتاز اور آفاقی ہونے سمیت اس کی ترکیب حروف والفاظ اور متعلقہ ضروری چیزوں پر روشنی ڈالی جائےگی تاکہ اس بات پر شرح صدر اور اطمینان قلب حاصل ہوجائے کہ عربی زبان دنیا کی موجودہ اور تاقیامت آنے والی زبانوں سے فائق ولائق بھی ہے اور رہے گی اور اس زبان کی ہمسری کرنا تودور کی بات،ہمسری کا دعوی کرنا بھی بعید ازحقائق ہے۔
سابقہ دلائل سے سامنے آنے والے مذکورہ نتیجہ یعنی"عربی زبان الہامی وتوقیفی ہے اور اسی وجہ سے تمام زبانوں سے ممتاز ہے" کوتسلیم نہ کرتے ہوئےبعض علمائے السنہ کے خیال کے مطابق اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ الفاظ انسان ہی وضع کرتے ہیں جو مرورِ زمانہ کے بعد ایک زبان کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور عربی زبان بھی اسی طرح وجود میں آئی،پھر اسے میزان قراردےکرعربی زبان کو تولاجائے تب بھی یہ واضح نظر آئےگا کہ تمام زبانوں میں سب سےزیادہ وزنی اور معیاری عربی زبان ہے مثلاًجامعیت وکمال اورحقیقتِ معنی کا لفظ سے انکشاف جس صحت وواقعیت کے ساتھ عربی زبان میں پایاجاتاہے،اس کاسراغ تک کسی دوسری زبان میں نہیں ملتا ۔113ذیل میں چند نکات114 اس حوالہ سے در ج کیے جارہے ہیں جس سے یہ بات منصف مزاج کے لیے قطعی طور پر ثابت ہوجائے گی کہ عربی زبان اپنے اسلوب بیان، فصاحت وبلاغت،علم المعانی اور علم الاشتقاق وغیرہ کے لحاظ سےموجودہ اور آئندہ تمام زبانوں سے فائق ولائق ترہے۔
عربی زبان جن حروف سے تشکیل پاتی ہے ان میں سے ہر حرف کا اپنا ایک علیحدہ مخرج ہے جو ہر حرف کو ایک دوسرے سے جداکرتاہے اور اس سے واضح ہوتاہے کہ عربی زبان نے ا ٓلۂ صوت کو جس کمال وخوبی سے استعمال کیااور جس قوت بلاغت کے ساتھ مخارج کااحاطہ کیااس کانمونہ کسی عجمی زبان میں عام طور پر نہیں پایاجاتا مثلاًسنسکرت جو علمائے السنہ کے نزدیک عجمی زبانوں پر تفوق وبرتری کی حامل زبان ہے اس نے مخارج کی تعداد محض آٹھ(8) بتائی ہےجبکہ موجودہ انگریزی کے زیادہ سے زیادہ بارہ(12)مخارج بیان کیے جاتے جن میں سے فقط نو(9)ہی واضح اور معروف ہیں115لیکن عربی زبان جس میں حروف تہجی کی کُل تعداد انتیس (29)ہے اس نے ان حروف کو اداکرنے کے لیے سترہ(17)مخارج متعین کیے جیسے حلق ایک مخرج ہے جس کو عربی نے ابتداء،وسط اوراقصی حلق میں تقسیم کرکے بالترتیب غین وخا، عین وحا اور ہمزہ وہا حروف کواداکرنے کےلیےمتعین کیا۔116 اسی طرح باقی دیگر حروف خواہ قریب المخرج ہوں یا بعید المخرج ہوں عربی زبان نے ان کے لیے علیحدہ مخارج متعین کیے ہیں تاکہ ذال اور زا، سین اور صاد اور تا اورطامیں فرق واضح ہوجائے اور معنی ومفہوم بالکل واضح ہوجائے۔ایسا اس لیے ہوا تاکہ مذکورہ چھ(6) حروف حلقی کو جانچنے اور تمیز کرنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہواور ان حروف سے مرکب ہونے والے الفاظ کا معنی ومفہوم بھی خلط ملط ہونے سے محفوظ ہوکر مخاطب تک متکلم کے بیان کو واضح طور پر پہنچادے۔
حروف تہجی کے لیے مخارج کی تعیین کرنے کے بعد ان حروف کی ادئیگی کرتے ہوئے جو ہئیت عارض ہوتی ہے اسے عربوں نے باعتبار صفات کے ملاحظہ کیاتوان حروف کو کیفیت میں بھی ایک دوسرے سے جداپایا چنانچہ کسی حرف میں سبکی ونرمی تھی اور کسی میں صلابت وسختی تو پھر مزید واضح اورظاہر کرنے کےلیے حروف تہجی کو چند اقسام میں تقسیم کردیاگویامخارجِ حروف بمنزلہ کمیت اور صفاتِ حروف بمنزلہ کیفیت کے ہوئے جن دونوں کی متعدد اقسام نے عربی حروف میں یہ خاص امتیاز پیداکردیا کہ ہر حرف کی ادائیگی دوسرے حرف سے جدااور ممتازہوگئی جس کو سنتے ہی سامع حروف میں تمییز کرسکتاہے جیساکہ زا،ذال،ظا اور ضادیاسین،صاد اور ثامیں تمییز محض سنتے ہی ہوجاتی ہے لیکن مخارج اور صفات ِحروف کی یہ تمییز دیگر عجمی زبانوں بشمول انگریزی وغیرہ میں نہیں ہے ۔117
کمیت وکیفیت کی اس ترکیب سے مرکب شدہ حرف کی دیگر کئی طرح کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اگر اس کو صحیح مخارج اور تمام صفات کی رعایت کرتے ہوئے ادا کیاجائےاور سامع اس تلفظ کو صحیح سے سنے تو معنی کا ایک خاکہ سامنے آجاتاہے مثلاًاگر لفظ حرف شین سے شروع ہواجو عربوں کے نزدیک تفشی حرف ہے(یعنی اس کی ادائیگی میں آواز میں پھیلاؤ ہوتاہے)،توجس کلمہ میں یہ حرف پایاجائےگا اس میں پھیلاؤ،وسعت یا پراگندگی کا مفہوم ضرور پایاجائےگا خواہ حسی طور پر ہو یا معنوی طورپر مثلا:
لفظ | معنی | وجہ مناسبت |
---|---|---|
شباب | جوانی | اعضاء اور جذبات بڑھ گئے۔ |
شبر | الشت | ہتھیلی اور انگلیاں کھچ جاتی ہیں۔ |
شحنۃ | کوتوال | شہر پر اس کااحاطہ ظاہر ہے۔ |
شجر | درخت | برگ وشاخ کا پھیلاؤعیاں ہے۔ |
شبح | کھینچنا | ظاہر ہے۔ |
اسی طرح حرف را میں صفت تکرا ر ہے جس وجہ سے اس سے شروع ہونے والے لفظ میں فعل کا تکرار ہوگااور دیگر حروف کو اسی طرح قیاس کیاجاسکتاہے جس سے واضح ہواکہ عربی حروف کے مخرج وکیفیتِ ادا کی درست ادائیگی سے سامع کو ایک معنوی خاکہ بہم پہنچتاہے جس کی نظیر دیگر زبانوں میں بالعموم نہیں ہے اور یہ فقط عربی زبان کاہی امتیاز ہے۔118
عربی الفاظ کو دیے جانے والے اعراب وحرکات کی وضع بھی ضابطہ وقانون سےخارج نہیں جیساکہ ماضی ومضارع وغیرہ مشتقات کے حرکات وسکنات جن کےتعیّن میں تناسبِ معنی کا بھی لحاظ ہے مثلاً ماضی کا حرف ِآخر مبنی بر فتحہ ہوتاہےاورمضارع کا حرف آخر مضموم ہوتا ہے،119 فعل ماضی میں چونکہ گزشتہ زمانہ کا حال کھل جاتاہےاس لیے اس کے آخری حرف کو فتح دیاگیااور فعل مضارع حال واستقبال دونوں زمانوں کو متضمن ہوتاہےاس لیے اس انضمام کی مناسبت سے اس کو ضمہ دیاگیا۔لفظ فتح یعنی کھولنااور لفظ ضمہ یعنی ضمن میں لینا، ان دونوں کی ماضی ومضارع سے مناسبت واضح ہونےسےمرفوعات،منصوبات اورمجرورات کے اعراب کی مناسبتیں بھی سمجھی جاسکتی ہیں مثلاًفعل پر فاعل کی بلندی اس کے مرفوع ہونے اور مفعول کا فعل کے اثر کوظاہرکرنا اس کے منصوب ہونے کی مقتضی ہے۔اسی طرح مضاف الیہ مجرورہوتاہے جس کے اعراب کو جَر کہاجاتا ہے،جر کے معنی کھینچنے کےہیں توچونکہ یہ مضاف کو اپنی طرف کھینچتاہے اس لیے حرکتِ جَر اس کے لیے مقررہوئی۔اس تفصیل سے ظاہر ہوا کہ عربی زبان کے حروف پرپڑھے جانے والے اعراب وحرکات میں بھی حکیمانہ اصول کارفرماہیں اور کوئی بھی حرکت کسی بھی لفظ کو اتفاقیہ طور پر نہیں دی گئی اور یہ فقط عربی زبان کا امتیاز ہے۔120
مخارج وصفات ِحروف کے کئی طرح کے فوائد میں سے ایک امتیازی فائدہ یہ ہے کہ عربی الفاظ کے محض سننے سے ہی مخارج وصفاتِ حروف کو جاننے والا اس کے فصیح وغیر فصیح ہونے کا علم حاصل کرلیتاہے برخلاف دیگر زبانوں کے کیونکہ عربی کے علاوہ ہر زبان میں الفاظ کا فصیح وغیر فصیح ہونااس زبان کے محاورات سے ہی معلوم کیاجاسکتاہے۔عربی الفاظ یہاں بھی اپنی ایسی خصوصیت رکھتے ہیں کہ سامع انہیں ملحوظ رکھے تو الفاظ کومحض سن کر جان سکتاہے کہ وہ فصیح ہیں یا غیر فصیح مثلاً سہ حرفی الفاظ کے حروف کے مخارج کی ترتیب اعلی سے اوسط اورپھر ادنی کی طرف ہے تو سہولت ادا اس لفظ کے فصیح ہونے کی دلیل ہےجیسے لفظ عذب ہے جس کامعنی میٹھا پانی ہے۔اس کلمہ کاپہلا حرف عین ہے جس کا مخرج حلق یعنی اعلی ہے، دوسرا حرف ذال ہےجس کا مخرج زبان کاکنارہ یعنی اوسط ہےاورتیسرا حرف باہے جس کا مخرج ہونٹ یعنی ادنی ہے اب اگر سامع عذب کے معنی اور اس کے فصیح وغیر فصیح ہونے کو نہیں جانتالیکن اسے مخارج وصفاتِ حروف کا علم ہے تو وہ محض سنتے ہی ترتیب مخارج سے اس لفظ کے فصیح ہونے کا علم حاصل کرلےگا اور یہ خصوصیت فقط عربی زبان کے الفاظ میں ہے۔
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب میں عربی الفاظ کی اس خصوصیت کو شرح وبسط سے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کلمہ کے حروف مخارج کےاتار چڑھاؤ میں طفرہ سے خالی ہوں تو ایساکلمہ زبان پر سبک اور فصیح ہوگا لیکن اگر اس میں طفرہ ہوتواوّل الذکر کے مقابلہ میں یہ عرب کی زبان پر ثقیل اور مرتبہءِ فصاحت میں کم ہوگا۔طفرہ کا لغوی معنی کودنا ہے لیکن بیان مخارج میں اس سے مراد قریب وموانس مخرج کو چھوڑکر بعید وغیر موانس مخرج پر پہنچ جاناہے یعنی ادنی سے اعلی یا اعلی سے ادنی کی طرف آئے تو اوسط چھوٹ جائےگا اور یہی طرفہ ہے۔ذیل میں اس کی توضیح کے لیےمثالیں نقل کی جاتی ہے:
اعلی سےاوسط اورپھر ادنی مثلاًع د ب | اعلی سے ادنی اور پھر اوسط مثلاً ع رد |
اعلی سے ادنی اور پھر اعلی مثلاً ع م ہ | اعلی سے اوسط اور پھر اعلی مثلاًع ل ہ |
ادنی سے اوسط اور پھر اعلی مثلاً ب د ع | ادنی سے اعلی پھر اوسط مثلاًب ع د |
ادنی سے اعلی پھر ادنی مثلاًف ع م | ادنی سے اوسط پھرادنی مثلاً ف د م |
اوسط سے اعلی پھر ادنی مثلاًد ع م | اوسط سے ادنی پھر اعلی مثلاًد م ع |
اوسط سے اعلی پھر اوسط مثلاًن ع ل | اوسط سے ادنی پھر اوسط مثلاًن م ل |
حوالہ: 121
عربی زبان نے اپنے حروف تہجی کے مخارج وصفات سےسب سےپہلے اس کی ادائیگی کے قواعد وضوابط مقرر کرکےہر حرف کی آواز کی گویا تصویر کشی کردی ہے پھر ا س کے بعد معنی کا فائدہ لیا اور پھر فصیح وغیر فصیح معلوم کرنے کا فائدہ لیا۔یہ سب فائدہ عربی کے سہ حرفی کلمہ میں محض سننے سے ہی واضح ہوجاتےہیں اور یہ عربی زبان کا امتیاز ہے کیونکہ دیگر زبانوں میں مخارج وصفات حروف ہی متعین نہیں کہ جن کے بعد اگلے مراحل کے فوائد حاصل ہوسکیں۔الفاظ کی اپنے معانی پر اس طرح دلالت کہ کلمہ کے پہلے حرف نے معنی کے اعراض اولی وثانوی کوظاہر کردیا ہو پھر ترتیب وترکیب حروف نے اس کے مرتبہءِ فصاحت کی خبر دےدی ہو،یہ کمال صرف عربی زبان ہی کا خاصہ ہے۔
عربی حروف کے مخارج وصفات کے فوائد کے بعد اگلا مرحلہ ان حروف کی ادائیگی میں منہ سے نکلنے والی آواز اوراس عربی لفظ کے مرادی معنی کے درمیان باہمی مناسبت کا مرحلہ ہے جس سے عربی زبان کا امتیاز و تفوق دیگر تمام عجمی زبانوں پر مزید واضح اور یقینی ہوجاتاہے۔اس مرحلہ کی توضیح وتفصیل کےلیے ذیل میں تین(3)مثالیں ذکرکی جارہی ہیں تاکہ اس مذکورہ باہمی مناسبت کو واضح طور پر سمجھاجاسکے۔
کسی شئی کولمبائی سے کاٹاجائے تو اس کاٹنے کوعربی میں قدّ سے تعبیر کریں گے122اور اگرچوڑائی سے کاٹاجائےتو قطّ سے تعبیر کریں گے۔123حرف دال کی صوت میں طوالت ہےجبکہ حرف طامیں سرعت ہے124اوریوں دال کی طوالت اور طاکی سرعت طول وعرض کے ساتھ اپنا ایک خاص تناسب ظاہر کرتی ہے۔ایسے ہی سوکھی یا سخت چیز دانت سے چبائی جائے تو اسے عربی میں قضم سےتعبیر کریں گے اور تازہ ونرم چیز کو چبایاجائے تواسے خضم سے تعبیر کریں گے۔حرف قاف میں صفت صلابت یعنی سختی ہے کیونکہ اس کی ادائیگی کرتے ہوئے آوازمیں سختی پیداہوتی ہے اس لیے اس کا شمار حروف شدیدہ میں ہوتاہے تو سوکھی اور سخت چیز کے چبانے کے لیے قضم مقررہواجبکہ حرف خا میں نرمی ہے یعنی اس کی ادائیگی کرتے ہوئے آواز میں نرمی ہوتی ہےاس لیے اس کا شمارحروف رخوہ میں ہوتاہے تو تازہ ونرم شئی کو چبانےکےلیے خضم مقررہوا۔اول الذکر لفظ کو ادا کرنے میں سختی ہے اور ثانی الذکر کواداکرنے میں نرمی ہے اور ان دونوں الفاظ کی ادائیگی کرتے ہوئے منہ سے نکلنے والی سخت ونرم آواز اور دونوں کے معانی میں باہمی تناسب واضح ہے۔125
اسی تناظر میں عربی میں استعمال ہونے والے دولفظ نضح اور نضخ کے لفظ ہیں۔ نضح کا معنی پانی اور اس کے متعلقات ہیں جبکہ نضخ کے معنی میں یہی معنی مزید قوت وطاقت کے ساتھ پایا جاتا ہے کیونکہ حا کی صفت مستفلہ ہے تو اس کے معنی میں صفت مستفلہ کا لحاظ رکھاگیا جس میں پستی کا معنی موجود ہے لہذالفظ نضح کو عام پانی کے لیے استعمال کیاگیا جبکہ اس کے برعکس لفظ نضخ میں حرف خا کی صفت استعلاء یعنی بلندی ہے تو صفت استعلاء کی مناسبت سے لفظ نضخ کے معنی میں بلندی وطاقت والا معنی شامل ہوگیا جس بنا پر یہ لفظ اس پانی کے لیے استعمال ہوا جس میں جوش وجذبہ زیادہ ہو یعنی پانی کا وہ چشمہ جہاں پانی قوت وطاقت سے بہتاہو اسےنضخ سے تعبیر کیاگیا جیساکہ قرآن مجید میں عینان نضاختان 126 (پانی کے دو چشمے جوش سے ابلنے والے) کے الفاظ موجود ہیں۔127
اسی طرح عربی میں شد کے معنی باندھنااور جرکے معنی کھینچنا ہے۔شین جس سے پہلے کلمہ کی ابتداء ہےوہ حرف تفشی ہے جس کی ادائیگی کے وقت آواز میں پھیلاؤہوتاہےاور دال حرف شدیدہ ہے یعنی اس کی ادائیگی کرتےہوئے آواز میں شدت ہوتی ہے ،یہ مکررآیا ہے اور باہم مدغم ہوکر مشدد شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ابتدائے کلمہ میں حرف شین کاآناپھیلاؤاورانتشار شئی کو ظاہرکرتاہےپھر دال جوحرف شدیدہ ہےاس کا تکراروادغام حقیقتِ استحکام اور بندش کا آئینہ ہے۔ لفظ جرمیں حرف راجسے حرف تکرار کہاگیا ہے کہ اس کواداکرتےہوئے زبان مسلسل ہلتی ہے،اس کا مکررآکر مدغم ہوجاناکھینچنے کی حقیقت کو واضح کرتاہے۔ جیم حرف شدیدہ ہے جس سے کلمہ کی ابتدا ہے۔کھینچنے کے لیے شدت وتوانائی ضروری ہے اور جو چیز کھینچی جائےگی اس کے فعل مرور یعنی گزرکی تکرارجو بعدِ مسافت پرہوگی اسے حرف تکرار نے ظاہرکردیا۔ کلمہ شد کی ادائیگی کرتے ہوئے منہ سے نکلنے والی آوازمیں اولاًپھیلاؤاورپھرثانیاً بندش اوراس کے مرادی معنی باندھنے میں مناسبت واضح ہے۔اسی طرح کلمہ جر کی ادائیگی کرتے ہوئے منہ سے نکلنے والی مسلسل آواز اور اس کے مرادی معنی کھینچنے میں بھی مناسبت واضح ہے۔128
عربی زبان کے سہ حرفی کلمہ کی ادائیگی میں منہ سے نکلنے والی آواز اور اس کلمہ کے مرادی معنی میں باہمی مناسبت عربی زبان کا اعلیٰ ترین امتیاز ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عربی حروف اور اس سے بننے والے محض ایک کلمہ میں ہی معانی ومفاہیم کا ایسا بحر ذخار پوشیدہ ہے کہ ذہنِ انسانی کے لیے اس تک رسائی حاصل کرنا بھی ا ٓسان نہیں ہے لہٰذا غیر عربی زبان میں عربی زبان کی طرح مافی الضمیر کو بیا ن کرنا تقریباً ناممکن قرار پاتا ہے۔
عربی زبان کی خصوصیات و امتیازات میں سے ایک اہم امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کے کلمہ میں موجود ہر حرف کی صفات کا اثر اس کے معنی تک پہنچتاہے۔جس طرح دو رنگوں کے اجتماع سے تیسرا رنگ بنتاہے اسی طرح دو حرفوں کے اجتماع سے معنی پہلے سے زیادہ تفہیم کے قریب ہوتاہے لیکن حقیقی مفہوم بے نقاب ہونے کےلیے تیسرے حرف کی لازمی ضرورت پڑتی ہے جیسے خارجی معین ومشخص نوع کے لیے جنس بعید،جنس قریب اورفصل کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح مادہ کے لیے پہلا حرف بطور جنس بعید، دوسراحرف بطور جنس قریب اور تیسراحرف بطور فصل کے ہوتاہے۔اس کی مزید وضاحت ذیل میں کی جاتی ہے تاکہ مسئلہ واضح طور پر سمجھ آسکے۔
انسان ایک نوع ہے جس کی تعریف حقیقی یہ ہے کہ وہ حیوانِ ناطق ہے یعنی ایسا جاندار ہےجو بول سکتاہے۔اب اگر اس کی تعریف میں فقط یہ کہہ دیاجائے کہ وہ ایسا جسم ہے جو نشو نما پاتاہے تو انسان کی واضح تعریف سمجھ نہیں آئے گی۔اسی طرح مادہ کا پہلا حرف ہے کہ جب تک اس کے ساتھ کسی دوسرے حرف کو نہیں ملایاجائےگا معنی ومفہوم واضح نہیں ہوگا مثلاً اگر مادہ کاپہلا حرف قاف ہے تو اس حرف کی صفات کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تو کہاجاسکتاہے کہ زور یا قوت کا مفہوم اس میں موجودہوگا لیکن اس قوت کی وضاحت اس وقت تک نہیں ہوسکےگی جب تک کہ دوسرے حرف کو اس کے ساتھ ملاکر نہ دیکھاجائے۔اب جب دوسرے حرف کو ملاکر دونوں کی صفات ملحوظ رکھی جائیں تو یہاں محض اتنی ہی وضاحت ہوگی جتنی انسان کی تعریف میں حیوان کہہ کر ہوگی یعنی قاف کے ساتھ لفظ طا کوملانےسے زوروقوت کے مفہوم کے ساتھ کاٹنے کا مفہوم بھی شامل ہوجائےگا جس کامطلب یہ ہوگا کہ زوروقوت کا وہی موقع جس میں کاٹنا پایاجاتاہو لیکن حقیقت اب بھی پردہ خفا میں رہےگی جب تک کہ ان دونوں حروف کے ساتھ تیسرا حرف نہ ملایاجائے۔پھر جب دونوں حروف کےساتھ تیسرا حرف بھی ملادیاجائےگا تو اب حقیقت اسی طرح ظاہراور مماثل سے ممیز ہوجائےگی جس طرح انسان کی تعریف میں حیوان کہہ کر ناطق ملانےسےانسان کی اصلی حقیقت ظاہر اور مماثل سے ممیزہوکر اسے باقی حیوانات مثلاحیوان مفترس(شیر)،حیوان صاہل (گھوڑا) اور حیوان ناہق(گدھے)سے ممتازوممیز کردیتی ہے۔
یعنی جب قاف اور طا کےمجموعہ اوصاف نےمل کرانتہائی قوت کا اظہار کردیا اور یہ متعین ہوگیا کہ جس مادہ میں ان دوحروف کا اجتماع ہوجائےگا اس میں کاٹنے کا مفہوم ضرورپایاجائےگا توکاٹنے کی نوعیت وصورت سمجھنے کےلیے تیسرے حرف کے انضمام کی حاجت لازمی وضروری ہوئی جس کی آمیزش سے کاٹنے کی ہرنوع علیحدہ ہوتی جائےگی مثلاً:
قطع | شے میں سے ایک ٹکڑا کاٹنا | قطب | کاٹ کر جمع کرنا |
قطم | دانٹ سےکاٹنا | قطل | جڑ سے کاٹ دینا۔ |
قطّ | عرض میں سے کاٹنا | قطف | خراش۔ |
حوالہ:129
مذکورہ کلمات میں ہر تیسرے حرف نے کاٹنے کی صورت کو واضح کردیااور معنی ومفہوم کومتعین ومشخص کردیا جس کی تفصیل علیحدہ علیحدہ حسب ذیل ہے:
قطع میں تیسرا حرف عین ہے جو قاف کی صفات مجہورہ،شدیدہ،مستعلیہ،منفتحہ،مصمتہ اورقلقلہ سے ماسوا مستفلہ جوصفت مستعلیہ کی ضد ہے موافقت رکھتاہے اور عین متوسطہ ہے جس میں نہ تو شدیدہ جیسی سختی ہے اورنہ رخوہ جیسی نرمی جس کے ملاپ نے کاٹنے کے مفہوم کو تو قائم رکھا لیکن فقط ٹکڑا کاٹنے پر ہی اکتفاء کیا۔
قطب میں تیسرا حرف با ہے جو قاف کی صفاتِ مذکورہ سے ماسوامستفلہ اور مذلقہ جو صفت مستعلیہ اور مصمتہ کی ضد ہے موافقت رکھتاہےلیکن قاف کی جہراورشدت کی صفت میں ایک درجہ اور زیادتی ہوگئی ہے، اس لیے کاٹنے کے معنی میں تو کوئی کمی نہیں آسکی البتہ حرف با شفتی ہے جس کے تلفظ میں ہونٹ باہم مل جاتے ہیں اور اسی مناسبت کی وجہ سے قطب کے معنی میں کاٹ کر جمع کرنے کا مفہوم شامل ہوگیا۔
قطم میں تیسراحرف میم ہے جو قاف کی صفات مذکورہ سے ماسوامستفلہ اور مذلقہ جو صفت مستعلیہ اور مصمتہ کی ضد ہے موافقت رکھتاہےالبتہ میم متوسطہ ہے جو شدیدہ کےغلبہءِشدت کو توڑےگااور شفتی بھی ہے اس لیے دانت سےکاٹنایا دانت کےکناروں سےکسی کاپکڑنااس کے معنی ہوئے۔
قطلمیں تیسر احرف لام ہے جس کی صفات مجہورہ،متوسطہ،مستفلہ، منفتحہ،مذلقہ اور منحرفہ ہیں،پانچ حرف میم والی صفات ہیں اور چھٹی صفتِ انحراف ہےجس میں زبان پلٹتی ہے تو اس کا تقاضہ انحراف کا عمل ہے جومعنی میں نمایاں ہو تبھی اس کلمہ کا معنی جڑ سے کاٹ دینا مقررہوا۔
قط در حقیقت قطط ہے جس میں طاءِثانی کو طاءِ اوّل کے ساتھ مدغم کرکے اسے مشدد پڑھاگیاہے۔ قاف اور طاکی تمام صفات موافق ہیں البتہ طاکواس کی صفت اطباق نے جس کو استعلاءلازم ہے قاف پر برتری دےد ی ہے اورپھر جب تیسرا حرف بھی طا ہی ہوا اور وہ بھی مشدد تو اس کی قوت و طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا اور اس کا معنی عرض میں سے کاٹنا مقررہوا کیونکہ عرض میں سے کاٹنے کے لیے انتہائی قوت وطاقت درکار ہے۔
قطف میں تیسرا حرف فا ہے جو صفات میں قاف اور طادونوں کا مغائرومتضاد ہے یعنی مہموسہ،رخوہ،منفتحہ، مذلقہ جو مجہورہ،شدیدہ،مستعلیہ اورمصمتہ کی ضد ہے۔اب اس مغائر ومتضاد صفات والے حرف کی آمیزش کا تقاضہ ہے کہ کاٹنے کے عمل میں انتہائی کمی وکمزوری پائی جائے لہذا اس کلمہ کا معنی خراش مقررہواجس میں کاٹنے کااثر خراش تک پہنچ کرختم ہوگیا۔ 130
مذکورہ بالا مثالوں سے عربی زبان کی باقاعدگی اور نفاست ظاہر اور عیاں ہوجاتی ہے اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ عربی زبان میں معنی ومفہوم متعین ہونے کےلیے کلمہ کا سہ حرفی ہونا لازمی وضروری ہے ورنہ معنی ومفہوم متعین ومشخص نہیں ہوسکےگا۔
عربی زبان میں چونکہ مادّہ کا حقیقی و مشخص معنی تیسرے حرف کو جوڑنےکے بعد ہی واضح ہوتاہے جیساکہ ماقبل مذکورمثالوں سے بخوبی معلوم ہواتو جرجی زیدان جو کہ ایک معروف مستشرق ہےاس کا یہ کہنا کہ مادّہ ثنائی ہوتاہے اور تیسراحرف زائد ہوتاہے 131ایک لایعنی بات ہے کیونکہ عربی زبان میں اسم وفعل کسی بھی صورت میں تین حروف سے کم نہیں ہوتا 132یہاں تک کہ امام خلیل نے جن ابواب کو بظاہر ثنائی کہا ہے وہ بھی در حقیقت ثلاثی ہیں 133اور علمائے عربیہ کے نزدیک یہ متفقہ امر ہے کہ مادّہ کم ازکم تین حروف اصلیہ سے ترکیب پاتاہے جس میں تیسرا حرف مادّہ کا اصلی جز ہوتاہے 134اور اسی تیسرے حرف کے ملاپ سے کلمہ کا معنی دیگر تمام الفاظ سے جدا ہوتاچلاجاتاہے ۔
اس کو مثال سے یوں سمجھاجاسکتاہے کہ حکماء نے علت کی چار اقسام بیان کی ہیں یعنی علّت مادّی،علّت صوری،علّت فاعلی اورعلّت غائی۔اگر مادّی علّت کے بعد صوری علّت نہ پائی جائے تو فاعلی اور غائی علتیں بھی نہیں پائی جائیں گی بلکہ صرف مادّہ ہی پایاجائےگا مثلاً لکڑی کو اگر کرسی اور میز وغیرہ کی صورت نہ دی جائے اور مٹی کوساغر وصراحی کی شکل نہ دی جائے توپھر محض لکڑی اور مٹی ہی ہوگی جس سے سامان معاشرت میں افزونی وراحت نہیں ہوگی البتہ اگر لکڑی سے کرسی ومیز اور مٹی سے ساغر وصراحی تیار کردی جائیں تو اس وقت علّت صوری علّت مادّی سے مل کر انسانی زندگی میں نکھار واضافی راحت پیداکرنے کا باعث بنے گی۔بالکل ایسےہی حروف عربیہ مادّہ کی طرح ہیں جنہیں مختلف صورتوں میں تصور کیےجانے سے گوناگوں معانی کی غایات تک رسائی حاصل ہوتی ہے مثلاً لکڑی جب تک لکڑی ہے نہ تو کرسی کہلائی گی اور نہ ہی میز بلکہ وہ لکڑی ہی ہوگی پھر جب کرسی یا میزکی صورت میں لکڑی کو لائیں گے تو اب لکڑی کے بجائے کرسی یا میز کہلائی گی ایسےہی" ض ر ب "ہیں کہ جب تک یہ حروف مادّہ ہیں ،انہیں کسی ترکیبی شکل کے ساتھ تلفظ نہیں کرسکتے ،نہ ضَرْب کہہ سکتے ہیں جو مصدر ہے اور نہ ہی ضَرَبَ جو ماضی ہے یعنی مادّہ ہے، نہ مصدر ہے اور نہ ہی ماضی بلکہ دونوں کے اعتبار سے حروف اصلی کا مجموعہ ہے پھر جب صورت، مادّہ سے ملے گی تو مصدر بھی ہوگا اور ماضی وغیرہ بھی بنےگا اور اس طرح کئی معانی ومفاہیم ایک ہی مادّہ سے آشکار ہوں گے بالکل ایسے ہی جیسے لکڑی سے کرسی اور میز بنتے ہیں۔135
یہاں یہ بات قابل غور وفکر ہے کہ کیا کوئی عاقل کرسی اور میز وغیرہ کو دیکھ کر یہ کہہ سکتاہے کہ اس کرسی ومیز کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مختلف صورتوں میں تبدیل ہونے کے باوجود بھی لکڑی، لکڑی ہی رہی ؟ بالکل اسی طرح کیا مادّہ کا مختلف صورتوں میں تبدیل ہوکر مختلف غایات انجام دینا کوئی قابل ِالتفات وستائش معاملہ نہیں ؟ کوئی عقل مند ایسا تصور بھی نہیں کرسکتالہذا حروف عربیہ کے مادّہ کا مختلف صورتوں میں آکر ذہن انسانی کو معنی ومفہوم کی مختلف جہات تک رسائی دینا ایسا ہی ہے جیسا لکڑی اور مٹی سے میز اور صراحی بن کر ان اشیاء کاانسان کو فائدہ دینا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مادّہ کم ازکم تین حروف پر مشتمل ہو ورنہ معنی کی نوعی صورت کے بعد شخصی صورت متعین نہیں ہوسکےگی بالکل ایسے ہی جیسے لکڑی اور مٹی کی شخصی صورت متعین نہیں ہوسکےگی۔
جرجی زیدان کےپیش کردہ مغالطہ کےازالہ سے پہلےاس مغالطہ کی تفصیل دینا ضروری ہے تاکہ عربی زبان کے حوالہ سے کیے گئے اس کے اعتراضات کے جوابات سمجھنے میں آسانی ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے مزید خصائص وکمالات واضح طور پر آشکار ہوجائیں چنانچہ جرجی زیدان کی کتاب کے چند اقتباسات رواں عبارت میں حسب ذیل ہیں:
(1) لفظ "قطع" در اصل لفظ "قط" کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے جو کٹنے کی آواز کی نقل ہے اور دنیا بھر کی زبانوں میں عام ہے۔لاطینیہ میں "کوئڈو"،انگریزی میں"کٹ"،فرانسیسی میں "کسّر"،چینی میں "کت"،قدیم مصری میں"خت"اور عربی میں"قط"،"قص"یا "قطع"ہے،اس طرح کے بہت سے افعال ہیں جو صوت طبعی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں۔ 136
جرجی زیدان کے کہنےکا مطلب یہ ہے کہ عربی بھی دیگر تمام زبانوں کی طرح "حکایت صوتی" کے اصول سے مستثنیٰ نہیں ہے کیونکہ ان تمام الفاظوں میں مشابہت ومشاکلت موجود ہے۔ایک مقام پر یوں لکھتاہے:
(2)عربی کے ایسے الفاظ جنہیں مجرد کہاجاتاہے درحقیقت وہ بھی مزید ہیں کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ ایک معنی کے لیے چند الفاظ اگرچہ عربی میں وضع کرلیے گئے لیکن اس سارے مجموعۂ الفاظ میں ایک لفظ مشترک ہے اور وہی لفظ اصلی ہے جو اصلی معنی کو بھی شامل ہے مگر ہے دوحرفی البتہ کبھی کبھی تیسرا حرف ایک ناقص نوع کافائدہ دیتاہے جس کی مثال "قط"،"قطب"، "قطف"، "قطع"، "قطم" اور"قطل" ہے۔ان سب الفاظ میں ایک دوحرفی لفظ " قط" مشتر ک ہےاور وہی اصل ہے نیز یہ لفظ "قط "کٹنے کی آواز کی فی نفسہ نقل ہے.... (3)اگلی مثالوں میں اگرچہ حرفِ زائد آخری کلمہ میں واقع ہواہے اور اکثر اس کی جگہ آخر میں ہی ہوتی ہےلیکن کبھی دواصلی حروف کے بیچ میں بھی آجاتاہے جیسے"شق" اور"فق" سے "شلق" اور "فرق" بنا ہے۔کبھی اول کلمہ میں بھی حرفِ زائد آجاتاہےجیسے"فت"سے "رفت"،"ھب" سے "لھب" اور "فض" سے" رفض"بنا ہے۔ 137
پہلے اقتباس میں جرجی زیدان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عربی میں مادّہ صرف دوحرفی ہی ہوتاہے اور اس میں تیسرا حرف زائد ہے جو کبھی کبھی ناقص نوع بنانے کا فائدہ دیتاہے اور دوسرے اقتباس سے مقصد یہ بتانا ہے کہ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کہنا غلط ہے کیونکہ درحقیقت وہ بھی ثنائی مزید ہے کہ اس میں ایک حرف زائد اول،وسط یا آخر کہیں بھی آسکتاہے اور ضابطہ کے طور پریہ نہیں کہا جاسکتاکہ حروفِ اصلی کو زائد سے کیوں کر تمیز کریں گے۔اسی طرح کتاب کے ایک مقام پر مناسبت معنوی بیان کرتے ہوئے رقمطرازہے:
(4)لفظ "ید"بمعنی ہاتھ اور "قط"،"قطع" ،"قطب" وغیرہ سب ایک ہی جڑ سے نکلے ہیں ۔یہ الٹ پھیرخواہ کتناہی انوکھا کیوں نہ معلوم ہو لیکن دلیل اسے قریب وقرین کرتی ہے۔اس ابدال میں لفظی ومعنوی مناسبت بھی ہے کہ کاٹنے کا واسطہ ہاتھ ہے تو "قط" اور "ید" میں وہی نسبت ہوئی جو "قطع" اور "قاطع" میں ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ انسان کے کان نے جو کٹنے کی پہلی پہلی آواز سنی، وہ بواسطہ ہاتھ کے ہی سنی تو آوازکوواسطۂ آوازکے لیے استعمال کرلیاتو اس میں کیا مضائقہ ہے؟یہ تومعنوی مناسبت ہوئی اور رہی لفظی مناسبت تواس کا پتا جستجو سے یوں لگا کہ اشوری زبان میں ہاتھ کو"غت" اور بابلی زبان میں "کت" کہتے ہیں جو بعینہٖ آواز قطع کی نقالی ہیں۔ اشوریہ اور بابلیہ سامی زبانیں ہیں اور عربی بھی سامی ہے تو اس نے بھی قاف کویا سے اور طا کودال سے بدل کر " قط" کا "ید" بنالیا۔ 138 (5)"قط" کا مجانس "قص" ہے،"قص" کامجانس "قض"، "کس" اور"جذ" ہے،"جذ" کامجانس "جز" ہے اور سب کے معنی کاٹنا ہے۔پھر یہ سارے کلمات ایک ہی اصل کی طرف پلٹتے ہیں اور وہ آواز کی نقالی ہے۔ 139 (6)لفظ "خص" میں کاٹنے کے معنی مجازی ہیں،کہاجاتاہے کہ کسی شئی کے ساتھ اسے خاص کیا۔اس کا یہی مطلب تو ہے کہ اسے ماسوا سے قطع کردیا (پھر مزید تین صفحات میں وہ محاوارات ومصطلحات لکھے جو لفظ "قطع" کے ساتھ حروف،اسماء اور افعال وغیرہ ملانے سے بنتے ہیں جس کے بعد بطورِ نتیجہ یہ کہاہے کہ) ۔۔۔(7)یہ ساری قسمیں صرف ایک لفظ "قط" کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہیں اور اگر سب شاخوں کے مصطلحات ومحاورات کو لیاجائےتو ہزاروں سے بھی شمار بڑھ جائےگا۔ 140
ان ساری باتوں کو بیان کرنے سے جرجی زیدان کا مقصدایک ہی ہےکہ عربی زبان کی بے مائیگی کو ثابت کیاجائےاور یہ ثابت کیاجائے کہ عربوں کے دوچار الفاظ جنہیں اصل کہاجاتاہے وہ بھی ان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ سامی زبانوں سے مل کر بنے ہیں ۔اس کی تحقیق کا خلاصہ یہی ہے کہ جس طرح اردو زبان مختلف زبانوں سے مل کر اب ایک زبان کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے اسی طرح عربی زبان بھی مختلف قدیم سامی زبانوں کے الفاظ سے مل کر بنی ہے جس میں عربوں کا محض یہ کمال ہے کہ ایک لفظ کو کہیں سے سیکھ کر ان کومختلف طریقوں سےالٹ پلٹ کرکےدیگر الفاظ بنالیے جس سے سطحی نگاہ رکھنے والوں کوعربی زبان میں الفاظ کی کثرت نظر آنے لگی لیکن درحقیقت وہ کثرت کسی وحدت کی طرف پلٹتی ہے لہذا عربی زبان کوئی مستقل بالذات زبان نہیں ہے۔ 141
اگر مذکورہ بالا ہفوات سےہی عربی زبان کی بے مائیگی ثابت کرنا ہے تو اس سے بہتر اسلوبِ بیان اپناتے ہوئے یوں کہا جاسکتاہے کہ عربوں کی زبان میں حروف تہجی کی کل تعداد اٹھائیس (28)ہے اور اعراب وسکون بھی صرف چار ہیں یعنی زبر،زیر،پیش اور جزم تو ظاہر سی بات ہے کہ الفاظ خواہ کروڑوں ہوں لیکن ان ہی حروف تہجی سے بنیں گے اور الفاظ کی شکلیں اعراب وسکون کے اختلاف سے کتنی ہی کیوں نہ بدل جائیں لیکن ہوگا یہی زبر،زیر، پیش یاجزم۔اس بیانیہ سے عربی زبان کی بے مائیگی کا دعوی اچھی طرح ثابت کیاجاسکتاہے پھر اس کی ضرورت نہیں رہتی کہ حکایت صوتی کی آواز سنی جائے،پھر سامی زبانوں سے بھیک مانگی جائے،کچھ آریہ زبانوں سے خیرات لی جائے اور یوں مفروضہ مدعا ثابت کیاجائے۔142
اسی طرح جرجی زیدان کا یہ کہنا کہ "ہاتھ آلہ قطع اور کانوں تک صدا پہنچنے کا واسطہ ہے اس لیے ہاتھ کے لیے بھی حکایت صوت سے ہی لفظ لے کر وضع کیاگیا نیز اس میں لفظی ومعنوی مناسبت بھی موجود ہے" 143 بالکل بجا ہے لیکن اگر کان نہ ہوتا توآواز کیوں کر سنی جاتی،پھر اگر زبان نہ ہوتی تو حکایت صوت کیسے ہوتی ،ہاتھ میں اگرانگلیاں نہ ہوتیں تو ہاتھ کام کیوں کرتا،رگ اور پٹھے میں اگرلچک نہ ہوتی توانگلیاں بے کار تھیں،دماغ میں اگر قوت خیالیہ نہ ہوتی تو کاٹنےکاخیال کیوں کر آتا علی ہذا القیاس پھر توجسم انسان کے ادنیٰ سے ادنیٰ جزکے متعلق بھی یہ کہاجاسکتاہے کہ فلاں جز کاٹنے کا واسطہ ہے لہذا ہر وہ لفظ جو کسی حصہ جسم پر بولاجاتاہے وہ لفظ "قط"سے ہی بنایاگیا ہے۔اس دعوے پر کسی اعتراض کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ حرفوں کے بدلنے اور کم وبیش ہونے کا کوئی قاعدہ مقرر نہیں کیوں کہ بحث لغت سے نہیں بلکہ اس کے فلسفہ سے ہے۔ 144
تیسری بات یہ ہے کہ تہذیب وتمدن کی دھوم اور علوم وفنون کی مجالس میں گرماگرمی سب فضول ہیں کیونکہ درحقیقت بڑے سے بڑے متمدن ملک اور قوم کو دیکھنے کےبعد یہ واضح ہوجائےگا کہ اصل تمدن فقط جماد،نبات اور حیوان ہے اور ان تینوں کی ہی لوٹ پھیر سے ساری نظر فریبیاں پیدا کی گئیں ہیں کہ طرح طرح کے کھانے نبات و حیوان کی ہی بدلی ہوئی شکلیں ہیں اور جانوروں کی کھالوں اور اون سے ہی مختلف النوع اشیاء بنائی گئی ہیں حالانکہ ایک محقق کی نگاہ دیکھ رہی ہے کہ اصل مادّہ تو وہی کھال اور اون ہی ہے۔یہی نہیں بلکہ طبعی وکیمیاوی تجربہ گاہ میں دیکھیے تو یہ جماد ونبات کا الٹ پھیرہی نظر آئےگا جیسے تاج محل ہے کہ فقط پتھر اور چوناہی ہے ۔کیااس طرح کے کلام کے جواب میں متمدن تعلیم یافتہ آدمی ایک وحشی وبربری سے یہ کہہ سکتاہے کہ موالید ثلاثہ یعنی جماد،نبات،حیوان اور عناصر اربعہ یعنی آگ،ہوا، مٹی اور پانی انہیں مفید سے مفیدصورت کی طرف لوٹ پھیرکرنے کا نام ہی علم ہے اور علم کے ثمرات سے مستفید ہونا تمدن وتہذیب ہے؟اگر ارباب ِ تمدن وتہذیب کایہ جواب صحیح ہے تو پھر عربی زبان کا بھی یہی جواب ہے کہ ایک لفظ کو مختلف قالبوں میں ڈھالنا،اسماء وافعال اور صلات کے ساتھ ملاکر گوناگوں معانی پیداکرنا یہ زبان وبیان کا تمدن ہے اور اس کو کم مائیگی سمجھناجہالت ووحشت کی دلیل ہے۔ 145
مذکورہ بالا الزامی اعتراضات سےجرجی زیدان کی چار(4)سےسات(7)تک مذکورہ عبارات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور بقیہ ایک (1)تا تین(3) کی حقیقت ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
جرجی زیدان جو اپنی دانست میں ایک عظیم عربی دان ہیں اور مستشرقین کے ہاں بڑا علمی مقام رکھتے ہیں، قابل تعجب بات ہے کہ انہوں نے عربی زبان کے ایسے مسلمات اور بدیہیات کا انکارکیا ہے جس کے خلاف سلف وخلف نے کبھی اشارہ تک نہیں کیا کہ مادّہ ثنائی مجرد ہوتاہے۔146عربی زبان کا یہ بدیہی قاعدہ ہےکہ افعال ِ مجرد ثلاثی ورباعی ہیں اور اسماء ِمجرد ثلاثی،رباعی اور خماسی ہیں 147 لیکن جرجی زیدان نے لکھا کہ "اہل لغت اسماء وافعال میں دو قسمیں بتاتے ہیں جن میں بڑی قسم ثلاثی ہے اور دوسری کچھ رباعی ہے نیز ان کے نزدیک یہ اصول ثلاثی ورباعی اس قابل نہیں کہ ان میں کمی کی جائے مگر میرے نزدیک قابلیت ہےاگرچہ کچھ دشواری ہوگی"148 جبکہ حروف اصلی کو زائدہ سے کیسے متمیّز کریں گے یہ اصول بیان نہیں کیا جس کے برعکس صرفیوں نےایسا آسان ترین قاعدہ بیان کردیا ہے جس سے حروف اصلیہ کی تمیز مبتدی طالبعلم کوبھی بآسانی ہوجاتی ہے 149البتہ لفظ "قط" کے متعلق جرجی زیدان کی بحث سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اس کے نزدیک لفظ کو جب آواز کے مطابق کرکے دیکھاجائےپھر حکایت میں جس آواز کی ضرورت نہ پائی جائے وہی حرف زائد سمجھاجائےگا لیکن اگر غور کیا جائے تواب بھی کوئی قاعدہ نہیں بنا بلکہ تحقیق بھول بھلیا بن گئی کیونکہ لغت کی کوئی کتاب بھی قاف اور طا سے مرکب لفظ نہیں بتاتی یعنی عربی زبان کا ایسا کوئی لفظ ہے ہی نہیں تو معنی کی تلاش ہی بے معنی ہوجاتی ہے ہاں اگراس کے ساتھ کوئی بھی تیسراحرف ملایاجائے تو اس وقت لفظ اپنے مخصوص معنی کے ساتھ بالکل ایسے ہی موجود ہوگا جیسے حیوان کا وجودِ خارجی انواع میں پایاجاتاہے ورنہ مجرد لفظ حیوان کا مفہوم صرف ذہن میں ہوتاہے وہ بھی اس حد تک کہ ایک جاندار اپنے ارادہ سےحرکت کرنے والالیکن جب حیوان کے ساتھ فصول یعنی ناطق(بولنے والا)، صاہل(ہنہنانےوالا) اور مفترس (چیڑ پھاڑ کرنے والا) ملائی جائیں تو اب اس حیوان کا وجود ذہن کے ساتھ ساتھ خارج میں بھی بالترتیب انسان،گھوڑے اور شیر کی صورت میں پایاجائےگاپس یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے کہ لغت میں قاف اور طاکاوجود اسی لیے نہیں ہے کہ یہ تیسرے حرف کاویسے ہی محتاج ہے جیسے جنس خارج میں پائی جانے کے لیے فصل کی محتاج ہوتی ہے۔ 150
جرجی زیدان نے جس لفظ کو بطور ثنائی بکثرت استعمال کیا ہے یعنی "قطّ "یہ در حقیقت ثلاثی ہے کیونکہ یہ تین حرفوں سے مرکب ہے، قاف،طااور طا اور اس کا تلفظ بھی تشدید کے ساتھ ہی ہوتاہے یعنی قطّ جیساکہ اس کے دیگر مادّوں میں دونوں طا موجود ہیں مثلاً "قَطاط" بروزن " قَطَام" بمعنی کافی اور"قِطاط" بروزن "کِتاب"بمعنی سخت پیچیدہ بال 151یا پہاڑ اورچٹان کا کنارہ 152نیز یہ باب سمِع یسمَع سے آتاہے۔ 153قطّ کو ثنائی کہنا در حقیقت غیر عرب مخاطبین کو دھوکا دینا ہی ہے۔اسی طرح یہ کہنا کہ" قطّ "کا لفظ " قطف" اور "قطب" وغیرہ الفاظ میں مشترک ہے 154 غلط بنیاد پر غلط تعمیر کرنا ہے کیونکہ مشدّدحرف "طا"دونوں میں سے کسی بھی لفظ میں نہیں آیا۔ اس سے واضح ہواکہ لفظ "قطّ "تین حروف کا مجموعہ ہے اور یہی سہ حرفی مجموعہ صوتِ قطع کی حکایت ہے تو اس لفظ کی بناپر یہ کہنا کہ اصل مادّہ ثنائی ہوتاہے انتہائی فاش اور فحش غلطی ہےنیزعربی زبان کے اصول وضوابط سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
جرجی زیدان نے لفظ "قطّ "کو چند مقاصد کی بنیا دپر ثنائی کہا ہے جن میں پہلامقصد تویہ ہےکہ عربی زبان کو دیگر زبانوں کی طرح حکایتِ صوتی کے اصول پر تسلیم کیاجاسكے تاکہ دیگر السنہ سے اس کا امتیاز ختم كياجاسكے۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ مادّہ کا تین حرف سے کم ہونا اس کے اسی طرح نامکمل ہونے کی دلیل ہے جس طرح اجسام بغیر صورت ِنوعیہ کے نامکمل ہوتے ہیں تاکہ عربی زبان کے کمال ِبیان کو ابہام وتاریکی سے تبدیل کرکے اسےعجمی زبانوں کی طرح قرار دیاجانا آسان ہوسکے اور تیسرا مقصد یہ ہے کہ مادّہ ناقص ہوجائے تاکہ آئندہ نسلوں کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیاجاسکےکہ عربی زبان کسی کامل ثلاثی حرفی زبان کی ناقص یادگار ہے کیونکہ اس کی آخری کڑی کھوگئی ہے۔ 155
ان مقاصدِ مذكوره كے حصول كےليے ہی دوحرفی مغالطہ کو اتنا بدیہی کہہ کر پیش کرنے کی بےسودکوشش کی گئی ہے جس کا آغاز یوں ہوتاہے کہ پہلے پہل لفظ "قطّ "کو کٹنے کی آواز کی نقل کہہ دیاپھر اُن چند الفاظ کے تیسرے حرف کوزائد قراردےدیا جن میں قاف وطاکے بعد تیسرا حرف بعینہ نظر آرہاتھا اور اُن کے معنی بھی کٹنے کے تھے مثلاً قطب، قطف، قطع، قطم اور قطل وغیرہ یعنی اصل میں یہ سب "قط" تھے جن میں ایک حرف بڑھادیاگیا 156 لیکن جب لفظ "قطن" بمعنی روئی سامنے آیا جس میں "قط" کی حکایت تو موجود تھی البتہ" قطع" کا معنی غائب تھا تو اس کا ذکر تک نہیں کیا پھر جذّ،قصّ،عضّ اور جزّ وغیرہ الفاظ ذکرکردیےجن میں "قطع" کا معنی توموجود تھا لیکن "قط ّ"کی صورت مفقود تھی تو ہم جنس وہم وزن کہہ کر کام چلالیا اور یوں ان الفاظ کے معنی بھی قطع والے قراردےدیے گویاقانون یہ بنا یاکہ صوت کی حکایت ہویااس حکایت کے ہم وزن ہو۔عجیب مشکل تھی کہ حکایت ِصوتی کو معیار بنایا تو معنی غائب ہوگیا اور جب معنی کالحاظ کیاتو حکایاتِ صوتی برقرار نہیں رہی ۔اس قاعدہ کو مضبوط کرنے کےلیےمجاز در مجاز سے سلسلہ گزارا جو لفظ خاص کے ماضی "خصّ" پر جاکرختم ہوا یعنی خاص کے معنی بھی کاٹنا قراردےدیے لیکن اب دوسرے ہم وزن الفاظ جیسےغمّ وھمّ بمعنی غمزدہ ہونا،مسّ بمعنی چھونا،شمّ بمعنی سونگھنا،سبّ بمعنی براکہنا،حضّ وحثّ بمعنی ابھارنا الغرض سینکڑوں الفاظ ایسے موجود تھے کہ وزن تو موجود تھا مگر"قطع" کا معنی غائب تھا لہذااب بھی قانون جامع ومانع نہ بن سکا۔مزیدلطف یہ کیا کہ خص کو قطع کے معنی تک کھینچ تان کر توپہنچادیالیکن اس کا مقابل لفظ "عام" کا ماضی "عمّ" جو سامنے ہی موجودتھا ،اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔ایسے لغوی فلسفی کے فلسفے کو کیاکہاجاسکتاہےکہ وضع الفاظ کےلیےحکایتِ صوتی کا اصول بنیاد قرارپایاتو بعض الفاظ میں حکایت موجود رہی لیکن معنی مفقود رہا جیسے قطن بمعنی روئی۔اس لفظ کو ذکرکیے بغیر آگے بڑھے تو جذّ وغیرہ میں معنی تو موجود رہا لیکن بنیادی اصول حکایت مفقود ہوگئی جس پر ہم جنس وہم وزن کہہ کرکام چلانے لگے توغمّ وغیرہ الفاظ سامنے آگئے جن میں باہمی جنس وزن توموجودرہا البتہ معنی معدوم ہوگیا۔حیرت ہےکہ ایک نئی قسم ثنائی کی ایجاد، ثلاثی مجرد کے تجرید کی بیخ کنی کرکے اس کا مزید فیہ میں شمار،لغت پر فلسفہ کا پیراہن اورلفظ قطّ کو باربار مختلف صفحات میں بطورِ مثال وسند اعادہ جیسے سارے کھیل کھیلنے کے باوجود نتیجہ صفر ہی ٹھہرا اور کوئی باضابطہ قانون نہیں بن سکا جس سے ثنائی مجرد اور ثنائی مزید فیہ کے مابین فرق کیاجاسکتا۔ 157
جرجی زیدان نے جن الفاظ کو ثنائی مجرد سے مشتق کہہ کر ثنائی مزید منوانا چاہا اور ان میں حرف زائد پہچاننے کےلیے کسی قسم کا باضابطہ قانون چاہ کر بھی متعین نہیں کرسکا اس سے واضح ہوجاتاہے کہ اس نے متقدمین کے برعکس غلط بنیاد پرتعمیر کرنا چاہی جس نے بعدمیں اسے ہی غلط ثابت کردیا اور یہ بھی بخوبی واضح ہوا کہ جرجی زیدان عربی زبان کے اصول وضوابط سے ناآشنا تھا لہذا اس کے دیگراعتراضات بھی لاعلمی یا سطحی معلومات کی پیداوارتھے ۔ا س کے برعکس مذکور الفاظ کی ذیل میں تفصیلی وضاحت دی جارہی ہے جس سے جرجی زیدان کی غلطی واضح ہوجائےگی اور مذکورہ الفاظ کےمختلف معانی ومفاہیم کی گہرائی و گیرائی سمیت عربی زبان کی خصوصیات مزید آشکار ہوجائیں گی۔
کلمہ میں جب دو حرف قاف اور طا شدید القوۃ جمع ہوئے تو ان سے کامل قوت کا مفہوم سمجھاگیاجو کاٹنے سے تعبیر کیاگیایعنی جس کلمہ میں ان دونوں کا اجتماع ہوتووہاں کاٹنے کے معنی پائے جائیں گے 158گویا کاٹنے اور مجموعہ قاف وطاکے درمیان عام خاص مطلق کی نسبت ہےجس کامطلب یہ ہے کہ جہاں مجموعۂِ قاف وطا پایاجائےگاوہاں کاٹنے کامفہوم لازمی ہوگا لیکن ضروری نہیں کہ جہاں کاٹنے کامفہوم پایاجائےتووہاں یہ مجموعہ بھی لازمی ہو لہذا جذّ اور قصّ وغیرہ الفاظ کو قطّ کا ہم وزن کہہ کران میں کاٹنے والےمعنی کو ثابت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے نیز اسی طرح ہم وزن الفاظ کو کھینچ تان کر قطّ کے معنی تک لانے کی بھی کوئی حاجت نہیں ہے البتہ اس کی ضرورت اب بھی باقی رہتی ہے کہ کاٹنے کا مفہوم مجموعۂِ قاف وطا کے علاوہ میں کیوں کر پایاجاتاہے؟ اس کو سمجھنے کےلیے صفاتِ حروف کا مطالعہ از بس ضروری ہے جس کے ساتھ ساتھ مقطوعہ شئی کی گوناگوں حالت کا لحاظ کرنا بھی لازمی ہے یعنی کوئی چیز سخت ہوگی اور کوئی نرم،کسی چیز میں تازگی ہوگی اور کسی میں خشکی پھر ان کیفیات میں مراتب بھی ہوں گےمثلاًپتھر کی سختی اور لکڑی کی سختی میں فرق ہے،انگور اور خربوزہ کی تازگی میں فرق ہے۔ اسی طرح کاٹنے کی حالت بھی گوناگوں ہوگی کہ کہیں سے لمبائی میں کاٹیں گے اور کہیں سے چوڑائی میں ،کسی چیز کا کچھ حصہ کاٹیں گے اور کسی کوجڑ سے کاٹ دیں گے۔کاٹنے کی ان تمام مختلف تعبیرات ومختلف مفاہیم کے لیے عربی زبان نے جداجداالفاظ پیش کیے ہیں جوبدیہی طور پر عربی زبان کے کمال کی سب بلندوبالا چوٹی ہے۔ 159
جرجی زیدان نے بحث کرنے کے لیے جن الفاظ کا انتخاب کیا تھا ان میں قطّ، قد، قطع، قطب، قطف،قطم، قطل، قصّ، جذّ، جزّ، عضّ اور قضم شامل ہیں اور بقیہ مذکورالفاظ میں کھینچا تانی کرکے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا ان کا ذکر بے سود ہے۔ مذکور الفاظ میں سے سوائے قصّ،جذّ،جزّ اور عضّ کے باقی تمام الفاظ کی تفصیلات ماقبل میں ذکرکردی گئی ہیں لہذا یہاں ان بقیہ چار الفاظ کی تفصیلات بیان کی جارہی ہیں۔
ان چار الفاظ میں سے "قصّ" کی ابتداقاف سے ہے،"جذّ" اور"جزّ" کی جیم سے ہے اور "عضّ" کی عین سے ہے۔قاف، جیم اور عین کی صفات مشترکہ ہیں یعنی مجہورہ،شدیدہ،منفتحہ،مصمتہ اورقلقلہ البتہ جیم اور عین میں ایک صفت مستفلہ ہے جو قاف کی صفت مستعلیہ کی ضد ہے 160 لیکن یہ اختلاف جہر،شدت اور قلقلہ کی قوت کو کمزور نہیں کرےگا اگرچہ کہ عین کے متوسطہ ہونے کی وجہ سے کچھ کمی ضرور در آئےگی۔ جز ّاور جذّ میں ذال اور زا مجہورہ ہیں مگر رخوہ یعنی نرم بھی ہیں البتہ زا صفیرہ ہے 161 اور ان دونوں کے باہم مدغم ہوجانے سے نرمی میں کچھ شدت آگئی ہے جیسے دھاگہ کو بٹنے سے اس میں قوت آجاتی ہے۔قصّ میں دوسرا حرف صاد ہے جورخوہ اور مہموسہ ہونے کے ساتھ ساتھ صفیرہ بھی ہے اور عض میں ضاد مجہورہ اور رخوہ ہے 162لیکن ان کے باہم مدغم ہونے سے کچھ قوت ضرور پیداہوگئی ہے۔ 163ان چاروں الفاظوں کی مزید تفصیل حسبِ ذیل ہے:
قصّ جو در اصل قصص تھا متجانسین الفاظ کے ملاپ کی وجہ سے باہم مدغم ہوکرقصّ ہوگیا اوراس کا معنی بال یا پر یا اونی کپڑا کاٹنا ہے۔ 164 قاف کی شدت و جہراور صاد کی نرمی وآہستگی،قاف کی قوت اور صاد کا ضعف 165 جسے تشدید کچھ قوت دے رہی ہے،ان صفات سےہی ظاہرہوجاتاہے کہ قصّ کی وضع کس معنی کے لیے کی گئی ہے پھر صاد کی صفت صفیر جو اس کی ادائیگی کے وقت پائی جاتی ہے بال،پر اور اونی کپڑا کٹنے کی آواز کی حقیقی حکایت بھی ہے ۔ 166
جزّاصل میں جزز تھا متجانسین الفاظ کے ملاپ کی وجہ سے باہم مدغم ہوکر جزّہوگیا۔اس کا معنی اونٹ، بھیڑ، بکری کے بال کاٹنایاگیہوں اور جو وغیرہ کےتیار کھیت کاٹناہے۔ 167جیم قوی حرف ہےجس میں جہر بھی ہے اور شدت بھی ہے جبکہ زا میں جہر ہےمگر نرمی ہے۔ 168 کھیت کٹنے کی اورحیوان کے بال ترشنے کی آواز میں سابق آواز سے زیادہ اظہارہے البتہ کھیت اور جانور کے بال نرم ضرورہیں۔لفظ کی معنی کے ساتھ مناسبت ظاہرہے اور زا کی صفت صفیر نوعیت آواز بھی بتارہی ہے۔ 169
جذ ّدر اصل جذذ تھا متجانسین الفاظ کے ملاپ کی وجہ سے باہم مدغم ہوکرجذّ ہوگیا۔جیم کی قوت ظاہر ہےلیکن ذال مجہورہ اور رخوہ ہے 170 اس لیے ایسی سخت چیز جو توڑی جاسکتی ہو، جب اس کو کاٹیں گے تو جذّ سے تعبیر کریں گے۔ 171اسی طرح عضّ در اصل عضض تھا متجانسین الفاظ کے ملاپ کی وجہ سے باہم مدغم ہوکرعضّ ہوگیا۔اس کے معنی دانت سے کاٹنا ہیں۔ 172 عین مجہورہ اور متوسطہ ہےیعنی شدیدہ اور رخوہ کے درمیان ہے جبكہ ضاد مجہورہ اور رخوہ ہے۔ 173آلہ قطع اور مقطوع شئی کو دیکھتے ہوئے عین اور ضاد کی صفات کوملحوظ رکھنے کے بعد لفظ کے اس معنی ومفہوم کے لیے وضع ہونے پر انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مذکورالفاظ میں سے ہر ایک لفظ کاٹنے کے ایک خاص مفہوم اور ایک خاص کیفیت کا شعور فراہم کررہاہے اور یہ عربی زبان کے فضل وکمال کی روشن برہان ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ الفاظ باعتبار تنوعاتِ کیفیت وحالت اپنی ہرحالت وکیفیت کی آواز کی حقیقی اور ہوبہو حکایت بھی ہے۔ جرجی زیدان نے جس طرح حکایت صوتی کی بات کرکے مثالیں پیش کی ہیں تو اس میں محاکات بھی صحیح نہیں ہوئی ،محکی عنہ کی صدا کچھ اور ہےاور حکایت کی کچھ اور۔اس توازن ،صحیح احساس اور کمالِ انصاف کی مثال اگر دیکھناہو تو عربی زبان کے اِن مذکورہ الفاظ کا صحیح تلفظ کرکے قوت سامعہ کے ذریعہ معلوم کیجیے کہ آواز ہر مقطوع کے مناسب ہے یا نہیں۔نرم،سخت،سوکھی اور تَر کی آواز میں کٹتے ہوئے جو فرق ہے وہ ان الفاظ کے تلفظ سے ظاہر ہے جو ان کے لیے وضع ہوئے ہیں یعنی مناسبتِ لفظی ومعنوی جو حرفوں اور معنی میں ہے اس کے علاو ہ حکایت صوتی بھی ایسی موجود ہے جو جرجی زیدان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔ 174
یہاں ایک اشکال ہے کہ لفظ "قطن" بمعنی روئی 175 جس سے جرجی زیدان نے پہلوتہی برت کر چشم پوشی اختیار کی تھی 176 اس میں مجموعہ قاف وطاکے پائے جانے کی وجہ سے اصولی طور پر کاٹنے کا معنی موجود ہونا چاہیے تھا 177 لیکن اس کے باوجود بھی "قطن" میں کاٹنے کامعنی کیوں واضح نہیں ہوا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ درحقیقت قاف وطا کے مجموعہ کا اثر یہاں بھی نمایاں ہے کیونکہ قطع کی حقیقت یہاں بھی موجود ہے البتہ اتنا فرق ضرورہے کہ قطن یعنی روئی کے علاوہ میں چیزوں کو کاٹنے والی کوئی بھی شئی خارج میں پائی جاتی تھی لیکن قطن میں قاطع کوئی خارجی نہیں بلکہ اس کی داخلی چیز ہے یعنی خود روئی۔ روئی کی باعتبار اپنے درختوں کے جن میں پیداہوتی ہے بہت سی قسمیں ہیں۔بعض زمین دوز ہوتے ہیں، بعض قد آدم تک درازہوتے ہیں،بعض بہت ہی بڑے درخت ہوتےہیں لیکن سب میں امرِ مشترک یہ ہے کہ وہ پھل جس کے اندر روئی پائی جاتی ہے وہ غلاف کی طرح روئی پر چڑھاہوتاہے۔جب اس میں روئی پختہ ہوکرقوی ہوجاتی ہے تو وہ باہر آنے کے لیے زور کرتی ہے اور اس وقت غلاف کا منہ پھانک ہوکر پھٹ جاتاہے اور روئی اس میں سے باہر نکل آتی ہے۔روئی کی طاقت اپنے غلاف کو اس طرح پھاڑ دیتی ہے جس طرح کسی دھار دار چیز سے اس کو قطع کردیتے۔حرف نون جس کی صفت غنہ ہے یعنی یہ حرف ناک کے بانسہ سے اداہوتاہےپھر مجہورہ بھی ہے اور متوسطہ بھی، 178اس کا قاف وطا سے مل کر لفظِ "قطن" میں شامل ہونااس طرف اشارہ ہے کہ یہاں قطع کا فعل اندر ہی اندر عمل میں آئےگا جیساکہ نون کی ادائیگی ناک کے اندرونی حصہ یعنی خیشوم جسے ناک کا بانسہ کہتے ہیں سےہوتی ہے۔اس سے معلوم ہواکہ قطن میں بھی کاٹنے کا معنی واضح ہے گو کہ پوشیدہ طور پر پایاجاتاہے۔اس تفصیل سے بخوبی اندازہ ہوجاتاہےکہ عربی زبان میں اشیاء کے لیے مقررشدہ الفاظ کا حقیقت سے انتہائی گہرا تعلق ہے اور اس پر مزید یہ کہ الفاظ میں موجود حروف کی آواز بھی فعل کی حقیقت سے انتہائی قریب اور مناسب ہے اور گوکہ حکایت صوتی کے اصول پر وضع الفاظ کامؤقف غلط ہے لیکن پھر بھی جرجی زیدان نے اسے اگر کمال سمجھا تو یہ بھی عربی زبان ہی میں بطورکمال پایاجاتاہے۔ 179
مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتاہے کہ جرجی زیدان کا مادّہ کوثنائی مزیدکہنا بے بنیاد تھا اور بطور مثال جو لفظ اس نے منتخب کیا تھا وہ درحقیقت ثلاثی ہی تھا اور دیگر مزید الفاظ جو اس نے حکایتِ صوتی کے اصول کے مطابق کاٹنے کے مفہوم میں شامل سمجھتے ہوئے بیان کیے ان کی حقیقت بھی کچھ اور تھی جسے ماقبل سطو ر میں واضح کردیاگیا ہے۔اس تفصیل سے یہ بخوبی واضح ہوگیاکہ معنی کی تفہیم کےلیے مادّہ کا سہ حرفی ہونا لازمی ہے جس کے بغیرعربی لفظ کا معنی مکمل اور واضح طور پر متعین ومشخص ہوکر متصورنہیں ہوسکتااوریہ عربی کا وہ امتیاز ہے کہ دیگر زبانوں میں اس کا تصور کرنا ہی محال ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عربی زبان دیگر تمام زبانوں سے ممیز ومشرف ومحتشم ہونے کے ساتھ ساتھ خارج میں موجود حقیقت کو تمام زبانوں سے عمدہ ترین طریقہ سے بیان کرنے والی ہے اور اسی لیے اسے عربی مبین کہتےہیں۔
عربی مبین کی معنی ومفہوم کی حقیقت بیان کردینے کی یہ خصوصیت اتنی ارفع واعلی ہے کہ عربی زبان جس کلمہ کو موضوع یعنی بامعنی قراردیدےتو اس کلمہ کا بامعنی ہونا ایسا مستحکم ہوجاتاہے کہ جس پہلو سے بھی اسے لوٹاپھیراجائےوہ موضوع ہی رہتاہے اور ایک صورت سے نکل کر دوسری صورت اختیار کرلینے کے بعد بھی معنی کا ساتھ نہیں چھوڑتا ۔ متاخرین علمائے السنہ کی زبان میں اسے اشتقاق اکبر کہاجاتاہے جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہے۔اس کی تفصیل یہ ہےکہ جب مادہ معنی ومفہوم بتانے کے لیے اپنی ترکیب وترتیب کے اس مرتبہ تک پہنچ جائے جہاں وہ ایک معین مفہوم پر دلالت کرتا ہویعنی کم از کم سہ حرفی کلمہ کی صورت اختیار کرلےتو اس مقام پر عربی زبان ایک اور امتیاز دکھاتی ہے کہ اس مرتبہ کے موضوع سہ حرفی کلمہ کو ممکنہ چھ(6) عقلی صورتوں میں پھیرنے کے باجود بھی عربی لفظ اپنا متعین معنی بتاتارہتاہے چنانچہ ابن جنی کے استاد ابوعلی فارسی نے سب سےپہلے اس کو بیان فرمایا اورپھر ابن جنی نے اس کو پانچ ثلاثی کلمات کی اشکال ستہ کے ذریعہ واضح کیا 180 جسے ذیل میں بیان کیاجارہاہے۔
اس مادہ کی چھ صورتوں میں سے ہر ایک کا اپنا معنی ہے لیکن سب میں نرمی کا معنی مشترک رہےگا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1 | سمل | پرانا کپڑاجس میں کہنگی وفرسودگی سے نرمی آجاتی ہے ۔ |
2 | سلم | قیمت پہلے دےکرنرخ محفوظ کرلینایاسلامتی وامان۔ |
3 | لمس | چھونا۔ |
4 | لسم | گفتگومیں خاموش ہوجانا۔ |
5 | ملس | نرم ہونااور اسی سے ملاست ہے بمعنی تابانی ونرمی۔عربی محاورہ ہے : ملسنی بلسانہ یعنی اس نےمجھے اپنی زبان سے نرم کرلیا۔ |
6 | مسل | پانی کا جاری ہونا۔ |
حوالہ: b
اس مادہ کی ممکنہ صورتوں میں سے ہر ایک کا ذاتی معنی ہے لیکن تمام صورتوں میں سرعت وحرکت کے معنی مشترک رہیں گے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1 | قول | سکوت کی ضد ہے اور بولنے میں زبان کی حرکت وسرعت ظاہر ہے۔ |
2 | قلو | ہر تیز رفتار چیز۔ |
3 | وقل | پہاڑ پر بآسانی چڑھنے والا گھوڑا۔ |
4 | ولق | دوڑنا۔ |
5 | لوق | روغن ملاکر کھانے کوچکناکرنا اور اسی سے یہ محاور ہے:فلان یلوق یعنی فلاں شخص ایک جگہ ٹھہرتا نہیں۔ |
6 | لقوۃ | بیماری جس میں زبان یا منہ میں کجی آجائے اور عقاب کی مادہ کوبھی لقوۃ کہتے ہیں جو شکار کرنے میں نر سے زیادہ تیز ہے۔ |
اس مادہ کی عقلی مقلبہ شکلوں میں سے ہر ایک کا خاص معنی ہے لیکن تمام صورتوں میں قوت کا مفہوم مشترک رہےگا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1 | کلم | زخم وجراحت اوراسی سے کلام وکلمہ ہے جو سامع پر اثرکرتاہے ۔ |
2 | کمل | شے کاپورااورتمام ہونا۔ |
3 | لکم | دورکرنا یا سینہ پر مُکہ مارنا۔ |
4 | مکل | کنواں خشک ہوجائے لیکن تھوڑا تھوڑا پانی سوتے سے رستاہو۔ |
5 | ملک | شے پر قبضہ وتصرف۔ |
6 | لمک | سرمہ جو بینائی کو قوت دیتاہے۔ |
حوالہ: 183
اس مادہ کی اشکال ستہ میں ہر کلمہ کا اپنا متعین معنی لازمی ہے البتہ تمام میں قوت کا مفہوم مشترک رہےگا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1 | جبر | درستگی یا وہ لکڑی جسے ٹوٹی ہوئی ہڈی پرباندھتے ہیں یا مردِ دلاور۔ |
2 | جراب | چمڑے کا ظرف جس میں شے کے محفوظ رکھنے کی طاقت ہو۔اسی سے تجربۃ ہے اورآزمودہ کار کو مجرب کہتے ہیں۔ |
3 | بجمر | جس کی ناف قوی ہو۔ |
4 | بُرج | قلعہ یا قلعہ کا مضبوط گوشہ اور بَرج یعنی جمال کے ساتھ خوب روئی۔ |
5 | رجب | تعظیم کرنا اور اسی وجہ سے رجب کے مہینہ کو رجب کہتے ہیں کہ وہ عظمت وحرمت والامہینہ ہے۔ |
6 | ربج | کارنامہ قابل فخر نہ ہو اور اس پر فخر کیاجائے یعنی زبردستی اس میں قوت پیداکی جائے۔ |
اس مادہ کی ممکنہ مقلب صورتوں میں ہر کلمہ کا اپنا مشخص معنی ہے البتہ تمام میں قوت اور اجتماع کا مفہوم مشترک رہےگا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1 | قسوۃ | دل کی سختی۔ |
2 | قوس | کمان،قوت ظاہر ہے اور اس کے دونوں گوشہ بھی ملتے ہیں جس سے اجتماع کا مفہوم بھی پایاگیا۔ |
3 | وقس | گھاس جب حد سے زیادہ ہوجائےیا بدی جو حد سے گزرجائے ۔ |
4 | وَسق | اونٹ کا بوجھ اور وِسق ساٹھ صاع۔ |
5 | سوق | بازار۔ |
6 | سقو | غیر مستعمل۔ |
حوالہ: 185
یہاں تک تو عربی مبین کی قوت بیان کا ایک امتیازی پہلو بیان ہوااب اس سے ایک مرحلہ اور آگے بڑھ کر اس قوت بیان کی انفرادیت اور امتیازی برتری کو ذیل میں آشکارکیاجارہاہے۔
عربی زبان کےاس کمال کا دوسرارخ یہ ہے کہ اس زبان میں مہمل لفظ کا آنا ہی تقریباً نا ممکن ہے اسی لیےعرب مہمل الفاظ کو بھی وضع کا لباس پہنانے میں اوروں سے زیادہ قادر وفائق رہے ہیں۔اس کی مثال یوں ہے کہ بیمار انسان مرض کی تکلیف سے کراہتا ہے۔ مریض کے اس کراہنے میں بھی باعتبار مرض کی شدت اور ضعف کے ایک فرق پایا جاتا ہے۔ کراہنے کی جو ایک پتلی اور سست آواز نکلتی ہے، اسے عربی میں انین کہتے ہیں اگر اس سے بھی پست ہو، تو ھنین کہتے ہیں۔ مریض نے کراہنے کی کوشش کی تاکہ فاسد بخارات کے باہر نکل جانے سے راحت ملے لیکن ضعف نے پوری قوت سے کراہنے کی اجازت نہ دی تو اس کرہ کو حنین کہتے ہیں۔ 186ضعف سے کرہ کی آواز بگڑ جاتی ہے تو یہ زھیر ہے۔ روح تحلیل ہونے لگی، سانس کا نظم تہ و بالا ہوگیا تو اس وقت کی آواز شھیق ہے۔187اب دم سینے میں آگیا، سانس سینے تک جاتی ہے اور لوٹ آتی ہے، گلے کے گھونگرو بولنے لگے تو اس آواز کو حشرجۃ کہتے ہیں۔188یہاں بھی ہر لفظ با معنی و موضوع ہے اور اپنی حقیقت و ماہیت کو پیش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ مریض کی آواز ہے اس لیے ہر لفظ کا تلفظ بھی رنج و حسرت، ضعف و ناتوانی کی بعینہ تصویر ہے۔ صنعت لفظی و معنوی جملہ و کلام یا اشعار کے بیت میں ہوا کرتی ہے لیکن عرب کی زبان کا ہر لفظ مفردان محاسن سے آراستہ و پیراستہ نظر آتا ہے۔189
مریض کے کراہنے کی آواز کی نقالی میں بھی عربی زبان نےاپنا کمال دکھایا ہے جس کوپڑھ اور سمجھ کر ماننا پڑتاہے کہ عربی زبان کے کمالات بحرِ بے کنار کی طرح ہیں ۔یہ تو انسانی عارضہ کے تحت لاحق ہونے والی چند انسانی آوازوں کی نقالی کی تفصیل تھی جس میں عربی زبان کا کمال واضح ہوا۔ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر جب عربی زبان نے کائنات کے دیگر حیوانِ لایعقل کی بعض آوازوں کی نقالی کی تو باوجود نقل ِصحیح ہونے کے وہ بھی ایک معنی خیز لفظ ہو گیا مثلاً کوا جب بولتا ہے تو عرب اس آواز کی نقالی کو غاق غاق سےتعبیر کرتے ہیں 190اورگھوڑے کی ٹاپ سے جو آواز نکلتی ہے اسے طاق طاق کہتے ہیں 191 (حرفِ طا کا مخرج صحیح ادا کرکے صحت محاکات یعنی دونوں آوازوں کی مماثلت و مشابہت دیکھیے)۔ اسی طرح ہانڈی یا پتیلی جب کھدکتی ہے تو عرب اس آواز کو غِق غِق سے تعبیر کرتے ہیں ۔192اونٹ کے پانی پینے میں جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے یہ شِیب شِیب سے حکایت کرتے ہیں ۔ 193یہ ایسی صوت و صداہیں جن کی نقالی اور محاکات ہرزبان میں تقریباً پائی جاتی ہیں لیکن عجمیوں کی محاکات میں بجز نقالی کے کچھ اور حقیقت نہیں ہوتی لیکن عرب نے ان کی محاکات میں بھی لفظ کو مہمل ہونے سے بچا لیا۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ کواسیاہ جانور ہے۔ "غ، ی اور ق" کے مادہ سے عرب میں جتنے الفاظ آتے ہیں، ان میں سیاہی کا مفہوم ضرور ہوتا ہے مثلاً "غَیّق الرجل بَصَرہ" یعنی اس آدمی کی بینائی تاریک ہو گئی اور " غَیَّقَ الرجل فی رایہٖ" یعنی اس آدمی کی رائے میں ایسی تاریکی پیدا ہوگئی کہ پراگندہ ہوکر متزلزل ہو گئی۔ 194اسی مادہ سے غَاقِ غَاقِ کوے کی آواز کی نقالی کے لیے وضع کر لیا تاکہ محاکات کے ساتھ غراب کی سیاہی اور کیفیت انتشار کی طرف بھی ذہن منتقل ہو ۔اسی طرح مادہ " ط،و اورق" سے طَاقِ طَاقِ ہے۔ اس مادہ کی ترکیبی اشکال بہت ہیں اور سب میں قوت و طاقت کے معنی کی رعایت ہے ۔ گھوڑوں کے قوی سُم کا تصادم جب سخت زمین سے ہوتاہے تو ایک مخصوص آواز بلند ہوتی ہے گویا محاکات کے ساتھ گھوڑے کی قوت اور تیزروی کی طرف بھی اشارہ ہو گیا۔ مادہ "غ ق ق" سے جو مرکبات وضع کیے گئے ہیں وہ ایسی آواز کو بیان کرتے ہیں جو کسی ایسی شئی میں سے نکلے کہ جس کا حصہءِ اسفل وسیع و کشادہ ہو اور حصہءِ اعلیٰ چھوٹا اور تنگ ہو۔195لفظِ غِق غِق بھی اسی مادہ کی ایک شکلِ ترکیبی ہے۔ ہانڈی یاپتیلی کی سطح پر پکاتے وقت جو شئی پھیلی ہوئی ہوتی ہے، اس میں جب حرارت کا نفوذ کامل ہوتا ہے تو اس سطح ممدود میں حرارت و برودت کے تصادم سے گرم بخارات پیدا ہو کر نکلنا چاہتے ہیں، بلبلے کی شکل بنتی ہے اور ٹوٹتی ہے، اسی سے وہ آواز پیدا ہوتی ہے۔ لفظِ غِق غِق محاکات ونقالی بھی ہے اور اسی کے ساتھ اس آواز کے پیدا ہونے کی تعلیل و تشریح بھی ہے۔ "ش، ی اورب" کے مادہ سے جتنے الفاظ مستعمل ہیں ان میں سفیدی کا مفہوم ضرور پایا جاتا ہے ۔196 شِیب شِیب بھی اسی مادہ سے مرکب ہے تاکہ آواز کی حکایت کے ساتھ پانی کی سفیدی و شفافیت کی طرف بھی ذہن منتقل ہو۔ غرض یہ کہ حیوان و جماد کی آواز بھی جب عربوں کی زبان سے ادا ہوئی توا تنا شرف انہیں بھی مل گیا کہ محض صوتِ بے معنیٰ نہ رہی بلکہ موضوع الفاظ میں ان کا بھی شمار ہو گیا۔یقیناً ماہرِ السنہ کے لئے یہ نہایت ہی لطیف بات ہے کہ ایک آواز اپنے اصل مقام پر تو مہمل ہو لیکن وہ انسان کی زبان پر آکر موضوع ہو جائے۔ یہ حیات بخشی اور فیضان رسانی عربی زبان ہی سے مخصوص ہے۔197
عربی زبان کا نہایت اعلی وارفع اور حیرت انگیز کمال وہ ہےجس کاتعلق معنی کی حقیقت کے کشف سے ہے،یہاں بھی لفظِ عربی فقط اپنے معنی کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا بلکہ اس کے معنی کو جب دقت نظر سے دیکھاجائےتواس معنی کی ایسی حقیقت سامنے آجاتی ہے جس کو ظاہر کرنا دیگر زبانوں کے لیے محال ہے۔اس کو مثال سے یوں سمجھاجاسکتاہے کہ "تعلیم وتعلم" اور "درس وتدریس "کے الفاظ عوام تک میں روز مرہ مستعمل ہیں اور ان کا مفہوم ایسا ہمہ گیر ہے کہ دنیامیں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزراجس میں بنی آدم ان کے مفہوم سے ناآشنا رہے ہوں اس لیے ہر زبان میں ان کے لیے ایک لفظ موجود ہے جو اس مفہوم کے لیے استعمال ہوتاہے لیکن جس طرح ان الفاظ کی حقیقت عربی زبان کھولتی ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا پڑتاہے کہ دوسری زبانیں اس کے مقابلہ میں گنگ ہی ہیں مثلاً: تعلیم وتعلّم کا مادہ عین،لام اور میم ہے اور درس وتدریس کامادہ دال،را اورسین ہے۔ان مفرد حروف کوباہم مرکب کرکے لکھاجائے تو"علم" کی صور ت حاصل ہوگی جس کے معنی نقش ونشان کے ہیں۔یہی مادہ اختلافِ حرکت کے ساتھ "عَلِمَ" میں صورت ترکیبی اختیار کیے ہوئے ہے اور محض سمجھانےکے لیے اس کا معنی جاننا کردیاجاتاہے لیکن اگر اس مرکب شکل اور ترکیبی صورت کو گہری نظر سے دیکھاجائےتو حقیقت علمیہ سامنے آجاتی ہے۔
علم کی حقیقت میں حکماء کا گو اختلاف ہے کہ صورت کے حصول کا نام علم ہے یا حاصل شدہ صورت کا نام علم ہے لیکن فریقین کے نزدیک یہ امر مسلمہ ہے کہ ذہنِ انسانی میں صورت نقش ضرور ہوتی ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ عرب نے علم کی حقیقت کو بیان کرنےکے لیے جن حروف کا استعمال کیا وہ باہمی شکل اختیار کرنے سے ہی نقش کا مفہوم ضمن میں لیے ہوئے ہیں اور حقیقت علمیہ بھی یہی کچھ ہے کہ ذہنِ انسانی میں صورت نقش ہوتی ہے جس کا مرتبہ کمال یہ ہےکہ انسان معلم ونقوش سے بےنیاز ہوکر تعلیم ومطالعہ کے ایسے دور میں قدم رکھ لیتا ہے جہاں اجتہاد واکتشاف سے کام لیاجاتاہے۔
اسی طرح درس وتدریس کی حقیقت ہے جس کو سمجھنے کے لیے دو منطقی اصول سمجھنے لازمی ہیں۔پہلا یہ کہ اہل منطق اس بات پر متفق ہیں کہ انسان ہی میں حصول علم کی صلاحیت موجود ہے اس لیے جہل وعلم میں تقابل ِتضاد نہیں بلکہ تقابلِ عدم ملکہ ماناگیا ہے یعنی جاہل اسے کہیں گے جس میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ اسے علم آئے پراسے علم نہ آیا اور اس لفظ کا استعمال صرف انسان کے ساتھ ہی خاص ہے کیونکہ حکماء198کے نزدیک جانوروں میں علم حاصل کرنے کاملکہ ہی نہیں ہوتا۔دوسرااصول یہ کہ انسان کی یہ قابلیت سیکھنے کی محنت ومشقت اٹھانےاور پھرذہن کی قوت حافظہ کے ان اکتسابات علمیہ کو محفوظ رکھنے سے ظاہر ہوتی ہے۔
یہ دونوں اصول سمجھنے کے بعد دال،را اورسین سے مرکب ہونے والی ہیئت ترکیبی پر غور کیجیے کہ اس مادہ سے ایک لفظ "درسۃ " ہے جس کے آخرمیں تائےمصدری زائدہ ہےاور اس کا معنی ریاضت ہے ۔ درس کا ایک معنی زائل کرنا اور کسی شےکامٹاناہے اور دوسرا پڑھنا،پڑھانا اور سبق لینا ہے۔199قابل غور بات یہ ہے کہ دال،را اور سین سے مرکب ہونے والی سہ حرفی شکل نےیہ حقیقت آشکارکردی کہ تعلیم وتعلم کے لیے لفظ درس اس لیے وضع ہوا کہ قوائے دماغیہ سے موانع زائل کیے جاتے ہیں،آثار جہل مٹائے جاتے ہیں اور اصل جوہر استعداد کو صاف ستھرا بناکرچمکایاجاتاہے او ریہ وہ کیفیت ہےجو ریاضت ومحنت اور نفس کو تابع کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔لفظ درس کی ابتدادال سے ہے جو حرف شدیدہ ہے اور اس کے ساتھ دوسرا حرف را ہے جو حرف تکرار ہے پھر آخر میں سین ہے جو منفتحہ ہے ۔حرف شدیدہ کے بعد حرف تکرار اور پھر حرف انفتاح کا وقوع طریقہ تعلیم،تحصیل تعلیم اور ثمرہ تعلیم کی طرف لطیف پیرائے میں اشارہ کررہاہے۔
یہی نہیں بلکہ عرب نے تعلیم وتعلّم کی روزانہ آموزش کے لیے بھی ایک لفظ وضع کیا جس کا مادہ س، ب اورق ہے اور ہئیت ترکیبی "سبق "ہے۔اس کا لغوی معنی گھڑ دوڑ میں سبقت لے جانا اور بڑھ جانا ہے،200اسی طرح روزانہ جتنا پڑھااور پڑھایاجاتاہے اسے عرب سبق سے تعبیر کرتے ہیں اوراس کی جمع اسباق آتی ہے۔اگر طالب علم کی قابلیت گزشتہ روز سےآگے نہیں بڑھتی یا اس کے فہم وفراست میں بلندی پیدا نہیں ہوتی تو حقیقت میں یہ تعلیم وتعلّم نہیں بلکہ وقت برباد کرنا ہے لہذا عرب اسے سبق نہیں کہتے۔یہ لفظ اپنے معنی پر دلالت سمیت معنی کی حقیقت وغایت بھی بیان کررہاہے اور یہ بھی بتارہاہے کہ عرب علم اورنکات تعلیم سے بہرور تھے۔مجموعی طور پر لفظ معلم ومتعلم، مدرس و مدرسہ، کتاب وسبق وغیرہ نہ صرف اپنے مفاہیم کے ترجمان ہیں بلکہ اس حقیقت کے مصور وصورت نگاربھی ہیں جو ان مفاہیم میں پوشیدہ ہے۔
کیا اس تفصیل کو سمجھنے کے بعد یہ کہاجاسکتاہے کہ ان لفظوں کی وضع کے وقت ان سے متعلق ایسے دقیق وباریک منطقی مسائل واضع کےپیش نظر تھے؟کیا وضع لفظ سےپہلے طریقہءِ تعلیم کے یہ وقیع مسائل بھی واضع کے سامنے موجود تھے جنہیں دیکھتےہوئے اس نے اس مکمل تعلیمی نظام کے لیے یہ دو لفظ ایجاد کرڈالے؟ یقیناً نہیں ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ مؤقف جو عربی کے منزّل من اللہ ہونے کا ہے وہ ہی زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ تعلیم وتعلم کی یہ حقیقت دو عربی ثلاثی کلمات سے ہی عیاں ہوگئی جو کسی دوسری زبان میں عیاں ہونا تو دور کی بات رہی بلکہ اس کی طرف دور دور تک بھی اشارہ کرنا ان کی قوت وطاقت میں نہیں۔اہل عرب نے اپنے ماسواانسانوں کی زبان کو اگر گنگ کہا تو بجاکہاکہ یہ کسی زبان کی اہانت نہیں بلکہ بیان ِواقعہ اورحقیقت ہے۔201
بیان معنی کایہ انتہائی کمال فقط ان چند الفاظ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں جن كا معنی ومفہوم مشہود بالبصر ہے بلکہ عربی مبین کے ہر لفظ میں ہی یہ کمال وخصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے خواہ ان کا معنی مشہود بالبصر نہ بھی ہو ۔اس کی چند مثالیں ذیل میں درج کی جارہی ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوجائےگا کہ جس طرح بیانِ معنی کا مذکورہ کمال مشہود بالبصر معانی کے حامل الفاظ میں موجود ہے بعینہ اسی طرح ان الفاظ میں بھی موجود ہے جن کا معنی غیر مشہود اورمعقول ہے۔
عربی مبین میں انسانی اعضاء کےلیے کئی طرح کے الفاظ مستعمل ہیں جن میں بیرونی واندرونی اعضاء شامل ہیں۔ان الفاظ میں تلافیف اور ذکوۃ بھی ہیں جو سر کےاندرونی وبلندحصہ کےلیے مستعمل ہیں۔انسان کے سر کا مغز بشکل بیضاوی ہے جس کی سطح پر بلندیاں اور ابھار پائے جاتے ہیں اور حکماء کے مطابق اسی پر عقل وسمجھ کا دارومدار ہے یعنی جس شخص کی سطح مغز پر بلندیاں زیادہ ہوں وہ بہت سمجھدار ہوتاہے اور جس کے دماغ پر بلندیوں کی جس قدر کمی ہوتی ہے وہ اتنا ہی احمق ہوتاہے یہاں تک کہ حیوان لایعقل کا مغز تقریبا برابر وہموار ہوتاہے۔ان بلندیوں کو عربی میں تلافیف کہتےہیں جس کے لغوی معنی دودرزوں کا ملنا ہے۔202سطح مغز پر موجود بلندیاں بھی گویادرزوں کی طرح ایک دوسرے سے ملی ہوتی ہیں اسی مناسبت سے اہل عرب نے ان کا نام تلافیف رکھا ہے۔
اسی طرح سر کے نچلے حصہ میں جس مغز کا مقام ہے اور جو حرام مغز سے متصل ہوکر ریڑھ کی ہڈیوں تک چلاآتا ہے،اعصاب ودماغ میں ربط دینا اسی کا وظیفہ ہے اور افعال غیر اختیاری کا یہی مصدر ہے۔عربی میں ذال،کاف اور واؤ کے مادہ سے ایک شکل "ذکوانۃ "کی ہے جس کے معنی چھوٹے چھوٹے درختوں کے ہیں۔دوسری شکل "ذکاوۃ" ہے جس کے معنی فہم کی تیزی کے ہیں اور اسی سے صفت کا صیغہ "ذکیّ "ہے جو سریع الفہم اور سمجھدار کے لیے مستعمل ہے ۔203اب قابل غور بات یہ ہےکہ لفظ ذکیّ اصلاًا س طرف ہی خبر دیتا ہےکہ ذہین وسریع الفہم کو ذکیّ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی سطح دماغ پر چھوٹی چھوٹی بلندیاں ہیں جیسے سطح زمین پر چھوٹے چھوٹے درخت جبکہ اس کے برعکس بےوقوف کو"سفیہ" کہتےہیں جس کی جمع "سفہاء" آتی ہے۔ "سفہ" کے معنی سبک اور ہلکا ہے204جو اس طرف اشارہ ہے کہ اس لفظ کے بے قوف کے لیے مستعمل ہونے کی وجہ اس کے مغز کا سبک اورہلکاہوناہے۔
اسی طرح اُن الفاظ میں جو معقول وغیر مشہود معانی کے حامل ہیں لفظِ نطفہ اور علقہ بھی شامل ہیں ۔نطفہ کا مادہ نون،طا اورفا ہےجس کی ایک صورت ترکیبی " نَطَف" (نون اور طا بمع زبر)ہے،اس کے معنی پلید و نجس ہیں۔دوسری صورت نِطف(نون بمع زیر)ہے جس کےمعنی وہ زخم ہے جو پیٹھ سے گزر کرسینہ کے اندر پہنچ جائے یاوہ گرہ ہےجو پیٹ میں پڑکربلند ہوجائے۔اسی مادہ سے نطفہ ہے، ڈول کی تہہ میں جس قدر پانی رہ جائے اسے نطفہ کہتے ہیں اور مادہ تولیدکو بھی نطفہ کہتےہیں۔205یہ مادہ عورت کے رحم (Ovary) میں آکر صحیح قوام اختیار کرتاہے، رقیق وسیال ہے،پیٹ میں پہنچ کر اپنا اثر دکھاتاہے پھر یہ کہ شریعتِ اسلامیہ میں نجس وپلید بھی ہے۔اسی طرح ایک اورلفظ علقہ ہے جس کے مصدری معنی لپٹنا اور چپکنا ہے اور بصورت اسم جونک کے لیے مستعمل ہے۔تخلیق صورت انسانی کی پہلی منزل میں یہی دو لفظ کہے جاتے ہیں۔فنِ طب و حکمت کا ماہر یہ راز بیان کرتاہے کہ مادۂ تولید میں چھوٹے چھوٹے جرثومہ ہوتےہیں، ان میں سے ایک رحم میں پہنچ گیا تو ایک آدمی اور دو پہنچ گئےتو دو آدمی پیداہوتےہیں،جڑواں بچوں کی پیدائش کا بھی یہی راز بیان کیاجاتاہے۔مادہ تولید کا وہ چھوٹا جرثومہ جسے خورد بین سے دیکھاجاسکتاہے، اس مادہ کے ساتھ لپٹ کر رحم میں پہنچتاہے جو چیونٹی کے انڈے سے بھی زیادہ چھوٹے چھوٹے رحم سے نکلتےہیں۔206
تخلیق انسانی کےان اولین حالات کی صحیح ترین عکاسی کرنے کےلیے اہل عرب کے ہاں مذکورہ الفاظ فنِ طب و حکمت کے مذکورہ دقیق ترین مسائل بیان کرنے سے بہت پہلے مستعمل تھے اور حقیقتِ واقعہ کو تہہ بہ تہہ اپنے اندر سموئے ہوئے تھے جسے پڑھ کر عقلِ انسانی حیران ہوجاتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا کہ عربی زبان کے محاسن وفضائل کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔
عربی زبان میں مستعمل الفاظ حقیقتِ واقعہ کے جامع ہوتےہیں اور اس جمعیت میں بھی یہ الفاظ بے مثل وبے نظیر ہیں نیزیہ مرحلہ بھی ان مراحل میں سے ایک ہے کہ اس تک دیگر زبانوں کا پہنچنا ناممکن ہے۔اس کی وضاحت کےلیے ذیل میں چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن سے عربی زبان میں مستعمل الفاظ کی جامعیت کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔
عربی میں میم،واؤ اورہا کے مادہ سے ایک شکلِ ترکیبی " موہ " یا "ماہ" پائی جاتی ہے۔موہ مصدر ہے اور ماہ ماضی ہے جس کے معنی ملناملانا ہے۔اس لیے اگر کسی شئی پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھایاجائے تواس کا نام "تمویہ " ہوگا۔اسی مادہ سے ایک لفظ ماء ہے اور پانی کو عربی میں اسی لفظ سے تعبیر کیاجاتاہے۔207ملنا ملانا توا س کا ظاہر ہےلیکن درحقیقت پانی دوقسم کی گیسوں (Gases) یعنی ہائیڈروجن(Hydrogen) اور اوکسیجن(Oxygen) کی باہمی آمیزش وامتزاج سے بنتاہے تو کیا پانی کی یہ حقیقت اس لفظ سے سمجھ نہیں آرہی۔ اسی طرح لفظ "ارض" کے مصدری معنی خود بخود ہلنا ہیں، اسی لیے اس شخص کو ماروض کہتے ہیں جس کا سر بڑھاپے میں ہلنے لگاہو اور زمین کو بھی ارض کہتے ہیں۔208زمین کا نام بھی عربی میں ارض اس لیےرکھاگیاکہ اس میں ایک طرح کی دائمی حرکت پائی جاتی ہےکیونکہ یہ دائمی متحرک اجزاء سے مرکّب ہے۔اسی طرح راسیۃ کا معنی لنگر ڈالنا اور متحرک شئی کوروکنا ہے،پہاڑ اور اس کی چٹان کوبھی "راسیۃ" کہاگیا 209کیونکہ اس نے زمین کے ساتھ وہی عمل کیاجو جہاز کے ساتھ لنگر کا عمل ہے۔210
عربی میں میں بنی آدم کے لیے جو لفظ وضع کیاگیا ہےوہ خود اس قدر حقیقت کا جامع ہے کہ اس کی جامعیت سے یہ اندازہ لگاناآسان ہوجاتاہے کہ عربی الفاظ میں حقائق کی جامعیت بے مثل اورلاثانی ہیں اور دوسری زبان اس جامعیت کا احاطہ تودور کی بات اس کا تصور تک نہیں کرسکتی۔
الف، نون اور سین کے مادہ سے عربی میں ایک لفظ اَنس (الف اور نون بمع زبر) ہےجس کےمعنی ہیں جماعت کثیر اور ایسا خاندان جو کسی جگہ مقیم ہو۔211دوسرا مشتق اس سے ایک فعل اَنَسَ ( یہ بھی الف اور نون بمع زبر) ہے جس کےمعنی سننا،دیکھنا اور احساس کرنا ہے جیسے انست الصوت یعنی میں نے آواز سنی 212اور انست نارا 213یعنی میں نے آگ دیکھی ۔اسی طرح ایسا شیر جو شکار کے وجود کو دور سے احساس کرلے اسے متانس کہتے ہیں۔ اسی مادہ سے ایک لفظ اُنس(الف بمع پیش)ہے جس کے معنی محبت کرنا اور سازگار ہوکر رہناہے۔214پھر اسی سے ایک لفظ انسان ہے جس کے معنی غیر مزروعہ زمین اور آنکھوں کی پتلی ہے۔215آدمی کےلیے جو لفظ بولا گیا وہ اِنس(الف بمع زیر)اور انسان ہے۔216کیاساری کائنات میں اس کی ہستی وہ اہمیت نہیں رکھتی جو آنکھوں کی پتلی کو تمام اجزائے جسم پر حاصل ہے؟کیایہ محبت کرنے والی اور باہمی سازگار ہوکر زندگی بسر کرنے والی مخلوق نہیں؟کیا انسان میں یہ قابلیت نہیں کہ نتیجہ اور مآل کو پیش از وقوع بہت دور سے دیکھ لے؟ سننا، دیکھنا توانسان کا ایسا ہے کہ ہزاروں میل کا فاصلہ بھی مانع نہ ہو سکا ۔ پذیرائی تعلیم و تربیت کے لیے انسانی قابلیت ایک زمینِ غیر مزروعہ ہے جو چاہو اس میں بوسکتے ہو کہ یہاں تخم پھلےگا،پھولےگا اور بارآور ہوگالیکن دیگر حیوانوں میں یہ قابلیت کہاں؟عالمانہ نگاہ سے دیکھاجائے توانسان کے لیے لفظ اِنس(الف بمع زیر)اورانسان سے بڑھ کر کوئی اور لفظ حقیقت کی مصوری نہیں کرسکتا۔
دوسرا لفظ انسان کے لیے آدم ہے۔217اس کا مادہ الف،دال اور میم ہے۔اس مادہ سے ایک لفظ "اٰدم" ہےجس کامعنی ایسا سردار اور مقتدا ہےجس سے اس کی قوم پہچان لی جائے۔218دوسرا لفظ "اُدم" (الف بمع پیش)ہے اور اس کااطلاق ان چیزوں پر ہوتاہے جن سے کھانے کی اصلاح ہوتی ہے مثلاً سرکہ،پیاز،دھنیا اورادرک وغیرہ۔یہی لفظ جب فعل ہوکر باب ضَرَبَ سے آتاہے تو اس کے معنی لوگوں میں اصلاح اور موافقت پیدا کرنا ہے۔219انسان کےلیے بھی آدم کا لفظ وضع ہوا، گہری نظر ڈالیے کہ کائنات کی اصلاح اسی ذات سے وابستہ ہے۔اگر یہ فساد پر آجائےتو آبادی ویران ہوجائے،اس کی کائنات پر سرداری محتاجِ بیان نہیں،موجودات کے حقائق کا ہرگزعرفان نہ ہوتااگر ان کا روشناس کرانے والاانسان نہ ہوتا۔ معاشرت باہمی میں توافق ومصالحت رکھنا،اس کے قائم رکھنے اور پیداکرنے کی کوشش کرنا،ان اسباب کا مہیا کرناجن سے سازگاری پیدا ہو،یہ سب اس خاک دان عالم میں انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے جس میں دیگر مخلوق کا کوئی حصہ نہیں۔ پس اگر لفظِ انسان آدمی کےلیے ایک خلوتِ زیبا ہےتو آدم کی قبا بھی انسان ہی پر موزوں ہے۔220221
مرقوم تفصیل سے واضح ہوتاہے کہ مذکورہ دونوں الفاظ حقیقت کے کس طرح جامع ہیں اور عربی الفاظ میں حقیقی معانی ومفاہیم کس طرح پروئے گئے ہیں جن کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ عربی زبان کی گہرائی وگیرائی اور اس کی حقیقی معنی ومفہوم کی جامعیت تک رسائی حاصل کرنا دیگر زبانوں کےلیے تقریبا ناممکنات میں سے ہے ۔
عربی مبین میں حروف اورالفاظ بمع قواعد وضوابط تومنفردویکتا ہیں ہی کہ ان جیسے حروف والفاظ بمع قواعد وضوابط کے کسی دوسری زبان میں موجود نہیں لیکن اس انفرادیت ویکتائی میں عروج وکمال اس وقت مزید دیدنی ہوجاتاہے جب اس کی حرکات وسکنات کی طرف امعان نظر سے متوجہ ہواجائے۔عربی مبین میں حروفِ کلمات کی صفات اورباہمی ترتیب وترکیب کی طرح ان کلمات پر آنے والی حرکات وسکنات بھی بلاوجہ نہیں ہوتیں بلکہ ان کا بھی ایک خاص معنی ومفہوم ہوتاہے جس کی تفصیلات ذیل میں بیان کی جارہی ہیں۔
عربی میں لفظ حمل،قرن اور عدل سہ حرفی کلمات ہیں جوساکن الاوسط استعمال کیے جاتے ہیں البتہ ان تینوں کلمات کے ابتدائی حروف کی حرکت کی تبدیلی سے معنی میں امتیاز پیداہوتاہے جو معنی ومفہوم کی ایک خاص صورت کو واضح کرتاہے۔لفظ حمل کا معنی بوجھ ہے لیکن حمل(حا پر زبر کے ساتھ) اس بوجھ کے لیے استعمال ہوتاہے جو مادہ اپنے پیٹ میں اٹھاتی ہے اور حمل (حا کے نیچے زیر کے ساتھ)اس بوجھ کے لیے استعمال کیاجاتاہے جو انسان اپنی پیٹھ پر اٹھاتاہے۔حمل کے تینوں حروف ایک ہی ہیں لیکن ان میں حرفِ حا پر زبر اور زیر کی تبدیلی سے معنی میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔ اسی طرح لفظ قرن کا معنی ہم مثل ہونا ہے لیکن قرن(قاف پر زبر کے ساتھ)عمر میں مماثلت کے لیے استعمال ہوتاہے جبکہ قرن(قاف کے نیچے زیر کےساتھ)قوت وطاقت میں مماثلت کے لیے استعمال ہوتاہے۔قرن کے تینوں حروف ایک ہی ہیں لیکن یہاں پر بھی قاف پر زبر اور زیر کی تبدیلی سے معنی میں تبدیلی رونما ہوئی ۔لفظ عدل بھی حمل اور قرن کی طرح ساکن الاوسط کلمہ ہے جس کے معنی برابری کے ہیں لیکن یہاں پر بھی لفظ عین پر زبراور زیر کی تبدیلی سے معنی میں فرق رونما ہوتاہے یعنی عدل(عین پر زبر کے ساتھ)کسی چیز کی تعداد میں برابری کوکہتے ہیں جبکہ عدل(عین کے نیچے زیر کےساتھ)کسی چیز کے وزن میں برابری کو کہتےہیں۔222
قابل غور بات یہ ہے کہ حرکت کی تبدیلی سے معنی کی تبدیلی رونماہونے کے ساتھ ساتھ حرکت کی معنی کے ساتھ مناسبت تک عربی زبان میں اہم ترین مقام کی حامل ہے اور اسی وجہ سے زبر جو حرکات میں ہلکی حرکت ہے اسے ہلکے بوجھ کےلیے متعین کیاگیا اور زیر جو زبر کے مقابلہ میں بھاری حرکت ہے اسے پیٹھ کےبھاری بوجھ کے لیے استعمال کیاگیا۔عمر میں مماثلت بنسبت قوت وطاقت میں مماثلت کے آسان و غیر اختیاری ہوتی ہے اسی لیے اول کے لیے ہلکی حرکت زبر اور ثانی کے لیے زیر متعین کیاگیا اور اسی طرح عدل میں خیال رکھاگیا۔
اس تفصیل سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ عربی مبین میں کوئی حرف تو دور کی بات رہی کوئی حرکت وسکون بھی بلاوجہ استعمال نہیں کی جاتی نیز معنی کے ساتھ حرکات کا باہمی تناسب بھی مدّ نظر رکھاجاتاہے۔ یہ عربی مبین کا وہ امتیاز ہے جو انتہائی باریک ودقیق ہے او ر اس تک پہنچنا کسی بھی دوسری زبان کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ عربی مبین میں انتہائی وسعت پائی جاتی ہے کیونکہ اس کے کلمات میں فقط حرکت و سکون کے اختلاف سے ہی معنی میں فرق نمایاں ہوجاتاہے اور معنی کی ایک خاص کیفیت معلوم ہوتی ہے۔
عربی زبان کا ذخیرۂ الفاظ نہایت درجہ وسیع ہے جس میں تشبیہات،تمثیلات،کنایات،اشارےاورضرب الامثال جیسی مہارتیں موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عربی ادب میں ایسے ایسے شہ پارے موجود ہیں جن کو پڑھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک شئی کے مختلف مرحلوں کے لیے مختلف نام تجویز کرنا یہ زبان کے کامل واکمل ہونے اور اس کی وسعت الفاظ کی شہادت ہے ۔ذیل میں عربی زبان کے اسی پہلو کو بیان کیاگیا ہے جس کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مزید آسان ہوجائےگا کہ عربی زبان میں بے پناہ وسعت موجودہے اور اس زبان کا دامن دیگر زبانوں کی مثل باعتبارِ الفاظ قطعاً تنگ نہیں بلکہ وسیع ترہے۔
اقوام میں زمانہ کا شمار عام طور پر گریگورین تقویم کے مطابق اس طرح کیا جاتا ہے کہ تیس(30) دن کا مہینہ اور بارہ(12) مہینہ کا سال، پھر مہینہ کے چار(4) حصہ کرکے ہر حصہ کو ہفتہ کہتے ہیں لیکن عربوں کے ہاں ایک تقسیم چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے اعتبار سے ہےاور اسی مناسبت سے ان کے ہاں ہرتین(3) دن کا ایک نام ہوتا ہے۔ خود چاند کے لیے ان کے ہاں چار(4) نام ہیں۔ چاند نکلا تو غرۃ ہے، تین دن تک ھلال ہے، پھر قمر ہےاور چودھویں رات کے چاند کا نام بدر ہے۔ پہلی، دوسری اور تیسری تک چاند کی روشنی صرف چمک ہی دکھاتی ہے اس لیے ان ایام کا نام غرۃ ہے۔ اب روشنی بڑھنے لگی تو چوتھی، پانچویں اور چھٹی تاریخیں نفل ہیں۔ اس کے بعد کے تین دن تسع ہیں۔دس، گیارہ، بارہ عشر ہیں۔ تیرہ، چودہ، پندرہ میں چاند خوب روشن ہوتا ہے تو ان تاریخوں کا نام بیض ہے۔ اب شب کا اوائل حصہ تاریک ہونا شروع ہوا تو سولہ،سترا اٹھارہ کا نام درع ہوا۔سیاہی بڑھنے لگی اور روشنی کا حصہ رات میں کم ہونا شروع ہوا تو انیس، بیس اور اکیس کا نام ظلم ہوا۔ اب سیاہی اور بڑھی اوررات گویا تاریک ہونے لگی تو بائیس، تئیس اور چوبیس تاریخ کا نام حنادس ہوا۔ پچیس، چھبیس، ستائس تک یہ نوبت پہنچ گئی کہ صبح کے وقت چاند نمودار ہوااور ساری رات پر تاریکی چھائی رہی تو ان تاریخوں کا نام دآدی ہے۔ اب چاند چھپ گیا، صبح کو بھی نظر نہیں آتا تو یہ تاریخیں محاق ہیں۔223یہ دس الفاظ مذکورہ بالا صرف یہ نہیں کہ اپنے مقسم کے نام ہیں بلکہ باعتبار معنی چاند کی کمی و بیشی کو بتانے والے بھی ہیں۔224
عربی زبان میں ہر چیز کے مختلف حالات اور مختلف صفات کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ نام ہیں جس کی وجہ سےاس میں مترادفات کی فراوانی بھی ہے اورعربی زبان کے شعر و سخن کا دائرہ بھی نہایت درجہ وسیع ہوگیا ہے۔225مترادفات کے علاوہ بھی عربی زبان نے جس طرح ہر چیز کے مختلف مراحل کے مختلف نام رکھے ہیں اور ان میں الفاظ ومعنی کی بھی باہمی مناسبت مد نظر رکھی ہےاسے دقت نظر سے سمجھاجاسکتاہے۔اس کے علاوہ ان مختلف مراحل کے ناموں سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ کائنات کا جس طرح مطالعہ ومشاہد ہ عربی زبان نے کیا ہے وہ کسی اور زبان نے نہیں کیامثلا انسانی تخلیق کےمختلف مراحل تک اس زبان میں مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
باپ كے صلب اور ماں كے سینے کے درمیان سے جوش کے ساتھ نکلنے والا پانی226ابتدائی مرحلہ میں منی227پھر بالترتیب نطفہ،علقہ،مضغہ،عظام اورلحم کہلاتاہے۔228پھریہ بچہ جب تک شکم مادر میں ہے تو اسے جنین کہتےہیں۔229پیدا ہوا تو ولید کہلاتاہے230اور سات دن تک ایسا کمزور اور غیر حساس رہتا ہے کہ دودھ کھینچنے کی بھی اس میں قابلیت نہیں ہوتی، ان ایام میں وہ صدیغ ہوجاتاہے۔231دودھ پینے کی قابلیت ہو گئی تو رضیع ہے۔ 232اب دودھ چھوٹا تو فطیم ہے۔ کچھ نشوونما پایا اور شیرخوارگی کی سستی اس سے رفع ہوئی، زمین پر کھسکنے لگا تو اس کا نام دارج ہے۔233دودھ کے دانت ٹوٹنے لگے تو مثغور ہے۔ دودھ کے دانت گر کر پھر نکلنا شروع ہوئے تو مثغر ہے۔234دس برس یا اس سے کچھ زیادہ عمر کا ہوا تو ترعرع ہے۔ اب بلوغ کے قریب عمر آ گئی تو یافع ہے۔ 235بالغ ہوا، قویٰ میں توانائی آئی تو حزوَّر ہے۔ 236پھر ان تمام مدارجِ عمر کے لیے ایک لفظ غلام کا عام ہے۔ اب سبزہ و خط کا نمود ہوا تو باقل ہے۔237سبزہ بڑھ کر سیاہ خط ہو گیا تو فتیٰ ہے۔ داڑھی، مونچھ اچھی طرح نکل آئی ، چہرا بھر گیاتو مجتمع ہے۔ چالیس برس کا ہنوز نہیں ہوا ہے تو شاب ہے۔238چالیس سے متجاوز ہوا اور ساٹھ تک نہیں پہنچا تو کھل ہے اور پھر اس کے بعد شیخ ہے۔ 239کثرتِ الفاظ اور تقسیمِ عہد و ایام کے ساتھ اس کا لحاظ رہے کہ ایک عہد عمر کے لیے صرف ایک لفظ ہی وضع نہیں کر لیا گیا بلکہ جس عہد کے لیے جس لفظ کی وضع ہوتی ہے، اس کے مادہ اور اس کے صیغہ کی ہیت سے اس زمانہ کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔240
عربوں نے جہاں دیگر اہم اشیاء کے مراحل کے مختلف نام رکھے وہیں انسانی ضعف کے مراحل کے بھی مختلف نام رکھے ہیں۔ جب انسان کے قوائے صحت میں خلل آتا ہے، مشاغل اور کاروبارِ زندگی میں حرج لاحق ہوتا ہے تو صحت کی اس مقدارِ بگاڑ کو علّۃ کہیں گے اور اس شخص کو علیل 241لیکن علالت بڑھی تو سقیم یا مریض ہے۔ 242اس سے بھی حالت زیادہ خراب ہوئی، مرض کی آگ بھڑک اٹھی تو وقید ہے۔ بیماری نے طول پکڑا، اخلاط اصلیہ میں زوال شروع ہوگیا، اعضائے رئیسہ نے اپنا فعل چھوڑ نا شروع کر دیا تو دَنِف ہے۔ عرب کا محاورہ ہے کہ آفتابِ لب بام کو دنفت الشمس سےتعبیر کرتے ہیں یعنی آفتاب غروب ہونے کو ہے۔243اب بیماری نے اعضائے جسم کو گھلانا شروع کر دیااور مریض کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ نہ تو زندگی کی کوئی امید ہی رہی جو اعزّہ و اقربہ دوا اور تیمار داری میں دلی توجہ کو کام میں لائیں، نہ مر ہی گیا ہے جو اسے رو پیٹ لیں، تو اسے حریض کہیں گے۔ الفاظ نے جس طرح ہر بیماری کے حال کا نقشہ کھینچا ہے اس کا مزید کمال درحقیقت اس وقت معلوم ہوتا ہےجب ان الفاظ کا مادہ اور اشتقاق سمجھ لیا جائے کیونکہ ہر لفظ میں موجود ہر حرف جس طرح ایک ایک مریض کی حالت پردلالت کررہا ہوتا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طبیبِ حاذق بھی عام طور پرکسی مریض کی حالتوں کا اتنا ہی اندازہ کر سکتا ہےجتنا کہ عربی زبان نے کیا ہے۔244
عربوں کی لغت کا وسیع ہو نا ان کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہانت اور قوت حافظہ کی بھی دلیل ہے ۔اس بات کا اندازہ یوں لگا یا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں شہد کے اسی( 80)، لومڑی کےدو سو( 200)، شیر کے پانچ سو( 500) اور اونٹ کےہزار (1000)نام ہیں، اتنے ہی نام تلوار کے ہیں اور حوادث و آفات کے لیے تقریباً چار ہزار(4000) نام ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ اتنے ناموں کو یاد رکھنے اور ان کو اپنے کلام میں شامل کرنے کے لئے جس روشن، بیدار اور مضبوط حافظہ کی ضرورت ہوتی ہےاہل عرب اسکے حامل تھے اور بلا مبالغہ ان کی زبان نہایت درجہ فصیح و بلیغ اور وسیع ذخیرۂ الفاظ کی حامل ہے ۔ 245
اس تفصیل سے ایک طرف عربی زبان کی وسعت کا اندازہ ہوتاہے تو دوسری طرف یہ بھی واضح ہوتاہے کہ عربی مبین کی ان مذکورہ منفرد،اعلی اورامتیازی خصوصیات اور دیگر اہم ترین خوبیوں ہی کے سبب اللہ تعالیٰ نے نبئ آخرالزماں ﷺ کے لیے اس زبان کو منتخب فرمایا اور عرب سمیت دیگر اقوام کی رہنمائی کے لیے اپنی آخری بھیجی گئی کتاب قرآن مجید کے لئے بھی اسی زبان کو منتخب فرمایا جس سے اس زبان کی دیگر تمام زبانوں پر برتری اور اہمیت و اضح ہوتی ہےنیز کیونکہ اللہ تعالی کی مشیت میں یہ بات ازل سے موجود تھی کہ اس زبان کو ہی نبی آخر الزماں ﷺ کے کلام کے لئے استعمال ہونا ہے اور اسی زبان میں قرآن کریم کا نزول فرمانا ہے، اس لئے ابتدا سے ہی عربی زبان کی حفاظت اللہ تعالی نے خود اس انداز میں فرمائی کہ اس کو ایک خاص انداز میں پروان چڑھایا اور حضرت آدم سے لے کر نبی کریم ﷺ کے دور مبارک تک آنے والے تمام عربی بولنے والے انسانوں سے اس زبان کو شعوری اور لاشعوری طور پر حفاظت کروائی اور اس میں ارتقاء کو جاری رکھا یہاں تک کہ جب یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی تو اس کو پیغمبر آخرالزماں ﷺ اور قرآن حکیم کے نازل کئے جانے کی زبان بنا دیا اور اس کو ہرایسے عیب سے مبرا کردیا جو دیگر زبانوں میں مرور زمانہ اور حالات کے اعتبار سے جنم لیتے ہیں۔
عربی زبا ن کے حروفِ تہجی جن سے کلمہ ترتیب پاتا ہے اور پھر کلمہ سے کلمات وجمل مرکب ہوتےہیں انہیں اہل عرب حروفِ معجمہ بھی کہتے ہیں ۔شیخِ اکبرنے ان حروف کو معجمہ کہنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان حروف کی ظاہری شکل دیکھنے والے ان کے معانی ومفاہیم سے بےخبر ہوتےہیں اسی وجہ سے ان حروف کو اہل عرب معجمہ کہتے ہیں۔246یہاں پر ان حروف کے بارے میں چند عمیق ودقیق ترین ابحاث کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جن کی طرف شیخِ اکبر نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں لطیف ترین پیرایوں،دقیق ترین استعارو ں اور اپنی مخصوص اصطلاحات میں اشارہ کیاہے اور اس كی مکمل ابحاث اپنی چند دیگر کتابوں مثلا المبادی والغایات فی معانی الحروف والآیات، کتاب الالف والاحدیۃ،کتاب الباء،کتاب العین، کتاب المیم والواو والنون، کتاب النون اورالجمع والتفصیل فی اسرار معانی التنزیل وغیرہ میں بیان کی ہے۔اس فصل میں ان ابحاث کا محض تذکرہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ بات بالکل واضح وشفاف ہوجائے کہ لسانیات وصوتیات اور لغات کے اعتبارسے عربی زبان کا بلندو بالا معیار تومسلّمہ ہے ہی لیکن اس کی بلندی فقط یہاں آکر رک نہیں جاتی بلکہ یہ حروف چونکہ کلام الہی کا حصہ بھی ہیں تو ان حروف کی کئی ایک جہتیں اور بھی موجود ہیں جن تک دیگر کسی بھی زبان کی رسائی ناممکنات میں سے ہے۔
شیخِ اکبر ابن عربی نے عربی زبان کے حروف تہجی سے کثیر تعداد میں منفرد ومخصوص علوم اخذ کرکے انہیں اپنی مختلف کتب میں بیان کیا ہےجن کوپڑھ کر اندازہ ہوتاہےکہ عربی زبان کے حروف ِتہجی در حقیقت عالمین پر اس طرح حاوی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک حرف کسی نہ کسی طور پر عالمین میں اپنا اثر ورسوخ قائم کیےہوئے ہے ۔شیخِ اکبر نے اپنی مشہور و معروف کتاب فتوحات مکیہ میں دوسرا باب حروف و اسماء کے اعتبار سے قائم کیا ہے جس میں کثیر لیکن منفرد ومخصوص علوم کے بارے میں کئی ایک مباحث ذکر کیے ہیں۔ ذیل میں فقط تفہیم کی غرض سے ان مباحث میں سےچند ایک باتیں نقل کی جارہی ہیں تاکہ انہیں پڑھ کر اندازہ ہوجائے کہ عربی زبان کے حروف ِتہجی کے اعتبار سے یہ مباحث فقط عربی حروف ہی کے ساتھ خاص ہیں اور یہ علوم بھی اخص الخوّاص ربّانی علماء کے ساتھ مختص ہیں جن کاحصول بقول شیخ اکبرانسانی نظر وفکر سے نہیں بلکہ امرِ الہی اور قربِ الہی کے فیضان سے ہی ممکن ہے۔247
شیخِ اکبر ابن عربی حروف ِ معجمہ کے اسرار ورموز کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کتاب میں محض وجود کے رموز کی طرف اشارات اوراس کی جھلکیاں دکھانا مقصود ہے کیونکہ اگر حروف کے اسرار اور ان سےمستخرج حقائق کو تفصیلی طور پر بیان کرناشروع کردیں تو ہاتھ تھک جائیں گے،قلم گھس جائیں گے،سیاہی خشک ہوجائےگی اور تختیاں کم پڑ جائیں گی جیساکہ قرآن مجید میں فرمایاگیا ہے۔248یہاں ایک پوشیدہ راز اور ایک عجیب اشارہ ہے اس شخص کےلیےجواسے سمجھ سکے اور اس کی تہہ تک پہنچ سکے ۔اگر یہ علوم (یعنی علومِ الہیہ)صرف غوروفکر سے حاصل ہوتےتو انسان انہیں کم وقت میں ہی حاصل کرلیتا مگر یہ تو موارد ِربّانی ہیں جو بندے کے دل پر مسلسل نازل ہوتےہیں، اسی وجہ سے رسول مکرّم ﷺ کو علومِ الہیہ میں زیادتی طلب کرنے249کا حکم دیاگیاہےجو در حقیقت معرفتِ الہیہ کی زیادتی طلب کرنے کاذریعہ ہے تاکہ کثیر جلوؤں میں توحید کی معرفت حاصل ہواور اس سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنے کی زیادہ سے زیادہ ترغیب پیداہوسکے۔یہی وجہ تو ہے کہ اس طرح رسول مکرّمﷺکووہ علوم واسرار حاصل ہوئے جس تک کسی بھی غیر کی رسائی ناممکن ہے۔250
شیخِ اکبر ابن عربی نے عربی زبان کے حروف ِمعجمہ کے حوالہ سے لسانیات وصوتیات سے زیادہ عمیق بحث حروف کے ان مراتبِ اربعہ کے حوالہ سے کی ہے جن کا تعلق افلاک ودُوَر سے ہے اور پھر مزید یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان حروف میں سے بعض گرم اور خشک مزاج کے حامل ہیں اور بعض سرد مزاج کے،اسی طرح بعض سرد اور تر مزاج کے حامل ہیں اور بالخصوص الف گرم،تر،خشک اور سرد مزاج کا حامل ہے۔یہ حروف گرمی کے ساتھ گرم،سردی کے ساتھ سرد،تری کے ساتھ تر اور خشکی کے ساتھ خشک ہوتےہیں اور اپنے عالم کے ساتھ قرب اورنسبت کے اعتبار سے کام کرتے ہیں۔251
پھر حروفِ معجمہ کے مراتبِ اربعہ میں سے اول مرتبہ کے حروف حضرتِ الہیہ کےلیے وقف ہیں اور دوسرے مرتبہ والے حضرت انسان کےلیے ،تیسرے مرتبہ والے جنات کےلیے مخصوص ہیں اور چوتھے مرتبہ والے فرشتوں کےلیے مخصوص ہیں نیز ہر مرتبہ والے حروف کی اپنی مخصوص ذات کے ساتھ جامع مناسبت بھی موجود ہے ۔252شیخِ اکبر ابن عربینے ان حروفِ معجمہ کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ ان کی فصلیں ہی پانچ سو(500)سے زیادہ ہیں اور پھر ہر فصل میں بےشمار مراتب ہیں جس کا قدرے تفصیلی بیان انہوں نے اپنی ایک دوسری کتاب "المبادی والغایات فی معانی الحروف والآیات"میں کیاہے جو عربی حروفِ معجمہ کے کئی پہلوؤں کو اپنے دامن میں لی ہوئی ہے۔253اسی طر ح پیر مہر علی شاہ صاحب نے اپنی کتاب "الفتوحات الصمدیۃ" میں شیخِ اکبر کی کتاب کا اقتباس ذکرکیا ہے جس میں یہ صراحت موجود ہے کہ ان حروفِ تہجی کے مسائل کی تعداد تین ہزار پانچ سو چالیس(3540)ہے جو شیخ اکبرہی کے اخذ کردہ ہیں۔254
فتوحاتِ مکیہ کے اسی باب میں مذکور ہے کہ یہ حروف دیگر امتوں کی طرح ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مخاطبین اور مکلفین بھی ہیں نیز شیخ اکبر یہ بھی ذکرکرتے ہیں کہ حروف کے لیے ان ہی کی جنس میں پیمبر بھی ہیں جنہیں ہمارے طریقہ کے اہل ِکشف ہی جانتےہیں۔اسی طرح حروف کا یہ عالم زبان ِحال کے اعتبار سے سب سے زیادہ فصیح اور بیان کے اعتبار سے سب سے زیاددہ واضح ہے۔حرو ف کے عالم کی بھی کئی قسمیں ہیں جیسا کہ مشہور ومعروف عالم کی قسمیں ہیں ۔ان عالم میں سے ایک عالمِ جبروت ہے جس کو ہم نے عالمِ عظمت کا نام دیا ہے اور یہ الھاء(ھ) اور الہمزۃ (ء)ہے،ان میں ہی عالم ِاعلی ہے جو عالم ِملکوت بھی ہے اور یہ الحاء(ح)،الخاء(خ)،العین(ع) اورالغین (غ)ہے،ان میں عالمِ وسط ہے جو عالم ِجبروت ہے اور یہ التاء(ت)،الثاء(ث)،الجیم(ج)،الدال(د)،الذال(ذ)،الراء(ر)،الزای(ز)، الظاء(ظ)،الکاف(ک)، اللام(ل)، النون(ن)،الصاد (ص)،الضاد(ض)،القاف(ق)،السین(س)،الشین(ش) اور الیاء صحیحہ(ی) ہے،ان میں عالمِ اسفل ہے جو عالم الملک والشھادۃ ہے اور یہ الباء(ب)،المیم(م)اور واو (و) صحیحہ ہے۔ان کے علاوہ بھی حروفِ معجمہ کے کئی عالم ہیں جو مذکورہ عالمین کے باہمی امتزاج ومرکب سے بنے ہیں۔شیخ اکبرنے بیان کیا ہے کہ ہر عالم کا علیحدہ رسول اور علیحدہ شریعت ہے جس کی وہ اطاعت وپیروی کرتے ہیں اور آپ کے نزدیک بعض حروف عامہ ہیں،بعض خاصہ ہیں، بعض خاص الخاص ہیں ، بعض خاص الخاص کاخلاصہ ہیں اور بعض خاص الخاص کے خلاصہ کا بھی عمدہ ترین حصہ ہیں جبکہ شیخ اکبرنے فتوحات ِمکیہ کے دوسرے باب میں حروف کے مختلف مزاج اور مختلف طریقوں سے مزید تقسیم بھی کی ہے255جو یہاں درج نہیں کی جاسکتی البتہ ان سارے مباحث کو سمجھنے کی غرض سے اس تناظر میں کی گئی ایک تقسیم اور اس پر کیےگئے کلام کو یہاں بطور تمثیل وتیسیر درج کیاجارہاہے تاکہ ان مباحث کی اہمیت و افادیت کا کچھ اندازہ ہوسکے نیز یہ بھی معلوم ہوجائے کہ عربی زبان کے حروف تہجی کا معیار ہی ایسابلند وبالاہے کہ کوئی اور زبان اس کے معیار تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔
شیخِ اکبر ابن عربی کے نزدیک عام سے ایک درجہ اوپر وہ حروف ہیں جو سورتوں کے شروع میں نازل ہوئے ہیں یعنی حروف مقطّعات۔ شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ سورت کو حرف سین سے شروع کرنا شریعت کےظاہری حکم کی بنا پر ہے کیونکہ سور سے ظاہری مراد کوٹ ہے یعنی وہ دیوار جس کے اندر عذاب ہے اور اس دیوار کی وجہ سے اس عذاب سے لاعلمی وبےخبری ہے البتہ باطنی طور پر سورت لفظ صاد سے شروع ہے یعنی صورت اور یہ مقام رحمت ہے جس میں حقائق رحمت یعنی توحید کا علم موجود ہے ۔ 256
یہ حروف مقطّعات انتیس سورتوں کے شروع میں نازل ہوئے ہیں یعنی سورۃبقرۃ، 257سورۃ آل عمران،258سورۃ الاعراف،259سورۃ یونس،260سورۃ ھود،261سورۃ یوسف،262سورۃ الرعد،263سورۃ ابراھیم،264سورۃ الحجر،265سورۃ مریم،266سورۃ طٰہٰ،267سورۃ الشعراء،268سورۃ النمل،269سورۃ القصص،270سورۃ العنکبوت،271سورۃ الروم،272سورۃ لقمان،273سورۃ السجدۃ،274سورۃ یٰس275سورۃ ص،276سورۃ غافر،277سورۃ فصلت،278سورۃ الشوریٰ،279سورۃ الزخرف،280سورۃ الدخان،281سورۃ الجاثیۃ،282سورۃ الاحقاف،283سورۃ ق284اور سورۃ القلم 285کے شروع میں گویا کہ انتیس(29) مقامات ِرحمت ہیں جن کے شروع میں آنے والے حروف ِمقطّعات کی کل تعداد بلاتکرارچودہ (14)اور بالتکرار اٹھہتر (78) ہے جو حسب ذیل ہیں:
الالف(ا)،اللام(ل)،المیم(م)، الصاد(ص)، الراء(ر)، الکاف(ک)، الھاء(ھ) ، الیاء(ی)، العین(ع)، الطاء(ط)، السین(س)، الحاء(ح)، القاف(ق) اورالنون(ن) ۔286
یہ تمام حروف ِمقطّعات مقامات ِرحمت ہیں اور ان میں سورۃ آل ِعمران میں موجود حروف ِمقطّعات الٓمّٓ بمنزلہ اس قطب کےہے جس کے ساتھ فلک کا قیام متصل اور اس کے وجود کا سبب ہوتاہے کہ اگر یہ قطب نہ ہوتا تو باقی اٹھائیس منازل بھی نہ ہوتیں۔287اس کامطلب یہ ہے کہ جس طرح قطب کی وجہ سے افلاک کا وجود قائم ودائم رہتاہے اور وہ قطبِ افلاک کے وجود کی دلیل ہوتاہے بالکل اسی طرح حروف ِمقطّعات میں سے سورۃ آل ِعمران میں موجود الم کےحروف دیگر سورتوں کے لیے بمنزلہ قطب کے ہیں اور حروف ِمقطّعات کا وجود اس کے سبب سے قائم ہے۔
شیخِ اکبر ابن عربی فرماتے ہیں کہ خطابات کے چند طریقے ہیں۔پہلا طریقہ کلام یعنی چند مضامین کو بیان کرنے کے ذریعہ سے خطاب کیا جائے تو ایسا کلام بنسبت متکلم کے اظہار کے ادنی ترین درجہ سے تعلق رکھتاہے۔دوسرا طریقہ یہ ہےکہ چند جملوں کے ذریعہ خطاب کیاجائے تو ایساکلام اگرچہ کہ اول سے زیادہ مخفی ہوتاہے لیکن بنسبت متکلم کےجامع ترین ہوتاہے جبکہ خطاب کاتیسرا اورعمدہ ترین طریقہ یہ ہےکہ حروف معجمہ کے ذریعہ سے خطاب کیاجائے تو یہ بنسبت متکلم کے سب سے اعلی ترین درجہ ہے اور یہ مقام ایسا ہے کہ اس میں اولاً صرف رسول مکرّم ﷺ ہی مختص کیے گئے ہیں کیونکہ آپﷺ کی کتاب سے پہلے کسی بھی نبی ورسول کی کتاب میں حروف کے ذریعہ سے خطاب نہیں کیاگیا اور یہ آپ ﷺ ہی کی خصوصیت ہے ۔288
شیخ اکبرکی مذکورہ بالابات کی تائیدرسول ِمکرّم ﷺ کی جوامع الکلم والی خصوصیت سے بھی ہوتی ہے اور غالباًاسی وجہ سے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو جوامع الکلم بھی عنایت فرمائے گئے لہذا اس عطائے باری تعالیٰ کو نبی مکرّم ﷺ نے اپنی ان خصوصیات سے تعبیر کیا جوآپﷺ کے علاوہ کسی دوسرے نبی ورسول ﷺ کو عطا نہیں فرمائی گئیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں منقو ل ہے کہ نبی مکرّم ﷺنے جب ارشادفرمایاكہ" مجھے انبیاء( کرام)پرچھ چیزوں کے ذریعہ فضیلت عطا فرمائی گئی"تو صحابہ کرامکے دریافت فرمانے پر ان میں سے ایک چیز کے بارے میں یوں ارشادفرمایا:
اعطیت جوامع الکلم.289
مجھے (دیگر چیزوں سمیت)جوامع الکلم بھی عطا کیے گئے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے البتہ الفاظ میں اختلاف ہے۔ اس جوامع الکلم کی توضیح وتشریح کرتے ہوئےامام بخارینے یوں لکھا:
وبلغني أن جوامع الكلم: أن اللّٰه يجمع الأمور الكثيرة، التي كانت تكتب في الكتب قبله، في الأمر الواحد، والأمرين، أو نحو ذلك.290
اور مجھے اس کے معنی یوں پہنچے کہ تحقیق جوامع الکلم یہ ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کثیر امور کو جو رسول اکرم ﷺ سے پہلے کتب سماویہ میں لکھے گئے تھے ایک ،دو یا قلیل جملوں میں جمع فرمادیتاہے۔
اور پھر رسول مکرّمﷺ ان کثیر معانی ومفاہیم کو اپنے چند مخصوص کلمات کے ذریعہ بیان کردیتے ہیں جس کی کئی مثالیں کتبِ کثیرہ میں موجود ہیں۔ جوامع الکلم کی وضاحت امام عینی نے یوں کی ہے:
الإضافة في: جوامع الكلم، من إضافة الصفة إلى الموصوف، هي: الكلمة الموجزة لفظا المتسعة معنى، يعني: يكون اللفظ قليلا والمعنى كثيرا.291
جوامع الکلم میں اضافت صفت کی موصوف کی طرف ہے یعنی وہ کلمہ جو لفظاً تو انتہائی مختصر ہو البتہ معناً بہت وسیع ہو اور ا س سے مراد ہے کہ لفظ کم ہوں اور معنی زیاد ہ ہو۔
اسی طرح شمائل ترمذی 292میں بھی اس حوالہ سے ایک حدیث منقول ہے جس کی تشریح و توضیح ابن حجر ہیتمی درج ذیل الفاظ سے کرتے ہیں:
(ویتکلم بجوامع الکلم)اي بالکلمةالقلیلةالحروف الجامعة للمعاني الکثیرة بحیث یعجز الحصر عن استقصائها.293
(اور رسول اللہ ﷺ جوامع الکلم کے ذریعہ خطاب فرماتے تھے)یعنی کم حروف والے کلمہ کے ذریعہ سے جو کثیر معانی کواس طرح اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے کہ شمار بھی اس کو ضبط کرنے سے قاصر رہے۔
جبکہ اسی حوالہ سے ابن ابی شیبہ کی روایت میں یوں الفاظ مروی ہیں کہ رسول مکرّم ﷺ نے ارشادفرمایا:
أوتيت جوامع الكلم وفواتحه وخواتمه.294
مجھے جوامع الکلم، فواتح الکلم اور خواتم الکلم عنایت کیے گئے۔
ان الفاظ كے معانی بیان کرتے ہوئے امام مناوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
يعني البلاغة والتوصل إلى غوامض المعاني التي أغلقت على غيره (وجوامعه) أسراره التي جمعها اللّٰه فيه (وخواتمه) قال القرطبي يعني أنه يختم كلامة بمقطع وجيز بليغ جامع.295
فواتح الکلم کا معنی فصاحت وبلاغت اور ان معانی ومفاہیم تک پہنچنا ہے جو غیر پر انتہائی مخفی ہوں،جوامع الکلم کا مطلب ہے کہ آپﷺ کے وہ اسرار ورموز جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ میں جمع فرمادیے جبکہ خواتم الکلم کا معنی بیان کرتے ہوئے امام قرطبی نےکہا کہ كلام كو قطعی،مختصر،بلیغ اور جامع طور پر ختم کیاجائے۔
یعنی آغاز سے اختتام تک مجموعی طور پرکلام پُر مغز وپُر حکمت، فصیح وبلیغ اورمختصر وجامع ہو تو اس کلام کو خواتم الکلم کہاجائےگا اور اسی وجہ سے رسول مکرّمﷺ اپنی دعاؤں میں بھی مختصر ترین الفاظ میں بے حد وبےحساب مقاصد کو طلب فرمایاکرتےتھے۔
رسول مکرّمﷺ کوعلم ِتوحید میں زیادتی کی دعا مانگنے کا حکم فرمایاگیا تھا جس کی تعمیل میں آپﷺخوردونوش کاشکرانہ اداکرتے ہوئے محض ایک لفظ میں تمام علومِ الہیہ جومحض فضلِ الہی سے حاصل ہوتے ہیں انہیں طلب فرمایا کرتے تھے۔اس ثبوت اور وضاحت کےلیے بطور دلیل درج ِ ذیل اُن حدیثوں کو پیش کیاجاسکتاہے جن میں رسول مکرّمﷺ سےکھانے اورپینےکے شکرانہ میں کی گئی دعا منقول ہے کہ جب رسول مکرّمﷺ کھاناتناول فرمالیتے تو يوں دعافرماتے:
اللھم بارک لنا فیه واطعمنا خیرامنه.296
اے اللہ ہمارے لیے اس کھانے میں برکت عطافرما اور ہمیں اس سے بہترین کھلا۔
اوراسی طرح جب آپ ﷺدودھ نوش فرمالیتے تویوں دعا فرماتے:
اللھم بارک لنا فیه وزدنامنه.297
اے اللہ ہمارے لیے اس دودھ میں برکت نازل فرما اور ہمیں اس سے مزید عطافرما۔
رسول مکرّمﷺ کےاس طرح دعا کرنے کی وجہ یہی تھی کہ آپﷺ کو علومِ الہیہ میں زیادتی طلب کرنے کاحکم دیاگیاتھا اور اسی پر عمل کرتے ہوئےآپﷺبالخصوص دودھ نوش فرمانےکے بعداس کی زیادتی کی دعابھی محض ایک لفظ بڑھاکر فرمالیتے جو آپﷺ کےجوامع الکلم ہونے کی واضح ترین مثال ہےکیونکہ دودھ اورعلم میں ایک جامع مناسبت موجود ہے جیساکہ معراج والے سفر میں حضرت جبریل کا رسول مکرّمﷺ کے دودھ کے انتخاب کو فطرت سے تعبیر کرنا298اور رسول مکرّمﷺ کے خواب میں دودھ پینے اور اس کے بقیہ کو حضرت عمرکوعطافرمانے299کو دین سےتعبیر کرنا300اس کی واضح دلیل ہے301توگویادودھ کی زیادتی کی دعا سمیت محض ایک لفظ بڑھاکر حکمِ باری تعالیٰ پر عمل پیراہوتے ہوئے علوم ِالہیہ میں بھی زیادتی طلب فرمالی تاکہ معرفتِ الہی میں زیادتی حاصل ہو اور وہ مقام ومرتبہ بھی حاصل ہو جائےجس کے حصول سے حروفِ عربیہ کے علوم واسرارکے حصول کا تعلق ہے کیونکہ شیخ اکبر کے نزدیک حروفِ عربیہ کے یہ علوم واسرار کسی نظری وفکری جدوجہد کاحصول ونتیجہ نہیں ہیں بلکہ عالمِ غیب سے اس کی ایک خاص الخاص رحمت اور خاص الخاص تعلیم دینے کا ماحصل ہیں جوخاص مرتبۂ معرفت کے حصول کے بعد ہی ممکن ہیں۔302
مذکورہ روایات وتوضیحات سے شیخِ اکبر ابن عربی کی اس بات کی تائید وتوضیح ہوتی ہے کہ حروف کے ذریعہ سے خطاب فقط رسول مکرّمﷺ ہی سے ہوا ہے اور اسی وجہ سے جوامع الکلم سے بھی آپﷺ ہی کونوازاگیا ہے جس سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ رسول مکرّمﷺ ان حروف کے اسرار ورموز سے آگاہ ہیں کیونکہ مروی ہے کہ رسول مکرّمﷺ کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک ایسا خاص وقت بھی مقرر فرمایا تھا جو کسی بھی مقرّب فرشتہ اور نبی ورسول کے لیے نہیں رکھاگیا اور اسی وجہ سے جب حضرت جبریل سورہ مریم کے حروف مقطعات لےکر نازل ہوئے تو رسول مکرّم ﷺ نےارشادفرمایاکہ میں سمجھ گیا جس پر حضرت جبریل نے حیرت واستعجاب سے کہاکہ آپ نے وہ کیسے سمجھ لیاجو میں (حروف مقطعات لانے کے باوجود)نہیں سمجھ سکا 303نیز اتناہی نہیں کہ رسول مکرّمﷺ ان حروف کے اسرار ورموز سے آگاہ تھے بلکہ مکمل اور سب سے زیادہ آگاہ ہیں۔
اسی وجہ سے شیخ اکبرفرماتے ہیں کہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ ان حروف کے معانی جانتے ہیں اور ان کے ان مراتب کو بھی جانتےہیں جن سے حروف کے اعداد نکلتے ہیں یعنی حروف ِعربیہ کے معانی ومفاہیم ومطالب واسرار کو بھی جانتے ہیں اور بالخصوص ان کے وہ مقامات ومراتب جن سے اعداد کی نشونما ہوتی ہے وہ بھی جانتے ہیں۔304
شیخ اکبر کے نزدیک حروف ِعربیہ سے پیدا ہونے والے اعداد کا تعین ان کے مراتب کے اعتبار سے ہے اور مراتب کا تعین ظہورِ خلقت کے مطابق ہے جو درحقیقت مخصوص ومرتَّب حکمت ِالہیہ ہے نیز یہ علم ان علوم میں سے ہے جو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اورآپ ﷺ سے اکمل نسبت رکھنے والےآپﷺ کے کامل متبعین علمائے ربانیین کے ساتھ مختصّ ہے305اور ان کے علاوہ کوئی اور یہ علومِ وہبیہ از خود حاصل نہیں کرسکتاجیساکہ اس علم کو تفصیل سے لکھنے والے حضرت شیخِ اکبر ہیں اور آپ سے پہلے ان علوم کی اس طرح تفصیلی وضاحت کسی سے منقول نہیں ہوئی۔ 306
اسی طرف حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے بھی توجہ دلائی ہے کہ جب ان سے ایک اہل حدیث مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے عالم کی طرف سے کیے گئے دس سوالات کا جواب مانگاگیا تو آپ نے دوران سفر وقت نکال کر ان دس سوالات کے جوابات بمع اپنے بارہ سوالات کے لکھے جو رسالہ بنام "الفتوحات الصمدیۃ الملقب بالفیوضات الشمسیۃ" کی صورت میں شائع کیے گئے تھے۔307ان دس سوالات میں سے تیسرا سوال ساتویں صدی ہجری کے ممتاز اور جید عالم وفاضل امام ابو حفص عمر بن اسماعیل شیخ فاروقی کی کہی گئی انتہائی مشکل اور ادق ترین منظوم پہیلی پر مشتمل تھا جس کاایک جواب شیخ ابن تیمیہ نے بیس سال کی عمر میں منظوم قصیدہ کی صورت میں دیاتھا لیکن شیخ فاروقی نے اس جواب پر مطلع ہونے کے بعد کہا تھا کہ کوشش اچھی کی ہے لیکن پہیلی حل ہونہیں سکی البتہ ملتی جلتی چیز بیان ہوگئی ہے۔308اہل حدیث عالم کی طرف سے اسی منظوم پہیلی کا جواب حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب سے طلب کیاگیاتھا جو یقینی طور پرشیخ ابن تیمیہ کے جواب سے علیحدہ مضمون پر مشتمل ہے اور انتہائی عمدہ طر زکا حامل جواب ہے جو ماہر فنون کے ہی فہم میں آسکتاہے۔اس پہیلی کا جواب لکھتے ہوئےشروع ہی میں حضرت پیرمہر علی صاحبنے چند ضروری علوم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فقط علم الاعداد کی انتیس (29)قسموں کو بیان کیا ہےجو ذیلی عبارت میں مذکور ہیں:
اعلم انه یجب علي طالب الحل ان یعلم اولا انواع الاعدادوالاصول العشرةلكل اسم والوجود اللفظي والرقمي والذهني والعیني له فان بعض الاحکام في ھذ اللغز مبني علي بعض الانواع والاصول والوجود دون بعض وایضا بعضها یدورفلكھا علي بسائط الاسم والبعض الآخر علي الاسم والبعض علي المسمي،انواع الاعداد:(۱)عدد اوسط ابجدي،(۲)عدد الاسرار من الالف الي النون علي الترتیب المشھور ومن(س) علي خلافه......
س | ع | ف | ص | ق | ر | ش | ت | ث | خ | ذ | ض | ظ | غ |
۴ | ۵ | ۶ | ۷ | ۴ | ۵ | ۶ | ۷ | ۵ | ۶ | ۷ | ۶ | ۷ | 7 |
(۳)عدد المختار من الثمانیةالي اربعة عشر في دور واحد ثم من التسعة الي اربعة عشرة في الدور الثاني ثم من عشرة الی اربعة عشر في الدور الثالث ثم من احد عشرة الي اربعة عشر فى الدور الرابع ثم من اثني عشر الي اربعة عشر في الدور الخامس ثم من ثلٰثة عشر الي اربعة عشر في الدور السادس ثم یتم علي اربعة عشر للغین،(۴)مثلثات الاعداد لحروف الطبائع الاربعة،(۵)اعداد فواضل الدور،(۶)اعداد اِدريسيَّه،(۷)اعداد شَعيَوِيه،(۸) مثلثة الابجدي،(۹)عكس الابجدي،(۱۰)عدد اكملي اعني اتبثي،(۱۱)اعداد مخزونة،(۱۲)اعداد زوجية من الاثنين الي ثمانية وخمسين،(۱۳)احسب الاعداد،(۱۴)مثلثات الابجدي اعني ايقغي من الواحد والاثنين الي العشرة،(۱۵)ايقغي من الواحدوالمائة والالف،(۱۶)اعداد الاخيار اعني يوشعي،(۱۷)اعداد شيثي،(۱۸)اعداد غاية الاماني اعني عكس الايقغ،(۱۹)اعداد موسوية،(۲۰)اعداداآصفية،(۲۱)دانيالي،(۲۲)اعداد المرتبة،(۲۳)اعداد مثلثة الوسطي ومثلثة القدمين،(۲۴)مثلثة العشرات،(۲۵)مثلثة المآت،(۲۶)مثلثة الالوف،(۲۷)اعداد عكس اهطمي،(۲۸)اعداد الصوامت وعدد اصم،(۲۹)عدد نواطق.309
مذکور پہیلی کو حل کرنے والے کے لیے لازمی ہے کہ وہ شروع میں ہی اعداد کی مختلف اقسام،ہر اسم کے دس اصول(یعنی لقب،کنیت،اسم،فاتحہ واسطہ، فاتحہ نتیجہ اولیٰ، نتیجہ ثانیہ، نتیجہ ثالثہ،مجمع الاصول، وغیرہ)، وجود لفظی، وجود رقمی، وجود ذہنی اور وجود عینی کی معرفت حاصل کرے کیونکہ اس پہیلی میں بعض باتیں بعض اعداد،بعض اصول اوربعض وجود کو چھوڑ کر ان میں سے بعض پر موقوف ہیں نیز بعض وہ چیزیں بھی اس پہیلی میں موجود ہیں جن کا فلک اسم کے بسائط(یعنی مرکب حروف)پر گھومتاہے اور بعض کا خود اسم پر جبکہ بعض کا اسم کے مسمی پر دوراکرتاہے۔اعداد کی اقسام یہ ہیں: (۱)ابجد حروف کے مطابق اعداد(یعنی ایک سے اٹھائیس تک کے اعداد)،(۲)مشہور ترتیب کے مطابق الف سے نون تک کے اعداد کے اسرار اور حرف سین سے اس مشہور ترتیب کے برعکس(ایک مخصوص ترتیب کے مطابق)......
س | ع | ف | ص | ق | ر | ش | ت | ث | خ | ذ | ض | ظ | غ |
۴ | ۵ | ۶ | ۷ | ۴ | ۵ | ۶ | ۷ | ۵ | ۶ | ۷ | ۶ | ۷ | 7 |
(۳)پہلے دورے میں آٹھ سے چودہ تک مختار عدد پھر دوسرے دورے میں نو سے چودہ تک ،تیسرے دورے میں دس سے چودہ تک پھر چوتھے دورے میں گیارہ سے چودہ تک،پانچویں دورے میں بارہ سے چودہ تک پھر چھٹے دورےمیں تیرہ سے چودہ تک مختار عدد اور پھر یہ دورے چودہ پر مکمل ہوں گے جو غین کے لیے ہے،(۴)چار عناصر کے حروف کے مثلث اعداد،(۵)بقیہ دوروں کے اعداد،(۶) ادریسی اعداد،(۷)شعیوی اعداد،(۸)ابجدی مثلث اعداد،(۹)عکس ابجدی اعداد،(۱۰)اکملی یعنی اتبثی اعداد، (۱۱)پوشیدہ اعداد،(۱۲)بارہ سے اٹھائیس تک جفت اعداد،(۱۳)احسب اعداد،(۱۴)ابجدی مثلثات یعنی ایک اور دو سے دس تک ایقغی اعداد ،(۱۵)ایقغی اعداد ایک ،سو اور ہزار،(۱۶)اخیاری یعنی یوشعی اعداد،(۱۷)شیثی اعداد،(۱۸)غایہ امانی یعنی عکس ایقغی اعداد،(۱۹)موسوی اعداد،(۲۰)آصفی اعداد، (۲۱)دانیالی (اعداد)،(۲۲)مراتبی اعداد،(۲۳)وسطی مثلث اعداد اور مثلث اقدمین،(۲۴) مثلث عشرات اعداد،(۲۵)مثلث مئات اعداد،(۲۶)مثلث الوف اعداد،(۲۷)،اعداد عکس اھطمی، (۲۸)گونگے اعداد و گونگہ عدد،(۲۹)گویا اعداد۔
اس اقتباس کو یہاں درج کرنے کا مقصد شیخ اکبر کی اس بات کی تائید وتوثیق ہے کہ حروف ِعربیہ کے یہ علوم فقط رسول مکرّمﷺاور اہل بیت ِنبوّت کے علومِ ظاہرہ وباطنہ کے جامع ترین اشخاص کے ساتھ ہی مختص ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے دس (10)سوالات کے جوابات دینے کے بعد اپنی طرف سے بارہ(12) سوالات بھیجے تو ایک صدی گزرجانے کے بعد بھی وہ سوالات ہنوز لاینحل ہیں چنانچہ پہلا سوال کرتے ہوئے شیخِ اکبر کی عبارت کے حوالہ سے آپ نے لکھا:
سیدنا محمد بن علی(یعنی شیخِ اکبر رحمۃ اللہ علیہ ) حروف تہجی ا ب ت ی تک کے متعلق فرماتے ہیں: فیھا ثلٰثۃ آلاف وخمسمائۃ واربعین مسئلۃ علی عدد الاتصالات وتحت کل مسئلۃ مسائل... تين ہزار پانچ سو چالیس(3540)مسئلےحروف قاعدہ ا ب ت ث الخ کے متعلق۔۔۔ نیز حروف تہجی کی ترتیب کذائی کی وجہ(پہلے ا(الف) پھر ب (با) پھر ت(تا) علی ہذا القیاس ی(یا) تک)بیان کرو۔اگر مخارج کی رو سے ہے تو پہلے شفوی پھر وسطی پھر حلقی ہونا چاہیے یا بالعکس حالانکہ اس طرح نہیں۔آپ بیان فرمادیں یہ ترتیب کس لحاظ سے ہےاور نیز(تعانق لا)کا باعث بیان فرمادیں۔پھر اس کی کیاوجہ ہے کہ(لا)مابین ھ اور ی کے کیوں رکھاگیا۔اگر آپ نے قاعدہ حروف تہجی ا ب ت ث الخ سمجھاہوا ہے توضرور بیان فرمادیں گے۔310
ا س سوال میں جو آٹھ سوالات کا مجموعہ تھا سب سے آسان تر یہی حصہ تھا جو بالائی سطور میں نقل کیاگیا لیکن ہنوز ایک سو اٹھارہ (118)سال گزرجانے کے بعد بھی ان حروف کی ترتیب کذائی سمیت ان بارہ سوالات کے جوابات کسی نے بیان نہیں کیے کیونکہ اس کے متعلق پیر مہرعلی شاہ صاحب نے اپنے احباب سے فرمادیاتھا کہ ان سوالات کا تعلق بنی فاطمہ کے صدری علوم سے ہےاور ان کے جواب دینے کےلیے جواب دینے والے کاعلومِ رسمیہ پر مکمل عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ سیّد بنی فاطمہ ہونا بھی اشد ضروری ہے۔311شیخ ِاکبرابن عربی اورپیر مہر علی شاہ صاحب کے اقتباسات سے یہ ضرور واضح ہوجاتاہے کہ یہ وہ چند علومِ وہبیہ ہیں جو حضرت سیدنا محمد رسول اللہﷺ اور آپﷺسے اکمل نسبت رکھنے والےاخص الخوّاص علماء واولیاءکےساتھ مختص ہیں جن کاتعلق حروف ِعربیہ کے حقائق ورموز سے ہے ۔
النوع علوم وابحاث کویہاں تحریر کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ عربی زبان کے حروف ِتہجی کا تفصیلی بیان احاطہ ءِتحریر میں نہیں لایاجاسکتا اور یہ خاصیت فقط عربی حروفِ معجمہ کی ہے کہ اسی زبان میں کلام ِالہی نازل کیاگیا ہےلہذا کوئی دوسری زبان اس کے محاسن وکمالات اور معانی ومطالب تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔اس پر مذکورہ بالاابحاث وعلوم مستزاد ہیں جن کی عقدہ کشائی بھی اہلِ علم وفن کے ماہر ترین افرا د میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جونسبی نسبت ِرسول ﷺ سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ علومِ ظاہرہ وباطنہ میں یدِ طولیٰ رکھتے ہوں۔اس تفصیل سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتاہے کہ عربی زبان کے محض حروف تہجی ہی کئی اہم ترین کائناتی حقائق ومسائل اپنےدامن میں سمیٹے ہوئے ہیں تو ان حروف سے مرکب ہونے والے کلمات وجمل اور پھر ان سے ترکیب پانے والے کلام کی مثل پیش کرنا کسی بھی زبان کے بس میں نہیں اور یوں عربی زبان کے مقابلہ میں دیگر زبانیں گونگی ہی کہلائے جانے کی مستحق ٹھہرتی ہیں۔
اس مرحلہ پر پہنچنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہےکہ جب دیگر زبانوں کے مقابلہ میں عربی زبان بلند وبالا،معانی ومفہوم کےلحاظ سے اعلی وارفع نیز ابلاغِ بیان میں فائق ولائق ہے کہ اس جیسے حروف تہجی بمع قواعد وضوابط،ان کے مخارج بمع صفاتِ حروف،ان کی ادائیگی میں نکلنے والی آواز کی معنی سے مطابقت،ان کی ترکیب وترتیب سے حقیقتِ نفس الامر کی مناسبت،معانی سےحرکات وسکنات تک باہمی مناسبت،اس سب سے بڑھ کر کائناتی حقائق ومسائل کی عمدہ ترین انداز میں عقدہ کشائی وغیرہ ایسی خصوصیات ہیں جو دیگر زبانوں میں نہیں پائی جاتیں جس وجہ سے عربی تمام دیگر زبانوں سے ممتاز ہے اور اہل عرب دوسروں کو عجمی کہہ کر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے تھے تواب قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ تمام زبانیں جس زبان کے مقابل کوئی جملہ تو دور کی بات اس جیسا ایک کلمہ پیش کرنے سے قاصر رہیں اور اس بے بسی کی وجہ سے عجم (گونگی)کہلائیں تو وہ کلام جس کے مثل کلام لانے سےاہل عرب عربی مبین جیسی زبان کے حامل ہونے کے باوجود قاصر رہے اور اس کلام نے اہل عرب کو ہی بے بس کردیاکہ اولاً تواس جیسا کلام لانا ان کے بس سے باہر تھا312پھر انہیں اس معجِز کلام کی دس(10) سورتوں جیسی سورتیں لانے کا کہاگیا تو وہ عاجز رہے313یہاں تک کہ پھر ایک مختصر ترین سورت تک بنانے سے بے بس ہوگئے314تووہ معجِزکلام یعنی قرآن مجید جواللہ تعالیٰ کی طرف سےجبریل امین کے ذریعہ قلب رسول اللہ ﷺ پر نازل کیاگیا315اور اپنے کلام الہی ہونے کی وجہ سے اس نے زبان دانی میں دنیا کو بے بس کردینے والے اہل عرب کو ہی بے بس کردیا،اس قرآن مجیدکی فصاحت وبلاغت،اعجاز بیان، باہمی ترکیب وترتیب، حروف وکلمات وجمل اورپھر ان سے مرکب ہونے والی آیات وسور کا حقیقت ونفس الامر سے مطابقت وموافقت کے مقام ومرتبہ کا اندازہ کرنا انسانی استعداد سے فروتر ہے اور یہ اس کی بین وقطعی دلیل ہے کہ یہ کلامِ الہی ہے کہ اس جیسا کلام کرنا اہل عجم تو دور اہل عرب کے بس میں بھی نہیں اور اس میں بیان کردہ حقائق وفرامین ہی خدائے یکتا کی طرف سے انسانیت کی فلاح وبہبود کے ضامن اور اس دنیا میں امن وسلامتی کے قیام کے اولین اسباب ہیں۔
کلام الہی کے اس زبان میں نزول اور پھر نبی آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے اس زبان میں کلام الہی کی توضیح وتشریح بیان کرنے316کی وجہ سے عربی مبین کو وہ زندگی عطا ہوئی کہ دنیا کے ابتدائی دور کی طرح اس کے آخری دور میں بھی یہی زبان موجود رہے گی کیونکہ کلام الہی قیامت تک کے لیے ہے جوعربی مبین میں ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس امت کے آخری دور میں حضرت عیسٰیجو قیامت کی نشانی ہیں317وہ امت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ والتسلیم کے درمیان دینی وریاستی فیصلے فرمائیں گے318جو قرآن مجید اور سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی نت مبارکہ کے ذریعہ سے انجام پائیں گےکیونکہ اللہ تعالیٰ نےحضرت عیسٰی کو تورات اور انجیل کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کی تعلیم دینے کا ذکر بھی فرمایاہے 319یہاں تک کہ قیامت کا وقت مزیدقریب ہوجائے گا۔ پھر جب تک زمین میں اللہ اللہ کہاجاتارہے گا تو قیامت قائم نہیں ہوگی اور جب لفظ اللہ الله كہنا بھی ختم ہوجائےگا جو اپنی اصل کے اعتبار سے ایک عربی لفظ ہی ہےتوقیامت قائم ہوجائےگی320جس کے بعد میدان ِحشر اور پھر فیصلے کا دن آپہنچےگا۔قرآن مجید کے مطابق محشرو جنت ودوزخ میں بھی عربی زبان ہی بولی جائےگی اور یوں زبان کا وہ سلسلہ جو جنت سے شروع ہوا تھا بالآخر وہیں جاکر اپنی حقیقی جاودانی زندگی تک پہنچ جائےگا جس کو دوام ہی دوام ہے۔321
عربی زبان کی مذکورہ بالا جامعیت، کاملیت اور ابدیت کے تناظر میں ہم بجا طور پر اقوامِ عالم سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی قومی و مادر ی زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے تعلیم و تعلّم اور اس کے فہم و ادراک اور بالخصوص اس کےاختیاری تکلّم کی طرف مائل ہوں تاکہ روئے زمین کے ہر حصہ میں پائے جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ان کا تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی سطح پر رابطہ جڑنے کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا ہوسکےجس سے انسانوں کے درمیان پھیلی ہوئی بے بنیاد نفرتوں اور دشمنیوں کو کم کرنے میں مدد ملے اور ساتھ ہی ساتھ وہ تمام اقوام ِ عالم جو مسلمان ممالک اور ریاستوں کے ساتھ تجارتی و کاروباری تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے اپنے دائرہ ِ کار میں ایک طرف مادی و تجارتی منفعت تو حاصل ہو البتہ دوسری طرف انہیں مسلمانوں کی معاشرت و ثقافت ، عقائد و عبادات اور معاملات و معمولات کو بطریقہ احسن اور براہ راست سمجھنے میں آسانی بھی ہو جائے۔ اسی طرح مسلمانانِ عالم جو دنیا میں مختلف خطوں کے باسی اور مختلف ممالک کے رہائشی ہیں انہیں اپنی مادری زبان کے بعد سب سے زیادہ اہمیت عربی زبان کو دینے کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کے لئے بالعموم اور امتِ مسلمہ کے لیے بالخصوص منتخب کی گئی زبان ہے۔یہی وہ زبان ہے جو ان کی مذہبی روایات اور دینی اقدار و عبادات کی نگہبان ہے۔ اس زبان کے ساتھ مسلمانوں کا محبت کرنا اس لیے بھی ایک فطری امر ہے کہ یہ ان کے پیغمبر ِ آخر الزماں ﷺ اور ان کی کتابِ مبین قرآن ِ مجید کی زبان ہے ، اسی طرح کے جملہ اہم مذہبی علوم مثلاً علم الفقہ ، علم الکلام و العقائد ، جملہ علوم الشریعہ بلکہ ان کے لیل و نہار اور مابعد ِ حیات کی زبان ہے جسے سیکھنے کا ملکہ اللہ تعالی نے ہر انسان میں ودیعت کر رکھا ہے جب کے مسلمانوں میں اس ملکہ کے موجود ہونے کے ساتھ اس زبان سے فطری محبت بھی ودیعت کردی گئی ہے۔