Encyclopedia of Muhammad
پیدائش: 543 عیسوی وفات: 569 عیسوی والد: العبد بن سفیان والدہ: وردة بنت عبدالمسيح قبیلہ: بکر بن وائل

Languages

العربية

طرفہ بن العبد

عرب کے نمایاں افراد میں سے ایک اور اہم شخصیت طرفہ بن العبد کی تھی جو اپنے زمانہ کا بہترین شاعر سمجھا جاتا تھااور اسی وجہ سے اس کا شمار اہل عرب کے شعراء کے پہلے طبقہ میں ہوتا تھا اور اکثر سوانح نگارو ں نے اس کا مقام ومرتبہ امراؤالقیس کے بعد بیان کیا ہےنیزاس نے اپنی کمسنی ہی میں شعر گوئی شروع کردی تھی اور اپنے زمانہ میں کافی عروج بھی حاصل کرلیا تھا۔1اسی وجہ سے اپنی قوم میں انتہائی اعلی قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھااوراعلی وارفع حسب کا مالک تھا2چونکہ عمر نے زیادہ مہلت نہیں د ی تھی اسی وجہ سے راویوں نے اس کے اشعار کم ہی نقل کیے ہیں۔3 یہی وجہ ہے کہ امام سیوطی نے اس کو ان شعراء میں شمار کیا ہے جن کی شاعری دیگر مشہور شعراء کے مقابلہ میں انتہائی کم ہے۔4

پیدائش اور خاندان

طرفہ بن العبد عرب کے مشہور قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا كيونكہ اس کے والد اسی قبیلہ کے ایک فرد تھے۔اس کی پیدائش اور قبیلہ کے حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ولد طرفة بن العبد حوالي عام:543م،لأب بكري وأم غير بكرية.5
  طرفہ بن العبد پانچ سو تینتالیس(543)عیسوی کے آس پاس بکری باپ اور غیر بکری ماں کے ہاں پیدا ہوا ۔

یعنی طرفہ کے والد کا تعلق قبیلہ بکر سے تھا لیکن اس کی ماں کا تعلق بکر سے نہیں بلکہ قبیلہ بنو ضبیعہ سے تھا اور یہ مشہور شاعر متلمس کی سگی بہن تھی۔ طرفہ بن العبد کے خاندان اور اس کے رشتہ داروں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں:

  وطرفة بن العبد بن سفيان بن سعد بن مالك من قيس بن ثعلبة وهو ابن أخي المرقش الصغير، وكان من المقربين إلى عمرو بن هند ملك الحيرة، ومن المناد مين لأخيه أبو قابوس وهو ابن أخت جرير بن عبد المسيح المعروف المتلمس وقد قال الشعر وهو صغير السن.6
  طرفہ بن العبد بن سفیان بن سعد بن مالک قیس بن ثعلبہ کے خاندان سے ہے اور یہ (مشہور شاعر) مرقش صغیر کے بھائی کا بیٹا ہے۔وہ حیرہ کے بادشاہ عمر وبن ہند کے مقربین اور اس کےبھائی ابو قابوس کے ہمنشینوں میں سے تھا۔یہ جریر بن عبد المسیح جو متلمس کے نام سے معروف ہے کی بہن کا بیٹا ہے اور یہ خود بھی کمسنی میں ہی شعرگوئی کیاکرتا تھا۔

یعنی طرفہ بن العبد کا سارا خاندان ہی گویا کہ شعراء کا جھرمٹ تھا کیونکہ اس کا والد،اس کادادا،اس کے دونوں چاچا مرقش اکبر اور مرقش اصغر بھی شاعر تھے اور طرفہ اپنے شعر میں اپنے چاچاؤں اور ماموں کے اشعار کو نقل کیاکرتا تھاجس حوالہ سےذیلی اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:

  فطرفة يروى للمرقش الأصغر عمه ويأخذ عنه، ويروى هذا عن عمه المرقش الأكبر ويحتذى على شعره وأيضا فإن طرفة كان يروى عن خاله المتلمّس الذى ربى فى أخواله من بنى يشكر.7
  پس طرفہ اپنے چاچامرقش اصغر کے لیے اشعار روایت کرتا تھااور اس سے بھی اشعار سیکھا کرتا تھا۔ یہ اپنے دوسرے چاچامرقش اکبر سے بھی اشعار سیکھتا تھا اور اس کے اشعار کے بالمقابل اپنے اشعار کہتاتھا ۔ پس بلاشبہ طرفہ اپنے ماموں متلمس کے پاس پلا بڑھا ہے جن کا تعلق بنو یشکر قبیلہ سے ہے۔

طرفہ کا ماموں متلمس بھی بہترین شعراء میں سے تھا اور اس کا نام ونسب بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتے ہیں:

  هو جرير بن عبد المسيح، من بنى ضبيعة، وأخواله بنو يشكر، وكان ينادم عمرو بن هند ملك الحيرة، وهو الذى كان كتب له إلى عامل البحرين مع طرفة بقتله.8
  وہ جریر بن عبد المسیح ہےبنو ضبیعہ سےاور اس کے ماموں بنو یشکر سے ہیں۔یہ حیرہ کے بادشاہ عمرو بن ہند کے ہمنشینوں میں سے تھا اور یہ وہی بادشاہ ہے جس نے بحرین کے عامل کی طرف طرفہ سمیت اس کے قتل کرنے کا پیغام دیا تھا۔

اس تفصیل سےمعلوم ہوا کہ طرفہ کا خاندان مکمل شعراء کا خاندان ہی تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنی کم سنی میں ہی اشعار کہنا شروع کردیےتھے۔

نام ولقب

طرفہ کااصل نام عمرو تھا اور طرفہ اس کا لقب تھا۔اس کے نام و لقب اور جائے پیدائش کے حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے محقق مہدی محمد ناصر الدین اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وطرفة بالتحريك في الأصل واحدة الطرفاء وهو الإثل وبھا لُقب طرفة واسمه عمرو وُلد في البحرين في بيت عريق الأصل والمحتد.9
  طرَفہ (را) کی حرکت کے ساتھ درحقیقت طرفاء کی واحد ہے اور اس کامعنی "جھاؤ کا درخت" ہے ۔اس لفظ سے ہی اس کو یہ لقب دیاگیا ہے جبکہ اس کا نام عمرو اور یہ بحرین کے علاقہ میں مضبوط بنیاد والے اور ناراضگی والے گھر میں پیدا ہوا تھا۔

ناراضگی والے گھر سے مراد یہ ہے کہ اس کے افراد اس سےاغماض برتتے تھے کیونکہ اس کے والد کی وفات کےبعد اس کی پرورش اس کے چاچاؤں نے کی تھی لیکن پرورش کا حق اد انہیں کیا تھا ۔طرفہ کا معنی بیان کرتے ہوئے صاحب لسان العرب تحریر کرتے ہیں:

  والطرفة شجرة وهي الطرف ...وبھا سمي طرفة بن العبد.10
  طرفہ ایک درخت کا نام ہے اور وہی طرف (بھی کہلاتا )ہے۔۔۔اور اسی درخت سے تشبیہ دیتے ہوئے طرفہ بن العبد کا یہ نام رکھا گیا۔

طرفہ کا لقب پڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابوعبد اللہ زوزونی تحریر کرتے ہیں:

  طرفة لقب غلب عليه ببيت قاله وهو: لا تعجلا بالبكاء اليوم مطرفا.11
  طرفہ لقب ہے جو اس پر غالب آگیا ایسے شعر کی وجہ سے جو اس نے کہا تھا اور وہ یہ ہے:آج کے دن الگ تھلگ ہوکر شدت سے رونے کی جلدی نہ کرو۔

اس شعر میں "مطرفا" کے لفظ سے عمرو بن العبد کا لقب "طرفہ" پڑاا ور اس کے نام پر یہ لقب اتنا غالب ہوگیا کہ لوگوں نے اس کے اصلی نام کو چھوڑ کر اس لقب کو ہی اس کے نام کے طور پر استعمال کیااور یہ طرفہ بن العبد کے نام سے مشہور ہوگیا۔ابن قتیبہ نے لبید کےحوالہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے طرفہ کا"ابن العشرین" کے لقب سے بھی ذکر کیا ہے 12 نیز طرفہ کی کنیت ابو عمرو بیان کی جاتی ہے۔13

نسب نامہ

طرفہ بن العبدکا تعلق قبیلہ بکر بن وائل سے تھا کیونکہ یہ بکر بن وائل کی ایک شاخ بنو قیس سےتعلق رکھتا تھااور اس کے نسب کو بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریرکرتے ہیں:

  هو طرفة بن العبد بن سفيان بن سعد بن مالك ابن عباد بن صعصعة بن قيس بن ثعلبة.14
  وہ طرفہ بن العبد بن سفیان بن سعد بن مالک بن عباد بن صعصعہ بن قیس بن ثعلبہ ہے۔

مالک کے بعد ابن عباد بن صعصعہ کے بجائے ایک اور نام اور اس کے ساتھ ساتھ اس نسب کی مزید کڑیاں بیان کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب تحریر کرتے ہیں:

  هو طرفة بن العبد بن سفيان بن سعد بن مالك بن ضبيعة بن قيس بن ثعلبة بن عكابة بن صعب بن علي بن بكر بن وائل.15
  وہ طرفہ بن العبد بن سفیان بن سعد بن مالک بن ضبیعہ بن قیس بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل ہے۔

اسی نسب کو بیان کرتے ہوئے بکر بن وائل سے آگے کی مزید پیڑیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ابوعبد اللہ زوزونی تحریر کرتے ہیں:

  بكر بن وائل بن قاسط بن هنب بن افصى بن دعمي بن جديلة بن اسد بن ربيعة بن نزار بن معد بن عدنان كان فى حسب كریم.16
  بکر بن وائل بن قاسط بن ہنب بن افصی بن دعمی بن جدیلہ بن اسد بن ربیعہ بن نزار بن معد بن عدنان اعلی و معزز حسب سے متعلق تھا۔

اس نسب نامہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ طرفہ بن العبد کا تعلق عدنانی عرب کے مشہور قبیلہ بکر بن وائل کی شاخ بنو قیس سے تھا اور اس حساب سے اس کا حسب بھی اعلی وارفع تھا اسی وجہ سے اس نسب کوبیان کرنے کے بعد ابو عبد اللہ زوزونی نے اس طرف ایک علیحدہ جملہ سے اشارہ کیا ہے۔

والدین اور ان کا قبیلہ

طرفہ بن العبد کے والد کا تعلق تو قبیلہ بکر سے تھا لیکن اس کی ماں کا تعلق قبیلہ بنو ضبیعہ سے تھا اور اس کانام وردہ تھا۔اس حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وامه وردة من رهط ابيه، وفيھا يقول لأخواله وقد ظلموها حقها.17
  طرفہ کی ماں وردہ ہے اس کے والد کے خاندان سےا ور اس کے بارے میں طرفہ نے اپنےان ماموؤں (بلکہ چاچاؤں)کے لیے اشعار کہے تھے جنہوں نے وردہ پر ظلم کرتے ہوئے اس کا حق (وراثت) ہڑپ لیا تھا۔

ابن قتیبہ نے اگرچہ وردہ کو طرفہ کے والد ہی کے خاندان کا فرد بتایا ہے لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ دیگر مؤرخین نے وردہ کو طرفہ کے ماموں متلمس کی سگی بہن قرار دیا ہے اوراس لحاظ سے وردہ کا تعلق قبیلہ بنو ضبیعہ بن ربیعہ سے بنتا ہے18 نہ کہ طرفہ کے والد کے خاندان بنو ضبیعہ بن قیس سے ۔ممکن ہے کہ اس غلط فہمی کی وجہ یہ بنی ہو کہ طرفہ کے والد نے دو شادیاں کی تھیں جن میں سےپہلی بیوی کا تعلق قبیلہ بکر سے تھا جس حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئےابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ان العبد كان متزوجا من امراة اخرى بكرية هي ام معبد، غير وردة ام طرفة.19
  بلا شبہ (طرفہ کے والد)عبد نے قبیلہ بکر کی ایک دوسری عورت ام معبد سے بھی شادی کی تھی جو طرفہ کی والدہ وردہ کےعلاوہ کوئی اورعورت تھی۔

ممکن ہے ابن قتیبہ کو اس بنا پر ہی مغالطہ ہوا ہو لیکن حقیقت یہ ہےکہ طرفہ کی والدہ کا تعلق قبیلہ ضبیعہ بن ربیعہ سے تھا نہ کہ طرفہ کے والد کے خاندان سے ۔والد کے خاندان بکر سے تعلق رکھنے والی عورت اس کی سوتیلی ماں ام معبد تھی جس سے اس کا ایک سوتیلا بھائی معبد نامی تھا اور اسی لیے اس کا لقب ام معبد تھا۔

زندگی کی چند جھلکیاں

طرفہ کی کم سنی میں ہی اس کےوالد کی وفات ہوگئی تھی اور اس کے والد کی دوسری بیوی ہی طرفہ کی والدہ تھی۔کم سنی میں ہی والد کی وفات کے بعد ان ماں بیٹے کی زندگیوں میں تکالیف نےگھر کرنا شرو ع کردیا تھا۔انسانی معاشرت میں تو یتیم وبیوہ کی کفالت اکثر طور پر شوہرکے گھر والے ہی کرتے ہیں لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ثابت ہوا کیونکہ طرفہ کے چاچاؤں نے اس کی ماں کا حق وراثت بھی ہڑپ کرلیا تھا۔اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے محقق مہدی محمد ناصر الدین اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  فقد والده في سن مبكرة فنشا يتيم الوالد ينفق بغير حساب فضيق عليه أعمامه ورفضوا أن يعطوه حقه، وجاروا على أمّه، فظلموها حقها ويشير طرفة إلى ذلك في أبيات.20
  طرفہ نے اپنے والد کو کمسنی میں ہی گم پایا تھا جس وجہ سے یہ یتیم ہی پلا بڑا۔والد صاحب تواس پر بے دریغ خرچ کرتے تھے لیکن اس کے چاچاؤں نے اس پر ہاتھ تنگ کیا اور اس کو اس کےحق وراثت سے محروم کردیا نیز اس کی ماں پر بھی زیادتی کی کہ اس کا حق بھی ہڑپ کرلیا۔اس سب کی طرف طرفہ نے اپنے اشعار میں اشارہ کیا ہے۔

ان اشعار میں طرفہ نے اپنے چاچاؤں کے اس رویہ کی مذمت میں اشعار کہے ہیں جن کو نقل کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  وكان أبو طرفة مات وطرفة صغير، فأبى أعمامه أن يقسموا ماله، فقال:
ما تنظرون بمال وردة فيكم
صغر البنون ورهط وردة غيّب
قد يبعث الأمر العظيم صغيره
حتى تظلّ له الدّماء تصبّب
والظّلم فرّق بين حيّى وائل
بكر تساقيھا المنايا تغلب
والصّدق يألفه الكريم المرتجى
والكذب يألفه الدّنىّ الأخيب.21
  طرفہ کے والد طرفہ کی صغر سنی میں ہی فوت ہوگئے تھے تو اس کے چاچاؤں نے اس کے والد کے مال کو ان میں تقسیم کرنے سے منع کردیا تھا۔جس وجہ سے ان کے بارے میں طرفہ نے درج ذیل اشعار کہے:
وردہ کا جو مال تمہارے پاس ہے اسے موخر نہ کرو کہ
اس کے بیٹے چھوٹے ہیں اور وردہ نے پوشیدگی کے بڑے لقمے لےلیے ہیں
ایک عظیم سانحہ اس کے کم سن کو پہنچا ہے
یہاں تک کہ اس کا خون نیچے گرنا شروع ہو گیا
اورظلم نے وائل کی دو وادیوں میں فرق کردیا ہے
بكر نے ان ميں اموات پہنچائی جو غالب ہو گئیں
سچ سے عزت دار اور امید رکھنے والا ہی مانوس ہوتا ہے
جبکہ جھوٹ سے کمینہ اور مردود ہی مانوس ہوتا ہے۔

اس شعر میں طرفہ نے حرب بسوس کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اس کے والدکی وفات کے بعد اس کے چاچاؤں نے اس کی والدہ سمیت اس پر بھی ظلم وستم شروع کردیا تھا کیونکہ اس کی والدہ کو شوہر کی وراثت سے محروم کردیا تھالیکن اس کا خودکا وراثتی مال اس کو بڑا ہونے کےبعد دے دیا گیا تھا اور اس نے وہ مال اپنی عیاشیوں،سیروتفریح اور شراب خوری میں اڑادیا تھا جس کی وضاحت کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  من المعروف أن طرفة أنفق ماله الموروث إنفاق غر جاهل، مقبل على الحياة مستنفد متع اليوم، هاربا من التفكير بغد لايضمن فيه لنفسه شيئا وظل كذلك: ينفق عن سعة والأصدقا يتحلقون حوله، إلى أن افتقر ونفد ماله تلفت حواليه فوجد الأصدقاء يبتعدون والرفاق يتخلون، والأهل الذين كانوا يلومون وينصحون باتوا ناقمين متجنبين لقد غدا وحيدا، وحيدا، فتألم وندت عنه صيحة أسى: ''أفردت إفراد البعير المعبد'' وكانت التجربة قاسية، تركت أثرا عميقا في نفسه، وتجلت في شعره.22
  مشہوربات ہے کہ طرفہ نے اپنے حصہ کے ترکہ کا مال دور جاہلی کی مستی،اپنی زندگی جیتے اور آج کی مستی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے،کل کی فکر سے آزاد ہوکر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیرہی خرچ کیا۔یہ اسی طرح چلتا رہا کہ طرفہ اپنا مال انتہائی فراخ دلی سے خرچ کرتا رہا اور دوستوں کا حلقہ اس کے ارد گرد بندھا رہا یہاں تک کہ یہ فقیر ہوگیا اور اس کا وہ مال جس نے اس کے ارد گرد جھرمٹ بنائے رکھا تھا وہ ختم ہوگیا تو اس نے دیکھا کہ دوست دور ہوتے جارہے ہیں اور ہمنشین ساتھی بھی اکیلا چھوڑتے جارہے ہیں۔گھر والے جو اس کو ملامت اور نصیحت کرتے تھے وہ ہاتھ ملتے رہ گئے اور پرائے ہوگئے جس وجہ سے یہ بالکل اکیلا رہ گیا۔اس صورتحال سے اس کو کافی تکلیف ہوئی اور اس کی مایوسی کی اندرونی چیخ نے زور سے یہ آواز دی کہ تو بالکل اسی طرح اکیلا رہ گیا جیساکہ معبد کا اونٹ اکیلا رہ گیا تھا۔زندگی کا یہ تجربہ کافی زیادہ سخت ثابت ہوا جس نے طرفہ کے دل میں گہرا اثر چھوڑا جو ا س کے اشعار میں واضح جھلکتا ہے۔

اس سب کے باوجود یہ اپنی قوم میں اونچے خاندان کا ہونے کی وجہ سے اعلی مقام و مرتبہ کا حامل تھا لہذا یہ اپنی قوم اور اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی برائی کرنے میں کافی جری تھا چنانچہ ا س طرف درجِ ذیل عبارت سے اشارہ ملتا ہے:

  وكان في حسب من قومه، جريئا على هجائھم وهجاء غيرهم وكانت أخته عند ''عبد عمرو بن بشر بن مرثد''، كان ''عبد عمرو'' سيد اهل زمانه، فشكت أخت طرفة شيئا من أمر زوجها إليه، فقال:
ولا عيب فيه غير أن له غنى
وأن له كشحا إذا قام أهضما
وأن نساء الحي يعكفن حوله
يقلن عسيب من سرارة ملهما. 23
  اور طرفہ اپنی قوم کے اعلی خاندان میں سے تھا اور اس وجہ سے ان کی یا ان کے غیر کی برائی کرنے میں جری تھا۔اس کی بہن عبد عمرو بن بشر بن مرثد کے نکاح میں تھی اور عبد عمرو اپنے زمانہ کا سردار تھا۔ایک مرتبہ اس کی بہن نے اپنے شوہر کے کسی معاملہ کی اس سے شکایت کی تو اس کے بارے میں اس نے کہا:
اس میں کوئی عیب نہیں سوائے اس کے کہ وہ امیر ہے
اور اس کی کمر پتلی ہے کہ جب وہ کھڑا ہوتا ہے تو اندر دھنس جاتی ہے
بستی کی عورتیں اس کے ارد گرد چکر کاٹتی ہیں
اور کہتی ہے کہ (یہ یمن کی)ملہم وادی کے بہترین حصہ کا ٹوٹا ہوا پیڑ ہے۔

یہ اشعار اس نے اپنے بہنوئی کے موٹاپے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہے تھے اور اس کی اس روش سے یہ واضح ہورہا ہے کہ یہ ایک بے پرواہ نوجوان تھا لیکن زمانہ کی مشکلات نے اس کو کافی کچھ سکھا دیا تھا چنانچہ اس کی کم سنی اورا س کے بعد والی زندگی کے حوالہ سے چند جھلکیاں بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی تحریر کرتے ہیں:

  لم يكن طرفة مجرد شاب غرير قال الشعر، وهو يافع، وظل يقوله حتى علق على خشب الصلب، ويد المنية تلتف حول عنقه كذلك لم يكن طرفة مجرد شاعر قتله الشعر في ريعان صباه وهو ابن العشرين ربيعا إنما كان طرفة نموذجا فريدا لتجربة حياتية عميقة، غنية... لقد اشتھر طرفة بمعلقته التي عدت ثاني معلقات الجاهلية أهمية وعرف طرفة بالصورة التي أعطاها عن نفسه في هذه المعلقة، صورة المظلوم يعتب على ظالميه من أهله ويتألم من جفوتھم، في حين لا يريد لهم إلا الخير، ويقدم لهم شعره وسيفه يذودان عنھم ويطعنان في أعدائھم وصورة الشاب المقبل على الحياة يعب منھا وكأنه مع العمر في سباق، أو كأنه استشعر قصر العمر فأحب أن يستغل كل دقيقة منه في استنفاد المتع لكن هذه الصورة تمثل جانبا واحدا من شخصية طرفة.24
  طرفہ محض شعر گوئی کرنے والا ناتجربہ کار جوان نہیں تھا بلکہ وہ کڑیل(و سمجھدار)نوجوان تھا اور اس نے شعر گوئی شروع کردی تھی یہاں تک کہ وہ اپنے خاندانی تختہ(شاعری)اور آرزوؤں کے کاندھوں پر بیٹھ گیا جو اس کی گردن کے گرد لپٹے ہوئے تھے(یعنی اس نے اپنی خاندانی وراثت شاعری ہی کو اپنا مشغلہ حیات بنایا)۔اسی طرح طرفہ جب وہ بیس بہاروں والا تھا(یعنی بیس سال کا تھا تب بھی)محض ایسا شاعر نہیں تھا جسے شعر گوئی نے اس کے لڑکپن کی نشونما کے دنوں میں ہی قتل کردیا تھا بلکہ طرفہ تو عمیق غناءوالی زندگی کے تجربات کا یکتا نمونہ تھا ۔۔۔طرفہ اپنے معلقہ کی وجہ سے مشہور ہوا جو دور جاہلی کے اہم ترین معلقات میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس معلقہ میں اپنی جو صورتحال طرفہ نے بیان کی ہے اس ہی کے ذریعہ سے وہ پہچانا گیا ہے۔یعنی مظلوم صورت جس سے وہ اپنے خاندان میں سے اپنے پر ظلم کرنے والوں کو ملامت کرتا ہے اور ان کی زیادتیوں کی وجہ سے غم و اندوہ کا اظہار کرتا ہے۔اس وقت بھی وہ ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہے اور اپنے اشعارو تلوار ان کے دفاع میں اوران کے دشمنوں پر حملہ کےلیے آگے بڑھاتا ہے۔ ایسے نوجوان کی مثل جو زندگی جینا چاہتا ہے لیکن اس سے نالاں ہے گویا کہ اپنی زندگی سے مقابلہ میں ہے۔یا پھر گویا کہ اس نے زندگی کی قلیل مدتی کو بھانپ لیا تھا تو وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہر لمحہ میں سامان زیست سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں مشغول رہے لیکن طرفہ کی شخصیت کی یہ صورت ایک رخی ہے۔

یعنی طرفہ بن العبداپنی کم سنی میں والد کی وفات کے بعد زندگی کی کئی مشکلات سے دوچار رہا جس میں والدہ پر کیے جانے والے مظالم سے لے کر خود پر تنگدستی و مشقت کے حالات برداشت کرنا شامل ہے لیکن ان سب کے باوجود چونکہ اس کا پورا خاندان شعروشاعری کیاکرتا تھا اور اس نے عربی شاعری میں اپنے خاندان سے وافر حصہ پایا تھا جس وجہ سےیہ بادشاہوں اور سرداروں کامصاحب تک بن گیاتھا۔اس حوالہ سے تاریخ میں یوں مذکور ہے:

  وكان ينادم عمرو بن هند، فأشرفت ذات يوم أخته، فرأى طرفة ظلّها فى الجام الذى فى يده، فقال:
ألا يا بأبى الظّبى الّذى يبرق شنفاه
ولولا الملك القاعد قد ألثمنى فاه
فحقد ذلك عليه .25
  اور طرفہ(حیرہ کے بادشاہ) عمروبن ہندکا ہمنشین تھا ایک دن اس کی بہن اس کے سامنے آئی اور طرفہ نے اس کا سایہ اپنے ہاتھ میں موجود جام میں دیکھا تو یہ شعر کہا:
خبردار اے ہرن کے وہ دو دروازے (یعنی کان)
جن کا بالائی حصہ (زیور کی چمک سے) روشن ہے
اگر بادشاہ بیٹھا نا ہوتا
تو وہ مجھے اپنا منہ کا بوسہ ضرور دیتا
پس بادشاہ اس معاملہ کی وجہ سے اس سے ناراض ہوگیا۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ طرفہ بن العبد کا لڑکپن و جوانی کئی مشکلا ت کاسامنا کرتے گزری تھی لیکن یہ خاندانی وراثت کی وجہ سے اپنی جوانی کے ابتدائی دنوں میں ہی زندگی کی کئی بلندیاں عبور کرچکا تھا جس کا سبب بھی اس پر کئے گئےمظالم تھےچنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ومات أبوه وهو وصغير، وأكل أعمامه ماله، وأبوا تقسيمه، فهجاهم، واشتھر بمعلقته التي عاتب فيھا ابن عمه ''مالكا ''لأنه لم يعن أخاه ''معبدا ''في جمع شتات إبله.26
  اس کی صغر سنی ہی میں اس کے والد فوت ہوگئے تھے،اس کے چچاؤں نے اس کی وراثت کا مال ہڑپ لیا تھا اور اس کی تقسیم سے انکار کردیا تھا جس وجہ سے اس نے اپنے چچاؤں کی برائی کی اوریوں یہ اپنے اس معلقہ سے مشہور ہوگیا جس میں اس نے اپنے چاچا کے بیٹے مالک کو سرزنش کی ہے کیونکہ اس نے اس کے بھائی معبد کی اس کے منتشر اونٹوں کو جمع کرنے میں مدد نہیں کی تھی۔

اگرچہ کہ ڈاکٹر جواد نے مالک کی برائی کرنے کی وجہ درست بتائی ہے لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ طرفہ نے مدد اپنے بھائی کے لیے مانگی تھی ۔درحقیقت طرفہ نے مدد اپنے لیے مانگی تھی چنانچہ طرفہ کے اپنے چچازاد بھائی سے مدد مانگنے کے واقعہ کی مکمل تفصیل بیان کرتے ہوئے محمد ناصر الدین تحریر کرتے ہیں:

  عاد طرفة إلى أهله لايلوي على شيء ولا يملك شروى نقير فحمله أخوه معبد بن العبد على رعاية إبله فأهملها فأنبه أخوه وقال له: (تُرى إن أخذت تردها بشعرك هذا؟) فقال طرفة: (لا أخرج حتى تعلم أن شعري يردّها) فلجأ طرفة ألى ابن عمه مالك ليعينه على استرجاعها من آخذيھا، وكانوا قوماً من مُضر فانتھره مالك بعنف فتألم الشاعر ونظم معلقته واصفاً حالته وجور أهله عليه.27
  اور طرفہ اپنے گھر والوں کی طرف کسی چیز کی طرف متوجہ ہوئے بغیر واپس لوٹا کیونکہ وہ معمولی سی چیزکا بھی مالک نہیں تھا پس اس کے بھائی معبد بن العبد نے اسے اونٹو ں کے چرانے کے لیے رکھ لیا ۔اس نے اس میں کوتاہی برتی تو معبد نے اپنے بھائی کو تنبیہ کی اور اس سے کہا کہ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی اونٹ چرالیا گیا تو تو اپنے ان اشعار سے وہ واپس کرسکتا ہے۔اس کے جواب میں طرفہ نے کہا کہ میں کہیں نہیں جاؤنگا یہاں تک کہ تو سمجھ جائے کہ میرے اشعار نے ہی اونٹ واپس لوٹایا ہے ۔ پس( اونٹ کے اٹھائے جانے کےبعد) طرفہ نے اپنے چچا زاد بھائی مالک سے منت سماجت کی کہ وہ اونٹ کو لینے والے سےاسے واپس دلوانے میں ا س کی مدد کرے جبکہ لینے والے مضر قوم سے تھے تو اس نے طرفہ کو شدت کے ساتھ جھڑکا جس سے شاعر (طرفہ )کو سخت تکلیف ہوئی اور اس نے اپنا (قصیدہ)معلقہ نظم کیا جس میں اپنی بے مائیگی کی حالت کو اور اس پر خاندان والوں کے ظلم وستم کو بیان کیا۔

اگرچہ کہ طرفہ کا بھائی معبد اس کا سوتیلا بھائی تھا لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے سوتیلے بھائی ہونے کی وجہ سے بھی طرفہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کو الٹا ذلیل کیاکہ تیرے اشعار میری نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔معبد کاطرفہ کے ساتھ اس نارواسلوک کی فقط ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ طرفہ کی والدہ کسی اور قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی جبکہ معبد اپنی والدہ کی طرف سے بھی قبیلہ بکر سے ہی تعلق رکھتا تھا اور ا س دوہرے تعلق نے اس کو معاشرہ میں اونچا مقام دلایا تھا۔معاشرہ کے اسی امتیاز اور طرفہ کی مشکلات دونوں نے مل کر طرفہ کو اپنے ہی سوتیلے بھائی کے اونٹ تک چرانے کے لیے مجبور کردیا تھا۔ ابن قتیبہ یہ بات بیان کرنے کے بعد کہ طرفہ کی والدہ غیر قبیلہ کی تھی اور معبد کی والدہ قبیلہ کی تھی،معبد کے طرفہ سے اس نارواسلوک کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  فإن تمييزًا في المعاملة، لا شك واقع بين طرفة وأخيه: فهذا بالنسبة إلى البكريين هو أصيل الجذرين، وبصفته الولد البكر يستقطب العناية ويكون له نوع من السلطة على الأخ الصغير. والواقع أن طرفة، حين احتاج إلى مساعدة معبد أخيه لم يبادر هذا إلى تقديم مساعدة عفوية، بل عرض عليه عملًا عنده وهو عمل غير ذي شأن ولا بمستوى طموح الشاعر، بل إنه أقرب إلى عمل السوقة والخدم والخاملين، نقصد به رعي الإبل. وحين أحس معبد من أخيه تقصيرًا في رعاية إبله، وانشغالًا عنھا بالركض خلف القوافي الشاردة، قرعه وأنبه وهدده بأنه لن يتھاون معه إذا فقدت الإبل، وأن الشعر لن تكون له أدنى شفاعة عنده. وحين فقدت الإبل، لم يتھاون معبد مع الشاعر، بل حقق فعلًا تھديده وتطلب إعادة إبله بأية وسيلة: لم يرق، ولم يسامح كما يفعل الأخ، ولم يقدم قط مساعدة بل بقي متفرجًا مع المتفرجين منتظرًا شأن الأغراب البعداء. ووجد طرفة نفسه يدق الأبواب ويسعى إلى باب كل جواد كريم من عائلته طلبًا لعون، ولا عون. ليس إلا اللوم والتقريع والتھرب. ويجد طرفة نفسه مرة أخرى فريسة للأسى والتخلي، ويأسف على أنه لم يكن من ذوي اليسار ولا من السادة الكثيري الخير، الكثيري الولد، ويتمنى لو أنه كان قيس بن خالد أو عمرو بن مرثد. ويسمع السيدان الكريمان بالأمنية، فيعدانھا مدحًا يتوجب عليھما إثابته فيثيبان. هكذا.28
  اور (طرفہ و معبد کے باہمی)معاملات میں امتیاز رکھنا لا محالہ طرفہ اور اس کے بھائی کے درمیان حائل ہوگیا۔۔۔اور معبد کا چھوٹے بھائی پرایک قسم کا تسلط ہوگیا اور حقیقی طور پر بھی (ایسا ہی تھا)کہ جب طرفہ اپنے بھائی معبد کی مدد کا محتاج ہوا تو اس بھائی نے پاکیزہ و شفاف مدد کی طرف قدم نہیں اٹھایا بلکہ اپنا ایک کام کرنے کی اس کو پیشکش کی جو کام درحقیقت عظیم الشان نہیں تھا اور نہ ہی شاعر کے بلند مقام کے لیے موزوں تھا بلکہ وہ کام تو بازاری لوگ،خادمین اور بے وقوفوں کے کرنے کے لائق تھا۔ہماری اس کام سے مراد معبد کے ذاتی اونٹ چرانا ہے اور جب معبد نے اپنے بھائی کی اس کے اونٹوں کی دیکھ بھال میں کمی کوتاہی اوربھاگنے والے اونٹ کی گردن کے پیچھے دوڑ لگانے سے اعراض محسوس کیا تومعبد نے طرفہ کو اس سے روکا،تنبیہ کی اور ڈانٹا کہ وہ اس کی ہرگز مدد نہیں کرےگا اگر اس نے اونٹ کو گم کردیا اور طرفہ کے اشعار معبد کے نزدیک اس کی ذراسی بھی شفاعت نہیں کرسکیں گے۔جب طرفہ نے اونٹ گم پایا تو معبد نے شاعر کے ساتھ ذرا بھی نرمی نہیں برتی بلکہ اس نے اپنی ڈانٹ ڈپٹ کوصحیح کردکھایا اور کسی بھی طریقہ سے اپنا اونٹ واپس کرنے کا مطالبہ کردیا، نہ ہی ترس کھایا نہ ہی اسے معاف کیا جیساکہ بھائی کیا کرتے ہیں اور نہ ہی مدد کرنے کے لیے ذرا سا قدم بڑھایا بلکہ تماشہ دیکھنے والوں کے ساتھ خود بھی تماشائی بنا رہا بالکل اجنبیوں کی طرح۔طرفہ نے اپنے آ پ کو اس حال میں پایا کہ اس نےہر دروازہ کھٹکھٹایا اوراپنے خاندان کے ہر عزت دار سخی کے دروازہ کی طرف مدد مانگے کےلیے دوڑا۔کہیں سے کوئی مدد نہیں ہوئی سوائے ملامت،لعن طعن سے تکلیف دینے اور دھتکارنے کے۔طرفہ نے دوسری بار مایوسی اور خالی ہاتھ کی اذیت کو محسوس کیا اور اس نےاس پر افسوس کیا کہ وہ خوشحال،کثیر مال والے سردار اورکثیر اولاد والے اشخاص میں سے نہیں ہے۔ وہ یہ تمنا کرنے لگا کہ کاش وہ قیس بن خالد یا عمرو بن مرثد(کی طرح امیر)ہوتا۔ان دونوں شریف سرداروں نے اس کی آرزو کو سنا تو اس تعریف وستائش کے بدلےمیں اس کو مدد کی امید دلائی جس سے ان دونوں پر اونٹ کا لوٹانالازم ہوگیاپس انہوں نے اونٹ لوٹا بھی دیا۔

معبد کے طرفہ کا بڑا بھائی ہونے کے باوجود مذکورہ رویہ کا بنیادی سبب یہ تھا کہ معبد کی والد ہ بکر قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی جبکہ طرفہ کی والدہ دوسرے قبیلہ کی تھی اور اس بنیادی سبب کی وجہ سے ان دونوں میں ہر لحاظ سے ہی فرق برتا گیا جو آگے چل کر معبد کے طرفہ پر گونہ گو تسلط پر منتج ہوا اور یوں طرفہ اپنے ہی بھائی کی بے رخی و بے اعتنائی اور اجنبی پن کا شکار ہو گیاجس سے اس کے دل کو کافی ٹھیس بھی پہنچی اور یہ دل شکستہ ہوا لیکن جب اس نے قیس اور عمرو کی مدح کی تو انہوں نے اسے بہت نوازا جس سے اس نے اپنے بھائی معبد کے نقصان کو بھی پور ا کردیا چنانچہ اس واقعہ کو بمع تفصیلات نقل کرتے ہوئےمحمد ناصر الدین تحریر کرتے ہیں:

  وذكر فيھا سيدين من أقربائه فمدحهما بكثرة المال والولد وقال:
فلو شاء ربي كنت قيس بن خالدٍ
ولو شاء ربي كنت عمرو بن مرشدِ
فأصبحت ذا مالٍ كثيرٍ وزارني
بنون كرامٌ، سادةٌ لمسوّدِ
فدعاه أحدهما عمرو وكان له سبعة أولادٍ فأمرهم فدفع كل واحدٍ إلى طرفة عشرة من الإبل ثم أمر ثلاثة من أبناء بنيه فدفعوا له مثل ذلك فردّ إبل أخيه وقد ردّها بشعره كما قال، وأقام ينفق من الباقي حتى نفد.29
  اور طرفہ نے اپنے معلقہ میں اپنے قریبی دو سرداروں کاذکر کیا ہے جن دونوں کی اس نے مال واولاد کی کثرت کی بنا پر تعریف کرتے ہوئے کہا:اگر میرا رب چاہتا تو میں قیس بن خالد ہوتا اور اگر میرا رب چاہتا تو میں عمرو بن مرثد ہوتا۔یوں میں کثیر مال وزر والاہوتا اور میری زیارت باعزت بیٹے کرتے جو دلیروں کےسردار ہیں ۔پھر طرفہ کو ان دونوں میں سے عمر و نے بلایا اور اس کے ساتھ بچے تھے تو اس نے ان سب کو انعام دینےکا حکم دیا تو ہر ایک نے طرفہ کو دس دس اونٹ دیے پھر اپنے تین پوتوں کو بلایا تو انہوں نے بھی طرفہ کو اتنے ہی اونٹ دیے۔پس طرفہ نے اپنے بھائی کا اونٹ بھی اسے واپس کردیا اور اپنے اشعار ہی کے سبب اس نے اونٹ واپس کیے جیساکہ اس نےکہا تھا۔باقی مال کو اس نے بے دریغ خرچ کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا۔

طرفہ اپنے حالات اور گھر والوں کے ظلم وستم کی وجہ سے ایک بے پرواہ نوجوان کی طرح ہوگیا تھا جس کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہوتاتھا یعنی سامان زیست کے ہر لمحہ سے تفریح و سرور حاصل کرنا اور کل کی فکر سے یکسر آزاد ہوکرحال ہی میں اپنی تمام تر جمع پونجی خرچ کر کے خالی ہاتھ ہوجانا چنانچہ طرفہ کی اس حالت کا مذکورہ بالا واقعہ میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور اس واقعہ کے تذکرہ کے بعد ابو عبد اللہ زوزونی بھی درج ذیل الفاظ میں طرفہ کی اسی حالت کو نقل کرتے ہوئےتحریر کرتے ہیں:

  ابتسم الحظ لطرفة إذ وجد من يقبض عملة الشعر ويقايضها بالإبل، فخامره الزهو بموهبته الشعرية إذ غدت رأسمالا مؤكد الربح رد الإبل لمعبد وبقي له منها ما يغذي مرحلة جديدة من اللهو والإنفاق والتبذير، إلى أن يفتقر.30
  اس طرح طرفہ کی خوش قسمتی مسکرائی کیونکہ اس نے ان کو پالیا تھا جن سے فنِ شاعری کا حق وصول کرسکتا تھا اور اونٹ کےبدلے اس فن کا تبادلہ کرسکتا تھا۔ پس اس کو شعر گوئی کے انعامات کے سبب غروروتکبر نے دھت کردیا کیونکہ اس کا اصلی مال لازمی نفع مند ثابت ہوگیا تھا۔اس نے معبد کو اونٹ لوٹایا اور اس حاصل شدہ مال سے اس کے لیے اتنا بچا جس سے نئےانداز سے کھیل کود،خرچ کرنے اور بے دریغ خرچ کرنے سے غذا حاصل کرسکے یہاں تک کہ پھر دوبارہ فقیر ہوجائے۔

اس تمام تفصیل سے واضح ہوا کہ طرفہ کا لڑکپن وجوانی جن حالات میں اور جس طرح کی تربیت میں گزرا اس نے طرفہ کو ایک بے پرواہ اور کل کی فکر سے آزاد منش انسان کی طرح پروان چڑھایا کیونکہ اس نے اپنے والد کی زندگی میں نازونعم میں پرورش پائی تھی جبکہ والد کی وفات نے اس کو کوڑی کوڑی کا محتاج بنادیا تھا31جس وجہ سے یہ بے راہ روی کی طرف چل نکلاسوائے اس کے کہ طرفہ اپنی خاندانی وراثت یعنی فن شاعری میں ید طولیٰ کا حامل ہونے کی بنا پر کچھ نا کچھ ہمدردیاں اور محبتیں سمیٹ سکا لیکن وہ بھی اس نے اپنی جوانی کی مستیوں میں برباد کردی۔

شاعری کی ابتداء

طرفہ کی شاعری کی ابتداء کا منقول واقعہ بھی عجیب ودلچسپ ہے اورا س واقعہ سے اس بات کااظہار بھی ہوتا ہے کہ طرفہ بن العبد شاعری میں خاندانی صلاحیتوں کا مالک تھاچنانچہ طرفہ کی شاعری کی ابتداء کیسے ہوئی ؟اس سوال کا جواب درج ذیل عبارت سے ملتاہے:

  ويقال إن أوّل شعر قاله طرفة أنّه خرج مع عمّه فى سفر، فنصب فخّا، فلمّا أراد الرحيل قال:
يالك من قبّرة بمعمر
خلا لك الجوّ فبيضى واصفرى
ونقّرى ما شئت أن تنقّرى
قد رفع الفخّ فماذا تحذرى
لا بدّ يوما أن تصادى فاصبرى.32
  اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلا شعر طرفہ نے اس وقت کہا جب یہ اپنے چچا کے ساتھ کسی سفر میں گیا اور( چنڈول پرندہ کےشکار کے لیے)ایک گھات لگائی(پروہ نہیں پھنسا)پھرجب وہ وہاں سے کوچ کرنے لگا تو اس نے کہا:
(مقام)معمر پر اے چنڈول پرندہ
تیرے لیے فضاء خالی ہے پس تو
انڈے دے اور آزاد ہوجا
جہاں انڈے رکھنا چاہے وہاں انڈے رکھ دے
تحقیق گھات تو ہٹادی گئی ہے
تو اب کس لیے تو ڈر رہی ہے
البتہ لازمی بات ہے کہ ایک دن تو ضرور شکار کرلی جائے گی تو اس وقت تک صبر کرلے۔

ان مذکورہ اشعار سے معلوم ہوا کہ جس دوران طرفہ بن العبد پرندوں کے شکار کےلیے گھات لگاتا تھا اسی عمر میں اس نے ایک مرتبہ فی البدیہ یہ اشعار کہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں اپنی خاندانی وراثت یعنی فن شاعری درجہ کمال تک موجود تھا جس کا پہلی مرتبہ اظہار اس کی کم سنی میں ہوا۔

شاعری میں مقام ومرتبہ

طرفہ بن العبد کا شاعری میں مقام ومرتبہ مسلّمہ ہے اور یہی وجہ ہےکہ صاحب خزانۃ الادب نے طرفہ بن العبد کا مقام ومرتبہ امراؤالقیس کے بعد ذکر کیا ہے ۔اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وهو أشعر الشعراء بعد امرء القيس ومرتبته ثاني مرتبة ولهذا ثني بمعلقته وقال الشعر صغيراقال ابن قتيبة: هو أجود الشعراء قصيدة وله بعد المعلقة شعر حسن وليس عند الرواة من شعره وشعر عبيد إلا القليل.33
  اور طرفہ امرؤالقیس کے بعد سب سے بڑا شاعر ہے اور اس کا مرتبہ ثانوی ہے اسی وجہ سے اس کے معلّقہ کا نمبر بھی دوسرا ہے۔یہ کم سنی کی حالت میں شعر گوئی کیا کرتا تھا۔ابن قتیبہ نے کہا ہے کہ یہ قصیدہ کہنے کے لحاظ سے سب سے بہترین شاعر تھا اور اس کے معلّقہ کے بعد چند بہترین اشعار بھی منقول ہیں جبکہ راویوں کے ہاں اس کے اور عبید کے اشعار میں سے بہت کم اشعار ہی مروی ہیں۔

طرفہ کے اسی مقام ومرتبہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں لبید کی طرفہ کے بارے میں رائے نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  قال أبو عبيدة: مرّ لبيد بمجلس لنھد بالكوفة، وهو يتوكّأ على عصا، فلمّا جاوز أمروا فتى منھم أن يلحقه فيسأله: من أشعر العرب؟ ففعل، فقال له لبيد: الملك الضلّيل، يعنى أمرأ القيس، فرجع فأخبرهم، قالوا: ألّا سألته: ثم من؟ فرجع فسأله، فقال: ابن العشرين، يعنى طرفة، فلما رجع قالوا: ليتك كنت سألته: ثم من؟ فرجع فسأله، فقال: صاحب المحجن، يعنى نفسه قال أبو عبيدة: طرفة أجودهم واحدة، ولا يلحق بالبحور،يعنى امرأ القيس وزهيرا والنابغة، ولكنّه يوضع مع أصحابه، الحارث بن حلّزة وعمرو ابن كلثوم وسويد بن أبى كاهل.34
  ابو عبیدہ نے کہا کہ کوفہ کے مقام نہد کی ایک مجلس کےپاس سے لبید گزرا جو عصا پر ٹیک لگایا ہوا تھا۔جب وہ آگے نکل گیا تو اہل مجلس نے اپنےکسی نوجوان کو اس سے جا کر ملنے اور یہ سوال کرنے کا کہا کہ اہل عرب کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ا س نوجوان نے ایسا ہی کیا تو اس سے لبید نے کہا کہ الملک الضلیل (یعنی بگڑا نواب)ہے۔اس نوجوان نے واپس پلٹ کر اہل مجلس کو اس کی خبر دے دی تو انہوں نے کہا کہ پھر تو نے اس سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ پھر اس کے بعد کون ہے؟وہ نوجوان لبید کے پاس دوبارہ گیا اور اس سے یہی سوال پوچھا تو لبیدنے کہا:ابن العشرین یعنی طرفہ۔پھر جب وہ نوجوان واپس پلٹا تو اہل مجلس نے کہا کہ کاش تو اس سے سوال کرتا کہ پھرکون ہے؟پھر وہ نوجوا ن واپس گیا اور دوبارہ سوال کیا تو لبیدنے کہا کہ پھر صاحب المحجن یعنی وہ خود ہے۔ابو عبیدہ نے کہا طرفہ فقط ایک نظم میں(یعنی اپنے معلقہ میں) تو ان سب سے بہترین ہے لیکن بحروں(شاعری کا ایک وزن )میں یہ ملحق نہیں ہے یعنی امرؤالقیس،زہیر اور نابغہ ذیبانی کے برابر نہیں ہے لیکن ان کے دیگر ساتھیوں حارث بن حلّزہ،عمروابن کلثوم اور سوید بن ابی کاہل کے ساتھ شامل کیا جاسکتا ہے۔

اسی حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  أما طرفة فيقول ابن سلام إنه أشعر الناس واحدة وهى قوله:
لخولة أطلال ببرقة ثھمد
وقفت بھا أبكى وأبكى إلى الغد
وفيھا أبدع فى وصف ناقته، إذ لم يترك فيھا صغيرة ولا كبيرة إلا رسمھا، وكأنه يريد أن ينحت لها تمثالا، لا يغادر ذاكرة الجاهليين. والتصوير والحكمة جميعا يتداخلان فى شعره، وهو من هذه الناحية يشبه النابغة وزهيرا،على أنھما يتقدمانه ويفضلانه وأيضا فإنه مقل والأسطورة تجرى فى أخباره.35
  ابن سلام نے طرفہ کے بارے میں کہا کہ بہرحال یہ فقط ایک معلقہ میں ہی سب سے بہترین شاعر ہے اور وہ اس کا یہ قصیدہ ہے:
ثہمد کی پتھریلی زمین میں خولہ کے گھر کےوہ نشانات ہیں
جہاں میں کھڑا رورہاہوں اور کل تک روتا رہوں گا
اس معلّقہ میں اس نے اپنی اونٹنی کے اوصاف بیان کرنے میں جدّت اختیار کی کیونکہ اس کی چھوٹی بڑی ہر خوبی کو اس نے واضح کیا گویا کہ اس نے اس کی مثل تراشنے کا ارادہ کیا ہوا ہو۔دور جاہلی کے تذکروں کو بھی اس نے نہیں چھوڑا کیونکہ تصویر اور حکمت یہ دونوں ہی اشعار میں شامل ہیں۔یہ اس پہلو سے نابغہ اور زہیر کے مشابہ ہے باوجود اس کے کہ وہ دونوں اس پر فوقیت و فضیلت رکھتے ہیں اور اس لیے بھی کہ طرفہ مقللین(یعنی کم گو شاعر یا جس کی شاعری کم ہی نقل کی گئی ہو)میں سے ہے اور تذکروں میں تو بے سروپا قصے چلتے ہی ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لبید سمیت دیگر کئی ادباء کے نزدیک بھی طرفہ کا مقام ومرتبہ امراؤالقیس کے بعد ہے اور بنا بر احتیاط بھی یہ قول اپنی جگہ مسلم ہے کہ طرفہ اگر شعراء کے پہلے طبقہ میں شامل نہ بھی ہو لیکن دیگر اصحاب المعلقات سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہے۔

قصیدہ معلّقہ

طرفہ کی شہرت اور لوگوں میں اس کی پذیرائی اس کی جوانی کی عمر میں ہی ہوگئی تھی جس کا سبب اس کی ذہانت وفطانت کے ساتھ ساتھ اس کی شعر گوئی کی مہارت تھی اور اس کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ اس کا کہا گیا معلّقہ ہے جو اس نے اپنے بھائی معبد کے اونٹ کھو جانے پر اپنے چچا زاد بھائی مالک سے مدد مانگنے پر اس کی طرف سے کیے گئے سخت ترین حقارت آمیز لہجے کی مذمت میں لکھا تھا۔36اس معلقہ کی ابتداء میں اس نے اپنی محبوبہ کے حسن وجمال کو انتہائی دلنشین انداز سے بیان کیا جس کے چند ابتدائی اشعار یہ ہیں:

  لخولة أطلال ببرقة ثھمد
تلوح كباقي الوشم في ظاهر اليد
وقوفا بھا صحبي علي مطيھم
يقولون: لا تھلك أسى وتجلد
كأن حدوج المالكية غدوة
خلايا سفين بالنواصف من دد
عدولية أو من سفين ابن يامن
يجور بھا الملاح طورا ويھتدي
يشق حباب الماء حيزومها بھا
كما قسم الترب المفايل باليد .37
  ثہمد کی پتھریلی زمین میں خولہ کے گھر کےوہ نشانات ہیں جوہاتھ کی پشت پر گودھنے کے باقی ماندہ نشان کی طرح چمک رہے ہیں۔(اس طرح کہ) میرے احباب میری وجہ سے ان کھنڈرات میں اپنی سواریوں کو تھامے ہوئے کہہ رہے تھے کہ غمِ فراق سے ہلاک نہ ہو اور صبر و ہمت سے کام لے۔(کوچ کی) صبح کو محبوبہ مالکیہ کے کجاوے دَد کے وسیع اطراف میں گویا کہ بڑی بڑی کشتیاں تھیں۔(وہ کشتیاں) عدولی ہیں یا ابن یامن کی (بنائی ہوئی) کشتیوں میں سے ہیں کہ ان کو ملاح کبھی ٹیڑھا لے جاتا ہے اور کبھی سیدھا۔اس کشتی کا سینہ پانی کی لہروں کو اس طرح پھاڑ رہا ہے جس طرح کوڑی چھپول کھیلنے والا (بچہ) مٹی کو ہاتھ سے (دو حصوں میں) تقسیم کرتا ہے۔

پھر اس کے بعد اس نے اپنے چچا زاد بھائی سے مدد مانگنے پر ہونے والی ذلت وحقارت آمیز لہجے کی مذمت بیان کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں:

  فما لي أراني وابن عمي مالكا
متى أدن منه ينأ عني ويبعد
يلوم وما أدري علام يلومني
كما لامني في الحي قرط بن معبد
وأيأسني من كل خير طلبته
كأنا وضعناه إلى رمس ملحد
على غير ذنب قلته، غير أنني
نشدت فلم أغفل حمولة معبد
وقربت بالقربى، وجدك إنني
متى يك أمر للنكيثة أشھد
وإن أدع للجلى أكن من حماتھا
وإن يأتك الأعداء بالجهد أجهد
وإن يقذفوا بالقذع عرضك أسقهم
بكأس حياض الموت قبل التھدد
بلا حدث أحدثته، وكمحدث
هجائي وقذفي بالشكاة ومطردي
فلو كان مولاي امرءا هو غيره
لفرج كربي أو لأنظرني غدي. 38
  پس مجھے کیا ہو گا کہ اپنے آپ کو اور اپنے چچازاد بھائی مالک کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ میں جتنا اس سے قریب ہوتا ہوں اسی قدر وہ مجھ سے الگ ہو تا اور دور بھاگتا ہے۔وہ (مالک) مجھے ملامت کرتا رہتا ہے جیسا کہ (ایک مرتبہ)معبد کے بیٹے قرط نے قبیلہ میں مجھ کو ملامت کی تھی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کس بناء پر مجھے ملامت کرتا ہے۔اُس (مالک) نے ہر اس بھلائی سے مجھے مایوس کر دیا جو میں نے اس سے چاہی تو گویا کہ ہم نے اسے مردے کی قبر میں دفن کر دیا۔بنا کسی بات کے جو میں نے اس کو کہی ہو (وہ مجھے ملامت کرتا ہے) لیکن میں نے (اپنے بھائی) معبد کے اونٹ ڈھو دیے اور انہیں بے نشان نہ چھوڑا۔(اگرچہ رشتہ دار مجھ سے دور بھاگے)میں پھر بھی رشتہ داریوں کی وجہ سے پاس لگا رہا تیرے سر کی قسم (تجھ سے بھی قطعِ تعلق منظور نہیں) جب کوئی سخت کوشش کرنے کی بات (پیش) آئے گی،میں حاضر ہوں گا۔اگر میں کسی بڑی مصیبت کے وقت بلایا جاؤں گا تو میں اس (تیرے حرمِ سرا) کے محافظوں میں سے ہوں گا اور اگر تیرے اوپر دشمن چڑھ آئیں گے تو ان کے مقابلہ میں (تیری جانب سے موافقت کرتے ہوئے) پوری کوشش کروں گا۔اگر وہ (دشمن) تیری آبرو پر فحش کاری کا دھبہ لگائیں گے تو ڈرانے دھمکانے سے قبل ہی میں ان کو موت کے حوضوں کا پیالہ پلا دوں گا (یعنی دھمکی سے قبل ہی ان کو مار ڈالوں گا)۔(مالک کا) میری برائی کرنا اور مجھے شکایت کا نشانہ بنانا اور دھکے دینا بدون کسی بات کے ہے جو میں نے کی ہو اور ہے مثل خطاکار کے (ساتھ طرزِ عمل کے)۔اگر میرا چچا زاد بھائی اس کے علاوہ کوئی دوسرا ہوتا تو وہ میری مصیبت دور کرتا یا (کم از کم) مجھے کل تک کی مہلت دیتا۔

یہی وہ معلّقہ ہے جس میں اس نے اپنی زندگی کے مشکل ترین حالات کو بھی بیان کیا ہے اور اس پر ہونے والے مظالم کو بھی اس نےاس میں اجاگر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کئی مشکلات کے سبب یہ نڈر اور بے باک ہوگیا تھا اور بے راہ روی کا شکار بھی۔

فصاحت وبلاغت

طرفہ شروع سے ہی فصاحت و بلاغت میں کافی بلند تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کے جوانی میں کہے گئے معلّقہ کو امراؤالقیس کے معلقہ کے بعد دوسرا مقام دیا گیا ہے۔اس کی فصاحت وبلاغت کا اندازہ ویسے تو اس کے معلقہ سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے البتہ یہاں مثال کے طور پراس کے لڑکپن کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوجائےگا کہ اس کی فصاحت وبلاغت اور زبان دانی کا معیار کیا تھا۔اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے صاحب القاموس اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وأنشد المسيب بن علس بين يدي عمرو بن هند:
وقد أتلافى الهم عند احتضاره
ناج عليه الصيعرية مكدم
وطرفة بن العبد حاضر، وهو غلام فقال: استنوق الجمل، وذلك لأن الصيعرية من سمات النوق دون الفحول، فغضب المسيب، وقال: ليقتلنه لسانه، فكان كما تفرس فيه، يضرب للرجل يكون في حديث، ثم يخلطه بغيره وينتقل إليه.39
  مسیب بن علس نے عمروبن ہند کے سامنے ایک دفعہ یہ شعر گنگنایا:
میں اس کےایسے اونٹ پر حاضر ہونے کے وقت اپنے تمام غم بھلادیتا ہوں
جس اونٹ پر سخت نشانی لگی ہوئی ہے
اس وقت طرفہ بن العبد بھی حاضر تھا اور وہ لڑکا ہی تھا تو اس نے بر ملا کہا کہ تم اونٹ کو اونٹنی بنانا چاہتے ہو؟یہ اس نے اس لیے کہا کیونکہ صیعریہ (یعنی نشانی) اونٹنیوں کے ساتھ خاص تھی نہ کہ اونٹوں کے ساتھ۔اس پر مسیب غصہ ہوگیا اور ا س نے کہا اس کو اس کی زبان قتل کردے گی۔ پس وہی ہوا جس کااس نے اندازہ لگایا تھا۔یہ جملہ پھر ہر اس آدمی کے لیے بولا جانے لگا جو کسی موضوع پر بات کرتے کرتے دوسرے موضوع کو اس میں شامل کردے اور پھر دوبارہ پہلے کی طرف چلاجائے۔

اسی واقعہ کو محمد ناصر الدین نے طرفہ کے ماموں متلمس کے حوالہ سے بیان کیا ہے جس میں طرفہ کے برملا جملہ کے جواب میں اس کا ماموں متلمس کہتا ہے:

  ويل لهذا الفتى من لسانه وقد صحت مقولة المتلمس فيه فقد جنى عليه لسانه وأودى به إلى القتل.40
  اس لڑکے کے لیے اس کی زبان کی وجہ سے تباہی وبربادی ہےا ور متلمس کا اس کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ثابت ہوا کہ پس تحقیق اس کی زبان نے اس پر زیادتی کی اوراسے قتل ہونے تک پہنچایا۔

اور اسوقت میں کہے گئے اشعار اس کی زندگی بھر کے تمام اشعار پر فوقیت رکھتے ہیں چنانچہ جاحظ اپنی کتاب میں اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  وليس في الأرض أعجب من طرفة بن العبد وعبد يغوث، وذلك أنا إذا قسنا جودة أشعارهما في وقت أحاطة الموت بھما لم تكن دون سائر أشعارهما في حال الأمن والرفاهية.41
  روئے زمین پر طرفہ بن العبد اور عبد یغوث سے بڑھ کر کوئی عجوبہ نہیں ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ جب ہم ان دونوں کی موت کے وقت کہے گئے اشعار کی بلندی و حسن کا اندازہ کریں تو اس مرتبہ ومقام کے یہ شعر باقی زندگی کے امن وسکون والے تمام اشعار سے فائق و بالا ہیں۔

اس تفصیل سے اندازہ ہوا کہ بڑے سے بڑے فرد کے روبرو طرفہ کا اس کو برملا ٹوکنا یہ اس بات کی دلیل تھی کہ یہ اپنی زبان دانی میں کافی ماہر اور بے باک تھا جس کا لازمی نتیجہ تباہی وبربادی ہی تھا اور حقیقت میں طرفہ کے ساتھ پھر ایسا ہی ہوا کہ اس کی اسی زبان دانی نے اسے موت کے گھاٹ اتروایا۔

جوانی میں قتل

طرفہ کی اسی زبان دانی اور بے باکی نے زندگی کے کئی موقعوں پر اپنے بگڑے تیور دکھائے جو آگے چل کر بالآخر اس کے قتل پر منتج ہوئے چنانچہ جب اس نے اپنی بہن کی شکایت کی وجہ سے اپنے بہنوئی کے موٹاپے کا مذاق اڑایا تو یہ اشعار دور دراز تک پہنچے یہاں تک کہ عمر و بن ہند کے پاس بھی اس کی خبر پہنچی۔ایک مرتبہ اس کا بہنوئی عمر و بن ہند کے ساتھ شکارپہ تھا اور وہاں ایک واقعہ پیش آیا جس وجہ سے طرفہ کے قتل کی پیش رفت شروع ہوئی چنانچہ تاریخ میں اس حوالہ سے یوں مذکور ہے:

  فخرج يتصيّد ومعه عبد عمرو، فأصاب حمارا فعقره، وقال لعبد عمرو: انزل إليه، فنزل إليه فأعياه، فضحك عمرو بن هند وقال: لقد أبصرك طرفة حين قال: «ولا عيب» البيت! وكان عمرو بن هند شريرا، وكان طرفة قال له قبل ذلك:
ليت لنا مكان الملك عمرو
رغوثا حول قبّتنا تخور
فقال عبد عمرو: أبيت اللعن،الذى قال فيك أشدّ مما قال فىّ، قال:
وقد بلغ من أمره هذه؟ قال: نعم، فأرسل إليه، وكتب له إلى عامله بالبحرين فقتله... ويقال إنّ الذى قتله المعلّى بن حنش العبدىّ، والذى تولّى قتله بيده معاوية بن مرّة الأيفلىّ حىّ من طسم وجديس.42
  پس عمر و بن ہند شکار پہ نکلا اور اس کے ساتھ عبد عمرو بھی تھا کہ اس نے گدھے کا شکار کیا اور اس کو پاؤں کی طرف سے زخمی کردیا اور عبد عمرو سے کہا کہ اس کے پاس جاؤ۔عبد عمرواس کے پاس گیا تو اس نے اسے کافی تھکادیا جس وجہ سے عمر بن ہند ہنس پڑا اور کہا: ضرور طرفہ نے تجھے دیکھ لیا ہوگا جب اس نے کہا تھا کہ اس میں کوئی عیب نہیں الخ۔عمرو بن ہند شر پسند تھا اور طرفہ نے اس واقعہ سے پہلے اس کے بارے میں کہا تھا:
کاش کہ ہمارے پاس عمرو بادشاہ کی جگہ کوئی دایہ ہوتی
جو ہمارے شامیانہ کے پاس گائے جیسی آواز نکالتی
پس عبد عمرو نے کہا کہ اے بادشاہ آپ سلامت رہیں طرفہ نے جو آپ کے بارے میں کہا ہے وہ میرے بارے میں کہے گئے اشعار سے زیادہ سخت ہے۔اس نےکہا کہ طرفہ كا معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے (کہ اس نے میری برائی بھی کردی) ؟ اس نے کہا جی ہاں تو بادشاہ نے طرفہ کی طرف پیغام بھیجا اور اس کے لیے اپنے عامل کو قتل کا لکھ بھیجا تو اس نے طرفہ کو قتل کردیا۔۔۔۔اور کہا جاتا ہے کہ جس نے اسے قتل کیا وہ معلی بن حنش العبدی ہے اور جس نے اس کے قتل کا معاملہ اپنے ذمہ لیا وہ معاویہ بن مرہ الایفلی ہے اور یہ طسم وجدیس کی ایک بستی ہے۔

طرفہ کی عمر اس کے قتل کے وقت بیس(20) یا چھبیس(26) سال تھی اور اسی وجہ سے اس کو ابن العشرین بھی کہاجاتا تھا۔ابو عبدا للہ زوزونی نے اس حوالہ سے واقعہ کی تفصیلات کو بھی نقل کیا ہے چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں:

  فأمر عمرو فكتب إلى رجل من عبد القيس بالبحرين وهو المعلى ليقتله، فقال له بعض جلسائه: إنك إن قتلت طرفة هجاك المتلمس، رجل مسن مجرب، وكان حليف طرفة وكان من بني ضبيعة. فأرسل عمرو إلى طرفة والمتلمس فأتياه فكتب لهما إلى عامله بالبحرين ليقتلهما وأعطاهما هدية من عنده وحملهما وقال: قد كتبت لكما بحباء، فأقبلا حتى نزلا الحيرة، فقال المتلمس لطرفة: تعلمن واللّٰه أن ارتياح عمرو لي ولك لأمر عندي مريب، وأن انطلاقي بصحيفة لا أدري ما فيها؟ فقال طرفة: إنك لتسيء الظن، وما نخاف من صحيفة إن كان فيھا الذي وعدنا وإلا رجعنا فلم نترك منه شيئا؟ فأبى أن يجيبه إلى النظر فيھا، ففك المتلمس ختمها ثم جاء إلى غلام من أهل الحيرة فقال له: أتقرأ يا غلام؟ فقال: نعم، فأعطاه الصحيفة فقرأها فقال الغلام: أنت المتلمس؟ قال: نعم،قال: النجاء! قد أمر بقتلك فأخذ الصحيفة فقذفها في البحيرة...فقال المتلمس لطرفة: تعلمن واللّٰه أن الذي في كتابك مثل الذي في كتابي، فقال طرفة: لئن كان اجترأ عليك، ما كان بالذي يجترء علي، وأبى أن يطيعه، فسار المتلمس من فوره ذلك حتى أتى الشام... وخرج طرفة حتى أتى صاحب البحرين بكتابه، فقال له صاحب البحرين: إنك في حسب كريم وبيني وبين أهلك إخاء قديم وقد أمرت بقتلك فاهرب إذا خرجت من عندي فإن كتابك إن قرء لم أجد بدا من أن أقتلك، فأبى طرفة أن يفعله، فجعل شبان عبد القيس يدعونه ويسقونه الخمر حتى قتل.43
  عمرو نے حکم دیا اور بنو عبد القیس کے بحرین کے عامل معلی کو طرفہ کے قتل کا حکم دیا گیا جس پر اس کے کسی ساتھی نے کہا کہ اگر تونے فقط طرفہ کو قتل کردیا تو متلمس تیری برائی کرےگا جو بنو ضبیعہ سے طرفہ کا حلیف ہے تو عمر و نے طرفہ اور متلمس کی طرف پیغام بھیجا اور وہ دونوں اس کے پاس آگئے۔اس نے اپنے بحرین کے گورنر کو خط لکھا کہ ان دونوں کو قتل کردے جبکہ ان دونوں کو اپنے پاس سے تحائف سے نوازا اور انہیں شاہی لباس اڑایا اور دونوں سے کہا:میں نے تم دونوں کے لیے تحائف دینے کا کہہ دیا ہے تو وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ حیرہ میں پڑاؤ کیا۔متلمس نے طرفہ سے کہا کہ تو یہ ضرور جان لے کہ عمر و کا مجھے اور تجھے اس طرح اکرام دینا میرے نزدیک ایک مشکوک معاملہ ہے اوراسی طرح اس خط کے ساتھ جانا جس کے مضمون کا مجھے علم نہیں۔طرفہ نے کہا کہ تم بد گمان ہواور ہمیں اس خط سے کیا ڈرنا؟ اگر اس میں وہ مضمون ہے جس کااس نے ہم سے وعدہ کیا ہے تو بہتر ورنہ ہم واپس آجائیں گے بنا کچھ چھوڑے۔ پس اس نے اس خط کو دیکھنے سے انکار کردیا۔متلمس نے اس خط کی مہر کو پھاڑاا ور حیرہ کے ایک نوجوان کے پاس آکر کہا کہ اے نوجوان کیا تم پڑھ سکتے ہو تو اس نے کہا جی ہاں!متلمس نے خط اسے دیا تو نوجوان نے پڑھ کر پوچھا کہ کیا تم متلمس ہو تو اس نے کہا ہاں!نوجوان نے کہا کہ نجات پاؤ کہ بھیجنے والے نے تجھے قتل کرنے کا حکم دیا ہے تو متلمس نے خط لیا اور سمندر برد کردیا۔۔۔پھر متلمس نےطرفہ سے کہا کہ تو ضرور جان لے کہ اللہ کی قسم جو مضمون میرے خط میں تھا وہی تیرے خط میں بھی ہوگا جس پر طرفہ نے کہا: اگر بادشاہ نے تجھ پر یہ جرات کی ہے تو مجھ پر تو وہ یہ جرات نہیں کرسکتا اور متلمس کی بات ماننے سے اس نے انکار کردیا۔متلمس نے تو وہاں سے کوچ کیا اور شام تک پہنچ گیا۔۔۔طرفہ نکلا یہاں تک کہ اپنے خط سمیت بحرین کے گورنر کے پاس پہنچ گیا۔بحرین کے گورنر نے اس سے کہا کہ تو اچھے خاندان سے ہے اور میرے اور تیرے خاندان کے درمیان پرانا بھائی چارہ ہے اور تحقیق مجھے تیرے قتل کرنے کا بھی حکم دیاگیا ہے تو جب تو میرے پاس سے نکلے تو یہاں سے بھاگ جانا کیونکہ اگر تیرا خط پڑھ لیا گیا تو مجھ پرتجھے قتل کرنا ضروری ہوجائےگا۔اب بھی طرفہ نے یہ کرنے سے انکار کردیا تو پس عبد القیس کے نوجوانوں نے اسے مدعو کیا اور کافی شراب پلائی اور پھر اسے قتل کردیا۔

دور جاہلی کا طریقہ کار تھا کہ مرنے والے پر مرثیہ کہا جاتا تھا اور طرفہ نے اپنی بھتیجی سے کہا تھا کہ میرا مرثیہ تو نے کہناہے ۔اس حوالہ سے درجِ ذیل اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:

  وفي الشعر الجاهلي أبيات يحث فيھا الشعراء أهلهم ويوصونھم بالبكاء وبالنوح عليھم إذا ماتوا فقد ذكروا أن طرفة بن العبد خاطب ابنة أخيه معبد بھذا البيت:
فَاِن مُتُّ فَاِنعيني بِما انا أَهله
وَشُقّي عَلَيَّ الجَيبَ يا اِبنَةَ مَعبَدِ.44
  جاہلی اشعار میں ایسے اشعار موجود ہیں جس میں شاعر اپنے گھر والوں کو ابھارتا ہے اور انہیں چیخ وپکار اور آہ وزاری کی وصیت کرتا ہے پس تحقیق مؤرخین نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ طرفہ بن العبد نے اپنے بھائی معبد کی بیٹی کو اپنے درج ذیل شعر میں اسی بات کا کہاتھا:
پس اگر میں مر جاؤں تو مجھے ان اوصاف سے یاد کرنا
جن کا میں اہل ہوں اور مجھ پر اے معبد کی بیٹی اپنا گریبان بھی چاک کرنا ۔

یہ بھی منقول ہے کہ اس کے قتل پر اس کی بہن نے عمرو بن ہند بادشاہ کی برائی کی تھی اور اس کےبھائی معبد نے ہی اس کی دیت کو کئی گھوڑوں کے عوض قبول کیا تھا۔

طرفہ بن العبد کی زندگی شروع ہی سے مشکلات کا شکار رہی اور اپنے ہی گھر والوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر یہ ایک لاابالی نوجوان کی صورت میں پروان چڑھا جس وجہ سے اس میں بے باکی ونڈر پن کافی زیادہ آگیا تھا اور یہی بے باکی ونڈر پن اس کے قتل کی وجہ بنا لیکن اس نے اپنی جوانی میں ہی شہرت کی و ہ بلند ترین سطح چھولی تھی جو عموما اہل فن اپنی زندگی کے آخر میں چھوتے ہیں۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ اس کے فن شاعری میں اسے وراثت میں ملنے والی خوبیاں ہوں، بہر حال طرفہ کی شاعری ہی اس کے کمال اور اس کی شہرت کی وجہ تھی۔

 


  • 1 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 419
  • 2 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 79
  • 3 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری،الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ:دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 182
  • 4 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،المزھر فی علوم اللغۃ وانواعھا، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:411
  • 5 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 8
  • 6 الدکتور جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص: 101-102
  • 7 الدکتور شوقی ضیف،تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف،القاہرۃ، مصر، 1995م،ص: 143
  • 8 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری،الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 177
  • 9 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 3
  • 10 ابو الفضل محمد بن مكرم ابن منظور الافريقي، لسان العرب، ج-9، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1414ھ، ص: 220
  • 11 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 84
  • 12 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری،الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 186- 187
  • 13 الدکتور جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام،ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م،ص: 102
  • 14 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری،الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 185
  • 15 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 419
  • 16 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 79
  • 17 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری، الشعر والشعراء،ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث،القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 185
  • 18 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 143
  • 19 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 79
  • 20 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2002م،ص:3
  • 21 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری،الشعر والشعراء،ج-1،مطبوعۃ: دارالحدیث،القاہرۃ،مصر،1423ھ، ص:184
  • 22 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 86
  • 23 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص: 103
  • 24 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 83-84
  • 25 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 185-186
  • 26 الدکتور جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام،ج-18، مطبوعۃ:دار الساقی،بیروت،لبنان،2001م،ص: 102
  • 27 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص:4-5
  • 28 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 86-87
  • 29 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 4-5
  • 30 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 87
  • 31 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م،ص:3
  • 32 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص:184-185
  • 33 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 419
  • 34 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری،الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 186-187
  • 35 الدکتور شوقی ضیف،تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 430
  • 36 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 4-5
  • 37 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 89 -90
  • 38 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2002م،ص:26-27
  • 39 ابو طاہر محمد بن یعقوب الفیروزآبادی، القاموس المحیط، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2005م، ص:927
  • 40 ابو عمروطرفۃ بن العبدالبکری، دیوان طرفۃ بن العبد(محقق:مھدی محمد ناصر الدین)، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2002 م، ص:5
  • 41 ابو عثمان عمرو بن بحر اللیثی الشھیر بالجاحظ، البیان والتبیین، ج-2، مطبوعۃ:دارمکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1423ھ، ص:184
  • 42 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃالدینوری، الشعر والشعراء، ج-1،مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 183
  • 43 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 79-80
  • 44 الدکتور جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام،ج-9، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 153