Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

شق صدر

مکہ مکرمہ سے واپسی پر دو یا تین مہینے کے بعد شق صدر کا واقعہ پیش آیا 1 جس میں آپ کا سینہ مبارک کھولا گیا تھا۔ اس واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے حضرت حلیمہ نے خواب میں اس واقعہ کو ملاحظہ فرمایا تھا لیکن انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ایسا حقیقت میں ہوا ہے۔ جب آپ نیند سے بیدار ہوئیں تو اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں حضور کو ان کی والدہ کے حوالے کردینا چاہیے اس سے پہلے کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچےلیکن آپ کے شوہر نے آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا۔اس دن حضرت حلیمہ نے حضور کو دوسرے بچوں کے ساتھ چراگاہ جانے سے روکا لیکن آپ نے اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ جانے کے لیے زور دیا تاکہ مویشیوں کو گھاس چرا سکیں اور شق صدر کا واقعہ بھی ہوجائے۔ 2

جب حضور اپنی رضاعی بھائی عبد اللہ ابن حارث کے ساتھ مویشیوں کو چرا رہے تھے 3 تو رئیس الملائکہ حضرت جبرائیل ظاہر ہوئے 4 اور حضور کے قریب تشریف لائے اور آپ کو اپنی محبت کی گرفت میں محفوظ فرمالیا ، اس کے بعد آپ کو زمین پر لٹایا، سینۂ مبارک کھول کر قلب اطہر نکالا اور اس میں سے خون کا ایک لوتھڑ نکال کر کہا کہ یہ شیطان کا حصہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کا قلب اطہر کوسونے کے برتن میں آب زم زم سے دھویا اور سینہ مبارک میں اسی مقام پر دوبارہ نصب کردیا۔ 5 6

حضور کے ساتھ ہونے والے اس عمل کو بچے بھی دیکھ رہے تھے لیکن ممکنہ طور پر وہ اپنے حواس میں نہ تھے، جب اپنے حواسوں میں واپس آئے تو عبدالله ابن حارث دوسرے بچوں كے ساتھ بھاگتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ محمد کو قتل کردیا گیا ہے۔ خوف و حیرت کے عالم میں گھر کے تمام افراد اس مقام کی جانب بھاگے، وہاں پہنچے تو آپ کو بالکل صحیح و سالم پایا لیکن آپ کا چہرۂ مبارک زردی مائل ہوچکا تھا اور آس پاس کوئی شخص بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ نے فوراً آپ کو گلے لگالیا۔ آپ کے رضاعی والد نے اس واقعہ کے متعلق پوچھا تو حضور نے فرمایا کہ ان کا سینہ کھولا گیا اور اس میں سے کچھ نکال کر کہیں دور گرادیا گیا ہے۔ اس واقعہ کو سننے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ اور ان کے شوہر مزید فکر مند ہوگئے اور فوراً آپ کو گھر لے آئے۔7

بعض سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں یہ مکمل واقعہ اسی طرح لکھا ہے جس طرح حضور نے اسے بیان فرمایا تھا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضور نے اپنے اصحاب کے سوالات کے جوابات میں بذات خود یہ پورا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ 8 یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ قبیلۂ بنو عامر کے ایک نیک بزرگ نے بیان کیا ہے۔ 9 ابتدائی مأخذات جن میں ابن اسحاق 10 اور ابن ہشام 11 نے اس واقعہ کے متعلق تفصیل سے کلام کیا ہے جبکہ امام طبری 12 نے اس واقعہ کو حضور کی زبانی تفصیل سے لکھا ہے۔ امام طبری نے واقعہ شق صدر حضور کے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے:

  مجھے دودھ پلوانے کے لیے قبیلۂ بنو لیث ابن بکر کے قبیلے میں بھیجا گیا۔ ایک دن میں تمام گھر والوں سے دور وادی کے نچلے مقام پر اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ تھا، وہاں ہم کھیل رہے تھے۔ اچانک وہاں تین لوگ ظاہر ہوئے ، ان کے ہاتھ میں سونے کا پیالہ تھا جس میں برف بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے میرے دوستوں سے الگ کیا۔ میرے تمام دوست وہاں سے بھاگے اور وادی کے آخر تک پہنچ گئے۔ اس کے بعد وہ سب واپس آئے اور ان اشخاص کے پاس پہنچ کر کہا: آپ لوگوں کا اس بچہ سے کیا معاملہ ہے؟ یہ ہمارے خاندان کا نہیں ہے لیکن یہ قبیلۂ قریش کے سردار کا بیٹا ہے۔ یہ ایک یتیم بچہ ہے اور یہاں اسے رضاعت کے لیے لایا گیا ہے۔ آپ ایک یتیم بچہ کو کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ آپ ہم میں سے کسی کو چن لیں اور اس کو چھوڑ دیں۔ جب بچوں نے ان لوگوں سے کوئی جواب نہیں پایا تو وہ فوراً گھر کی جانب روتے ہوئے دوڑے اور اپنے لوگوں کو پکارنے لگے۔ ان میں سے ایک شخص نے مجھےاچھے انداز سے زمین پر لٹایا اور میری پسلیوں سے پیٹ کے نچلے حصہ تک سینہ چاک کیا گیا، میں تمام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا۔ مجھے کسی چیز کے چھونے کا بالکل احساس نہیں ہورہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے پیٹ سے نرم داخلی عضو نکا لا اور اسے برف سے دھویا۔ دھوتے ہوئے وہ بہت احتیاط سے کام لے رہے تھےاس کے بعد اسے وہیں دوبارہ نصب کردیا۔ پھر دوسرا شخص اٹھا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا، ایک طرف ہوجاؤ، اور اس نے پہلے شخص کو میرے سامنے سے ایک جانب کردیا اور میرے سینے میں اپنا ہاتھ داخل کرکے دل کو باہر نکالا، میں یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے میرے دل کو کاٹا اور ایک کالا حصہ نکال کر دور گرادیا۔ اس نے اپنے سیدھے ہاتھ میں کچھ پکڑاہوا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک گول مہرہے جس سے تیز روشنی بر آمد ہورہی تھی، اتنی تیز کہ جو بھی اس کی جانب دیکھتا اس کی کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ اس نے مہر سے میرا سینہ مہر بند کردیا یہاں تک کہ میرا سینہ روشنی سے بھر گیا۔ وہ نبوت اور عقل و دانش کی روشنی تھی۔ اس کے بعد اس نے میرا دل جگہ پر لگا دیا۔ اب مجھے اپنے سینے میں اس مہر کی ٹھنڈک محسوس ہورہی تھی اور یہ کافی عرصے تک رہی۔ اس کے بعد تیسرے شخص نے اپنےساتھی سے کہا کہ ایک جانب ہوجاؤ اور اپنا ہاتھ میرے جسم کے کٹے ہوئے حصہ پرپھیراجس سے کٹنے کا نشان اللہ کے حکم سے بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ تھاما اور آرام سے مجھے کھڑاکیا اور پہلے شخص سے کہنے لگاجس نے میرا سینہ چاک کیا تھا، کہ ان کا وزن ان کی امت کے 10 آدمیوں سے کرو۔ انہوں نے میرا وزن کیا ، تو میرا وزن زیادہ ہوا، اس کے بعد انہوں نے میرا وزن 100 آدمیوں سے کیا تب بھی میرا وزن زیادہ نکلا، اس کے بعد 1000 آدمیوں سے کیا پھر بھی میرا وزن زیادہ ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ ان کو اللہ کے حوالے چھوڑ دو، اگر ہم ان کا وزن ان کی پوری امت سے بھی کریں گے تب بھی یہ سب سے سبقت لے جائیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور میری آنکھوں کے درمیان میرے ماتھے کو چوما۔ پھر انہوں نے کہا " اے میرے پیارے! آپ کو خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر صرف آپ ہی اچھائی کی منفعت کو جاننے والے ہیں جو آپ کے ذریعے مقدر ٹھہر چکی ہے ، آپ کو خوش ہونا چاہیے اور پرسکون ہوجانا چاہیے۔ 13

ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد حضور حضرت حلیمہ سعدیہ کے ساتھ قریباً ایک سال رہائیش پذیر رہے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ حضور کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہنے لگی تھیں اور انہیں گھر سے دور کہیں بھی جانے نہیں دیتی تھیں۔ 14 ابن اسحاق اور ابن ہشام بیان کرتے ہیں:جب شق صدرکا واقعہ پیش آیا تو آپ کی عمر مبارک 2 برس اور کچھ ماہ تھی۔ 15 16 اس کے برعکس ابن سعد ﷫کہتے ہیں کہ جب شق صدر کا واقعہ رونما ہوا تو آپ کی عمر مبارک 4 برس تھی۔17 امام زرقانی بیان کرتے ہیں کہ علماء اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ واقعۂ شق صدر کے وقت حضور کی عمر مبارک 4 برس تھی۔ 18 بعد ازاں سینۂ مبارک چاک کرنے کا نشان واضح ہوتا چلا گیا اور ایک پتلی لکیر کی صورت میں نظر آنے لگا تھا۔ 19 حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضور کے سینۂ مبارک چاک کرنے کا نشان دیکھا ہے۔ 20 21 موجودہ دور کے کثیر علماء اس واقعہ کو انسانی تاریخ کا سب سے پہلا قلبی جراہی کا عمل قرار دیتے ہیں۔

شق صدر کے متعلق تاریخ دانوں کا مؤقف

بعض تاریخ دان یہ سمجھتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ واقعہ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ محض ایک خیالی یا روحانی عمل تھا۔ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضور نے اپنی زندگی ایک عام انسان کی طرح ہی بسر کی ہے۔ آپ کی زندگی مبارک ہر قسم کے خلاف عقل اور غیر فطری واقعات سے پاک تھی کیونکہ ایسے واقعات کا ہونا ناممکن ہے۔ بہرحال یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ تھا جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ہے۔ محض اس بات پر اس واقعہ کو نہ ماننا کہ واقعہ شق صدر اس دور کے عام حالات میں ناممکن تھا،یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایسی رائے رکھنےوالے افراد قدرتی قوانین کے خلاف ہیں کیونکہ ہر خاص و عام جانتاہے کہ اللہ کے لیے کوئی امر مشکل نہیں۔ اللہ قادر مطلق ہے، وہ ہر شئے پر قادر ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتاہے۔ اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ واقعۂ شق صدر صحیح احادیث سے روایت کیا گیا ہے، اسے محض کمزور دلائل اور ناقص قیاس آرائیوں سے رد نہیں کیا جاسکتاہے۔ 22 23

مزید یہ کہ حضرت انس نے شق صدر کا نشان خو د اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایا ہے۔ 24 اس کے علاوہ اس وقت بچے حضور کو بظاہر بچانے کے لیے گھر والوں کے پاس اطلاع دینے بھی پہنچے تھےکیونکہ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اشخاص حضور کی جان لینے کے لیے آئے ہیں اور حضرت حلیمہ سعدیہ کی حضور کے لیے بے حد فکر مندی 25 اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ شق صدر کا واقعہ بالکل حقیقت ہے۔

خواب میں واقعۂ شق صدر

اس کے علاوہ ابن اسحاق نے شق صدر کا ایک اور واقعہ بیان کیا ہے جس میں دو فرشتے سفید پرندوں کی صورت میں نازل ہوئے اور صرف حضور کے قلب اطہر کو اپنی چونچ سے پاک کیا۔ 26 کثیر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ خواب میں رونما ہوا تھا۔ خواب میں رونما ہونے والے اس واقعہ کی مزید تفصیل ابن کثیر نے بیان فرمائی کہ ایک دن حضور حضرت حلیمہ سعدیہ کے ایک بیٹے کے ساتھ مویشیوں کو لے کر قریبی چراگاہ تشریف لے گئے۔ اس دن وہ لوگ کوئی غذا اپنے ساتھ نہیں لے گئے تھے، حضور نے اپنے رضاعی بھائی سے کہا کہ آپ گھر جائیں اور کچھ کھانے کو لے آئیں۔ حضور کے رضاعی بھائی فوراً گھر گئے جبکہ حضور چراگاہ میں مویشیوں کے ساتھ ہی رہے۔ اس کے بعد عقاب کی مانند دو پرندے آئے اور ایک پرندے نے دوسرے سے کہا: کیا یہ وہی ہیں؟ دوسرے پرندے نے اثبات میں جواب دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں پرندے اڑتے ہوئے نیچے آئے ، حضور کو تھامااور انہیں ان کی پیٹھ کے بل لٹا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کے سینۂ مبارک چاک کرکے قلب مبارک نکالا، اسے کاٹا اور خون کے دو سیاہ جمے ہوئے لختے نکال لیے۔ ان میں سے ایک پرندے نے اپنے ساتھی سے ٹھنڈا پانی لانے کو کہا جس سے قلب کے اندرونی حصہ کو دھویاگیا۔ پہلے پرندے نے ایک بار پھر دو سرے پرندے سے ٹھندا پانی طلب کیا جس سے حضور کا قلب مبارک دھویا گیا۔ اس کے بعد پرندے نے اپنے ساتھی سے کہا کہ حضور کو السکینہ عطا فرمادیجیے۔ انہوں نے سکینہ کو حضور کے دل پر چھڑکا۔ اس کے بعد ایک پرندے سے دوسرے سے کہا کہ سینے کو سی دے۔ اس نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میرے دل پر نبوت کی مہر لگائی اور میرا سینہ سی دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے ترازو میں رکھا اور دوسرے پلڑے میں 1000 افراد رکھے۔ جب حضور نے اپنی نگاہ مبارک اٹھائی تو دیکھا کہ ان کی امت کے 1000 افراد اوپر تک ہیں ، انہیں ایسا لگا کہ ان میں سے کچھ حضور پر گر جائیں گے۔ اس کے بعد فرشتے نے کہا کہ اگر پوری امت کابھی حضور سے وزن کرایا جائے تو آپ سب سے سبقت لے جائیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے پیٹھ کی جانب کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگائی اور دونوں پرندے واپس چلے گئے۔ آپ بہت زیادہ پریشانی محسوس فرمارہے تھے اور بھاگتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ کی جانب گئے اور انہیں تمام واقعہ سنادیا۔ 27 بعض افراد کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حقیقت میں رونما ہوا تھا لیکن مستند علماء یہی فرماتے ہیں کہ واقعہ خواب میں وقوع پذیر ہوا تھا۔

 


  • 1 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 2 مغلطائيي بن اليج البكجري، الإشارة إلى سيرة المصطفى وتاريخ من بعده من الخلفا، ج-1، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، شام، 1996م، ص: 415
  • 3 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 4 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 83-84
  • 5 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 51
  • 6 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:83-84
  • 7 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 8 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 51
  • 9 محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 161
  • 10 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 51
  • 11 عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1978م، ص: 166-167
  • 12 محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 161-162
  • 13 محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 161-162
  • 14 محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 112
  • 15 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 16 عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1978م، ص: 164
  • 17 محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 112
  • 18 محمد ابن عبدالباقی ابن یوسف الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب الدنیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 282
  • 19 محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 162-163
  • 20 ابو عبداللہ احمد ابن محمد ابن حنبل، مسند الامام احمد ابن حنبل، ج-19، حدیث: 12506، مطبوعۃ: مؤسسہ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:498
  • 21 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:83-84
  • 22 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-2 مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 65
  • 23 محمد ابن عبدالباقی ابن یوسف الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب الدنیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 282
  • 24 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:83-84
  • 25 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 26 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 27 ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 275-276