Encyclopedia of Muhammad

عرب کا رسم الخط

عربی رسم الخط دنیا کا پہلا رسم الخط ہے اور یہ آدم کے اس دنیا میں بھیجے جانے کے بعد وجود میں آیا۔ ان کے بعد یہ رسم الخط دیگر انبیاء کے ذریعے آگے منتقل ہوا اور وقت کے ساتھ اس میں تھوڑا بہت تغیر بھی پیدا ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ اب اپنی حالیہ شکل میں موجود ہے۔ مؤرخین کے نزدیک اس رسم الخط کے ایجاد ہونے کے دور اور اس کے موجد میں اختلاف پایا جاتا ہےکیونکہ اس معاملہ میں مختلف روایات موجود ہیں ۔

رسم الخط کا موجد

عربی رسم الخط کا موجد حضرت آدم کو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ آپ پہلے تخلیق کردہ انسان ہیں جو اس فانی دنیا میں تشریف لانے سے پہلے جنت میں رہائش پذیر تھے 1 اور یہ بات مسلمہ ہے کہ اہل جنت کی زبان عربی ہے اور اس بات کی تصدیق صحیح احادیث میں مذکور ہے جو معجم اوسط،2معجم کبیر،3مستدرک،4فوائد تمام5 صفۃ الجنۃ،6شعب الایمان7 اور جامع صغیرمیں منقول ہے8 لہذا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی زبان عربی ہی تھی جس میں آپ نے کلام بھی فرمایا اور اسی زبان میں کتابت بھی فرمائی جس کی تائید قرآن مجید کی پہلی وحی الہی سے بھی ہوتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

  اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ3الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ4 عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ5 9
  پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

اس سے واضح ہوتاہے کہ دنیا میں انسان کوکتابت کا علم الہامی طورپر سکھایاگیا تھا اور سب سے پہلا خط بھی حضرت آدم نے ہی کھینچا تھا جو عربی زبان یعنی ان کی اپنی زبان ہی میں تھا ۔اس کی تائیدابن عباس کے درج ذیل تفسیری قول سےبھی ہوتی ہے جو انہوں نے مذکورہ بالاپہلی وحی الہی کےبارے میں بیان کیاتھا جیساکہ منقول ہے:

  {علم الإنسان} يعني الخط بالقلم {ما لم يعلم} قبل ذلك ويقال علم الإنسان يعني آدم أسماء كل شىء مالم يعلمه قبل ذلك.10
  انسان کو سکھایا یعنی قلم سے لکھنا جو وہ اس سے پہلے نہیں جانتاتھا اور اس کی تفسیر میں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ انسان یعنی آدم کو ہرچیزکے نام(لکھنا) سکھائے جو وہ اس سےپہلے نہیں جانتے تھے۔

کعب بن احبار کا بھی یہی قول مروی ہے کہ حضرت آدم ہی نے سب سے پہلے قلم سے لکھا۔11اسی طرح چوتھی صدی ہجری کے امام ابواللیث سمرقندی نے بھی مذکورہ آیات مبارکہ کی درج ذیل تفسیربیان کی ہے:

  ثم قال: الذي علم بالقلم علم الكتابة، والخط بالقلم علم الإنسان مالم يعلم يعني: علم آدم عليه السلام أسماء كل شيء، يعني: ألهمه.12
  پھر فرمایا کہ وہی ذات جس نے قلم سے کتابت کاعلم اور قلم سے خط کھینچناسکھایا،انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا یعنی حضرت آدم کو تمام اشیاء کے نام(لکھنا)سکھائے یعنی انہیں لکھنا الہام فرمایا۔

اسی صدی سے تعلق رکھنے والے ابوالحسن ماوردی نے اس حوالہ سے تین اقوال نقل کیے ہیں جس میں کعب بن احبار کے قول کو سب سے پہلے بیان کیاہے جو درج ذیل ہے:

  وفيمن علمه بالقلم ثلاثة أقاويل: أحدها: أنه أراد آدم عليه السلام لأنه أول من كتب قاله كعب الأحبار الثاني: إدريس وهو أول من كتب قاله الضحاك الثالث: أنه أراد كل من كتب بالقلم لأنه ما علم إلا بتعليم اللّٰه له.13
  اور قلم سے جس کو لکھناسکھایاگیا ہے تو اس میں بارے میں تین اقوال ہیں:پہلا یہ کہ اس سے مراد حضرت آدم ہیں کیونکہ انہوں نے ہی سب سےپہلے کتابت فرمائی،یہ قول کعب بن احبار کا ہے۔ دوسرا قول یہ ہےکہ ا س سے حضرت ادریس مراد ہیں جنہوں نے سب سےپہلے(قلم سے)لکھاتھا،یہ قول امام ضحاک کا ہے جبکہ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جس نے قلم سے لکھاکیونکہ وہ اس کتابت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سکھائے بغیر نہیں سیکھ سکتا۔

یہی قول صاحب تفسیر سمعانی ،14امام قرطبی،15عبدالعزیز بن عبدالسلام شافعی16 اورصاحب بحر المحیط 17نے بھی رقم فرمائے ہیں البتہ سب نے حضرت آدم والے قول کو مقدم رکھ کر بیان فرمایا ہے کیونکہ کعب بن احبار ہی کے قول کو شہرت ملی ہے حتی کہ ابن ندیم نےبھی ان کے قول کو سب سےپہلے ہی بیان کیا:

  أن أول من وضع الكتابة العربية والفارسية وغيرها من الكتابات آدم عليه السلام وضع ذلك قبل موته بثلاثمائة سنة في الطين وطبخه.18
  بلاشبہ سب سےپہلا شخص جس نے عربی اورفارسی وغیرہ کتابت کو دیگر رسم الخطوط میں سے وضع کیا وہ حضرت آدم ہیں ،آپ نے اپنی وفات سےتین سو(300)سال پہلے زمین پر انہیں وضع کیا اور پھر آگ میں پکاکر پختہ کیا۔

گوکہ ابن ندیم نے اس قول سے برات کا اظہار کیا ہےلیکن دیگر مفسرین نے کعب بن احبار کے اس قول کو قبول کرکے اپنی کتب تفسیر میں بیان کیا ہے جن میں امام منصورمروزی،19 صاحب لباب20 اور سلطان العلماءعبد العزیز بن عبدالسلام الشافعی شامل ہیں 21لہذا تفسیری قول میں غیر مفسرابن ندیم کی اظہار کردہ برات کے برعکس مفسرین کی بات ہی راجح قرار دی جائےگی۔

تاریخی تناظر

یہ بات بھی قابل غور ہےکہ حضرت آدم پرجو احکامِ خداوندی نازل کیے گئے تھے ان کی تبلیغ وتعلیم بھی آپ پرفرض تھی جسے آپ نے لسانی طور پر تو بیان فرمایا ہی البتہ اسےعربی زبان میں لکھ کر بھی ادافرمایا اور یہی وجہ ہوئی کہ پہلی وحی الہی میں تعلیم وتعلم کے ساتھ قلم کا ذکرفرمایاگیا22 چنانچہ امام طبری لکھتے ہیں:

  وكان آدم عليه السلام مع ما كان اللّٰه عز وجل قد أعطاه من ملك الأرض والسلطان فيھا قد نبأه، وجعله رسولا إلى ولده، وأنزل عليه إحدى وعشرين صحيفة كتبھا آدم عليه السلام بخطه، علمه إياھا جبرئيل عليه السلام .23
  اور حضرت آدم اللہ کی انہیں عطاکردہ چیزوں کے ساتھ(تشریف فرماہوئے) تھے یعنی زمینی ملکیت اور بادشاہت جس کی اللہ نے انہیں خبر دی تھی۔اللہ نے آپ کو آپ کی اولاد کی طرف اپنا پیغمبر بنایاتھا اور آپ پر اکیس صحیفے نازل کیے تھے جنہیں آپ نے اپنے (عربی)خط میں لکھا تھا۔یہ خط حضرت جبریل نے آپ کو (لکھنا)سکھایاتھا۔

اس حوالہ سے امام طبری مزیدفرماتے ہیں:

  وقيل: إنه كان مما أنزل اللّٰه تعالى على آدم عليه السلام تحريم الميتة والدم ولحم الخنزير وحروف المعجم في إحدى وعشرين ورقة.24
  اور کہاگیا کہ حضرت آدم پر جو احکامات نازل کیے گئے تھے (ان میں) مُردار،خون اورخنزیر کے گوشت کی حرمت(تھی اور)عربی حروف تھے جو اکیس صفحات پر مشتمل تھے۔

عربی رسم الخط کے حوالہ سے دیگر روایات بھی ملتی ہیں جو درج ذیل ہیں:

  ومن بني آدم شيث يقال أنه أول من ابتدع الكتابة.25
  اورحضرت آدم کے بیٹوں میں سے حضرت شیث ( کے متعلق)کہاجاتاہے کہ وہی سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے فن کتابت ایجاد کیاتھا۔

اسی حوالہ سےعلامہ سیوطی نے اپنی کتاب"معترک الاقران "میں تحریر کیا ہے :

  ورأيت في بعض التقاييد أن أول من خط بالقلم من العرب هود عليه السلام وأن كان يكتب به.26
  اورمیں نے بعض تا لیفات میں دیکھا کہ تحقیق عرب میں سے سب سے پہلے قلم سے لکیر کھینچنے والے حضرت ہود ہیں اور بےشک اسی عربی خط میں کتابت کرتے تھے ۔

ایک اور مقام پر اما م سیوطی فرماتے ہیں:

  وروي أن إسماعيل أول مَنْ خطّ بالقلم.27
  یہ بھی روایت کیاگیا کہ بے شک حضرت اسماعیل ہی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے قلم سے تحریر لکھی۔

ان تمام روایات میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی کوئی تضادکیونکہ جس طرح عربی رسم الخط وحی کے ذریعہ حضرت آدم کو عطا کیا گیا اسی طرح ممکن ہے کہ وحی کے ذریعہ حضرت شیث اور پھر ہود کو اور اس کے بعد دیگر انبیاء کو بھی عطاء کیا گیا ہو۔ مزید یہ کہ جس طرح انبیاء کی شریعتو ں میں وقت کے ساتھ تغیررہا، اسی طرح رسم الخط جب مختلف ادوار میں عطا کیا گیا تو اس میں بھی وقت کے ساتھ تغیر آتا چلا گیاہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ علم حضرت آدم کو بطور وحی عطا کیا گیا لیکن آپ نے اسے حضرت شیث کو منتقل کیا اور جو اینٹیں حضرت آدم نے محفوظ فرمائی اس کے ذریعہ حضرت ہود تک پہنچا ہو اور ان کی نسلوں سے ہوتا ہوا حضرت اسماعیل تک پہنچا ہو۔

اگر عربی رسم الخط کے حوالہ سے جدید مستشرق تحقیق کا مطالعہ کیا جائے تووہ تحقیق کم اور جانبدار نظریہ کو فروغ دینے کا عمل زیادہ لگتا ہے کیونکہ تاریخ کے شواہد موجود ہونے کے باوجود حقائق کو توڑ مروڑ کر خاص نتائج برآمد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ویرستاغ کے مطابق عربی رسم الخط کی تاریخ بہت قدیم ہے اور پروٹو سیمائٹک رسم الخط جو کہ 3750 قبل مسیح میں شروع ہوا تھا اس کی بنیاد بھی عربی رسم الخط پر تھی 28 جبکہ اس کےبرعکس انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق عربی رسم الخط ارامک یا آرمیائی خط (Aramaic) سے نبطی رسم الخط کے ذریعے مأخوذہے۔ انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا والے مزید لکھتے ہیں کہ یہ رسم الخط چوتھی صدی عیسوی میں وجود میں آیا ۔29بیٹرائس کے مطابق بھی یہ ارامک یا آرمیائی خط (Aramaic) سے مأخوذ ہے 30جبکہ ویرستاغ کی تحقیقات میں یہ قول موجود ہے کہ عربی رسم الخط کم ازکم 3750 قبل مسیح کے دور کا ہے، تب بھی یہ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ اس کو مأخذ اشتقاق ماننے کےبجائے مشتق زبان منوایا جائے۔اگر ان کی تحقیقات کامزید گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ عربی رسم الخط کی قدامت کیا ہے لیکن بوجوہ اس کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس زبان اور اس کے رسم الخط کی اہمیت کو کم کیا جاسکے اور اس عمل کے ذریعے قرآن کریم کی اہمیت کو کم کیا جاسکے۔درج ذیل ایک ٹیبل دیا گیا ہے جس کہ ذریعہ یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے 10 صدی قبل مسیح سے دیگر زبانوں کے رسوم الخط عربی رسم الخط کی بدولت وجود میں آئے۔

یہاں تصویر لگانی ہے31

اس ٹیبل سے پتاچلتا ہے کہ قدیم عربی رسم الخط سے صبائی مسند رسم الخط(Sabean Musnad Script) تشکیل دیا گیا پھر اس کے بعد فنیقی جس کے بعد ارامک اور پھر یونانی رسم الخط وجود میں آیا تو یہ بات محال ہے کہ عربی رسم الخط ارامک یا نبطی رسم الخط سے مشتق ہوا۔

قدیم عرب میں رائج رسم الخط

حضرت آدم کے وصال کے بعد عربی رسم الخط میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں یہاں تک کہ قدیم عرب کے مختلف خطوں میں جب عربی زبان رائج ہونا شروع ہوئی تو وقت کے ساتھ ایک خطہ کا رسم الخط دوسرے سے تھوڑا مختلف ہونا شروع ہوگیا۔ ان خطوں میں رائج رسم الخط کی تفصیل درج ذیل ہے:

قدیم جنوبی عرب کا رسم الخط

قدیم جنوبی عرب رسم الخط (Ancient South Arabian Script) وہ رسم الخط ہے جس کو آج المسند کہا جاتا ہے۔ سبائی عربی، قتبانی عربی، حضر موتی عربی اور دیگر جنوبی عرب میں رائج عربی اسی رسم الخط سے لکھی جاتی تھی۔ 32اس رسم الخط میں حروف علت کے لئے کوئی حروف مختص نہ تھے۔

خصوصیات

(1) عام طور پر اس رسم الخط کو دائیں جانب سے شروع کیا جاتا ہے لیکن اس رسم الخط کو بائیں جانب سے بھی شروع کیا جاسکتا ہے اور جب اس کو بائیں جانب سے شروع کرتے ہیں تو ان حروف کو افقی طور پر پلٹ دیا جاتا ہے۔
(2) ان حروف کو ملا کر نہیں لکھا جاتا۔ ان کے درمیان فاصلہ ایک خاص عمودی نشان کے ذریعہ دیا جاتا ہے۔
(3) اس میں نقطوں کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ تمام خصوصیات اس تصویر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں :

یہاں تصویر لگانی ہے33

گنتی کے لئے یہ 6 اعداد استعما ل کئے جاتے تھے:

یہاں تصویر لگانی ہے34

سباء میں مسند رسم الخط

کافی عرصہ تک صبائی زبان جنوبی عرب کے خط ِ مسند میں لکھی گئی اور اس کے کافی ثبوت بھی کھدائی میں میسر آئے لیکن 1973 کی کھدائی میں جو کتبے نکالے گئے ان کا تعلق پہلی صدی قبل مسیح سے تھا لیکن ان میں سے بہت کم کتبے شائع کئے گئے ہیں۔ 35 جتنے کتبہ ملے ہیں ان کا تعلق تعمیراتی اور قانونی تحریروں سے ہے جبکہ کچھ تحریروں میں صرف نام مذکور ہیں۔ 36

قتبان میں مسند رسم الخط

قتبان وسطی یمن میں واقع وہ بادشاہت تھی جہاں تقریبا 500 قبل مسیح سے لے کر 200 عیسوی تک یہ قتبانی زبان بولی جاتی تھی اوراسے لکھنے کے لئے جنوبی عرب کے رسم الخط "مسند" کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ سبائی اور دیگر جنوبی عرب کی تہذیبوں کے مقابلے میں اس تہذیب میں جنوبی عرب کے رسم الخط کے استعمال ہونے کے کافی بہتر آثار ملے ہیں۔ 37

حضر موت میں مسند رسم الخط

حضر موت کا رسم الخط جنوب عرب کے مشرقی حصہ میں رائج تھا۔ یہ ر سم الخط جنوب عرب کے خط مسند پر مبنی تھا اور اس کے حروف تہجی 29 تھے جبکہ ان کی ادائیگی سبائی زبان سے ملتی جلتی تھی۔ جو آثار قدیمہ کے ٹکڑے حضر موت کے دارالخلافہ ریبون سے ملے ہیں ان سے پتا چلا ہے کہ یہ رسم الخط تقریبا 12 صدی قبل مسیح میں بھی مستعمل تھا۔38

شمالی عرب کا رسم الخط

قدیم شمالی عرب کا رسم الخط تقریبا آٹھویں صدی قبل مسیح سے لے کر چوتھی صدی عیسوی تک مستعمل تھا۔ 39بہت سے علماء کا خیال ہے کہ شمالی عرب کے حروف تہجی جنوبی عرب کے حروف تہجی سے مشتق ہیں جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں حروف تہجی ایک ساتھ ہی تخلیق ہوئے تھےاور ایک ہی ماخذ سے مشتق ہیں۔
قدیم شمالی عرب کا رسم الخط نخلستانوں اور شہری آبادیوں میں بھی مستعمل تھا اور بدوی لوگ بھی اسے استعمال کرتے تھے اور یہ رسم الخط شمالی عرب اور وسطی عرب کے خطوں میں رائج تھا۔ اس کی بہت سی اقسام تھی جس میں دادانی(Dadantic)، دماتی(Dumaitic)، تائمانی(Taymanitic)، حسمانی(Hismaic)، سافیائ(Safaitic) اورثمودی(Thamudic) شامل ہیں۔ 40 ان میں سے کچھ رسوم الخط کی جھلک درج ذیل ہے:

یہاں تصویر لگانی ہے

ان تمام رسوم الخط کی تصاویر کیمبرج انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ انشینٹ لینگویجز (Cambridge Encyclopedia of World’s Ancient Languages)سے لی گئی ہیں۔41ان تمام روایات کو دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان چونکہ دنیا کی پہلی زبان ہے لہذا اس کا رسم الخط بھی سب سے قدیم ہے اور اس رسم الخط سے دیگر رسوم الخط مشتق کئے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ عربی زبان کا رسم الخط وقت اور خطہ کے اعتبار سے بدلتا رہا یہاں تک کہ نبی کریمﷺکے زمانے میں یہ عربی مبین کی شکل میں سامنے آیا اور بعدازاں حجاج بن یوسف وغیرہ کے دور میں اس میں نقطوں اور اعراب کا اضافہ کیا گیا اور اب اسی شکل میں قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ البقرۃ35-36
  • 2 ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 5583، ج-5، مطبوعۃ: دارالحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 369
  • 3 ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:11441، ج-11، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1994م، ص: 185
  • 4 ابو عبداللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 6999، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 97
  • 5 ابو القاسم تمام بن محمد البجلی، الفوائد، حدیث: 134، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1412ھ، ص:61
  • 6 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، صفۃ الجنۃ، حدیث: 268، ج-2، مطبوعۃ: دارالمأمون للتراث، دمشق، السوریۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 112
  • 7 ابو بکر احمد بن الحسین البیھقی، شعب الایمان، حدیث: 1364، ج-3، مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 64
  • 8 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الجامع الصغیر وزوائدہ،حدیث: 567، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ التجاریۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 107
  • 9 القرآن، سورۃ العلق96: 3-5
  • 10 حبر الامۃ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ،تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:515
  • 11 أبو الحسن علی بن محمد الماوردی، النکت والعیون، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:305
  • 12 ابواللیث نصر بن محمد السمرقندی، بحر العلوم، ج-3، مطبوعۃ: المکتبۃ الشاملۃ،الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 597
  • 13 أبو الحسن علی بن محمد الماوردی، النکت والعیون، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:305
  • 14 ابوالمظفر منصور بن محمد السمعانی، تفسیر القرآن، ج-6، مطبوعۃ: دارالوطن، الریاض، السعودیۃ، 1997م، ص:256
  • 15 ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی،الجامع لاحکام القرآن، ج-20،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2001م، ص: 120
  • 16 ابو محمد عبد العزیز بن عبدالسلام الشافعی، تفسیر القرآن، ج-3، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 496
  • 17 ابو حیان محمد بن یوسف الاندلسی، البحر المحیط فی التفسیر، ج-10، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص: 508
  • 18 ابوالفرج محمد بن اسحاق ابن ندیم الشیعی، الفھرست، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 14
  • 19 ابوالمظفر منصور بن محمد السمعانی، تفسیر القرآن، ج-6، مطبوعۃ: دارالوطن، الریاض، السعودیۃ، 1997م، ص:256
  • 20 ابوالحفص عمر بن علی الدمشقی، اللباب فی علوم الکتاب، ج-20، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 415
  • 21 ابو محمد عبد العزیز بن عبدالسلام الشافعی، تفسیر القرآن، ج-3، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 496
  • 22 القرآن، سورۃ العلق3:96-5
  • 23 أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک،ج-1، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 150
  • 24 ایضاً، ص: 151
  • 25 رزق الله بن يوسف شيخو، مجاني الأدب في حدائق العرب، ج-1، مطبوعة: مطبعة الآباء اليسوعيين، بيروت، لبنان، 1913م ، ص:236
  • 26 جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي ،معترك الأقران في إعجاز القرآن، ج-3 ، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان ، 1988 م، ص:85
  • 27 ایضا ً
  • 28 Cornelis Henricus Maria Versteegh (1997), The Arabic Language, Columbia University Press, New York, USA, Pg. 13.
  • 29 Encyclopedia Britannica (Online): https://www.britannica.com/topic/alphabet-writing/Arabic-alphabet: Retrieved: 04-08-2021
  • 30 Beatrice Gruendler (1993), The Development of the Arabic Scripts, Scholars Press, Atlanta, USA, Pg. 1.
  • 31 Saad D. Abulhab (2007), Roots of Modern Arabic Script: From Musnad to Jazm, City University of New York, New York, USA, Pg. 3.
  • 32 Rodolfo Fattovich (2003), Encyclopaedia Aethiopica: A-C, Otto Harrassowitz GmBH & Co. KG, Germany, Vol. 1, Pg. 169.
  • 33 Wikipedia (Online): https://en.wikipedia.org/wiki/Ancient_South_Arabian_script#/media/File :Panel_Almaqah_Louvre_DAO18.jpg: Retrieved: 07-08-2021
  • 34 Wikipedia (Online): https://en.wikipedia.org/wiki/Ancient_South_Arabian_script#cite_note-4: Retrieved: 07-08-2021
  • 35 Leonid Kogan and Andrey Korotayev (1997), The Semitic Languages, Routledge, London, U.K., Pg. 221.
  • 36 Roger. G. Woodward (2015), The Cambridge Encyclopedia of World’s Ancient Languages, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 455-456.
  • 37 Leonid Kogan and Andrey Korotayev (1997), The Semitic Languages, Routledge, London, U.K., Pg. 157-183.
  • 38 Ibid, Pg. 220-223.
  • 39 Keith Brown & Sarah Ogilvie (2009), Concise Encyclopedia of the Languages of the World, Elsevier Ltd., Oxford, U.K., Pg. 931.
  • 40 Roger G. Woodward (2015), The Cambridge Encyclopedia of World’s Ancient Languages, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 489.
  • 41 Ibid, Pg. 491